858

مسئلہ کشمیر کینڈل لائٹس سے حل نہیں ہو گا ، لارڈ نذیر احمد

برطانیہ میں اُمتّ مسلمہ اور مظلوموں کی طاقتور ترین آواز لارڈ نذیر احمد سے خصوصی گفتگو
لارڈ نذیر احمد جن کا سرکاری ٹائیٹل ’’لارڈ احمد آف رادھرم‘‘ ہے وہ 1957ء کو میر پور آزاد کشمیر میں پیدا ہوئے اوائل بچپن میں ہی اُن کے والدین برطانیہ کے شہر رادھرم یا رکشائر میں آ کر آباد ہوئے انہوں نے شفیلڈ پولیٹیکنک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور بزنس کے ساتھ ساتھ لیبر پارٹی منسلک ہو گئے وہ لیبر پارٹی سے کونسلر منتخب ہوئے اور 1993ء سے 2000ء تک سائوتھ یارکشائر لیبر پارٹی کے چیئرمین بھی رہے انہوں نے ’’ برٹش مسلم کونسلرز فورم‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد بھی رکھی اور 1992ء سے 2000ء تک مقامی مجسٹریٹ کے عہدہ پر بھی رہے وہ رادھرم کی تاریخ میں پہلے ایشیائی کونسلر اور کم عمر ترین مجسٹریٹ تھے انہوں نے برطانوی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر پر لابنگ بھی کی او ر بھارت کیخلاف انڈین ہائی کمیشن کے باہر سینکڑوں احتجا جات میں شریک بھی ہوئے۔تین اگست 1998ء کو ٹونی بلیئر کی وزارت ِعظمیٰ کے دور میں ہائوس آف لارڈز کا رکن بھی بنایا گیا جو تاحیات عہدہ ہوتا ہے ۔وہ برطانوی تاریخ میں پہلے پاکستانی و کشمیری تھے جنہیں ہاؤس آف لارڈ کا ممبر بنایا گیا ، انہوں نے صنفی مساوات ، نسلی امتیاز اور مذہبی ہم آہنگی کے موضوع پر سینکڑوں تقاریر کیں اور انٹرویو دیئے انہوں نے مذہبی امتیاز اورزبردستی کی شادیوں کے خاتمہ کیلئے انتھک کام کیا، 9/11کے بعد انہوں نے دوسروں اور مسلمان کمیونٹی کے درمیان تنائو کے خاتمہ کیلئے کام کیا، فلسطین کے مسلمانوں اور آزادی ء کشمیر کیلئے زبر دست لابنگ کی۔’’ایمز انٹرنیشنل ‘‘ نے لارڈ احمد سے ان کے ہوم ٹائون میں ایک تفصیلی انٹرویو کیا جس کی تفصیل من و عن نذر قارئین ہے۔


برطانیہ میں مسلمانوں خصوصاً پاکستانیوں کی آمد اُن کے عروج و زوال اور پاکستان و مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے اُن کے سامنے دو سوال رکھے گئے اور چند ایک ضمنی نکات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ لارڈ احمد نے کہا دو تین فیکٹر ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہماری کمیونٹی کو ماضی میں اور آج بھی گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے ، انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا پہلی بات تو یہ کہ ہمارے جو علما اور امام آزاد کشمیر و پاکستان سے یہاںآئے وہ انگریزی زبان سے نابلد تھے انہوں نے اس معاشرے میں اپنے لوگوں کو ضم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا یا شائد ان میں اتنی سکت یا مہارت ہی نہیں تھی انہوں نے لوگوں کو نعتوں کی محفلوں اور اردو ، پنجابی زبانوں میں قصے کہانیاں سنا کر مصروف رکھا چنانچہ نہ تو ہماری نئی نسل کو معیاری مذہبی تعلیمات ہی مل سکیں اور نہ ہی ہم اپنی تہذیب و اقدام کے مطابق ان کی تربیت کر سکے افسوس کہ جو رگ وہاں ’کوچوان ‘ تھے برطانیہ آ کر وہ علما میں شمار ہونے لگے ایسے لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے تو سب کچھ کیا لیکن جس ذمہ داری کیلئے کمیونٹی نے انہیں چُنا تھا اسے نبھانے وہ کامیاب نہیں ہوئے ۔ پھر کچھ ایسے افراد یہاں آئے جو دو چار اشعار کہہ سکتے تھے لیکن وہ خود کو دانشور کہلوانے لگے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر سے آنے والوں میں سے ہمیں خود ساختہ سیاسی سیاسی سماجی لیڈر شپ بھی ملی جنہوں نے کمیونٹی کیلئے کچھ مثبت تو نہیں کیا لیکن سوٹ وغیرہ پہن کر ٹی وی سکرنیوں اور اگلی رو میں بیٹھ کر اخبارات میں چھپنے کیلئے فرقہء تصویر یا بن کر ضرور رہ گئے چنانچہ ہماری اس کمزوری کو برطانیہ کے اثر انداز ہونے والے اداروں نے بھی بھانپ لیا لہذٰا چُن چُن کر ہمارے ایسے لوگوں کو سیاست میں لانے کی کوشش کی جاتی ہ جو برطانیہ کے سیاسی ایوانوں اور اداروں میں اپنی کمیونٹی کے حقوق کی آواز نہ اٹھائیں بلکہ جو کچھ انہیں کہا جائے اسے بلا چوں چراں تسلیم کر لیں اور اگر کوئی مسلم کمیونٹی یا کشمیر کی بات کرے تو مختلف حیلے بہانوں سے اس کی شہرت کو داغدار کیا جائے، لارڈ احمد نے اس بات پر افسوس کا اظہا رکیا کہ ہماری کمیونٹی نے برطانیہ میں محنت بھی کی اور پیسہ بھی خوب کمایا لیکن ماسوائے چند ایک بڑے تجارتی گروپس کے زیادہ تر ہمارے لوگوں نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں انویسٹمنٹ کی اس لیے ہمارے لوگ بڑ ے بڑے بزنسز میں کم نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر اظہار اطمینان کیا کہ گذشتہ چند سال سے ہمارے ہاں یہ رحمان خوش آئند ہے کہ ہمارے بچے اعلیٰ تعلیمی کامیابیاں حاصل کر کے یہودی اور دیگر کمیونیٹیز کے برابر مقام حاصل کر رہے ہیں

لیکن اس کے ہاتھ ہمیں بطور کمیونٹی اس حقیقت پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوان پہلے کی طرح جرائم سے دور رہیں چونکہ ہمارے ہاں یہ شرح قابل افسوس حد تک زیادہ ہے، انہوں نے کہا ہمیں برطانیہ کی یہودی کمیونٹی کے اس مثبت رویے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کی لیڈر شپ اپنے لوگوں کیلئے فرنٹ لائن پر کھڑی ہے وہ اپنے نوجوانوں کیلئے راستے بھی بناتے ہیں اور ان کیلئے ترقی کے دروازے تک پہنچنے کیلئے راہ بھی ہموار کرتے ہیں۔برطانوی اداروں میں نسل پرستی کی تاریخ پر بات کرتے ہوئے لارڈ احمد نے کہا برطانیہ میں اس کی تاریخ سینکڑوں سال پر محیط ہے ابھی سو سال بھی نہیں ہوئے جب ونسٹن چر چل نے وزیراعظم برطانیہ ہوتے ہوئے انڈیا سے سارا اناج برطانیہ اپنے فوجیوں کیلئے منگوا لیا یہ جانتے ہوئے کہ وہاں لوگ قحط سے مر جائیں گے اور پھر تاریخ کے قارئین جانتے ہیں کہ اس وقت انڈیا میں کئی ملین لوگ بھوک سے مر گئے، یہی رجحان آج بھی برطانیہ کے اداروں میں کسی نہ کسی طرح پایا جاتا ہے اور نسلی اقلیتوں کیساتھ کئی طرح سے نسلی تعصب برتا جاتا ہے، لیکن یہ بات ضرور ہے کہ لیبر پارٹی کی حکومت میں سیاہ فام اور ایشائی افراد سمیت دیگر نسلی اقلیتوں کیساتھ بہتر سلوک کیا گیا اور کئی افراد نے بڑی کامیابیاں بھی حاصل کیں، ٹونی بلیئر نے اپنی وزارات عظمیٰ کے دور میں مجھے ہائوس آف لارڈز کا رکن بنایا انہی کے دور میں جب سات جولائی 2005ء کا واقعہ ہوا تو ایک تنظیم ’’MINAB‘‘کے نام سے بنائی گئی وزیر اعظم نے مجھے اس چیئرمین بنایا لیکن ہماری کمیونٹی سے اسے چلنے ہی نہ دیا چند لوگ وزیر اعظم ہائوس چلے گئے اور کہا لارڈ نذیر احمد کون ہوتا ہے مسلمانوں کا لیڈر بننے والا لہٰذا اپنے اپنے فاداتی فلسفہ کیو جہ سے ہماری کمیونٹی کو ازحد نقصان ہوا ، انہوں نے کہا کہ برطانیہ آنے والی ہماری کمیونٹی امریکہ جانے والے ہمارے لوگوں سے تھوڑا مختلف ہے امریکہ میں زیادہ تر تعلیم یافتہ پروفیشنل لوگ گئے جبکہ برطانیہ میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کے مزدور طبقہ کے افراد یہاں آئے جن کا مخصوص کلچر تھا اس کی ایک بڑی مثال یوں ہے کہ جو اکثر اظہار ِ تفنن دی جاتی ہے کہ برطانیہ میں ہمارا یہ دور بس ڈرائیورز کا دور ہے کیونکہ لندن کے میئر صادق خان سمیت کئی ایک بڑے پاکستانی نژاد برطانوی سیاست دان اور بزنس مین یا خود بس ڈرائیور تھے یا ان کے والد کنڈیکٹر یا بس ڈرائیور تھے یہ لوگ سادہ اور محنت کش تھے یہ حقائق ہیں کوئی شرمندگی اور طعنے کی بات نہیں ہے بلکہ فخر کی بات یہ بھی ہے کہ اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود آج بیس سے زیادہ ہمارے لوگ ہائوس آف لارڈز اور ہائوس کا منز میں موجود ہیں۔


مسئلہ کشمیر اور گذشتہ سال بھارت کیطرف سے آرٹیکل 370اور 35/A جس کے تحت کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی کے خاتمہ پر لارڈ احمد نے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا بھارتی وزیر اعظم مودی اور موجودہ بھارت فاشزم کی پالیسی پر عمل پیرا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں گذشتہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران گلگت بلتستان کو صوبہ بناکر بھی ایک بڑی غلطی ہماری طرف سے بھی ہوئی میں نے اس وقت بھی اس منصوبہ بندی کی شدید مخالفت کی تھی کہ اسے فیڈرل کشمیر کا حصہ رہنے دیں لیکن میری بات نہیں سُنی گئی چنانچہ یہ پاکستان کی ایک سٹریٹیجک غلطی تھی میرے خیال میں 370اور آرٹیکل 35/Aکا ایشو نہ ہوتا اگر گلگت بلتستان کو صوبہ نہ بنایا جاتا لیکن اب جب کہ یہ ہو چکا ہے تو پاکستان کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایک علاقائی سیکورٹی کانفرنس کروائے اور بھارت کے تعصب کو بے نقاب کرے ’’یواین او‘‘ میں بھارت کے اس رویہ سے متعلق مثبت لابنگ ہونا ضروری ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کا وزیر اعظم تو جنگ کے حق میں بھی نہیں حالانکہ جنگ تو ہمیشہ ایک آپشن ہوتی ہے دین اسلام سے بھی کئی مثالیں ملتی ہیں لیکن پارلیمنٹ میں ایک منٹ کی خاموشی ، بیانات اور کینڈل لائٹس سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ فاشسٹ مودی حکومت کو آنکھیں دکھانا ہو ں گی۔


لارڈ احمد نے آزاد کشمیر کی لیڈر شپ اور حکومت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر حکومت سالانہ ایک کھرب دس ارب روپے سالانہ بجٹ لیتی ہے اگر اس میں ایک ارب روپے بھی مقبوضہ کشمیر کی کمپئین کیلئے رکھ دیا جائے تو مسئلہ کشمیر بہت آگے جا سکتا ہے لیکن حالت یہ ہے کہ 46افراد کشمیر سیل میں کام کرتے ہیں پیپلز پارٹی کے دور میں ایک سو لوگ تھے ، لیکن صورتحال یوں ہے کہ آزاد کشمیر کے پاس ایک بھی ٹیلی ویژن چینل یا انگزیری کا کوئی ایسا اخبار نہیں ہے جو بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کر سکے ۔ آزاد کشمیر کی لیڈر شپ میں شائد ہی کوئی ایک آدھ ایسا لیڈر کبھی رہا ہو جس نے برطانیہ کے ڈسکریشن رکھنے والے کسی تھنک ٹینک یا اسٹرٹیجک ادارے یا ’’بی بی سی‘‘ جیسے ابلاغی ادارے کیساتھ کمپئن کی ہو بلکہ یہ سارے لیڈر اپنے ایشیائی ریستورانوں میں کھانا کھانے اور تقاریر کرنے میں مگن رہے ، ایک لابی کشمیر کی علیحدیگی اور دوسری پاکستان سے الحاق چاہتی ہے لیکن پھر بھی کشمیر ایشو مرا نہیں ’’ آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ آن کشمیر ‘‘ نے اسے زندہ رکھا ہوا ہے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ آزاد کشمیر میں ہر حکومت مفاد کیلئے بنتی ہے کوئی لیڈر ہے ہی نہیں جو آپ کو نظر آتے ہیں یہ تمام لوگ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے لیکن آج یہ ارب پتی بن چکے ہیں لیکن میر پور ، مظفر آیاد سمیت کسی شہر میں بنیادی سہولیات ہی نہیں ہیں یہ صرف لوٹ مار ہے ۔ کھرا سچ یہ بھی ہے کہ لاہور کی آبادی کشمیر سے تین گنا زیادہ ہے لیکن وہاں کا انتظام آزاد کشمیر سے زیادہ بہتر ہے ، کشمیر پر مشرف کے دور سے ہی کنفیوژن نظر آ رہا ہے ، اب پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کافی نہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر لیجائیں وہ تو پاکستان سے باہر نہیں نکلتے بلکہ وہ تو خود پاکستان کے وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں چنانچہ اس قسم کے حکمرانوں اور رویوں کیساتھ آزادی نہیں ملتی ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں