1,197

الحاج محمد حنیف طیب ۔۔۔ ہفت رنگ شخصیت پینتیس برس پر محیط یادیں اور باتیں

تحریر: عبدالرزاق ساجد
چیئرمین المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل برطانیہ
سابق مرکزی صدر انجمن طلباء اسلام

الحاج محمد حنیف طیب محض ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ کئی عشروں پر پھیلی ہوئی بے تکان اور مخلصانہ جدوجہد کا نام ہے۔۔۔دور زوال کے ایک کامیاب آدمی کے یقیں محکم اور جہدِ مسلسل کی کہانی۔۔۔ ایک چھوٹے گھر میں پیدا ہونے والے ایک بڑے آدمی کی طلسماتی حکایت۔۔۔ یہ ایک صاحبِ جنوں کی حیران کن سرگزشت ہے جو عمر بھر اپنے اجلے مقاصد سے جڑا رہا اور جن کی کامیابیاں افق در افق جگمگا رہی ہیں کئی لامتناعی کہکشائوں کی طرح۔۔۔ جنہوں نے اپنی توانائیوں کا قطرہ قطرہ‘ اپنی صلاحیتوں کی رمق رمق اور اپنے لہو کی بوند بوند اپنے اعلیٰ مقاصد و اہداف کی نذر کردی۔۔۔ وہ سربلند‘ سرخرو اور سرفراز آدمی جس نے طویل‘ پرمشقت‘ گوناگوں اور تابناک زندگی گزاری۔۔۔ یہ ایک اعتماد سے سرشار‘ عناصرِ فطرت کی طرح کھوٹ سے پاک اور سچ کی طرح سادہ ایسے صاحبِ ایمان‘ صاحبِ ایقان اور صاحبِ احسان کا قصہ ہے جس کی کتابِ زندگی کا ورق ورق جدوجہد‘ تگ و تاز اور معرکہ آرائیوں سے عبارت ہے۔۔۔ ہاں ہاں یہ لوح زماں پر اپنی شاندار اور تاریخ ساز کامیابیوں اور کامرانیوں کے انمٹ نقوش ثبت کرنے والے پیکر عزم و وفا الحاج محمد حنیف طیب کے جگمگاتے سفر زندگی کی ششدر کردینے والی روداد ہے۔ صالحیت اور صلاحیت والے الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب کے راہ حیات پر پون صدی کے سفر کا ہر لمحہ تابناک اور ہر دن یادگار ہے۔ غریبانہ خودی کے نگہبان الحاج حنیف طیب کی زندگی کی کہانی بے مثال عزم و عمل کی کہانی ہے۔خلق خدا کی بے لوث خدمت کی بے مثال کہانی۔۔۔ سیاست کے ایک اجلے کردار کے مہکتے شب و روز کا قصہ۔۔۔ پاکستان کی سب سے بڑی طلباء تنظیم (انجمن طلباء اسلام) کے بانی کا سحرانگیز زندگی نامہ۔۔۔ ایک ایسے عزیمت اور عظمت والے باکمال شخص کی کہانی جو کہر‘ دھوپ اور دھول سے بھری پرُخار راہوں پر ستر برس سے آبلہ پائی کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ ماہ و سال ان کے سر میں سفیدی بن کر چمکنے لگے ہیں۔ رعنائیوں اور توانائیوں سے جگمگاتی شخصیت کے مالک الحاج حنیف طیب کے ساتھ کئی عشروں پر مشتمل دیرینہ رفاقت اور والہانہ وابستگی میرا قیمتی ترین اثاثہ ہے۔ ان کی مومنانہ قیادت اور درویشانہ رفاقت میں گزرے ماہ و سال کے دوران انہیں بہت قریب سے دیکھنے‘ پرکھنے‘ سمجھنے اور ان کے شب و روز کے گہرے مشاہدے کے بعد میں پورے یقین‘ اعتماد اور ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خود دھوپ میں جل کر دوسروں کے لئے سائبان بننے والے الحاج ڈاکٹر محمد حنیف طیب حیران کن قائدانہ صلاحیتوں کے مالک‘ ایک سادہ‘ متوکل‘ وضعدار‘ روادار‘ بے غرض‘ بے لوث‘ شائستہ‘ سنجیدہ‘ بردبار‘ مہذب‘ صداقت شعار‘ محکم‘ متوازن اور استوار آدمی ہیں۔ خلیق‘ شفیق اور نفیس انسان۔۔۔ سردیوں کی دھوپ اور گرمیوں کی چھائوں جیسے۔۔۔ ان کی باتوں سے خلوص جھلکتا اور سچائی بولتی ہے۔۔۔ امیری میں فقیری اور فقیری میں امیری کی زندہ مثال۔۔۔ روشن ضمیر‘ روشن دماغ اور روشن نگاہ انسان۔۔۔ تحمل‘ تدبر اور تفکر کے پیکر۔۔۔ سراپا اخلاص‘ سراپا عمل۔۔۔ خوش کردار‘ خوش گفتار اور خوش رفتار۔۔۔ صبح کی اجالے کی طرح اجلے‘ تہذیبی ڈھانچے میں ڈھلی شخصیت کے مالک۔۔۔ رات کے پچھلے پہر جیسا شخص۔۔۔ شرافت‘ متانت اور دیانت ان کی شخصیت کے نمایاں اوصاف ہیں۔ نہ تعصب‘ نہ غصہ اور نہ اشتعال۔۔۔ طمع اور جمع نہ کرنے والے حاجی حنیف طیب سے ملاقات کرنے والا ہر شخص ان کے خلوص کی خوشبو اور صادق جذبوں کی حرارت محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ پر شفیق لہجہ اور تسلی آمیز گفتگو ان کی پہچان ہے۔ لباس کی سادگی‘ غیر معمولی یادداشت‘ لہجے کی نفاست اور مقصد سے لگن ان کی شناخت ہے۔ ملنے والے ہر شخص کے دل میں جگہ بنالینے کا ہنر جاننے والے حاجی حنیف طیب ایک ہشت پہلو اور ہفت رنگ شخصیت ہیں۔ وہ میدان سیاست کے شہسوار بھی ہیں اور خدمت خلق کی پرخار راہوں کے مخلص مسافر بھی۔ اپنی لگن میں مگن رہنے والے الحاج محمد حنیف طیب کی زندگی ریاضت اور مسلسل ریاضت‘ مشقت اور مسلسل مشقت‘ محنت اور اعصاب شکن محنت کی آئینہ دار ہے۔ کچھ لوگ ساریخ ساز ہوتے ہیں اور کچھ خود تاریخ ہوتے ہیں۔ حاجی محمد حنیف طیب ایسے افراد میں شمار کئے جا سکتے ہیں جو خود تاریخ ہوتے ہیں۔ ایسی تاریخ جو ہمیشہ منور و تاباں اور زندہ و جاوید رہے گی۔ ضمیر فروشوں کے ہجوم میں ایک سرفروش دینی و سیاسی رہنما حاجی محمد حنیف طیب کی دونوں ہتھیلیوں پر عشق رسول کے چراغ جل رہے ہیں اور ان کی چشمِ تصور طوافِ گنبدِ خضریٰ میں مصروف رہ کر اپنی نجات اور مغفرت کے پھول چنتی ہے۔


جبینِ وقت پر جھومر بن کر چمکنے والے قائد محترم الحاج محمد حنیف طیب سے متعلق یہ مضمون لکھتے ہوئے یادوں کے آسمان پر ایک کہکشاں ہے جو جھلملا رہی ہے۔ حسین یادوں کے دریچوں میں جھانکتے ہوئے مجھے یاد آرہا ہے کہ طالب علمی کے ہنگامہ خیز اور ولولہ انگیز دور میں فروغ عشق رسول کی عظیم طلباء تحریک ’’انجمن طلباء اسلام‘‘ کے ساتھ وابستگی کے اولین ایام میں پہلی بار الحاج محمد حنیف طیب کا نام سنا اور دل میں شدت اور شوق کے ساتھ یہ خواہش ابھری کہ ’’سیدی مرشدی یا نبی نبی‘‘ کا دلنواز نعرہ وردِ زبان کرنے والے طلباء کی ملک گیر فعال و متحرک تنظیم’’ انجمن طلباء اسلام‘‘ کے عظیم بانی سے ملاقات کر کے اس عظیم شخصیت کی زیارت کی جائے جس نے انجمن طلباء اسلام کو قائم کر کے لاکھوں طلباء کو عشقِ رسول کی حسین راہوں کا مسافر بنا دیا ہے۔ اتفاق سے انہی دنوں میرے آبائی شہر میاں چنوں میں طلباء یونینز کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے اے ٹی آئی ملتان ڈویژن کے نمائندگان کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد کرنے کا پروگرام بنا اور اس پروگرام میں الحاج محمد حنیف طیب کو بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے کا فیصلہ ہوا اور حاجی صاحب کو دعوت دینے کیلئے میری ذمہ داری لگائی گئی۔ پتہ چلا کہ محترم حاجی صاحب اپنے ابتدائی تنظیمی دنوں کے وفادار اور جانثار ساتھی محترم محمد یعقوب قادری (شہید) کی شادی میں شرکت کیلئے نواب شاہ تشریف لا رہے ہیں۔ بذریعہ ٹرین نواب شاہ جاتے ہوئے راستے بھر اے ٹی آئی کو قائم کرنے والی عظیم شخصیت سے ملنے کے شوق نے مجھے شادوشاداب کئے رکھا۔ چند سال پہلے شہادت کا تاج پہن کر سرخرو ہوجانے والے محترم محمد یعقوب قادری کی شادی سے فارغ ہو کر شام کے وقت محترم الحاج محمد حنیف طیب سے میری پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی اور وہ ملتے ہی سیدھے دل میں ایسے اترے کہ آج بھی دل کی سرزمین پر ان کی محبت و عقیدت کا پرچم لہرا رہا ہے۔ پہلی ہی ملاقات میں محترم حاجی صاحب نے اس قدر پیار‘ شفقت‘ توجہ اور حوصلہ افزائی سے نوازا کہ اس مشفقانہ پذیرائی کی سرشاری لمحہ موجود تک میرے دل کو مہکائے ہوئے ہے۔ میاں چنوں میں قبلہ حاجی صاحب کی پہلی بار آمد کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی جڑا ہوا ہے‘ ایسا واقعہ جس سے حاجی صاحب کی غیر معمولی یادداشت اور کارکن نوازی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ میاں چنوں میں استقبالیہ کے دوران دوسرے سینکڑوں طلباء اور کارکنان کی طرح اے ٹی آئی میاں چنوں کے ناظم ایوب قذافی بھی اپنے عظیم و جلیل بانی سے ملے۔ اس ملاقات سے بہت سال پہلے 1974ء میں اپنی والدہ کے ہمراہ حاجی کیمپ میں قیام کے دوران محمد ایوب قذافی کی حاجی محمد حنیف طیب سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس اولین ملاقات کے دس سال بعد میاں چنوں میں ایوب قذافی جونہی حاجی محمد حنیف طیب کے سامنے آئے تو قائدِ محترم نے اپنے کارکن کو نام لے کر پکارا جس پر محمد ایوب قذافی خوشی سے جھوم اٹھے۔ وہ ہمیشہ فخر سے کہتے تھے کہ ہمارا قائد اپنے ہر کارکن کو یاد بھی رکھتا ہے اور اس کا نام بھی نہیں بھولتا۔
لہجے میں خلوص اور صداقت کی گھن گرج رکھنے والے محترم الحاج محمد حنیف طیب کے ساتھ دوسری ملاقات 84ء میں شہرِ داتا لاہور میں ہوئی۔ اہلِ حق کی عظیم اور قدیم دینی درسگاہ جامعہ نعیمیہ لاہور میں اے ٹی آئی کا مرکزی کنونشن تھا جس کی ایک نشست انجیئرنگ یونیورسٹی میں منعقد ہوئی۔ اس نشست کے مقررین میں حاجی محمد حنیف طیب کے علاوہ مولانا محمد عبدالستار خان نیازی‘ میاں محمد نواز شریف اور پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری بھی شامل تھے۔ اس موقع پر وہ منظر آج بھی میری آنکھوں میں نقش ہے جب اس وقت کا وزیرِخزانہ پنجاب میاں نوازشریف حاجی صاحب کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ان کے ساتھ انتہائی عقیدت و محبت کا والہانہ اظہار کر رہا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ اسی کنونشن کے دوران اس وقت کے آمرِ مطلق اور بدترین ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے طلباء یونینز اور طلباء تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کا آمرانہ اعلان کیا۔ جامعہ نعیمیہ میں ہونے والے اس کنونشن کے موقع پر مولانا عبدالستار خان نیازی نے اپنی تاریخی تقریر میں کہا تھا کہ ’’انتخابات جماعتی ہوں یا غیر جماعتی‘ اہل سنت کو ان انتخابات میں ہر صورت حصہ لینا ہوگا‘ ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘ اور اگر اہل سنت نے ان انتخابات میں حصہ نہ لیا تو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا اور ہم اس غلطی پر ہمیشہ پچھتائیں گے۔‘‘ آنے والے وقتوں میں مرد قلندر مولانا نیازی کی یہ بات حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی اورجے یو پی نے 85ء کے غیرجماعتی انتخابات میں حصہ نہ لے کر ایسی غلطی کی جس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ کاش درست وقت پر درست فیصلہ کر لیا گیا ہوتا تو آج حالات اور تاریخ مختلف ہوتی۔ جامعہ نعیمیہ میں ہونے والے مذکورہ کنونشن کے اختتام پرہم نے محترم حاجی صاحب کے ہمراہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری کے دربار پر حاضری دی اور حاضری سے فارغ ہو کر داتا دربار کے باہر چائے کے ایک سادہ سے کھوکھے پر کشمیری چائے پی۔ میں ان جاوداں اور یادگار لمحات کو کبھی نہیں بھول سکتا‘ جب ملکی سطح کا ایک معروف لیڈر حاجی حنیف طیب بھاٹی چوک کے شور میں اپنے انتہائی جونئیر کارکنان کی دلجوئی کیلئے فٹ پاتھ پر رکھی کرسیوں پر بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کر رہا تھا۔ قبلہ حاجی صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ چلا تو ان کے ساتھ نیازمندی‘ محبت اور عقیدت میں ڈھلتی چلی گئی۔
85ء کے غیرجماعتی انتخابات میں محترم حاجی صاحب کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ ہم نے میاں چنوں سے عبدالطیف آفریدی کو انتخابی مہم میں معاونت کیلئے کراچی بھیجا‘ بعد میں حاجی صاحب نے اسی عبدالطیف آفریدی کی محبت و وفا کو یاد رکھا اور اسے روزگار کے سلسلہ میں سعودی عرب بھیجنے کا بندوبست کیا۔ آج یہ سطور قلم بند کرتے ہوئے آزادکشمیر کے شہر مظفرآباد میں ہونے والے اے ٹی آئی کے اس سالانہ مرکزی کنونشن کے وہ مناظر میری آنکھوں میں جھلملا رہے ہیں جب زیرک و دانا الحاج محمد حنیف طیب وفاقی وزیر اور اے ٹی آئی کے سابق مرکزی صدر محمد عثمان خان نوری ممبر نیشنل اسمبلی ہوتے ہوئے انجمن طلباء اسلام کے مرکزی کنونشن میں بغیر کسی پروٹوکول کے اے ٹی آئی کے سابقین کی حیثیت سے شریک ہوئے اس موقع پر کچھ ناسمجھ اور نادان ’’دوستوں‘‘ نے حاجی حنیف طیب کے خلاف ناروا نعرے بازی کی جبکہ کنونشن کے 90فیصد شرکاء اپنے دونوں سابق رہنمائوں (حاجی حنیف طیب‘ محمد عثمان خان نوری) کے ساتھ محبتوں کا والہانہ اظہار کر رہے تھے۔ اس موقع پر میں ذاتی طور پر حاجی صاحب کے صبر اور حوصلے سے بے پناہ متاثر ہوا‘ وہ مسکراتے چہرے کے ساتھ اپنے خلاف بلند ہونے والے ناپسندیدہ نعرے صبروسکون کے ساتھ سنتے رہے اور انہوں نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا جبکہ اس موقع پر اے ٹی آئی کے سابق مرکزی صدر اور اس وقت کی قومی اسمبلی کے رکن جواں سال‘ جواں عزم محمد عثمان خان نوری نے انتہائی جذباتی اور تاریخی خطاب کر کے کارکنان انجمن میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں اور منفی پراپیگنڈے کا انتہائی موثر جواب دیا اور ان کی تقریر کے دوران کنونشن کا پنڈال ’’میرا بھائی تیرا بھائی حنیف بھائی حنیف بھائی‘‘ کے نعروں سے گونجنے لگا۔ مظفرآباد کے اسی کنونشن میں بطور وفاقی وزیر حاجی محمد حنیف طیب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی۔ مظفرآباد کے اس کنونشن میں ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقریر کے الفاظ میرے کانوںمیں گونج رہے ہیں‘ وہ الفاظ کچھ یوں تھے ’’منہاج القرآن میری دائیں آنکھ اور اے ٹی آئی میری بائیں آنکھ ہے‘ میں اے ٹی آئی کی موجودگی میں منہاج القرآن کی طلباء تنظیم قائم کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ لیکن افسوس کہ بعد میں ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی اس بات پر قائم نہ رہ سکے اور انہوں نے اے ٹی آئی کے ہوتے ہوئے مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ بنائی۔
وہ منظر بھی میرے حافظے کی تختی پر آج تک نقش ہے جب دوران وزارت ایک بار سرکاری کوٹھی پر محترم حاجی حنیف طیب سے ملاقات ہوئی اور وہاں پر ہر طرح کے وزارتی کروفر اور شان و شوکت سے پاک ماحول میں غریب کارکنان کی پذیرائی اور سادگی کے مناظر دیکھ کر بے حد حیرت ہوئی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ محترم حاجی صاحب اپنی سرکاری رہائش گاہ پر دور دراز سے آنے والے کارکنان‘ اہلِ سنت جماعتوں کے رہنمائوں اور اپنے ووٹرز سے فرداً فرداً انتہائی محبت اور عاجزی سے ملتے‘ ہر ایک کی بات تفصیل اور غور سے سنتے اور ہر ملاقاتی کے مسئلے کے حل کیلئے جان لڑا دیتے۔ حاجی صاحب کی سرکاری رہائش گاہ پر ہر طرح کے تکلف اور تصنع سے پاک ایک عوامی اور دینی ماحول دکھائی دیتا تھا اور لنگر کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا تھا۔ اس طرح کے مناظر آج تک کسی دوسرے وفاقی وزیر کے گھر دیکھنے کے لئے آنکھیں ترس گئی ہیں۔ میں جب پہلی بار حاجی صاحب کی سرکاری رہائش گاہ پر گیا تو وہاں پر اے ٹی آئی بلوچستان کے ناظم خوشنود ڈار بھی موجود تھے۔ برادرم خوشنود ڈار نے اس موقع پر حاجی صاحب کے ساتھ کسی معاملے پر انتہائی سخت لب و لہجے میں تند و ترش گفتگو کی جس کے جواب میں حاجی صاحب نے صرف اتنا کہا کہ ’’میں بے زبان ہوں اور آپ پکے جنتی ہیں۔‘‘ ہمارے پیارے تنظیمی و تحریکی بھائی خوشنود ڈار نے اے ٹی آئی کے عظیم مشن کیلئے تاریخی خدمات سرانجام دیں۔ وہ انتہائی مخلص اور انتہائی متحرک انسان تھے لیکن دو ٹوک انداز میں بلند آہنگ بات کرنے والے انتہائی جذباتی اور قدرے جلالی طبیعت کے مالک بھی تھے۔ حاجی محمد حنیف طیب نے محترم خوشنود ڈار کی کسی بھی بات پر نہ ہی ناراضگی کا اظہار کیا اور نہ ہی ناگواری اور ناپسندیدگی کا‘ بلکہ مسکراتے چہرے اور ہمیشہ کے شفیق لہجے کے ساتھ اپنے جذباتی ہمسفر مخلص ساتھی کو مطمئن کیا۔ کاش ہمارے تمام قائدین کا اپنے کارکنان کے ساتھ رویہ ایسا ہی مشفقانہ ہو جائے مگر افسوس اب قائدین میں خوئے دلنوازی ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔
کوئی کارواں سے ٹوٹا‘ کوئی بدگماں حرم سے
کہ میر کارواں کے دل میں نہیں خوئے دلنوازی
پیار اور ایثار والے الحاج محمد حنیف طیب سے جڑی یادوں کو قلمبند کرتے ہوئے اور تاریخ کے حافظے میں تڑپتے حقائق سامنے لاتے ہوئے اس وقت مجھے ہمیشہ کیلئے بچھڑ جانے والے بہت پیارے اور بہت مخلص مرحوم تحریکی ہمسفر جناب عبدالوحید مغل کی شادی کا خوشگوار واقعہ بھی یاد آرہا ہے۔ اس شادی کی دعوت دینے کیلئے میں حاجی صاحب سے ملنے کیلئے اسلام آباد گیا تھا‘ مجھے یاد ہے میں اپنے حلقہ کے ایم این اے جناب ثناء اللہ بودلہ کے ہمراہ اسمبلی ہال پہنچا اور اسمبلی کے گیٹ پر حاجی صاحب سے آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے انتہائی تپاک اور گرمجوشی کے ساتھ مجھے گلے لگایا‘ اس وقت آنے والے وقتوں میں پاکستان کے وزیراعظم بننے والے میرظفراللہ خان جمالی بھی ان کے ہمراہ تھے۔ قائد محترم کی اساغر نوازی اور بندہ پروری کا وہ انداز میں کبھی فراموش نہیں کر سکوں گا جب وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی محترم حاجی محمد حنیف طیب نے میرظفراللہ جمالی اور ثناء اللہ بودلہ کے سامنے مجھے بے پناہ شفقتوں اور محبتوں سے نوازا اور میرظفراللہ جمالی سے میرا تعارف کچھ اس انداز سے کروایا کہ میرا سر فخر سے بلند ہو گیا حالانکہ میں اس وقت ضلعی سطح کا معمولی عہدیدار تھا۔ محترم حاجی صاحب نے ہماری دعوت کو شرف قبولیت بخشا اور تمام تر سرکاری مصروفیات ترک کر کے جناب عبدالوحید مغل کی شادی میں شرکت کیلئے خاص طور پر اسلام آباد سے میاں چنوں پہنچے اور کئی گھنٹے شادی کی تقریبات میں بڑے بھائی کی طرح شامل رہے۔
یادوں کا دبستان کھلا ہے تو ایک اور منظر میرے دل میں جاگ اٹھا ہے۔ ادارہ منہاج القرآن کے قیام کے ابتدائی دنوں کی بات ہے ڈاکٹر طاہرالقادری نے لاہور میں ایک بڑا دینی اجتماع منعقد کیا جس میں غلام اسحاق خان اور میاں محمد نوازشریف کے ساتھ محترم حاجی محمد حنیف طیب بھی شریک ہوئے۔ میں بھی اس اجتماع میں موجود تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے پرجوش خطاب میں برملا کہا کہ ’’میںکبھی سیاست میں حصہ نہیں لوں گا‘ کبھی پیری مریدی نہیں کروں گا اور کبھی دین کے نام پر چندہ جمع نہیں کروں گا۔‘‘ اس پروگرام کے اختتام پر حاجی محمد حنیف طیب نے مجھے کہا کہ یاد رکھنا ڈاکٹر طاہرالقادری اپنے اس وعدے پر قائم نہیں رہے گا اور پھر زمانے نے دیکھا کہ یہ تینوں کام جناب ڈاکٹر طاہرالقادری نے پوری شدومد سے کئے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سیاست میں آنے سے پہلے تک حاجی حنیف طیب کے انتہائی قریب رہے اور ان دونوں رہنمائوں کی گہری قربت اور حاجی صاحب کی ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ معاونت کے کئی خوش رنگ مناظر کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ کراچی میں ڈاکٹر طاہرالقادری کا درس قرآن شروع کروانے میں بھی محترم حاجی صاحب نے بنیادی کردار ادا کیا۔
قارئین کرام یہ بہت اہم بات ہے کہ غزالی زماں‘ رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمیؒ کے دستِ حق پر بیعت کیلئے لاہور سے بائی روڈ ملتان جاتے ہوئے محترم حاجی حنیف طیب نے میاں چنوں میں بھی مختصر قیام کیا۔ اس موقع پر ہم نے اے ٹی آئی کی طرف سے اجتماع کا اہتمام کر رکھا تھا جس سے حاجی صاحب کے علاوہ محمد عثمان خان نوری اور صاحبزادہ عطاء المصطفی نوری (مرحوم) نے بھی خطاب کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اس روز ہمارے دل کی دھڑکنوں میں بسنے والے ہمارے باکمال ساتھی صاحبزادہ عطاء المصطفیٰ نوری نے اپنی تقریر کے دوران یہ شعر پڑھا اور محفل لوٹ لی۔ انہوں نے کہا:
ہم نے خیرات میں پھول نہیں پائے ہیں
خونِ دل صرف کیا ہے تو بہار آئی ہے
آسمانِ علم کے نیّرتاباں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمیؒ کے جنازے کے موقع پر بھی اپنے پیرخانے کے ساتھ وابستگی کو وارفتگی بنالینے والے حاجی حنیف طیب سے ملاقات کا نقش آج بھی میری یادوں کی گٹھڑی میں موجود ہے۔ اپنے عظیم شیخ طریقت کے سانحہ ارتحال کے غم سے نڈھال مریدِ باصفا حاجی حنیف طیب بلک بلک کر رو رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ گرتے آنسو ان کی اپنے عظیم روحانی پیشوا کے ساتھ گہری محبت و عقیدت کی کہانی سنا رہے تھے۔ جنازے میں اس وقت کے گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی‘ حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ‘ وفاقی وزیر مذہبی امور مقبول خان سمیت اہم دینی و روحانی اور سیاسی و سرکاری شخصیات شریک ہوئیں۔ حاجی صاحب جنازے میں وزیر بن کر نہیں بلکہ فقیر بن کر آئے اور جنازے سے تدفین تک کئی گھنٹے وہاں موجود رہے اور مسلسل روتے رہے۔
تاریخ شاہد اور زمانہ گواہ ہے کہ کارکنان کی حوصلہ افزائی کرنے میں حاجی محمد حنیف طیب کا کوئی ثانی نہیں۔ اس حوالے سے مجھے خانیوال کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے‘ ہوا یوں کہ محترم حاجی صاحب وفاقی وزیر کی حیثیت سے سرکاری دورے پر خانیوال آئے‘ مجھے حاجی صاحب کی آمد کا پتہ چلا تو میں بھی شیخ ندیم ایڈووکیٹ اور عبدالوحید مغل کے ساتھ حاجی صاحب سے ملاقات کیلئے خانیوال پہنچا۔ اس وقت حاجی صاحب ڈی سی آفس میں کسی ضروری سرکاری میٹنگ میں موجود تھے۔ ہم نے اندر اطلاع بھجوائی تو محترم حاجی حنیف طیب میٹنگ چھوڑ کر باہر تشریف لائے اور ہمیں اپنے ساتھ اندر لے گئے اور وہاں پر موجود ڈپٹی کمشنر اور دوسرے اعلیٰ سرکاری حکام سے ہمارا بھرپورتعارف کروایا۔
قارئین کرام! میں یہ انتہائی تکلیف دہ بات لکھتے ہوئے دکھ کے گہرے احساس سے دوچار ہوں‘ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب اے ٹی آئی کے پروگراموں میں اے ٹی آئی کے بانی حاجی حنیف طیب کو مدعو کرنے پر غیراعلانیہ پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس پابندی کے پسِ پردہ کئی سازشی ذہنوں کی خباثتیں کارفرما تھیں۔ 1990ء میں جب میں انجمن طلباء اسلام صوبہ پنجاب کا ناظم تھا ہم نے اس سیشن میں گورنمنٹ کالج بوسن روڈ ملتان کے کشادہ گرائونڈ میں ’’پنجاب طلباء کنونشن‘‘ کے نام سے ایک ایسا تاریخ ساز اور یادگار اجتماع منعقد کیا جس کی طلباء سیاست میں مثال نہیں ملتی۔ اے ٹی آئی کی پوری تاریخ کے چند بڑے اور کامیاب ترین اجتماعات میں ’’پنجاب طلباء کنونشن‘‘ کا شمار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اس کنونشن کے موقع پر غیراعلانیہ پابندی کو توڑتے ہوئے حاجی محمد حنیف طیب کو ملتان کے اس تاریخی طلباء کنونشن میں شرکت کی دعوت دی۔ اس طرح حاجی محمد حنیف طیب کئی سالوں کے طویل وقفے کے بعد پہلی بار میری دعوت پر اے ٹی آئی کے کنونشن میں شریک ہوئے۔ اس کنونشن میں انڈیا سے معروف سکالر علامہ ارشد القادری‘ سیال شریف سے خواجہ غلام فخرالدین سیالوی‘ علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ‘ نوابزادہ نصراللہ خان‘ مخدوم جاوید ہاشمی‘ پیر سید مظہر سعید کاظمی‘ صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی‘ خواجہ سعد رفیق‘ سہیل ملک‘ الحاج شیخ امجد علی چشتی‘ صاحبزادہ سید ارشد سعید کاظمی کے علاوہ تمام طلباء تنظیموں کی لیڈرشپ بھی شریک ہوئی۔ یہ کنونشن نماز عشاء کے بعد شروع ہوا اور نماز فجر تک مسلسل جاری رہا۔ جاوید ہاشمی نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا طلباء اجتماع کبھی نہیں دیکھا۔ اس کنونشن میں محترم حاجی صاحب کی خوشی دیدنی تھی۔ کنونشن کے اختتام پر قائد محترم نے جس محبت و اپنائیت کے ساتھ مجھے تھپکی دی اس شفقت آمیز تھپکی کا لمس اور حرارت آج بھی میرے احساسات میں تازہ ہے اور وہی تھپکی مجھے آج بھی خدمت خلق کا کام کرتے ہوئے تھکنے نہیں دیتی‘ رکنے نہیں دیتی۔
یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دل میں ہزاروں ولولوں کی کائنات اور اپنے کمزور سے وجود میں لاکھوں اہل ہمت کا ثبات رکھنے والے محترم حاجی محمد حنیف طیب ہر دور اور ہر عہد میں اتحاد اہل سنت کیلئے کوشاں رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب انجمن طلباء اسلام کی صدارت کے منصب سے فراغت کے فوراً بعد 93ء میں میں نے اپنے مخلص ساتھیوں صاحبزادہ سید محمد صفدر شاہ گیلانی‘ صاحبزادہ فضل الرحمٰن اوکاڑوی‘ محمد نوازکھرل اور میاں افتخار احمد رضا کے ساتھ مل کر جماعت اہل سنت کے تین دھڑوں کو متحد کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا تو اس موقع پر اتحاد کے ناممکن کام کو ممکن بنانے میں جن اکابرین کی عملی مدد‘ مشاورت اور دعائیں ہمیں حاصل رہیں ان میں میرے عظیم شیخ طریقت‘ مفکر اسلام‘ مفسر قرآن حضرت علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ‘ حضور ضیاء الامت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہریؒ اور محسن اہل سنت محترم الحاج محمد حنیف طیب شامل تھے۔ انہی بزرگوں کی سرپرستی کی چھائوں میں ہم ناتواں اور کمزور نوجوانوں نے 23 برس کے بعد جماعت اہل سنت کے تین دھڑوں کو متحد کرنے کا ایسا کارنامہ سرانجام دیا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
خیر اور خوشبو کے نمائندے الحاج محمد حنیف طیب کو یہ اعزاز اور شرف بھی حاصل ہے کہ انہیں مسلک محبت کے عظیم قائدین‘ قائداہل سنت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقیؒ اور مجاہد ملت بطلِ حریت حضرت مولانا محمد عبدالستار خان نیازیؒ کے دستِ راست کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ محترم حاجی صاحب نے انجمن طلباء اسلام سے فراغت کے بعد عملی سیاست کا آغاز جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے کیا اور برس ہا برس مولانا نورانی کے انتہائی قریبی اور معتمد ساتھی کی حیثیت سے کراچی کی سیاست میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے لیکن بدقسمتی سے بعض ناعاقبت اندیش اور شرپسند عناصر کی سازشوں کے باعث حاجی صاحب کو مولانا شاہ احمد نورانی سے دور کر دیا گیا۔ مولانا نورانی اور مولانا نیازی کے اختلافات کے باعث جمعیت علماء پاکستان دو دھڑوں میں تقسیم ہوئی تو اس مرحلے پر مولانا نیازی نے الحاج محمد حنیف طیب کو اپنے ساتھ سیکرٹری جنرل کے منصب پر فائز کیا جبکہ اس کابینہ میں جگرگوشہ محدثِ اعظم پاکستان صاحبزادہ حاجی محمد فضلِ کریم سینئر نائب صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ میں نے اس موقع پر نظام مصطفیٰ پارٹی کو جے یو پی میں ضم کرنے کے فیصلے کی مخالفت کی تھی لیکن محترم حاجی صاحب نے اتحاد اہل سنت کی خاطر مولانا نیازی کے اصرار پر اپنی پارٹی کو جے یوپی میں ضم کر کے بڑے پن اور عظمت کا ثبوت دیا۔
جب پاکستان میں خارجی دہشت گردوں کی آگ بھڑک رہی تھی اور وطن عزیز خودکش دھماکوں کی زد میں تھا اور مزارات اولیاء پر حملے کیے جارہے تھے‘ تاریخ کے اس اہم موڑ پر ہمارے انجمن طلباء اسلام ہی کے سابق رہنمائوں سید محمد صفدر شاہ‘ فضل الرحمٰن اوکاڑوی اور محمد نواز کھرل کی مخلصانہ کوششوں سے تمام اہلِ سنت جماعتوں کا متحدہ پلیٹ فارم ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ کے نام سے تشکیل دیا گیا جس کا تاسیسی اجلاس حضرت علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ کی میزبانی میں ادارہ تعلیمات اسلامیہ راولپنڈی میں منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے اہم اکابرین اہل سنت شریک ہوئے جن میں علامہ سید حسین الدین شاہ‘ علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ‘ مفتی منیب الرحمان‘ صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم‘ پیر امین الحسنات شاہ‘ ڈاکٹر سرفراز نعیمی (شہید)‘ پیر سید مظہر سعید کاظمی‘ صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی‘ الحاج محمد حنیف طیب‘ ثروت اعجاز قادری اور دوسرے قائدین و عمائدین شامل تھے۔ اس اجلاس میں دلیر اور دلبر لیڈر صاحبزادہ فضل کریم کو سنی اتحاد کونسل کا چیئرمین اور الحاج محمد حنیف طیب کو مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب کیا گیا۔ سنی اتحاد کونسل کے اسی انقلابی اور متحدہ پلیٹ فارم پر الحاج محمد حنیف طیب نے صاحبزادہ فضل کریم کے ساتھ مل کر کرائے کے دہشتگردوں‘ نفرت کے بیوپاریوں اور موت کے سوداگروں کے خلاف توانا اور جرات مندانہ آواز اٹھائی۔ ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے تاریخی اجتماعات منعقد کئے گئے۔ کراچی تا راولپنڈی ٹرین مارچ کیا گیا اور اسلام آباد سے لاہور تک تاریخی لانگ مارچ کیا گیا۔ اس ساری دلیرانہ جدوجہد میں الحاج محمد حنیف طیب سنی اتحاد کونسل کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے پیش پیش رہے۔ جماعت اہل سنت کی سپریم کونسل کے رکن کے طور پر بھی محترم حاجی صاحب نے مسلک محبت کے فروغ کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں اور جماعت اہل سنت کے زیراہتمام موچی دروازہ لاہور کے مرکزی سنی کنونشن‘ مینار پاکستان اور قلعہ کہنہ قاسم باغ ملتان کی تاریخی سنی کانفرنسوں کے کامیاب انعقاد میں محترم حاجی حنیف طیب کا کردار و عمل ناقابل فراموش ہے۔
98ء میں میری شادی میں بھی محترم حاجی صاحب نے شریک ہو کر ایک کارکن کے ساتھ اپنی محبت و چاہت کا ثبوت دیا اور ولیمہ میں شرکت کیلئے تمام مصروفیات چھوڑ کر کراچی سے میاں چنوں پہنچے۔ میں 2000ء میں پاکستان سے انگلینڈ منتقل ہوا اور یہاں پر چند برس گزارنے کے بعد محترم حاجی حنیف طیب کے حکم پر اور اپنے پیرومرشد قبلہ شاہ جی کی اجازت اور دعا سے برطانیہ میں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے فلاحی مشن کا آغاز کیا۔ محترم حاجی صاحب کی مشاورت و رہنمائی اور قبلہ شاہ جی کی دعائوں کا ہی اثر ہے کہ آج الحمداللہ المصطفیٰ کا فلاحی و رفاہی نیٹ ورک دنیا کے بائیس ممالک تک پھیل چکا ہے۔ آج اگر ’’المصطفیٰ‘‘ آنکھوں کے ایک لاکھ مفت آپریشن مکمل کر کے دنیا کی چند بڑی فلاحی تنظیموں میں شامل ہو چکی ہے تو اس شاندار اور قابل فخر کامیابی کے پیچھے محترم حاجی صاحب کی شفقتیں‘ محبتیں‘ سرپرستی اور رہنمائی موجود ہے۔ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ محترم حاجی حنیف طیب کی قیادت و سیادت میں ان محروم انسانوں کا درد بانٹنے میں مصروف ہے جن کی زندہ آنکھوں میں زندگی لمحہ لمحہ مرتی دکھائی دیتی ہے۔ محترم حاجی صاحب 2014ء میں میری عاجزانہ دعوت پر برطانیہ تشریف لائے اور ڈیڑھ مہینہ تک یہاں مقیم رہے۔ اس دوران مجھے حاجی صاحب کی فیض رساں سنگت و صحبت میں وقت گزارنے‘ سفر کرنے اور ان کے شب و روز کے معمولات کا نہایت قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ میں نے دیکھا کہ برطانیہ کے بڑے بڑے علماء و مشائخ نے محترم حاجی صاحب کو بے پناہ محبتوں اور پذیرائی سے نوازا۔ محترم حاجی صاحب کو برطانیہ کی مذہبی و سماجی شخصیات کی طرف سے ملنے والی والہانہ پذیرائی کے دلکشا مناظر آج بھی میری آنکھوں میں لکھے ہوئے ہیں۔
حرکت میں برکت کا نظریہ اپنانے اور پھیلانے والے الحاج محمد حنیف طیب کی زندگی کے تین انکار تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ جگمگاتے رہیں گے۔ وفاقی وزیر ہوتے ہوئے اس وقت کے طاقتور صدرپاکستان جنرل ضیاء الحق کی بیگم کی ایک کرپٹ شخص کیلئے سفارش ماننے سے انکار۔۔۔ پاکستان میں دفن ہونا بھی گوارا نہ کرنے والے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کی نماز جنازہ میں شرکت کیلئے وزیراعظم محمد خان جونیجو کا حکم ماننے سے انکار۔۔۔ 85ء کا الیکشن جیتنے کے بعد وزیربننے کے لئے مسلم لیگ میں شمولیت سے انکار۔۔۔ کیا یہ کمال نہیں ہے کہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ میں واحد غیر مسلم لیگی وزیر الحاج محمد حنیف طیب تھے جنہوں نے وزارت کیلئے مسلم لیگ میں شمولیت سے انکار کر دیا تھا۔
ملک و قوم کیلئے تڑپتا ہوا دل اور اجلی آرزوئوں سے مہکتے خیالات رکھنے والے الحاج محمد حنیف طیب کی اپنے پیرخانے کے ساتھ محبت و عقیدت کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد نے حاجی محمد حنیف طیب کو مظفرگڑھ سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ جاری کردیا لیکن اسی نشست پر جمعیت علمائے پاکستان نے قیوم جتوئی کو ٹکٹ دے کر انتخابی میدان میں اتار دیا۔ اس حلقہ میں حاجی محمد حنیف طیب کے پیرخانے کاظمی خاندان کا بے پناہ اثرورسوخ ہے اور ووٹرز کی واضح اکثریت قبلہ کاظمی صاحب کے ساتھ عقیدت رکھتی ہے اس طرح اس حلقہ میں قبلہ کاظمی صاحب کے مریدین کسی بھی امیدوار کی کامیابی یا ناکامی میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اس وقت صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی جمعیت علمائے پاکستان کے صوبائی صدر تھے۔ غلام حیدر وائیں نے میری موجودگی میں حاجی محمد حنیف طیب کو فون کر کے اصرار کیا کہ اگر وہ پیر سید مظہر سعید کاظمی یا ان کے خاندان کے کسی بھی فرد سے قیوم جتوئی کو فون کروا دیں تو وہ فوراً الیکشن سے دستبردار ہو جائے گا کیونکہ کاظمی خاندان کی حمایت کے بغیر وہ جیت نہیں سکتا۔ حاجی صاحب نے اپنے پیرخانے کو امتحان میں ڈالنا آدابِ طریقت کے منافی سمجھا اور اس یقینی کامیابی والی نشست سے اپنے کاغذات واپس لے لئے۔
خاکِ راہِ حجاز کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنا لینے والے الحاج محمد حنیف طیب کی ایک نمایاں خوبی تنظیمی و جماعتی اجلاسوں کے دوران اپنی کمال معاملہ فہمی‘ حسنِِ گفتار اور حکمت و تدبر کے ہتھیار سے اختلافی امور کو حل کر لینا بھی ہے۔ مجھے برس ہا برس جماعت اہل سنت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے جماعت اہلِ سنت پاکستان کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شریک ہونے کا موقع ملا‘ اس دوران میں نے کئی بار دیکھا کہ جب کبھی اجلاس میں کسی گمبھیر مسئلے پر ڈیڈلاک پیدا ہو جاتا اور صورتحال انتہائی سنگین شکل اختیار کر لیتی تو اس نازک مرحلے پر الحاج محمد حنیف طیب کمال مہارت‘ حسنِ تدبر اور اپنے مفاہمانہ انداز گفتگو کے ذریعے اختلافی مسئلے کو کسی ایسے حل کی طرف لے جاتے کہ سب مطمئن ہو جاتے۔
ذکر ربی اور عشق نبی سے سرشار الحاج محمد حنیف طیب کی سادگی بھی ضرب المثل بن چکی ہے۔ حاجی صاحب انتہائی سادہ اور کم قیمت لباس زیب تن کرتے ہیں۔ جب حاجی صاحب میرے پاس برطانیہ میں ڈیڑھ ماہ مقیم رہے تو انہیں شاپنگ سے زیادہ علماء و مشائخ سے ملاقاتوں میں دلچسپی تھی۔ میں نے جب بھی کچھ خریدنے کی بات کی تو مسکرا کر ٹال دیتے جبکہ اس کے برعکس میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ ہمارے دینی و سیاسی رہنما انتہائی قیمتی لباس پہنتے ہیں۔ ہمارے لاہور کے ایک عالم دین فخر سے بتایا کرتے تھے کہ میں نے لاکھوں روپے اپنے جسم پر لپیٹ رکھے ہیں‘ وہ اپنی گھڑی‘ جوتوں‘ اچکن‘ ٹوپی‘ چھڑی‘ قلم‘ عینک اور لباس کی قیمت بتا کر کہتے تھے کہ ان سب چیزوں کی کل مالیت لاکھوں میں بنتی ہے۔
بلاشبہ الحاج محمد حنیف طیب کا تابناک ماضی اور شاندار حال روشن حقیقتوں کا امین ہے۔ المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی جیسے ملک گیر فعال و متحرک فلاحی ادارے کا قیام اور پھیلائو۔۔۔ 52 سالہ شاندار تاریخ کی حامل طلباء تنظیم انجمن طلبہ اسلام کی تشکیل۔۔۔ وفاقی وزارت۔۔۔ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد اور کراچی یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ کی رکنیت۔۔۔ وزیراعلیٰ سندھ کی کابینہ میں بطور مشیر صحت شمولیت۔۔۔ آل پاکستان میمن فیڈریشن کی صدارت۔۔۔ نظام مصطفیٰ پارٹی کی قیادت۔۔۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت۔۔۔ سنّی اتحاد کونسل کی سیکرٹری جنرل شپ۔۔۔ تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیٰ میں مجاہدانہ اور دلیرانہ کردار۔۔۔ یہ سب تابندہ حوالے اور دلکش اجالے اسی ایک شخص‘ الحاج محمد حنیف طیب کی گرہ میں بندھے ہوئے ہیں۔ اپنے ماتھے کے پسینے سے ستارے ڈھالنے والے الحاج محمد حنیف طیب کی غیرت دینی کا ایک درخشاں پہلو ان کا اسلامی نظریاتی کونسل جیسے اہم ادارے کی رکنیت سے استعفیٰ دینا ہے۔ ان کا یہ جرات مندانہ استعفیٰ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں الحاج محمد حنیف طیب اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے اور اس رکنیت کی مراعات قومی اسمبلی کے ممبر کے برابر تھیں لیکن جب کونسل میں حدود آرڈیننس جیسا غیر اسلامی بل منظور ہوا تو الحاج محمد حنیف طیب نے بطور احتجاج کونسل کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ (یاد رہے کہ اس موقع پر جماعت اہل سنت پاکستان کے مرکزی امیر پیر سید مظہر سعید کاظمی نے بھی استعفیٰ دیا تھا)
تصادم نہیں تعاون اور غرور نہیں شعور پر یقین رکھنے والے الحاج محمد حنیف طیب کم و بیش چالیس سال سے سیاست میں سرگرم عمل ہیں لیکن ان کا دامن دودھ کی طرح اجلا اور سفید ہے۔ وہ سیاست کو تجارت نہیں عبادت سمجھتے ہیں۔ حاجی صاحب ان اقتدار پرست سیاست دانوں میں سے نہیں جو اقتدار کے ایوان کو ہی دین اور ایمان سمجھتے ہیں۔ ان کا سیاست سے معاشی اور عیاشی کا نہیں نظریاتی رشتہ ہے۔ یہ الزام اور انتقام کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کی سیاست مفاداتی نہیں نظریاتی ہے۔ ان کی سیاست کرسی اور کمیشن‘ ظلم اور جرم سے پاک ہے۔ حاجی صاحب جس جس محکمے کے وزیر رہے اس کے زوال کو کمال میں بدل ڈالا۔ حاجی صاحب ان مفاد پرست سیاستدانوں میں سے نہیں جو ’’سیاست بذریعہ دولت اور دولت بذریعہ سیاست‘‘ کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ اس پاکباز انسان کی سیاست کی سفید چادر پر ذاتی مفادات‘ کرپشن‘ اقرباپروری اور بدعنوانی کا کوئی دھبہ نظر نہیں آتا۔
پیارے پڑھنے والے! میں نے انجمن طلباء اسلام میں کم و بیش پندرہ سال اہم ذمہ داریوں پر کام کیا ہے۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ حاجی محمد حنیف طیب ہمیشہ اے ٹی آئی کے ساتھ خود بھی تعاون کرتے رہے اور بے شمار دوسرے افراد کو بھی انہوں نے اے آٹی اے کے ساتھ مالی تعاون پر آمادہ کیا لیکن کبھی بھی کسی بھی مرحلے پر الحاج محمد حنیف طیب نے انجمن طلباء اسلام کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیا۔ حاجی محمد حنیف طیب نے اپنی وزارت کے دوران ملک بھر کے بے شمار سابقین انجمن کی سرکاری ملازمتوں کا بندوبست کیا۔ حاجی صاحب اس قدر اعلیٰ ظرف انسان ہیں کہ وزارت کے دوران جمعیت علمائے پاکستان کے ان بزرگوں کے کام ترجیحی بنیادوں پر کروائے جنہوں نے ناصرف الیکشن میں حاجی صاحب کی مخالفت کی بلکہ وزیر بننے کے بعد بھی کردارکشی جاری رکھی۔ ان تمام قابلِ قدر بزرگوں کے رقعے اور سفارشی خطوط آج بھی حاجی صاحب نے محبت کی نشانی کے طور پر سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ حاجی صاحب نے وزارت کے دور میں ہر روز کسی عرس یا کسی دینی مدرسے کے سالانہ جلسے میں شرکت کو اپنا مستقل معمول بنائے رکھا۔ اس دور کے 9بجے والے پی ٹی وی کے خبرنامے میں حاجی حنیف طیب کی خبر کا کبھی ناغہ نہ ہوا جو ان کے غیرمعمولی تحرک کی دلیل ہے۔
الحاج محمد حنیف طیب پیرانہ سالی اور علالت کے باوجود ستر برس کی عمر میں بھی جوانوں کی طرح ہمہ وقت متحرک اور سرگرم رہتے ہیں۔ اکتوبر 2019ء میں المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ نے تاریخ کے طویل ترین کرفیو سے متاثرہ کشمیری بچوں کیلئے ادویات‘ دودھ اور دوسری ضروریات زندگی کی اشیاء پر مشتمل ایک سو ٹرکوں کا ’’سیو آور چلڈرنز ان کشمیر کارروان‘‘ مظفرآباد سے چکوٹھی بارڈر تک لے جانے کا فیصلہ کیا تو الحاج محمد حنیف طیب نے کراچی سے اسلام آباد پہنچ کر 25 ستمبر 2019 ء کو نیشنل پریس کلب میں برطانیہ سے آئے ہوئے ہنسلو جامع مسجد کے رہنمائوں کے ہمراہ ’’سیو آور چلڈرنز ان کشمیر مہم‘‘ اور 26 اکتوبر کے کارروان کا خود اعلان کیا اور اگلے روز 26 ستمبر کو لاہور میں المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی پنجاب کے عہدیداران کے اجلاس میں شرکت کر کے ’’سیو آور چلڈرنز ان کشمیر مہم‘‘ کیلئے المصطفیٰ کے کارکنان کو متحرک اور پرجوش کر دیا اورپھر 26 اکتوبر 2019ء کے تاریخی دن الحاج محمد حنیف طیب کراچی سے طویل سفر طے کر کے مظفرآباد پہنچے اور برطانیہ سے آنیوالے ممبرانِ پارلیمنٹ‘ ہائوس آف لارڈز کے اراکین اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے نمائندوں کے ہمراہ سامان سے لدے ہوئے 100 ٹرکوں کے بڑے کارروان کے ساتھ بھارتی فائرنگ کی زد میں رہنے والی کنٹرول لائن کے قریب چکوٹھی کے حساس ترین مقام پر بڑے جلسہ سے خطاب کیا۔ اس جلسہ میں وزیراعظم آزادکشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے اپنی تقریر میں حاجی محمد حنیف طیب اور المصطفیٰ کی فلاحی خدمات کی دل کھول کر تعریف کی۔ اس موقع پر برطانیہ سے آنیوالے غیرملکی مہمان الحاج محمد حنیف طیب کی شخصیت اور گفتگو کے گرویدہ نظر آئے۔ چکوٹھی کے اس یادگار جلسہ میں قومی اسمبلی کے سابق رکن اور پاکستان بیت المال کے سابق چیئرمین زمرد خان نے اپنے خطاب میں حاجی حنیف طیب کو اپنا استاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ حاجی محمد حنیف طیب پاکستان میں اصولی اور دیانت دارانہ سیاست کی اجلی علامت ہیں اور خدمت خلق کیلئے ان کی شاندار خدمات کا پورا ملک معترف ہے۔
نومبر 2019ء میں قبلہ اول بیت المقدس کے امام و خطیب الشیخ محمد عمر فہمی الکسوانی مجھ فقیر کی عاجزانہ دعوت پر پاکستان کے دورے پر تشریف لائے‘ اس دورہ پاکستان کے دوران امام مسجدِ اقصیٰ المصطفیٰ کے فلاحی مراکز کے وزٹ کیلئے کراچی بھی تشریف لے گئے۔ کراچی میں انہوں نے المصطفیٰ کی طرف سے اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے فلاحی سفر کی تحسین کی اور حاجی محمد حنیف طیب کو اپنا دوست اور رفیق قرار دے کر ان کے ساتھ اپنی محبت کا فراخدلانہ اظہار کیا۔ کراچی سے واپس لاہور آتے ہوئے جہاز میں بھی میرے ساتھ گفتگوکرتے ہوئے امام مسجدِ اقصیٰ شیخ عمر فہمی حاجی محمد حنیف طیب کیلئے رطب اللسان رہے اور بار بار فرماتے رہے کہ میں حاجی صاحب کی شخصیت اور کرداروعمل سے بے پناہ متاثر ہوا ہوں۔
الحاج محمد حنیف طیب کی شاندار اور باکمال شخصیت کا ایک مضبوط حوالہ اپنے مسلک اور اپنے مسلک کی جماعتوں کے ساتھ لازوال اور بے مثال وابستگی ہے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دوران منور سہروردی کے ذریعے حاجی صاحب کو پیپلزپارٹی جوائن کرنے کی صورت میں وفاقی وزیر بنانے کی آفر کی جسے حاجی صاحب نے قبول کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اسی طرح میاں برادران بھی ہمیشہ اور ہر دور میں حاجی حنیف طیب کو مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی بار بار دعوت دیتے رہے کیونکہ انہیں کراچی میں حاجی صاحب جیسی ایک نیک نام اور مقبول شخصیت کی ضرورت تھی لیکن حاجی محمد حنیف طیب نے ہمیشہ اپنی ذاتی سیاست اور ذاتی مفاد کی بجائے اپنے مسلک کی نظریاتی سیاست کو ترجیح دی۔ 2018ء کے انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی میں شمولیت اور کراچی سے ٹکٹ دینے کی پرکشش آفر بھی حاجی حنیف طیب نے کمال بے نیازی سے مسترد کردی۔ حاجی محمد حنیف طیب کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ جب کئی عشروں تک پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ایم کیو ایم کی گرفت میں تھا اور اس شہر میں الطاف حسین کا سِکّہ چلتا تھا ‘ دہشت و وحشت اور خوف سے بھرے اس طویل دور میں ملک کا ہر بڑا سیاستدان اور ہر بڑا حکمران ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر حاضریاں دیتا رہا لیکن الحاج محمد حنیف طیب کبھی بھی نائن زیرو نہیں گئے۔ جب حاجی صاحب لندن میں میرے پاس ٹھہرے ہوئے تھے تو میری موجودگی میں کئی بار پاکستان سے گورنر سندھ عشرت العباد کا حاجی صاحب کو فون آیا اور اس وقت کا طاقتور گورنر حاجی صاحب سے بار بار درخواست کرتا رہا کہ آپ برطانیہ میں قیام کے دوران الطاف بھائی سے بھی ملاقات کرلیں لیکن حاجی صاحب اپنے انکار پر قائم رہے اور ملک کے غدار سے ملاقات کرنا گوارا نہ کیا۔
صلح جو الحاج محمد حنیف طیب اے ٹی آئی کے سابقین کے اتحاد کیلئے بھی ہمیشہ مخلصانہ کوششیں کرتے رہے ہیں لیکن افسوس کہ کچھ نادان دوستوں کی ضد اور ہٹ دھرمی ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیتی۔ الحاج محمد حنیف طیب کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ پیرسید مظہر سعید کاظمی‘ علامہ پیر سید ریاض حسین شاہ اور علامہ سید شاہ تراب الحق قادریؒ پر مشتمل کمیٹی کا فیصلہ تسلیم کرتے ہیں لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ غیرمتنازعہ اور سب کیلئے قابل قبول بزرگوں کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے والے دوست سابقین کے اتحاد کی راہ میں مسلسل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اگر بزرگوں کے فیصلے کو سب تسلیم کر لیں تو سابقین انجمن طلباء اسلام کا انتشار اتحاد میں بدل سکتا ہے۔ اکتوبر 2019ء میں ہمارے اے ٹی آئی کے پرانے سابق ساتھی اعجاز احمد فقہی نے سابقین کے اتحاد کیلئے حضرت داتا گنج بخش کے عرس کے موقع پر جامعہ حزب الاحناف لاہور میں منعقدہ سید ہجویر کانفرنس میں الحاج محمد حنیف طیب کو شرکت کی دعوت دی۔ حاجی صاحب ناصرف اس کانفرنس میں شریک ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی انتہائی مثبت تقریر میں اعلان کیا کہ محمد نوازکھرل اور اعجاز احمد فقہی باہمی مشورے سے بیس سینئر سابقین کی فہرست تیار کر کے ان کا اجلاس بلائیں‘ اس اجلاس میں جو بھی فیصلہ ہو گا میں اسے تسلیم کروں گا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ حاجی صاحب کی اس پیشکش کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
خدمت خلق کے شعبے میں الحاج محمد حنیف طیب کا کوئی ثانی ہے نہ حریف اور نہ متبادل۔ ستر سال کے دوران انہوں نے کبھی چھٹی نہیں کی۔ ’’مخلوق سے بھلائی خالق تک رسائی‘‘ کی سوچ اپنانے اور پھیلانے والے اس مرد باخدا نے خدمت کی نماز کبھی قضا نہیں کی۔ اللہ کے لاچار و بیمار اور مجبورومعذور بندے ہمیشہ ان کی محبتوں اور توجہات کا مرکز رہے ہیں۔ زندگی بھر حی علی الفلاح کا پیغام پھیلانے والے الحاج محمد حنیف طیب نے خلق خدا کی بے لوث خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا ہے۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ‘ ہر دن‘ ہر دن کی ہر صبح‘ دوپہر اور شام لوگوں کے مسائل سننے اور انہیں حل کرنے کیلئے وقف ہے۔ حاجی صاحب کراچی میں موجود ہوں تو ہر روز کسی شادی یا کسی جنازے میں شرکت کرنا ان کا مستقل معمول ہے۔ دل گرفتہ و دل شکستہ کارکنان کو حوصلہ دینا ان کا شیوہ ہے۔ کارکنان کے گلے شکوے کھلے دل کے ساتھ سننا اور انہیں مطمئن کرنا ان کی عادت ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ 2019ء کے جولائی میں وطن عزیز پاکستان کے معروف کالم نگار اور اینکر برادرم سہیل وڑائچ نے الحاج محمد حنیف طیب کیلئے ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ کی ریکارڈنگ کا فیصلہ کیا۔ پیارے بھائی سہیل وڑائچ کے محبت بھرے اصرار پر میں بھی اس پروگرام کی ریکارڈنگ میں حصہ لینے کے لئے برطانیہ سے کراچی پہنچا اور کراچی پہنچ کر ریکارڈنگ کے انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے برادرم وجاہت علی خان اور محمد نوازکھرل کے ہمراہ حاجی صاحب کے فلیٹ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ان کے چھوٹے سے ڈرائنگ روم میں اے سی کی سہولت موجود نہیں ہے۔ جولائی کی سخت ترین گرمی میں کیمروں کی تیز روشنیوں میں تنگ ڈرائنگ روم میں بغیر اے سی کے پروگرام ریکارڈ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پر حاجی صاحب کے ڈرائنگ روم میں کرائے پر عارضی اے سی کا بندوبست کیا گیا۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ وفاقی وزیر کے منصب پر فائز رہنے والے اور المصطفیٰ کے اربوں روپے کے پراجیکٹ کھڑے کرنے والے فرد کے گھر میں اے سی کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔ الحاج محمد حنیف طیب حکم الامت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر ہیں:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
الحاج محمد حنیف طیب امیدوں‘ آرزوئوں اور خوابوں سے بھرے ہوئے انسان ہیں جن سے مل کر جسم و جاں میں ایک ولولہ تازہ پیدا ہوتا ہے‘ ایک امید جاگتی ہے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ جاگ اٹھتا ہے۔ حاجی صاحب کی ہر تقریر اور ہر گفتگو سننے والوں میں خدمت خلق کا جذبہ‘ دین کی خدمت کی امنگ‘ مشکلات سے ٹکرانے کا حوصلہ جگاتی ہے اور ستاروں پر کمند ڈالنے کا پیغام دیتی ہے کیونکہ الفاظ ان کی زبان سے نہیں دل سے نکلتے ہیں اور سیدھے دلوں میں اترتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی گفتگو سن کر گمشدہ آرزوئوں کا سراغ ملتا ہے۔ حاجی صاحب کی حوصلہ افزائیوں نے بے شمار غنچوں کو پھول بنا دیا ہے۔ حاجی صاحب ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو تلقین کرتے ہیں کہ زبان کو آلودہ‘ عمل کو فرسودہ اور گفتگو کو بے ہودہ نہیں کرنا۔ خودی نہ بیچ کر غریبی میں نام پیدا کرنے والے الحاج محمد حنیف طیب ان نادرونایاب لوگوں میں سے ایک ہیں جو یاد رکھے جاتے ہیں‘ جنہیں دہرایا جاتا ہے‘ جن کی تقلید کی جاتی ہے‘ جن کا حوالہ دیا جاتا ہے اور جن سے محبت کی جاتی ہے۔ پاکستانیت ان کی رگ رگ میں موجزن ہے‘ اسلامیت ان کے لہو میں تڑپتی ہے اور انسانیت ان کی سوچوں کا مرکزو محور ہے۔ ان کی زندگی کے سارے رنگ اور آہنگ اسلام اور پاکستان سے وابستہ ہیں۔ نگاہ بلند‘ سخن دلنواز اور جاں پرسوز کی خوبیوں سے مالامال الحاج محمد حنیف طیب سگِ دنیا نہیں سگِ مدینہ ہیں۔ وہ کم وسائل اور زیادہ مسائل والوں کے ہمدرد اورخیرخواہ ہیں۔ کسی سے نفرت کرنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ ان کی سچائی اور بڑائی ان کے قول و فعل سے ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی زندگی کے شب و روز اور ان کے معمولات حیات کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے قرونِ اولیٰ کا کوئی ہیرو کتابوں کے اوراق سے نکل کر ہماری آنکھوں کے سامنے آکھڑا ہوا ہو۔ بڑھاپے کی سرحد پر کھڑے ہو کر بھی متحرک و فعال زندگی گزارنے والے الحاج محمد حنیف طیب کی زندگی میں گالی نہیں دلیل ہے‘ سازش نہیں عمل ہے‘ جھوٹ نہیں سچ ہے اور دعوے نہیں حقیقت ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ زندگی کا سکون‘ دل کی راحت‘ گہری نیند‘ بے فکری اور بڑھاپے کو پرمسرت اور ذہنی آسودگی سے گزارنا چاہتے ہو تو اس کا راز رزقِ حلال میں پوشیدہ ہے۔ ملک و قوم کیلئے نشانِ عظمت بن جانے والے الحاج محمد حنیف طیب نام ہے ایک صداقت کا جو ہمیشہ جھوٹ اور منافقت سے پنچہ آزما رہی‘ نام ہے ایک روشنی کا جس سے اندھیرے مرعوب رہے۔ ان کی چال میں تمکنت اور وقار‘ ان کے سراپے میں بانکپن‘ ان کے چہرے پر شرافت و نجابت کا نکھار‘ ان کی آنکھوں میں غیرت و حمیت کی روشنی اور ان کی باتوں میں مردِ حق کی سی بے باکی جھلملاتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنے زمانے کو پیغمبر اسلام رسول کریم ﷺ کے زمانے سے مربوط کرنے کی خواہش ان کے وجود میں لبالب بھری ہوئی ہے۔ وہ اقبال کا مردِ مومن ہیں اور شاہین بھی۔ یہ شعر ان پر صادق آتا ہے کہ:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
ٹھنڈے میٹھے اور دھیمے مزاج کے شائستہ اطوار انسان الحاج محمد حنیف طیب اس لئے بھی بڑے انسان ہیں کہ ان سے مل کر کوئی خود کو چھوٹا نہیں سمجھتا۔ منافقتوں اور مفادپرستیوں سے لتھڑے ہوئے اس بے چہرہ دور میں الحاج محمد حنیف طیب سر سے پائوں تک محبت‘ اخلاق اور دردمندی کی خوشبو میں بسا ہوا انسان ہے۔ شخصی شرافت‘ سادگی اور عوامیت ان کی طبیعت میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ان کے ضمیر اور خمیر میں انکساری اور وضعداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ان کی اسی انکساری نے انہیں قدم قدم پر سرفراز کیا ہے۔ ان کی فطرت کا یہ حسن وزارت کی کرسی پر بیٹھ کر بھی قائم رہا۔ وہ ان بہت کم لوگوں میں سے ایک ہیں جو اعلیٰ عہدوں پر پہنچ کر بھی اپنے اندر نخوت‘ تکبر اور غرور کو داخل ہونے نہیں دیتے اور خلقِ خدا پر محبت نچھاور کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے زندگی میں گھاس بننے کی بجائے درخت بننے کی کوشش کی ہے۔ وہ فرعون جیسی زندگی اور موسیٰ جیسی عاقبت کے فارمولے کے قائل نہیں اور نہ ہی انہوں نے ایسی غافل آنکھ پائی ہے جو اس وقت کھلے جب بند ہونے کے قریب ہو۔ حاجی حنیف طیب کی ذہانت‘ بصیرت‘ تجربہ اور ویژن حیرت انگیز ہے۔ ان کی یادگار اور شاہکار زندگی ایک ترنگ اور امنگ میں گزری ہے۔ حاجی صاحب بہترین انسانوں میں سے بہترین انسان ہیں جنہوں نے اپنے عظیم کارناموں کے ذریعے تاریخ کی پیشانی پر اپنا نام ثبت کردیا اور اس خوش بخت انسان نے دولت نہیں نام کمایا ہے۔ حاجی حنیف طیب کے اخلاص اور محنت نے انہیں اہل حق کی آنکھ کا تل اور دل بنا دیا ہے۔ ایسے افراد زمین کا نمک‘ معاشرے کا جوہر اور سماج کا عطر ہوتے ہیں۔
مت سہل ہمیں جانو‘ پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
الحاج محمد حنیف طیب زندگی بھر اپنے حصے کی شمعیں جلاتے رہے ہیں اور ان کو روشن رکھنے کے لئے خون جگر کو تیل بنا کر جلاتے رہے ہیں۔ ان کی زندگی جوشِ عمل اور حسنِ عمل سے عبارت ہے۔ انہوں نے کبھی امید اور جذبے کی شمع کو بجھنے نہیں دیا۔ وہ اپنی بات نرمی سے کہتے اور دل میں نقب لگا لیتے ہیں۔ ان کو ہر شخص سے پیار ہے اور ان سے ہر شخص پیار کرتا ہے۔ وہ صرف ایک فرد اور ایک انسان نہیں ایک دور ہے‘ ایک تحریک ہے اور ایک تاریخ‘ روشن تاریخ‘ جگمگاتی تحریک اور جاوداں دور۔ جن کی زندگی کا ہر لمحہ میرے جیسے کارکن کیلئے مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے ایمان و یقین کی روشنی میں زندگی بسر کرنے والے الحاج محمد حنیف طیب اکثر حضرت مولیٰ علی شیر خدا کا یہ ارشادِ گرامی سناتے ہیں: ’’زندگی کو ضرورت کی طرح گزارو‘ خواہش کی طرح نہیں‘ کیونکہ ضرورت فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہے لیکن خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتی‘‘۔ الحاج محمد حنیف طیب کے ساتھ طویل رفاقت کے دوران ان کی کچھ حکیمانہ باتوں کو میں ڈائری میں نوٹ کرتا رہا۔ وہ نصیحتیں آج میں آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ حاجی صاحب کہا کرتے ہیں کہ زندگی دوسروں کی خامیوں پر نہیں‘ اپنی خوبیوں پر بسر کی جاتی ہے۔۔۔ ناکامی کو کبھی دل میں اور کامیابی کو کبھی دماغ میں جگہ نہ دینا۔۔۔ بدگمانی اور بدزبانی ہر کمال کو زوال میں بدل دیتی ہے۔۔۔ شعور اور غرور ایک جگہ اکھٹے نہیں ہو سکتے۔۔۔ جن کی آنکھوں میں منزل ہوتی ہے ان کے چہرے پر مایوسی نہیں ہوتی۔۔۔ جذبات نہیں جذبہ جگائو۔۔۔ معاف کرنا‘ برداشت کرنا‘ محبت کرنا اللہ کے محبوب رسول کی سنت ہے۔۔۔ آسودگی سادگی میں ہے۔۔۔ وضع دار اور روادار الحاج محمد حنیف طیب اکثر اپنی تقریروں میں کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’آسمانی اصول ہے کہ جو تقسیم کرو گے وہ بڑھتا جائے گا چاہے وہ علم ہو‘ دولت ہو‘ محبت ہو یا دوسروں کیلئے آسانیاں ہوں۔‘‘
نئی روشن صبح کے پیامبر الحاج محمد حنیف طیب کا کردارو عمل آنے والی نسلوں کی رہنمائی کرتا رہے گا اور ان کی روشن کردہ راہیں ہم جیسے کارکنوں کو نئی منزلوں سے ہمکنار کرتی رہیں گی اور ہم ان کے جلائے ہوئے چراغ کی روشنی میں آگے بڑھتے رہیں گے۔ ذلت اور اذیت سہتے اُفتادگانِ خاک کے سچے ہمدرد اور خیرخواہ حاجی محمد حنیف طیب سے متعلق اس ناتمام مضمون کو اس شعر پر ختم کرتا ہوں کہ:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں‘ بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اُس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں