478

حج کی اہمیت اور فرضیت

اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن حج بھی ہے، ان ارکان کو اسلام کے پانچ ستون بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن و سنت اور تاریخ اور مسلمانوں کا ہمیشہ سے حج پر عمل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ نماز، روزہ اور زکوۃ کے جیسی اہم عبادت ہے۔ قرآن میں وَ لِلهِ عَلَي الناسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبيلاً (قرآن: سورۃ آل عمران:97)
ترجمہ: خدا کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے: اسلام كى بنياد پانچ اشياء پر ہے: گواہى دينا كہ اللہ تعالى كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، يقينا محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اللہ كے رسول ہيں، نماز كى پابندى كرنا، زکوۃ ادا كرنا، رمضان كے روزے ركھنا اور بيت اللہ كا حج كرنا۔ ابو ہریرہ سے مروی ہے: میں نے پوچھا کہ کون سا عمل افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اللہ و رسول پر ایمان لانا،عرض کی پھر کون سا؟ فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد،پھر عرض کی تو فرمایا حج مبرور نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا فرمان ہے: “يقينا اللہ تعالى نے تم پر حج فرض كيا ہے اس ليے تم حج كرو”۔
فرضیت کی شرائط
حج فرض ہونے كى آٹھ شرطيں ہيں جب تک وہ سب نا پائی جائیں حج فرض نہیں ہوتا۔
اسلام: حج صرف مسلمان ہی کر سکتا ہے، اگر استطاعت تھی مگر مسلمان نے حج نا کیا، پھر فقیر ہو گيا، تب بھی اس پر حج کا فرض باقی رہے گا۔
دار الحرب: اگر دارالحرب میں ہو اور باقی شرائط پوری ہوں اور اسے اس بات کا علم ہو کہ حج اسلام میں ایک فرض ہے، تو اس پر تب ہی حج فرض ہو گا، اگر اس تک اسلام کی یہ تعلیم نا پہنچ سکی تھی، تو حج فرض نہیں۔
بلوغت: حج صرف بالغ پر فرض ہوتا ہے، نابالغ اگر صاحب مال ہے تب بھی بالغ ہونے پر ہی حج فرض ہو گا، اگر بلوغت سے قبل حج كر بھى ليا تو اس كا حج صحيح ہے مگر یہ نفلى حج گنا جائے گا ليكن بالغ ہونے كے بعد اسے فرض حج ادا كرنا ہوتا ہے۔
عقل: صرف عاقل پر ہی حج فرض ہوتا ہے، مجنون پر نہیں۔
آزاد: غلام یا باندی پر حج فرض نہيں اور اگر وہ حج كرے تو اے نفلی حج گنا جائے گا، اگر مالک نے آزاد کر دیا اب اگر اس کے پاس حج کی جملہ شرائط پائی جائیں تو اس پر حج فرض ہو جائے گا (کیونکہ اب وہ آزاد ہے)۔
بدنی استطاعت: بدن سلامت ہو، نابینا، اپاہج، فالج زدہ یا ایسا بوڑھا جو خود سے چل نا سکتا ہو، سواری پر خود سے بیٹھ نا سکتا ہو، اس پر حج فرض نہیں اگر تندرستی کی حالت میں حج فرض تھا، مکر ادا نا کیا، بعد میں بدنی استطاعت ختم ہوئی، تب بھی حج کا فرض باقی ہے، اب اس کی طرف سے حج بدل کیا جائے گا۔
مالی استطاعت:ذاتی طور پر اتنا مال دار ہو کہ آنے اور جانے کے اخراجات پورے کر سکے اور یہ مال اس کی عام ضرورت سے زائد ہو۔
وقت: اوپر مندرج شرائط حج کے مہینوں میں پوری ہوں تب ہی حج فرض ہو گا۔ اگر حج کے مہینے شروع ہونے سے پہلے غریب ہو گيا، مر گیا، اپاہج ہو گیا تو اس پر حج فرض نا رہا۔
اگر مرنے سے پہلے مرتد ہوا، پھر اسلام قبول کیا، تو شرائط پوری ہونے پر حج فرض ہو جائے گا، دوران حج ایسی غلطی کی، جس سے حج فاسد ہو گیا، تو اب بھی حج فرض ہے۔ دوبارہ درست طریقہ سے ادا کرنا ہو گا
فضیلت و اہمیت
حج کی فضیلیت میں سے پہلے اسے اسلام کے پانچ ستونوں (ارکان) میں سے ایک قرار دینا ہے، نیز محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حج کی فضیلت و اہمیت پر بہت سی احادیث مروی ہیں، جن میں مناسک حج ادا کرنے کے فضائل اور حاجی کو ملنے والے ثواب و انعام کا ذکر کیا گیا ہے۔ بخاری میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ تو کہا: «اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا»، پھر دریافت کیا گیا کہ: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ تو کہا: «اللہ کی راہ میں جہاد کرنا»، پھر دریافت کیا گیا کہ: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ تو کہا: «مقبول حج»۔ بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا اور فسق اور فحش کلام سے بچا تو وہ ایسا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا-صحیح مسلم میں ابن خزیمہ اور عمرو بن العاص سے روایات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ حج ان گناہوں کو دفع کر دیتا ہے جو اس سے قبل ہو چکے ہوں صحیح بخاری میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: «عمرہ کرنا دوسرے عمرہ تک گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور مقبول حج کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہی سنن نسائی میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: «بوڑھوں، کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ عائشہ بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کو عوروتوں کے لیے جہاد کا متبادل قرار دیا۔ صحیح مسلم میں عائشہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: « اللہ کے یہاں یوم عرفہ سے زیادہ کسی دن جہنم سے بندے آزاد نہیں کیے جاتے
حج کی تین اقسام ہیں: حج تمتع،
حج قران اور حج افراد۔
حج قران: حج قِران (قاف کے نیچے زیر) میں “لبیک بحج و عمرۃ” کہہ کر عمرہ اور حج کا احرام ایک ساتھ باندھا جاتا ہ پھر مکہ پہونچ کر طواف قدوم کرتے ہیں، لیکن اس کے بعد حلق یا قصر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ حجاج کو بدستور احرام ہی میں رہنا ہو گا، پھر دسویں، گیارہویں یا بارہویں ذوالحجہ کو قربانی کرنے کے بعد حلق یا قصر کر کے احرام کھول سکتے ہیں نیز حج قِران کرنے والے حجاج عمرہ کے لیے دوبارہ طواف و سعی نہیں کریں گے بلکہ حج کا طواف وسعی کافی ہوگی، جیسا کہ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عائشہ بنت ابی بکر سے کہا: «تمہارا کعبہ کا طواف اور صفا و مروہ کے درمیان سعی حج و عمرہ دونوں کے لیے کافی ہے»۔ احناف کے نزدیک حج قِران سب سے افضل حج ہے۔ قران کرنے والا حاجی قارِن کہلاتا ہے۔
حج تمتع: یہ حج محض آفاقی (حدود میقات سے باہر رہنے والے) ادا کر سکتے ہیں۔ اس میں حجاج ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں عمرہ کی نیت کرتے ہیں، پھر میقات سے “لبیک بعمرہ” کہہ کر احرام باندھ لیتے ہیں اور مکہ روانہ ہوجاتے ہیں۔ فقہ جعفری کے مطابق، اس سفر میں عازمین حج (مرد) مکہ پہونچنے تک آسمان کے سایہ کے علاوہ کسی سایہ دار چیز مثلاً چھت یا گاڑیوں کی چھت کے نیچے نہیں بیٹھ سکتے، اگر کسی مجبوری کے بغیر کوئی حاجی (مرد) بیٹھ جائے تو اس پر کفارہ واجب ہوگا۔ مکہ پہونچنے کے بعد عمرہ ادا کرنے اور حلق و قصر کے بعد احرام کھول سکتے ہیں۔ پھر ایام حج یعنی 8 ذوالحجہ (یا اس سے قبل) احرام پہنتے ہیں، پھر حج کے تمام مناسک وقوف عرفہ، طواف افاضہ اور سعی وغیرہ مکمل کرتے ہیں۔ جو یہ حج کرے وہ حاجی متمتع کہلاتا ہے۔ حج تمتع حنابلہ اور شیعہ کے نزدیک سب سے افضل حج ہے، حج تمتع درست ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایک ہی سال کے ماہ حج نیز ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج ادا کرے۔
حج افراد: اس حج میں عمرہ شامل نہیں ہے، عازمین حج اس میں “لبیک بحج” کہہ کر صرف حج کا احرام باندھتے ہیں، پھر مکہ پہونچ کر طواف قدوم کیا جاتا ہے اور حج کے وقت تک حجاج حالت اِحرام ہی میں رہتے ہیں، پھر وہ حج کے جملہ مناسک مکمل کرنے کے بعد ہی احرام کھولتے ہیں۔ اہل مکہ اور حل یعنی میقات اور حدود حرم کے درمیان رہنے والے باشندے (حلی) عموماً حج اِفراد کرتے ہیں (دوسرے ملک سے آنے والے عازمین (آفاقی) بھی حج افراد کر سکتے ہیں)۔ حج افراد شافعیہ اور مالکیہ کے یہاں سب سے افضل حج شمار کیا جاتا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج اِفراد ہی کیا تھا۔ حج افراد کرنے والے حاجی کو مُفرِد کہتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں