346

سکاٹش میڈیا کی “کری کوئین”

مسز شاہین یونس نے 16سال کی عمر میں لاہور سے برطانیہ پہنچ کر ایشیائی فوڈ سمیت دیگر شعبوں اور ایتھنک مینار ٹی میں بھی اپنا نام بنایا
انٹرویو / فیاض رحیم

انٹرویو / فیاض رحیم
سکاٹ لینڈ میں آباد پاکستانی کمیونٹی کی ایک بہت بڑی تعداد گروسری اور فوڈ بزنس سے وابستہ ہے ، چند سال قبل ھونے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ گروسری بزنس میں پاکستانیوں کا حصہ 48 % ہے، عین ممکن ھے کہ اب تعداد اس سے بھی زیادہ ہو، آپ سکاٹ لینڈ کے کسی شہر قصبے علاقے یا کونے میں چلے جائیں آپ کو پاکستانیوں کے گروسری سٹورز ضرور دیکھنے کو ملیں گے خواہ دیگر ایشیائی ممالک کے باشندے اور مقامی کمیونٹی بھی اس کاروبار سے منسلک ہے لیکن پاکستانیوں کی اس شعبے میں برتری کو واضع طور پر دیکھا جاسکتا ہے اس کے بعد فوڈ کا نمبر آتا ہے۔ برطانیہ کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی ایشیائی ریسٹورنٹ جگہ جگہ موجود ہیں ، جہاں ہر وقت گاہکوں کا جم عفیر موجود ھوتا ھے کری ،سموسے ، پکوڑے اور نان سکاٹ لینڈ کی مرغوب غزا بن چکے ھیں ، یہی وجہ ھے کہ پاکستانیوں سمیت بہت سے ایشیائی اس کاروبار سے بھی وابستہ ھیں ۔ لیکن ایشیائی فوڈ سے جڑا ایک نام ایسا بھی ہے جس کی سکاٹ لینڈ میں ایک الگ ہی پہچان ھے ۔ازڈا Asda – سینزبری Sainsbury ۔ Lidl’s لڈلز جیسے سُپر سٹورز پر چلے جائیں یا کسی چھوٹے سٹور اور کارنر شاپ پر جایئں وہاں “مسز یونس سپائسی فوڈ “ کی دلکش پراڈکس آپ کا استقبال کریں گی –
پاکستانی خاتون “مسز شاہین یونس CBE “اور ان کے ایشیائی فوڈ کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ مقامی سکاٹش میڈیا انہیں “پکوڑا کوئین “ اور “کری کوئین “ کے ناموں سے پکارتا ھے – مسز یونس نہ صرف بزنس کمیونٹی بلکہ پوری ایشیائی ایتھنک مینارٹی میں کمیونٹی لیڈر کے طور پر اپنا ایک منفرد
مقام بنا چکی ہیں اور مقامی کمیونٹی میں عام آدمی سے لے کر سکاٹ لینڈ کے فسٹ منسٹر تک ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں برطانیہ کی حکومت انہیں CBE (کمانڈر آف دی برٹش ایمپائر ) کے اعزاز سے نواز چکی ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ بے شمار دیگر اعزازت بھی اپنے نام کر چکی ہیں- ان کی بیش بہا کامیابیوں کا راز جاننے کے لیے جب “ایمز انٹر نیشنل “ نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے نہایت خوش اخلاقی سے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی اور پھر اپنے کمپنی مینجرز کے ساتھ ہما را استقبال کیا اور انتہائی تفصیل کے ساتھ اپنی کامیابیوں کی داستان سنائی
پاکستان میں لاہور شہر سے تعلق رکھنے والی شاہین صاحبہ 1960 کی دھائی میں صرف 16 سال کی عمر میں برطانیہ آئیں – لاہور میں ان کی شادی لندن میں مقیم اظہر یونس صاحب سے ہوئی اور وہ مسز شاہین یونس بن کر لندن منتقل ہو گئیں ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے کبھی لاہور میں بھی اکیلے بس کا سفر تک نہیں کیا تھا اس لیے ان کی زندگی میں یہ بہت ہی بڑی تبدیلی تھی جیسے انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے قبول کیا -اس زمانے میں لندن میں ایشیائی آبادی اتنی کم تھی کہ شائد ہی کسی ایشیائی سے ملاقات ہوتی دونوں میاں بیوی کو تفریح کے لیے ایشیائی فلم دیکھنے کے لیے لندن سے بریڈ فورڈ تک کا سفر کرنا پڑتا ۔ انہوں نے لندن میں دو سال اکٹھے گزارنے کے بعد سکاٹ لینڈ منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور گلاسگو منتقل ہو گئے وہاں اظہر یونس دو سال تک کام کرنے کے بعد 1971 میں ایڈنبرا آگئے ۔ یہاں آکر مسز یونس نے دو سال تک ایک ریسٹورنٹ میں کام کیا ۔ اور پھر “ نادیہ “ کے نام سے اپنا ذاتی ریسٹورنٹ کھول لیا – بزنس نے خوب ترقی کی ان کی کوکنگ اتنی شاندار تھی کہ گاہک انگلیاں چاٹتے رہ جاتے اور پھر کوکنگ ہی ان کی پہچان بن گئی بس یہیں سے مسز یونس کو اپنی فوڈ پراڈکس کو بڑے پیمانے پر عوام تک پہنچانے کا خیال آیا اور انہوں نے ایشیائی فوڈ فیکٹری کی بنیاد رکھی – انکی فیکٹری سے “مسز یونس “کے نام سے ایشیائی فوڈ کی فراہمی تھوڑے ہی عرصہ میں پورے سکاٹ لینڈ میں پھیل گئی اور وہ سکاٹ لینڈ میں ایشیائی فوڈ کی علمبردار بن گئیں – یہیں سے مسز یونس کے عروج کا وہ دور شروع ہوا جو آج تک جاری ہے -اپنی کامیابی کے اس سفر میں وہ فوڈ سپلائی کے ساتھ کمیونٹی کے کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتی رہیں اور ایک ہر دلعزیز کمیونٹی لیڈر کے طور پر بھی خوب شہرت حاصل کی اس میں سب سے بڑا عمل دخل ان کی عاجز ۔ ملنسار ۔ اور خوش اخلاق طعبیت کا بھی ہے جو بھی ایک بار ان سے ملتا ھے انکی شخصیت کے سحر میں ڈوب جاتا ہے یہی وجہ ہے مقامی سکاٹش کمیونٹی حکومتی ارکان لوکل کونسلز اور ہر جگہ ان کی خوب پزیرائی ہوتی ہے ۔ حکومتی تقریبات ہوں یا لوکل کمینونٹی کے فنکشن مقامی کونسلز کے ڈنرز ہوں یا عام عوامی فنکشن مسز یونس کے پکوان ہر طرف نظر آتے ہیں – کرسمس کے ایک موقع پر ان کی طرف سے 300 سے زائد بے گھر افراد کے لیے مفت کھانے کی فراہمی کو بے حد سراہا گیا جس سے دونوں کمیونیٹیز کے باہمی تعلقات پر خوشگوار اثر پڑا ۔
سکاٹ لینڈ میں نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی موقع پر ممبران کی جانب سے انہیں شرکت کی خصوصی دعوت دی گئی ۔ ایڈنبرا میں 90 کی دہائی میں بڑھتی ہوئی ایشین کمیونٹی کو انٹرٹینمٹ فراہم کرنے کی غرض سے ایڈنبرا کونسل کی طرف سے مشہور و معروف “ایشیائی میلہ “ منعقد کرنے کا اعلان ہوا تو اس کے لیے جو ڈائریکٹرز چنے گئے ان میں مسز یونس کا نام بھی شامل تھا اس میلے نے ملک گیر شہرت حاصل کی اور یہ آج بھی پوری دھوم دھام سے منعقد کیا جاتا ھے


انہوں نے اپنی ایڈنبرا آمد کے ساتھ ہی “پاکستان وومن ایسوسی ایشن ایڈنبرا “ بھی جوائن کی اور ایک عرصہ تک اس کی وائس چیئرپرسنز ر ہیں
ایڈنبرا میں “ مِلن “ کے نام سے عمررسیدہ ایشیائی افراد کے لیے قائم مشہور زمانہ تنظیم آج بھی بہت مقبول ہے اور خوش اسلوبی سے اپنے فرائض انجام دے رہی ہے اس کا کام عمر رسیدہ افراد کو مل بیٹھنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرنا ھے
ممبران کی بہت بڑی تعداد اس تنظیم کے رفاہی کاموں سے استفادہ کرتی ہے مسز یونس “مِلن “ قائم کرنے والے اس گروپ کی ڈائیریکٹر بھی ہیں اور اب بھی نہایت تندہی سے ان رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔ مسز یونس Avon praise of women کا اعزاز بھی حاصل کر چکی ہیں جس کے لیے پورے برطانیہ سے 400 خواتین کو نامزد کیا گیا تھا اور اعزاز حاصل کرنے والی پانچ خواتین میں سکاٹ لینڈ سے مسز شاہین یونس بھی شامل تھیں
سکاٹ لینڈ کے ایک سابق فرسٹ منسٹر کی طرف سے انہیں depti lieutenant of City of Edinburgh کا اعزاز دیا گیا یہ اعزاز آرمی اور سول شعبوں میں دیا جاتاہے اس سے پہلے ایڈنبرا کی سابق لیڈی پراوسٹ لیزلی ہنڈز Lesley hinds ان کی سماجی خدمات کو مدنظر رکھتےہوئے ان کو ambassador of one city trust Edinburgh کے اعزاز سے نواز چکی ہیں ۔ 2011 میں سکاٹش کری انڈسٹری کی طرف سے لائف ایچیومینٹ ایوارڈ ملنے کے بعد ان کی تصاویر کو “سکاٹش نیشنل پورٹریٹ گیلری “ میں بھی آویزاں کیا گیا ۔ جو بڑے پیمانے پر وزٹ کے لیے آنے والے مہمانوں اور وزیٹرز کے لیے دلچسپی کا باعث بنی ۔ وہ “ lloyds TSB ایشین جیول ایوارڈ اور سکاٹش بزنسز کے لیے منعقد ہونے والا پہلا “بزنس وومن آف دی ایئر ایوارڈ “ بھی حاصل کر چکی ہیں – مسز شاہین یونس نے برطانوی حکومت کی طرف سے انہیں CBE ملنے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک رات وہ اپنی فیملی کے ہمراہ بیٹھی ٹی وی پر ملکہ ایلزبتھ کی برتھ ڈے پر دئیے جانے والے اعزازات کی تفصیلات دیکھ رہی تھیں اور دل ہی دل میں سوچ رھی تھیں کہ اگر آللہ نےچاہا تو وہ بھی ایک دن اس فہرست میں شامل ہو جائیں گی اور اللہ کی قدرت دیکھئے کہ اگلے دن کے اخبارات سے مجھے اپنے CBE ملنے کا پتا چلا تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی یہ نہ صرف میرے اور میری فیملی کے لیے بلکہ تمام پاکستانی کمیونٹی کے لیے بڑا اعزازہے
مسز شاہین یونس نے اس کے علاوہ بھی بہت سے دیگر اعزازات حاصل کر چکی ہیں ان کی یہ جدوجہد ہماری خواتین کے لیے مشعل راہ ہے
انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہماری گھریلو خواتین دنیا میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ اپنی گھریلو اور ازدواجی زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی میں بھر پور نام پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے مالامال ہیں – مشہور اخبار Sunday herald انہیں اپنی 100 ٹاپ وومن ان سکاٹ لینڈ کی فہرست میں شامل کر چکا ہے علاوہ ازیں سکاٹش ٹی وی پر ان کے متعلق ایک تفصیلی ڈاکومینٹری بھی دکھائی جا چکی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں