297

برطانیہ میں مساجد کی تاریخ اور قبضے کی لڑائیاں

مسلکی اور گروہی جھگڑے برصغیر سے شروع ہو کر برطانیہ پہنچ چکے ہیں
معاملات اب اہل حدیث، اہل سنت ، دیوبندی اور بریلوی سے آگے بڑھ کر ملکوں، علاقوں اور ذاتوں کی مساجد تک پہنچ چکے ہیں

پروفیسر مسعود عالم قاسمی
تلخیص وجاہت علی خان

تاریخ بتاتی ہے کہ جغرافیہ ہی نہیں بدلتا اس کے ساتھ سماج اور اعتقاد ا ت بھی ارتقاء پزیر رہتے ہیں ۔ دوسری صدی عیسوی میں جب رومن سلطنت کا ڈنکا بج رہا تھا تو برطانیہ میں عیسائیت کی تبلیغ ممنوع تھی اور جو کوئی ایسا کرتا تھا اسے عبرت ناک سزا دی جاتی تھی ۔سینٹ البن پہلا برطانوی عیسائی مبلغ تھا جسے ویرولامیم کے قصبے میں 304ء میں پھانسی دی گئی بعد میں یہ قصبہ سینٹ البن کے نام سے موسوم ہوا ۔ یہ رومن بادشاہ قسطنطائن تھا جس نے 313ء میں مذہبی آزادی دی تو برطانیہ میں عیسائیوں کو بھی اپنی عبادات میں آزادی ملی ۔407ء میں رومن فوجوں نے برطانیہ چھوڑ دیا پھر بھی برطانیہ میں عیسائیت کو پنپنے میں اگلے تین سو سال لگے ۔اس کے بعد عیسائیوں کے درمیان مختلف فروعی مسائل پر اختلافات کی ایک لمبی تاریخ ہے ۔چرچ اور حکومت کے درمیان اختیارات کی جنگ بھی ا س کا حصہ رہی ۔لیکن آج کے برطانیہ میں ہر فرقہ ، چرچ اور حکومت اپنے اپنے دائروں کے اندر ہیں ۔ برطانیہ میں اسلام کی تاریخ ابھی نئی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلم دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس کے باشندے یہاں پر آباد نہیں ہیں وہ برطانیہ میں خود ہی وارد نہیں ہوئے اپنے ساتھ اپنے رسم و رواج ، اعتقادات اور عادات بھی لائے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ مذہب کے حوالے سے اسلام بھی اسی جگہ کھڑا ہے جہاں چرچ پندرہویں اور سولہویں صدی میں کھڑا تھا ۔ اسلام کے اندر بھی فرقوں، ذات پات اور علاقے کی جنگوں نے مساجد کے درو دیوار کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ۔اس موضوع پرپروفیسر مسعود عالم قاسمی نے قلم اٹھایا ہے تاکہ قارئین یہ جان سکیں کہ خانہ خدا میں یاد اللہ تو ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی بنیادیں بھی بہت گہری ہیں ۔(س الف)

مسلمان کسی ملک اور کسی بھی خطے میں ہوں، نماز باجماعت کا اہتمام کرنا ان کا دینی فریضہ ہے اور اس کے لیے مسجد تعمیر کرنا ان کی سماجی وحدت کی علامت اور ان کے تہذیبی تشخص کا حوالہ ہے۔ دوسرے ملکوں کی طرح مسلمانوں نے جب برطانیہ میں قدم رکھا تو ان کو نماز باجماعت کے اہتمام کے لیے مسجد کی ضرورت پیش آئی، چونکہ وہ روزگار کی تلاش میں یہاں آئے تھے، یہاں کے باشندے نہ تھے، اس لیے ان کے پاس نہ تو زمین تھی اور نہ ہی اتنے مالی وسائل تھے کہ وہ مسجد تعمیر کر سکیں۔ اس کے لیے ضرورت تھی کہ ان کو مقامی یا بیرونی امداد حاصل ہو۔ مشرقی یورپ کے مقابلے میں مغربی یورپ بالخصوص برطانیہ میں مسجد کی تعمیر بہت بعد میں شروع ہوئی اور جو پہلی مسجد تعمیر ہوئی، اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک انگریز وکیل کا سینہ کھول دیا۔ 1887 ء برطانیہ کے وکیل ولیم عبد الله قلیم نے اسلام قبول کر لیا اور نماز ادا کرنے کے لیے انھوں نے اپنی رہایش گاہ واقع لیور پول میں چھوٹی سی مسجد بنائی، جس میں وہ عبادت کرتے تھے۔ اس طرح برطانیہ کی پہلی مسجد وجود آئی۔ 5دسمبر 1889ء کو عبد الله قلیم نے افغانستان کے سلطان کے ڈھائی ہزار پاؤنڈ کے عطیے سے ایک مسجد بنائی ، اس سے ملحق اسکول اور یتیم خانہ بھی بنوایا، اس مسجد میں سو نمازیوں کی گنجائش تھی۔
1894ء میں ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹز نے شاہ جہانی مسجد بنائی، ڈاکٹر لائٹز ہندوستان میں کمشنر برائے تعلیم تھے۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے والی بھوپال بیگم شاہ جہاں نے خطیر رقم کا عطیہ دیا تھا، لہذا ان ہی کے نام سے شاہ جہانی مسجد معروف ہے۔ یہ مسجد لائٹز کی وفات کے دس سال بعد بند ہو گئی تھی۔ ہندوستانی بیرسٹر خواجہ کمال الدین کی کوششوں سے دوبارہ یہ مسجد 1993ء میں نمازیوں کے لیے کھول دی گئی۔1994ء میں مسجد کے صد سالہ قیام کے موقع پر اس کی تزئین کی گئی اوراسے نئی شکل دی گئی۔ 1968ء میں برطانیہ کے دار الخلافہ لندن میں ایک مرکزی مسجد کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا اور اس سلسلے نظامیہ ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ 1941ء میں ایسٹ لندن مسجد ٹرسٹ کے کمرشل روڈ اسٹیپنی کی تین عمارتیں خرید کر ان کو لندن کی پہلی مسجد میں تبدیل کر دیا۔ آج اس مسجد کا انتظام بنگلہ دیش کے مہاجر مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے اورحسن انتظام کا نمونہ ہے۔ یہاں خطبہ جمعہ عربی، انگریزی اور بنگالی تینوں زبانوں میں ہوتا ہے۔ مسجد سے متصل طویل و عریض عمارت ہے، مختلف تعلیمی، دینی، سماجی اور کاروباری سرگرمیوں کامرکز ہے۔ اس مسجد کا ایک حصہ خواتین کے لیے مختص ہے ۔
اللہ ایک نبی اور ایک قرآن پر یقین رکھنے کی بنیاد پر بنائی گئی مسجدیں پاکستانی، ہندوستانی، بنگالی، عربی، ترکی مساجد اور اس سے بھی شرمناک منظر یوں ہے کہ اللہ کے اس گھر پر پر مختلف برادریوں مثلاً جٹ،ملک،آرایئں اور دیگر ذاتوں کے حاملین کی اجارہ داری ہے۔
1914ء میں لارڈ ہیڈ لے نے اسلام قبول کر لیا، قبول اسلام کے بعد انھوں نے مہم چلائی کہ پہلی جنگ عظیم میں جو مسلمان سپاہی شہید ہوئے ان کی یاد میں برطانیہ کی حکومت مسجد تعمیر کرے۔ یہ تجویز 1944 ء میں روبہ عمل آئی اور ریجنٹس پارک کے ہینور گیٹ نامی مقام پر مسجد بنائی گئی۔

اس کے لیے دو ایکڑ زمین شاہ جارج ششم نے عطیہ دی تھی اور حکومت نے ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم مختص کی تھی، یہ اراضی اور رقم اس تبادلے میں تھی کہ مصر میں انگلستانیوں کو چرچ بنانے کے لیے بڑی اراضی دی گئی تھی۔ 1947ء میں اسلامی ملکوں کے ۱۳ سفیروں نے مل کر سنٹرل لندن مسجد ٹرسٹ قائم کیا۔1950ء کے دہے کے آخری حصے مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ايشيا بالخصوص پاکستان سے برطانیہ منتقل ہوئی تو متعدد مساجد وجود آئیں۔ لندن شہر میں 1949 ء چار مسجد تھیں۔ 1966 ء میں برطانیہ میں 18مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ اگلےدس سالوں میں سالانہ سات مساجد کے تناسب سے ان میں اضافہ ہوتا رہا۔ اس وقت صرف لندن میں اٹھارہ سو کے قریب مسجدیں ہیں۔ برمنگھم دوسرے نمبر پر آتا ہے یہاں کی مسجدوں کے گنبد و مینار عظمت اسلام کی یاد دلاتے ہیں۔ 1977ء میں ریجنٹس پارک لندن میں ایک عالی شان مسجد سعودی عرب کے مالی تعاون سے تعمیر ہوئی۔ ریجنٹس پارک لندن کا کا پوش علاقہ کہلاتا ہے، جہاں وزرا، امرا، سفرا اور تاجروں قیام گاہیں ہیں ۔ دور دور سے مسلمان جمعہ اور عیدین کی نماز ادا کرنے کے لیے یہاں آتے تھے، نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے عیدین کی نماز چا ر مرتبہ ادا کی جاتی تھی، مگر بعد میں بہت سے علاقوں میں مسجدوں کی تعمیر ہوئی تو اس مسجد کی مرکزیت باقی نہ رہی۔ آج بھی اس کا انتظام سعودی سفارت خانہ کرتا ہے جبکہ امام اورمؤذن مصر کے مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ وہی مسجد ہے جہاں 1944 ء میں برٹش حکومت کے تعاون سے چھوٹی سی مسجد تعمیر ہوئی تھی۔
رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کا ایک بڑا دفتر لندن میں قائم ہے یہ دفتر پہلے مسجدوں کی تعمیر میں امداد فراہم کیا کرتا تھا، مگر 11/9کے بعد حکومت کی سخت نظری کی وجہ سے اس نے اپنی سرگرمیوں کو محدود کر لیا ہے۔ اس کے دفتر کی عمارت جمعہ کو نمازیوں کے لیے کھول دی جاتی ہے اور اس سے بھی مسجد کا کام لیا جاتا ہے۔
وں تو مسجدوں کا Public Concept اللہ کا گھر ہے اور ان کی تعمیر کا پہلا مقصد عبادات اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے لیکن افسوسناک حقائق یوں ہیں کہ برصغیر کی طرح برطانیہ کی مساجد بھی پوری طرح نسلی و مسلکی دھڑوں میں تقسیم ہیں

1985ء میں برطانیہ کی رجسٹرڈ مسجدوں کی تعداد 338 ہو چکی تھی اور 2008 ء تک ان مساجد کی تعداد 1600تک پہنچ تھی ، ان میں بعض مساجد تو وہ ہیں جو کسی گیراج، گودام، قدیم مکان یا کارخانے کو خرید کر مسجد میں تبدیل کر دی گئی ہیں اور بعض مسجدیں وہ ہیں جو پہلے سائنگاگ یا چرچ ہوا کرتی تھیں، وہ ویران ہو گئے تو ان کے مالکان نے فروخت کر دیا اور مسلمانوں نے خرید کر مسجد بنا لیا۔ ایسی مسجدوں میں لیسٹر کی سینٹرل مسجد ہے جو بریلوی مکتب فکر کے مسلمانوں کا مرکز ہے اور دوسری مسجد عثمان ہے جو تبلیغی جماعت کامرکز ہے۔ تیسری قسم کی مسجد وہ ہے جو باقاعدہ زمین خرید کر منصوبہ بندی کے تحت بنائی گئی ہے۔
مساجد پر قبضے کی لڑائیوں کے خاتمہ اور مسلکی جھگڑوں کے سدِباب کیلئے کوئی ’’سبیل‘‘ اگر کارگر نہیں ہوتی تو کیا یہ بہتر نہیں کہ برطانوی حکومت ملک کی تمام مساجد کیلئے ایک قانون بنا دے کہ مسجد کوئی بھی مکتب فکر بنائے گا وہ ہمیشہ اسی فرقے کے زیر تسلط رہے گی کوئی دوسرا فرقہ اس پر قبضہ نہیں کر سکے گا ۔
برطانوی قانون کے مطابق مسجدیں رجسٹرڈ خیراتی شمار ہوتی ہیں، جو اہل خیر افراد اور اداروں کے تعاون سے تعمیر ہوتی ہیں۔ مسجد کی تعمیر کے سلسلے برٹش حکومت متعصب نہیں ہے۔ ہر عمارت کی طرح مسجد کی تعمیر کے لیے بھی قانونی ضابطوں کو پورا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں زمین کا رقبہ، نقشہ، طرز تعمیر اور بلندی سب کچھ کے ضابطے شامل ہیں۔ البتہ مقامی عیسائی باشندوں کو نئی مسجد کی تعمیر پر اعتراض ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح برطانیہ کا عیسائی تہذیبی ماحول بدل جائے گا۔ خاص طور پر9- 11 کے بعد مسلمانوں کے خلاف جو معاندانہ جذبات پیدا ہوئے ہیں ان کے باعث ایک طرف بہت سی مساجد پر حملے ہوئے۔ انھیں ایک مسجد عمر ہے جو فلپ چرچ لیسٹر سے متصل چوراہے پر واقع ہے، دوسری طرف مسجدوں کی تعمیر و ترقی کی مخالفت زیادہ ہونے لگی۔ چنانچہ اسلامی طرز تعمیر، گنبد ومینار کے ساتھ نئی مسجد تعمیر کرنا ایک مشکل مسئلہ ہے۔ مگر کسی عمارت کو خرید کر مسجد بنا لینا آسان ہے۔
برطانوی روایتی معاشرے میں چرچ تہذیبی مرکزیت کی علامت ہے۔ جب چرچ کی ویرانی اور مسجدوں کی آباد کاری کا منظر سامنے آتا ہے تومقامی باشندوں میں خوف عناد کا پیدا ہونا کوئی مستبعد بات نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی صورت حال کی نشان دہی ہے جس میں مستقبل سماجی، تہذیبی اور سیاسی تبدیلی کے آثار پنہاں ہیں۔
4جون 1937ء کو حیدر آباد کے شہزادہ آصف جاہ نے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور خطیر رقم بھی عطیہ کی 1937ء میں اس کا نام ’نظامیہ پراجیکٹ ‘ تھا ۔
مذہبی احکام کی پابندی اور تہذیبی قدروں کی حفاظت اور نمائندگی کے پیش نظر برطانیہ کے مسلمانوں نے مسجدوں کی تعمیر میں خصوصی دلچسپی لی ہے۔ جو مسجدیں مسلمانوں نے بنائی ہیں وہ عام طور پر کشاده، خوبصورت، جاذب نظر اور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ وضو خانے اور حمام صاف ستھرے، گندگی اور بدبو سے پاک ملتے ہیں۔ سجدہ گاہ کے علاوہ فرش اور راہ داریوں کو بھی قالینوں سے ڈھک دیا جاتا ہے اور ان کی صفائی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

بہت سی مسجدیں مسلمانوں کی رفاہی خدمات بھی انجام دیتی ہیں۔ برطانیہ کی مسجدیں عام طور پر شبینہ مدارس و مکاتب کا اہتمام کرتی ہیں۔ جہاں مغرب کی نماز کے بعد اسکول جانے والے بچے دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسلامی اسکول بھی ان مسجدوں میں چلتے ہیں۔ اس طرح کی مساجد میں جو عبادت کے علاوہ تعلیم و تربیت اور دعوتی سرگرمیوں کا مرکز ہیں، وال سال کی مسجد عائشہ بھی ہے جو اپنی ظاہری اور اندرونی خوبصورتی کے ساتھ، تعلیم و ثقافت کا مرکز ہے۔ اس کا انتظام جماعت اسلامی پاکستان کے متوسلین کرتے ہیں۔ اس مسجد کے احاطے میں بچوں کی دینی و عصری تعلیم کے ساتھ خاص طور پر خواتین کے تعلیمی پروگرام ہوتے ہیں۔ مسجد کے بالائی ایک ہال ان کے لیے مختص کر دیا گیا۔ اسی طرح برمنگھم کی جامع مسجد اور اسلامک مشن کی عظیم مسجد ہے جہاں تعلیم و تربیت ، دعوتی اور ثقافتی سرگرمیاں انجام پاتی ہیں۔ برطانیہ کے مسلمانوں نے مسجد کوعبادت گاہ کے ساتھ “اسلامی سینٹر” کی شکل دے دی ہے۔ جو نہ صرف مسلمانوں کی مذہبی و تہذیبی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، بلکہ غیر مسلمانوں کی رہنمائی کا بھی کام حصے میںکرتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں