318

دو بڑے فلاحی ادارے


پیر محمد ضیاءالحق نقشبندی
انسانیت دنیا کا سب سے بڑا مذہب ہےکیونکہ یہ تمام تر مذہبی جذبات سے بالا تر ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں جب لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے تو یورپ اس نتیجے پر پہنچا کہ مذاہب سے بالا تر ہو کر صرف انسانیت کو اپنایا جائےجس کے یورپی یونین وجود میں آئی۔ یہ یونین بننے کے بعد لندن اور فرینکفرٹ میں کوئی امتیاز نہ رہا۔ لیکن اِس سے بھی تیرہ صدیاں قبل اسلام سراپا انقلاب ثابت ہو چکا تھا۔ اسلام نے انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں تاریخ ساز تبدیلی پیدا کی۔ اسلام نے دنیا کے مذہبی و سیاسی، علمی و فکری اور اخلاقی و معاشرتی حلقوں میں نہایت پاکیزہ اور دور رس انقلاب کی قیادت کی۔ زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جہاں آفتابِ اسلامی کی کرنیں نہ پہنچی ہوں۔ قافلۂ انسانیت، اسلام کی آمد سے پہلے ایک بھیانک اور تباہ کن رخ کی طرف محوِ سفر تھا۔ پوری دنیا کی مذہبی، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور علمی حالت نہایت ابتر تھی۔ اسلام کی دل پذیر صداؤں نے اسے ایک روح پرور، حیات بخش اور امن آفریں منزل کی طرف رواں دواں کردیا۔
اِس وقت دو اوصاف ایسے ہیں جو انسانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مخلوقات میں بھی پائے جاتے ہیں۔ وہ یہ کہ سبھی مخلوقات اپنے بچوں سے پیار کرتی ہیں اور اپنے دشمن سے بچاؤ کی حتیٰ الامکان کوشش کرتی ہیں۔ انسان کے اندر بھی یہ دونوں اوصاف اسی طرح موجود ہیں مگر یہ اشرف المخلوقات اس لیے ہے کہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ دوسروں کے بچوں سے بھی پیار کرتا ہے بلکہ یہ دوسری مخلوقات کے بچوں سے بھی پیار کرتا ہے۔ یہ وصف جس انسان سے نکل جائے وہ انسان نہیں رہتا بلکہ حیوان بن جاتا ہے اور یہ وصف جتنا زیادہ کسی انسان میں آجائے وہ اتنا ہی بڑا انسان بن جاتا ہے۔ خدا کا لاکھ شکر ہے کہ ہمارے معاشرے میں بھی چند ایک ایسی شخصیات اورایسے ادارے موجود ہیں جن کیلئے انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب اور اولین ترجیح ہے۔ آج ہم ایسے ہی دو اداروں اور اُن کی روح رواں شخصیات کاذکر کریں گے۔
پہلا، جناب عبدالرزاق ساجدکا ’’المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ ہے۔ یہ ادارہ بجھی آنکھوں کی روشنی بحال کرنے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ عبدالرزاق ساجد کاتعلق جنوبی پنجاب سے ہے لیکن وہ برطانیہ میں مقیم ہیں اور اُن کی انسانیت کیلئے خدمات کا دائرہ ساری دُنیا میں پھیلا ہُوا ہے۔ چند سال قبل ہی عبدالرزاق ساجد نے ” المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ کا آغاز کیا تھا لیکن آج اُن کا یہ ادارہ مغربی یورپ، پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار، فلسطین اور افریقی ممالک میں انسانی دستگیری کا ایک معتبر ادارہ بن چکا ہے۔ اِس ادارے نے غریب اور تہی دست انسانوں کی دستگیری کا سلسلہ یوں قائم کررکھا ہے کہ ہر سال ہزاروں کی تعداد میںآنکھوں کا نُور تقسیم کررہا ہے اور آج کے دِن تک المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد کی بینائی بحال کروا چکا ہے۔وہ ہزاروں لوگ جو اپنی غربت کے ہاتھوں اپنی اندھی ہوتی آنکھوں کے امراض کا علاج کروانے سے قاصر ہیں، المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ خود اُن کا مفت علاج کرواتا ہے۔ آپریشن کے دوران یہ غریب اور مسکین افراد جب تک اسپتال میں رہائش پذیر رہتے ہیں، اُن کی رہائش اور خوراک کا بندوبست بھی ”المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ‘‘ اپنے ذمے لیتا ہے۔اب تو لاہور میں المصطفیٰ آئی اسپتال بھی موجود ہے جہاں امراضِ چشم کے مستند اور تجربہ کار ڈاکٹر حضرات ساراسال اور دن کے چوبیس گھنٹے بیٹھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ادارے کے چیئرمین عبدالرزاق ساجدکے نام اور کام میں مزید برکت ڈالے۔ آمین!
انسانیت کی خدمت پر مامور دوسرا ادارہ سندس فائونڈیشن ہے۔مشہور ڈارمہ نگار، جنگ کے کالم نگار منو بھائی اورانسانیت سے محبت کرنے والے منیر احمد قریشی المعروف منو بھائی نے تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کیلئے سندس فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی تھی۔ یاسین خان صدر سندس فاونڈیشن ہی وہ فرد فرید تھے جنہوں نے منو بھائی کو بار بار گزارش کر کے اس مشن کیلئے آمادہ کیا تھا اور پھر منو بھائی نے آخری دم تک سندس فائونڈیشن کا ساتھ دیا۔یہ ادارہ تھیلیسیمیااور ہیموفیلیا کے مریضوں کو نہ صرف مفت علاج فراہم کرتاہے بلکہ مریضوں کو اسکرین شدہ خون اور اجزائے خون بھی مفت فراہم کرتا ہے۔یہ ادارہ تھیلیسیمیا سے بچاؤ سے متعلق آگاہی کے لیے دن رات کام کررہا ہے تاکہ پاکستان سے اس بیماری کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکے۔سندس فاؤنڈیشن تھیلیسمیا اور ہیمو فیلیا کے مریضوں کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ ہیموفیلیا خون کا ایک خطرناک عارضہ ہے جس میں مبتلا مریض کا خون عام طور پر جم نہیں پاتا کیونکہ اس میں خون جمانے کے عوامل کی کمی ہوتی ہے۔ اگر کسی کو ہیموفیلیا ہے، تو اس کو چوٹ لگنے کے بعد اُس کا خون زیادہ دیر تک خون بہتا رہتاہے۔ عام طور پر آپ کا خون خود کارطریقے سے جم جاتا ہے۔اسی طرح تھیلیسیمیا خون کی موروثی خرابی ہے جس میں جسم ہیموگلوبن کی غیر معمولی شکل بناتا ہے۔ ہیموگلوبن خون کے سرخ خلیوں میں پروٹین کا مالیکیول ہے جو آکسیجن لے جاتا ہے۔ اس خرابی کے نتیجے میں خون کے سرخ خلیات کی ضرورت سے زیادہ تباہی ہوتی ہے، جو خون کی کمی کا باعث بنتی ہے۔ خون کی کمی ایک ایسی حالت ہے جس میں آپ کے جسم میں نارمل، صحت مند سرخ خون کے خلیات کم ہوتے ہیں۔ان بیماریوں میں مبتلا افراد کو زندہ رہنے کے لیے متواتر خون لگوانے کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں سندس فاؤنڈیشن، جیسے ادارے ان افراد کے لیے جو ان بیماریوں میں مبتلا ہیں، نعمت سے کم نہیں۔شاید اس جیسے اداروں کا زیادہ احساس ان کو ہوتا ہے جو ایسی کسی آزمائش میں یہاں آتے ہیں۔یاسین خان بلاشبہ اسی دنیا میں جنت کما رہے ہیں کہ جس طرح وہ اِن موذی امراض میں مبتلا بچوں کے علاج کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں یہ کوئی معمولی کام نہیں۔ ہمیں بھی یاسین خان اور ان کی ٹیم کیساتھ مل کر اُن کے مشن کا حصہ بننا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں