224

’’میڈیا کی پرو پیگنڈا جنگ‘‘


روس یوکرین کے مابین حالیہ جنگ کی شدت کے بعد عالمی معاملات پر عمیق نگاہ اور کھلے دماغ رکھنے والے لوگ اس حقیقت سے کما حقہ آگاہ ہیں کہ بنیادی طور پر اس وقت امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، نیٹو اتحاد ایک طرف اور روس اکیلا ایک طرف یہ جنگ لڑ رہا ہے۔ لیکن صورتحال یوں ہے کہ دُنیا بھر کے “ ذہن” بنانے والے سرکردہ میڈیا ہاؤسز اور نیوز ایجنسز یکطرفہ تصویر دنیا کو دکھا اور پڑھا رہے ہیں اور یہ پراپیگنڈا مشینری اس دفعہ تو قانون و اخلاقیات کی سبہی حدود و قیود پار کر چکا ہے ۔ آج روس کیخلاف یہ پرپیگنڈا کمپئن اسقدر منظم ہے کہ نقل پر اصل کا گمان ہوتا ہے ۔
پراپیگنڈا ہزاروں سال قدیم “فن” ہے ، یووال نوح ہریری(Yual Noah Harare) ایک نوجوان اسرائیلی دانشور اور تاریخ دان ہیں ان کی کتاب، ہومو سیپئنز یا ( A brief history of mankind ایک حیران کر دینے والی کتاب ہے۔ اس میں انسانی ارتقاء کی داستان کے علاوہ، منظم معاشرے اور منظم ریاست کی پُرکاریوں پر بھی بہت اعلی اشارے موجود ہیں۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ ہومو سیپئنز اصیل افریقن تھے اور اپنے ارتقاء کے عمل کے دوران ان میں موجود چند طاقتور افراد نے بنیادی طور پر اپنی طاقت اور کنٹرول کی حرکیات (The dynamics of power and control) کو دوام بخشنے کے لیے مختلف مقدس نظریات تخلیق کیے اور انہی مقدس نظریات کی بنیاد پر “خوف اور انعام کا کلاسیکی بیانیہ” تشکیل دیا گیا پھر اسی بیانیہ کی وجہ سے بکھرے ہوئے لوگ پہلے گروہ بنے پھر یہ گروہ قبائل بنے جو بعد میں مختلف کمیونیٹیز میں تبدیل ہو گئے ۔آج “مغرب” روس کے خلاف کیا پراپیگنڈا کر رہا ہے یہ کالم اس طوالت کا متحمل تو نہیں ہو سکتا، لیکن صرف اتنا کہ اصل صورتحال جاننے کے لئے روس ، چین اور الجزیرہ جیسے ٹی وی چینلز دیکھنے بھی ضروری ہیں ، اگرچہ RT News جو روس کا چینل ہے برطانیہ میں پچھلے ہفتہ سے اس پر پابندی لگا دی گئی ہے تا کہ اُنکا نقطہ نظر سامنے نہ آ سکے !!
امریکہ کی بے پناہ بڑھتی ہوئی طاقت اور اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا اندازہ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ پچھلے کوئی 50 سال کے دوران امریکہ نے جتنی جنگیں جیتی ہیں ان کے پس پردہ فوج سے زیادہ ان کے میڈیا کا کردار تھا جو انتہائی اہم بھی تھا اور بھر پور بھی ۔ مغربی میڈ یا اپنی اشاعت ونشریات کے ذریعہ وہی تصویر دنیا کو دکھاتا ہے جو اس کے عسکری ادارے تقاضا کرتے ہیں ۔امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کے دُنیا کے کمزور اور بے ترتیب ملکوں پر پے در پے تہذیبی ،فکری اور جنگی حملے اس بات کے غماز ہیں کہ میڈیا یقینا توپ و تفنگ سے زیادہ مہلک اور پُر اثر ہتھیار ہے۔ دُنیا بھر میں پھیلا ہوا امریکی و برطانوی میڈیا اپنی حکومتوں کے مفاداتی ایجنڈے کو اس خوبصورتی سے پھیلاتا ہے کہ صریحاً غلط بھی درست معلوم ہوتا ہے، عموماً سمجھا جاتا ہے کہ مکمل جھوٹ کو بھی اگر میڈ یا سچ بنا کر پیش کرے تو کروڑوں لوگ اسےسچ کے سوا کچھ نہیں سمجھیں گے۔اس دور میں تو اخبارات کے روایتی میڈیا میں 24 گھینٹے سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اور اس سے بھی زیادہ مہلک ترین ، فیس بک، یوٹیوب اور ٹویٹر کی شکل میں سوشل میڈیا بھی شامل ہو چکا ہے جو گولی کی رفتار سے زیادہ تیز اور بعض صورتوں میں انتہائی خطرناک بھی ہے ، دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں چل رہے ہر قسم کے میڈیا کا سٹیئرنگ امریکہ اور برطانیہ کے ہاتھوں میں ہے۔ انتہائی سرعت سے نت نئی اشکال میں آنے والے میڈیا کو دیکھتے ہوئے بعید القیاس نہیں کہ مستقبل کی جنگیں فوج نہیں بلکہ میڈیا کے بل پرلڑی اور جیتی جائیں گی ۔ جس ملک کا میڈ یا زیادہ اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہوگا جیت اسی کے حصے میں آئےگی ۔لہذا پاکستان کو بھی اپنے ملکی میڈیا کوکم از کم عالمی میڈیا کے معیار کے قریب تر لانے کیلئے جنگی بنیادوں ںپر اقدامات کرنا ہوں گے۔
برٹش براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (بی بی سی ) کو ہی لیں تو یہ انگریزی کے ساتھ ساتھ ہندی ، فارسی ،عربی ، پشتو اور اردوزبان میں بھی پروگرام پیش کرتا ہے۔ اسی طرح سکائی نیوز ، وائس آف امریکہ، فاکس ٹی وی چینل ، اے بی سی، سی این این، رائٹر نیوز ایجنسی جیسے ادارے پرو پیگنڈامشینری کے زریعہ اپنی حکومتوں اور ملکی مفادات کے حق میں معلومات برصغیر، افریقہ اور دیگر ملکوں کے عوام تک پہنچاتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے اس جنگی تیاری کاایک ہتھیار، امریکہ و برطانوی اداروں کی طرف سے جاری کیے گئے مختلف طرح کے سکالرشپ پروگرام بھی ہیں جن کے تحت تیسری دنیا کے ممالک کے طلبہ سمیت منتخب کیے گئے صحافیوں کو یہ وظائف دے کر اپنے “ میڈیائی ہتھیاروں” کی تعداد میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ پاکستان بھی ہمہ وقت بی بی سی کی خبر کو100 فیصدسچ سمجھتا ہے اور لوگ اس کے پروپیگنڈے کا شکار بھی رہتے ہیں۔ پاکستان میں بی بی سی کے پروپیگنڈے کا اثر اس قدر زیادہ اور شدید تر ہے کہ اس کی کسی خبر کی تردید کیلئے ہمارے سیاستدان اور ادارے ہمیشہ نا کام دکھائی دیتے ہیں۔سامراجی ممالک اپنے ذرائع ابلاغ سے مکمل طور پر اپنے حق میں پروپیگنڈے کا کام لیتے اور اس کے ذریعے انسانی اذہان کو تسخیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ براڈ کاسٹنگ کو انسانی فلاح اور امن و آشتی کیلئے استعمال کرنے کا دعوی یوں تو ہر ملک ہی کرتا ہے لیکن اس پرعمل دُنیا کا کوئی ایک ملک بھی نہیں کرتا اور کھلم کھلا اس کی خلاف ورزی ہوتی ہے، معاندانہ اور مخاصمت سے بھرے پروگرام پیش کر کے سچ کو جھوٹ یا اس کے الٹ پیش کرنا میڈ یا کیلئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس قسم کی مکروہ اور خوفناک صورتحال کو روکنے کیلئے اقوام متحدہ کے تحت بھی کوئی قانون موجود نہیں ہے حالانکہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ میڈیا کا اس قسم کا پروپیگنڈا عالمی امن کیلئے سود مند نہیں ہے۔
پاکستان میں بھی گزشتہ دو دہائیوں کے دوران میڈیا نے خاطر خواہ ترقی کی ہے لیکن بہرحال ہمارا یہ میڈیا عالمی رائے عامہ کو تبد یل کر نے یا اس پر اثر انداز ہونے کے مقام کو ابھی چھونے کے قابل بھی نہیں ہوا کیونکہ پاکستان کا پرنٹ والیکٹرانک میڈیا آج تک ملکی سیاست کے معاملات سے ہی باہر نکل نہیں پایا۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے میڈیا پر اسی فیصد وقت ملکی سیاست یا جُرم و سزا کی خبروں میں اور باقی وقت مذہبی و اعتقادی موشگافیاں ڈسکس ہوتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں سے کسی کی کوئی شاخ بیرون ملک ہے بھی تو اس کی مثال گھڑے کی مچھلی جیسی ہے، عالمی مسائل و معاملات سے انہیں دور کا بھی معانقہ نہیں، ہمارے میڈیا پر سماجی اور روزمرہ کے انسانی معاملات و مسائل کیلئے بھی جگہ نہیں ہے۔ ہمارے ٹیلی ویژن چینلز پر 24 گھنٹے ملکی سیاست پر مبنی گفتگو ہوتی ہے حتیٰ کہ طنز ومزاح کے پروگرامز میں بھی سیاست اور ٹاک شوز میں بھی سیاسی اکھاڑ بچھاڑ کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔
دُنیا میں کیا ہورہا ہے اور پاکستان ترقی یافتہ ملکوں میں ہونے والے واقعات میں کسی طرح حصہ بن کے خودکومنواسکتا ہے، ہمارا میڈیا اس قسم کی سوچ و رجحان سے کوسوں دور ہے جبکہ ترقی یافتہ ملکوں سمیت بہت سے ترقی پذیر ملکوں کا میڈیا بھی خود کو اس صورتحال کیلئے تیار کر رہا ہے کہ آئندہ سالوں میں ملکوں کے درمیان ہونے والی ہر قسم کی جنگیں فوجیں نہیں میڈ یا لڑے گا۔ ہمسایہ ملک بھارت بھی عالمی سطح پر مذکورہ میڈ یا وار کیلئے خود کو تیار کر رہا ہے، میری اس سوچ کی تصدیق کیلئے چند چوٹی کے بھارتی میڈیا چینلز واخبارات ملاحظہ کریں۔
لندن جسے دنیا کا دارالحکومت بھی کہا جا تا ہے اور دنیا بھر کو بگاڑ نے اور بنانے کی تمام تر منصوبہ بندی اسی شہر میں ہوتی ہے۔ خصوصاً پاکستانی سیاستدانوں کے بھی سبھی سیاسی پلان لندن میں ہی تشکیل پاتے ہیں، اس شہر میں بھی پاکستانی میڈیا کا کردار موثر ہے اور نہ ہی عالمی معیار کے مطابق۔ حتی کہ ریاستی ٹی وی چینل “پی ٹی وی” بھی پژمردہ خاطر نظر آتا ہے۔ برطانیہ میں آن ایئر ہونے کے باوجود بھی وہی گھسے پٹے پروگرام اور بس ! صد افسوس کہ پورے پاکستانی میڈیا میں ایک بھی ایسا نہیں جو کسی ترقی یافتہ میڈیا کے ساتھ کھڑا ہو سکے۔ حیرت ناک صورتحال یہ ہے کہ گلوبل ورلڈ اور سیٹلائٹ کے اس تیز تر دور میں پاکستان کا کوئی ٹی وی چینل عالمی زبان انگریزی میں نہیں ہے جسے استعمال کر کے براہ راست دنیا تک اپنا نقطہ نظر پہنچایا جا سکے۔ اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ اگر برطانیہ و دیگر مغربی ممالک میں رہنے والے پاکستانی صحافی ہر وقت اپنی بقاء کی تگ و دو اور معاشی تنگدستی کا شکار رہتے ہیں تو پھر ان حالات میں کس طرح ممکن ہے کہ ہم میڈیا وار لڑ سکیں ؟ ریاست وحکومت کو اس معاملے پر انتہائی سنجیدگی سے کوئی مربوط پالیسی مرتب کرنا ہوگی کیونکہ بہر حال یہ تو طے ہے کہ آئندہ کی جنگیں افواج اور روایتی ہتھیاروں کے ذریعے کم میڈیا پر زیادہ لڑی جائیں گی اور بہتر حکمت عملی سے جیتیں بھی جائیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور دلچسپ حقیقت اور تازہ خبر بھی سُنیے جو اس کالم کا اختتام کرتے ہوئے مجھے ملی ہے کہ بی بی سی کے دفاتر میں ملازمین ایک ملین پونڈ ( آج کے ریٹ سے تقریبا 25 کروڑ پاکستانی روپے سالانہ ) کے تو صرف بسکٹ ہی کھا جاتے ہیں، چائے کافی اور پینے کے پانی وغیرہ کا بل اس کے علاوہ ہے، چنانچہ اس خبر کا مطلب تو یہ ہے کہ پہلے کسی پاکستانی ٹی وی چینل کو اس قابل ہونا پڑے گا ۔کہ وہ اپنے ملازموں کو 25 کروڑ روپے سالانہ کے بسکٹ کھلا سکے !!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں