756

اسلام میں پڑوسیوں کے حقوق

حقوق العباد میںسے ایک اہم حق پڑوسی کا حق ہے جس کی جانب اسلام نے بڑی توجہ دلائی ہے ۔رسول اللہ ۖ کاارشاد ہے کہ جبرئیل نے مجھ کو پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید کی کہ مجھے خدشہ ہوگیاکہ پڑوسیوں کوبھی وراثت میں حقدار قراردے دیاجائے۔()یہ ارشاد رسول ہی اپنے آپ میں یہ بیان کردے رہاہے کہ پڑوسیوں کے حقوق کی کتنی شدت سے تاکید بیان کی گئی ہے۔دوسری طرف اگرہم اپنی زندگی کو دیکھیں اورتھوڑاغورکریں کہ کیاکبھی ہم نے اپنے پڑوسی کے حقوق اداکرنے کی طرف توجہ کی ہے۔ کیااسلام میں پڑوسی کے جوحقوق بیان کئے گئے ہیں اوربطور ایک پڑوسی قرآن وحدیث میں ہم پر جوذمہ داری عائد کی گئی ہے اسے ہم نے پوراکیاہے۔اگرانصاف سے جواب کی تلاش کی جائے توجواب یہی ہوگانہیں؟اوریہی وجہ ہے کہ آج ہماری زندگی سے چین وسکون اٹھ گیاہے۔ہرشخص کواپنی فکر ہے۔پڑوسی پڑوسی کے حالات سے بے خبر ہے اورکوئی ایک دوسرے پر بھروسہ کرنے کیلئے تیار نہیں۔اگراسلامی تعلیمات کو اپنایاجائے اوربالخصوص پڑوسی کے جوحقوق قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں ان کی جانب توجہ دی جائے توشاید ہمارے معاشرے اورسماج سے جوچین وسکون اٹھ گیاہے وہ دوبارہ واپس آجائے اورہماری معاشرت بہت خوبصورت ہوجائے۔
قرآن کریم نے ایک مقام پر پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید ہے اوریہ حسن سلوک کس طرح ہو،اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات گرامی سے واضح کیاہے۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی ہی یہی تھا کہ لتبین للناس مانزل الیھم کہ قرآن کی آیتوں کو واضح کریں،کھول کر بیان کردیں۔اس کے مفہوم ومعانی سے لوگوں کوآگاہ کریں۔
قرآن کی آیت
ترجمہ: اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور حسن سلوک سے پیش آؤ والدین کے ساتھ، قرابت داروں کے ساتھ، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ، پڑوسیوں کے ساتھ خواہ قرابت والے ہوں خواہ اجنبی، نیز آس پاس کے بیٹھنے والوں اور مسافروں کے ساتھ اور جو (لونڈی غلام یا ملازم) تمہارے قبضے میں ہوں ان کے ساتھ (کیونکہ) اللہ ان لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اترائیں اور بڑائی مارتے پھریں،(النساء ۳۶:۴)
احادیث
۱۔ ابوشریح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، بخدا وہ آدمی مومن نہیں ہے، پوچھا گیا کون یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بے خوف نہ ہو (صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 955)
۲۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام پڑوسی کے لئے برابر ہمیں وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہوا کہ اس کو وارث بنادیں گے(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 953 )

وضاحت
مندرجہ بالا آیت اور احادیث سے آپ کو پڑوسی کی اہمیت کا اندازہ ہوہی گیا ہوگا۔ لیکن آج کے دور میں پڑوسی کے حقوق پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا بلکہ لوگوں کے نزدیک یہ کوئی دین کا تقاضا ہی نہیں کیونکہ اکثر لوگ عبادات یعنی نماز روزہ حج زکوٰۃ ہی کو دین سمجھتے ہیں ۔دوسری جانب اگر اخلاقیات بالخصوص پڑوسی کے حقوق پر احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو علم ہوتا ہے پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے ایمان اسی طرح خطرے میں پڑجاتا ہے جیسے نماز یا روزہ ترک کرنے سے۔
اس آرٹیکل کا بنیادی مقصد پڑوسی کی تعریف،اسکے حقوق کا تعین ، اس میں ہونے والی کوتاہیاں اور ان کا علاج بتانا ہے۔تاکہ قیامت کے دن ہماراکوئی پڑوسی گریبان پکڑ لے اور ساری نیکیاں اپنے کھاتے میں ڈال کر لے جائے۔
پڑوسی کی تعریف
پڑوسی سے مراد آس پاس کے مکان ، دکان، فلیٹ ، جھگی یا دیگر عمارتوں میں رہنے والے لوگ ہیں۔البتہ پڑوسی کی ایک اور قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جو کسی وجہ سے ہم نشینی کا سبب بن جاتی ہے ۔اسکی تفصیل کے لئے اگر ہم سورہ نسا ء کی آیت نمبر ۳۶ کو سامنے رکھیں تو صورت حال کچھ یوں بنتی ہے۔
۱۔ رشتے دار پڑوسی
یہ وہ ہمسایہ ہے جو رشتے دار بھی ہے۔ اس کا حق دیگر پڑوسیوں کے مقابلے میں مقدم ہے۔
۲۔ اجنبی پڑوسی
اس سے مراد وہ پڑوسی ہے جو رشتے دار نہیں بلکہ صرف پڑوسی ہے۔ اس کا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔
۳۔ہم نشین یا پہلو کا ساتھی
یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو۔ اس اصطلاح سے مراد ایک گھر یا عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ،دفتر ، فیکٹری یا کسی اور ادارے میں ساتھ کام کرنے والے افراد، تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ساتھی، دوست اور دیگر ملنے جلنے والے احباب شامل ہیں۔
چنانچہ پڑوسی کے لفظ کو قرآنی آیت کی روشنی میں ان سب پر وسعت سی جانی چاہئے۔ اس وسعت کے بعد ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمسایہ کون ہے اور کون نہیں؟ کچھ علما ء نے ارد گرد کے چالیس گھروں کو پڑوس میں شمار کیا ہے۔ لیکن یہ تعین مناسب نہیں۔ آج کل کی شہری زندگی میں پرانے محلوں کا تصور بدلتا جارہا ہے۔ بڑے گھر اور کوٹھیوں کے ارد گرد بعض اوقات دور دور تک کوئی گھر نہیں ہوتا تو ان کا ہمسایہ کون کہلائے گا ؟ اسی طرح متوسط علاقوں میں بھی زندگی کی تیز رفتاری کے باعث گھر والوں ہی سے ملاقات نہیں ہوپاتی چہ جائکہ ۴۰ گھر دور پڑوسی کی خبر گیری کی جائے۔ چنانچہ ہمسائگی کی تعریف میں دائیں ،بائیں سامنے اور پیچھے کے گھر شامل ہیں۔اب اس میں کتنے گھر شامل ہیں اس کا فیصلہ محلے کی وسعت کو دیکھ کر ایک عام شخص باآسانی کرسکتا ہے۔
پڑوسی یا ہم نشین سےحسن سلوک کیا ہے؟
پڑوسی یا ہم نشین کے حقوق کی کوئی حتمی فہرست تو نہیں ہے۔ قرآن نے ان کے ساتھ احسان کا رویہ اختیار کرنے کی تاکید کی ہے۔ احسان کے عربی میں معنی کچھ زیادہ وسیع ہیں جس سے مراد کسی کو اس کے جائز حق سے زیادہ دینا ہے۔ چنانچہ دیکھا جائے تو قرآن نے حقوق کی ادائگی سے ایک قدم آگے جاکر ہمسایوں کے ساتھ انتہائی بھلائی، خیر خواہی اور اچھے تعلق کی ہدایت دی ہے۔ اسی احسان کی بعض صورتوں کو احادیث میں تعین کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
حسن سلوک کی مختلف صورتیں
عمومی طور پر پڑوسی یا ساتھی سے اچھے سلوک سے مراد انکی خبر گیری کرنا، انکے دکھ درد میں کام آنا، انکی ضروریات کا خیال رکھنا، انہیں کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
۱۔ خیال رکھنا
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا اے ابوذر جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربہ کو زیادہ کر لے اور اپنے پڑوسی کی خبر گیری کر لے(صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2191 )
چنانچہ حسن سلوک کی پہلی صورت یہ ہے کہ محلے داروں کی خبر رکھی جائے، دوستوں کی پریشانیوں میں دلچسپی لی جائے اور نیک نیتی سے ان کی غربت ، پریشانی اور بیماری وغیرہ کو مانیٹر کیا جائے اور کسی بھی ضرورت پڑنے پر انکی مدد کی جائے بالخصوص صاحب استطاعت شخص کو چاہئے کہ اس کا کوئی پڑوسی بھوکا نہ سوئے۔لیکن اس خبر گیری میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس سے ہمسائے کو کوئی شرمندگی ، تکلیف یا بدگمانی پیدا نہ ہو۔
۲۔تحفوں کا تبادلہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے دو پڑوسی ہیں تو میں کس کو ان میں سے ہدیہ بھیجوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 959 )
چنانچہ یہ ایک آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ اچھے تعلقات قائم کرنے کے لئےپڑوسی کو مناسب مواقع پر تحفے تحائف بھیجے جائیں۔ تحفے بھیجنے میں پڑوسی، ساتھی یا دوست کی پسند اور ذوق کا خیال رکھا جائے۔آج کل کے دور میں تحفوں کی بے شمار اقسام ہیں جیسے عید کارڈ دینا، کسی کے بچے کو سو دوسو روپے دےدینا وغیرہ۔ کچھ اور ممکن نہیں ہو گھر میں پکا ہو کھانا ہی پڑوس میں بھجوادیا جائے۔سب سے آسان تحفہ مسکراہٹ کے ساتھ کیا گیا سلام ہے جو پڑوسی کو آپ کی طرف سے امن اور صلح کی نوید دیتا ہے۔
۳۔ تعاون اور مدد کرنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشک کے منہ سے پانی پینے کی ممانعت فرمائی اور اس سے بھی منع فرمایا کہ اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں کھونٹی گاڑنے سے منع کرے(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 587)۔
مدد کی کئی صورتیں ہیں جیسے مالی پریشانی میں ممکنہ مدد کرنا، بیمار ی میں خیریت دریافت کرنا، معذور ی یا لاچاری میں سوار ی کا بندوبست کردینا ، دکھ درد نیک نیتی سے شئیر کرنا، رازوں کی پردہ پوشی کرنا، بچوں پر شفقت کرنا، خواتین کی عزت و احترام کرنا وغیرہ ۔لیکن تعاون اور مدد کرتے وقت حکمت اور نیک نیتی کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ اسی طرح اپنی استطاعت کو دیکھنا بھی لازمی ہے ۔ یعنی اپنی مالی حالت، وقت اور دیگر وسائل کی دستیابی کے مطابق ہی مدد اور تعاون کیا جاسکتا ہے۔
۴۔خیرخواہی کرنا
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک یہ بات نہ ہو کہ جو بات اپنے لئے پسند کرتا ہو وہی اپنے بھائی کے لئے یا پڑوسی کے لئے پسند کرے(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 172 )۔
اس حدیث میں تمام تعلیمات کا خلاصہ کردیا گیا ہے۔ یعنی ہم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ جب بھی کوئی معاملہ درپیش ہو تو خود کو پڑوسی کی جگہ رکھ کر سوچا جائے کہ یہ بات گورار ہوگی یا ناگوار۔ اگر خود کو بری لگے تو پڑوسی سے متعلق بھی وہی فیصلہ کرے۔ مثال کے طور پر آپ کے گھر کے سامنے غلاظت پڑی ہے ۔اب آپ یہ سوچتے ہیں کہ اسے اپنے دروازے سے ہٹا کر برابر والے کے سامنے ڈال دیا جائے۔ ایک لمحے کے لئے یہ تصور کریں کہ اگر کوئی آپ کے ساتھ یہ کرتا تو آپ کو تکلیف ہوتی۔چنانچہ اس اقدام سے باز آجانا ہی ایمان کی علامت ہے۔
۵۔ ایذا رسانی سے گریز
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کی ضرر رسانیوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو(صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 174)۔
اس حدیث کی روشنی میں سب سے اہم بات یہ کہ ہمارا پڑوسی،ساتھی یا دوست ہماری وجہ سے کسی تکلیف میں مبتلا نہ ہوجائے۔ آج کل سب سے اہم معاملہ یہی ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے نالاں ہیں۔ ایذا رسانی کی کچھ صورتیں تو بڑی عام ہیں جیسے اونچی آوازمیں ٹیپ چلا کر گانے سننا یا ڈرامے دیکھنا ، شور مچانا یا اونچی آواز میں اس طرح بات چیت کرنا کہ ہمسایوں کا سکون غارت ہوجائے۔دیگر تکلیف پہنچانے کی صورتوں میں کچرا یا پانی گلی میں پھینک دینا، بلا اجازت ٹینٹ لگا کر راستہ بلاک کردینا، مکان تعمیر کرتے وقت ریت اور بجری سے بے احیتاطی کی بنا پر اذیت پہنچانا وغیرہ شامل ہیں۔مزید یہ کہ اختلاف رائے کی صورت میں طنز وتشنیع کرنا، پھبتی کسنا،لڑائی کرنا، گالی بکنا اور ہاتھا پائی تک نوبت لے آنا بھی ایک اور ایذا رسانی کی شکل ہے۔اسی طرح برابر والے کی زمین ہتھیا لینا، پارکنگ پر قبضہ کرلینا، اپنے عہدے یا دبدے سے کمزور کو دبانا وغیرہ بھی اسی قبیل میں شامل ہیں۔
ان سب اختلافی معاملات کا حل یہ ہے کہ پہلے مرحلے برداشت سے کام لیا جائے اور اپنا جائز حق بھی چھوڑتے ہوئے شکایت سے گریز کیا جائے۔ اگر معاملات برداشت سے باہر ہوجائیں تو نرمی سے بات سمجھادی جائےا ور پھر بھی سدھار نہ آئے تو علاقے کے بزرگوں کے ذریعے افہام و تفہیم سے معاملہ حل کر لیا جائے۔لیکن آپ کا حسن سلوک برے سے برے ہمسائے کو اچھا بناسکتا ہے۔
ب۔چند مخصوص پڑوسی
اس موقع پر چند مخصوص اقسام کے ہمسایوں کو زیر بحث لانا بہت اہم ہے کیونکہ ان سے متعلق اکثر لوگ غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں۔
۱۔مسجدوں کے پڑوسی
مسجد کی ہمسائیگی ایک شرف کی بات ہے۔ چنانچہ وہ لوگ جو کسی مسجد کے پڑوسی ہوں ان پر ایک اضافی ذمہ داری عائد ہوتی ہےکہ وہ مسجد کے تقدس کا خیال رکھیں، راستے کو نمازیوں کے لئے صاف اور روشن رکھیں، شور یا ٹی وی کی آواز مسجد تک نہ پہنچنے دیں وغیرہ۔
دوسری جانب مسجد کے منتظمین پر بھی اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں کے وہی فرائض ہیں جو عام پڑوسی کے ہیں ۔ چنانچہ غلط پارکنگ یا صف بندی کے ذریعے سڑکیں بلاک کردینا یا اذان کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے ہمسایوں کو ایذا پہنچاناایک غلط رویہ ہے۔ لہٰذا کوئی تقریر، وعظ، نعت خوانی ، جلسہ ، تلاوت، تراویح یا کوئی اور پروگرام اگر لاؤڈ اسپیکر پر اس طرح نشر کیا جائے کہ محلے والوں کی نیندیں خراب ہوں، سوتے بچے ڈر نے لگ جائیں، مریضوں کو اختلاج قلب شروع ہوجائے تو یہ کوئی اچھی ہمسائگی کی مثال نہیں۔ مسجد کی انتظامیہ کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ لاؤڈ اسپیکر کا استعمال مسجد کی حدود میں جائز ہے چنانچہ جس نے سننا ہے وہ مسجد میں آجائے۔ اور اگر کوئی مسجد سے باہر ہے تو اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ یہ پیغام سننا نہیں چاہتا۔
۲۔کمرشل ایریا کے پڑوسی
اکثر اوقات کمرشل ایریا اور رہائشی علاقہ متصل ہوتا ہے جیسے نیچے دوکانیں ہوں اور اوپر رہائشی فلیٹس، یا انڈسٹریل ایرایا کے ساتھ ہی مکانات ہوں وغیرہ۔ اس میں دونوں ہی کو ایک دوسرے کا خیال رکھنا چاہئے لیکن بالخصوص دوکانوں اور فیکٹریوں کو چوکس رہنا ضروری ہے کیونکہ انکی بنا پر رہائشیوں کو تکلیف کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔چنانچہ راستے سے سامان وغیرہ ہٹا دینا، کیمکل یا کوئی دوسری مضر صحت چیز کو مناسب طور پر ٹھکانے لگانا وغیرہ چند توجہ طلب امور ہیں۔
۳۔امیر بستیوں کے پڑوسی
ایک اور اہم معاملہ امیر بستیوں کا ہے ۔ امیر بستیوں کے ایک پڑوسی تو وہ امرا ء ہیں جو ساتھ کے مکانوں میں رہتے ہیں۔ جبکہ دوسرے پڑوسی وہ لوگ ہیں جو قریب ہی کسی کچی بستی میں مقیم ہوتے ہیں۔ کم و بیش ہر بڑے علاقے کے ارد گرد اس طرح کی بستیاں موجود ہوتی ہیں۔ چنانچہ امراء پر لازم ہے کہ وہ ان جھونپڑی میں رہنے والے افراد کا خیال رکھیں اور کم از کم انکے کھانے پینے پر دھیان رکھیں کہ کوئی بھوکا تو نہیں سورہا۔
۴۔ دفاتر کے ساتھی
دفاتر ، فیکٹریوں اور اداروں میں کام کرنے والے افراد بھی ایک دوسرے کے ہم نشین ہوتے ہیں جن کا دن رات ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کام کرنا ایک لازمی امر ہوتا ہے۔ سورۂ نساء کی آیت ۳۶ کے مطابق ان کے ساتھ بھی وہی حسن سلوک درکار ہے جو پڑوسیوں کے حوالے سے اوپر بیان کیا گیا ہے۔
۵۔ مسافروں کے ساتھ اچھا برتاؤ
سورۂ نساء کی زیر بحث آیت میں مسافرین کے ساتھ بھی احسان کا رویہ اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ زمانہ قدیم میں مسافر کی حیثیت ایک لاچار اور بے بس انسان کی سی ہوتی تھی اور وہ بڑی حد تک اس بستی کے رحم و کرم پر ہوتا تھا جہاں اس کا قیام ہوتا۔ آج کے متمدن دور میں یہ صور ت تو نہیں لیکن بہرحا ل ایسی بے شمار صورتیں ہیں جب آج بھی مسافر کو ہمدردی، غمگساری اور مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔مثال کے طور پر طویل روٹ پر بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرنے والے افراد کے سامان وغیرہ کا خیال رکھنا، انہیں اپنے قول اور فعل کے کسی شر سے بچانا اور جگہ وغیرہ کے معاملے میں وسعت نظری کا مظاہرہ کرنا اس میں شامل ہیں۔ اسی طرح ائرپورٹ ، اسٹیشن اور بس اسٹاپ پر مسافرین کا ایک دوسرے کے ساتھ مناسب سلوک کرنا اس آیت کے تحت آتا ہے۔
دوسری جانب اندرون شہر روزمرہ کا سفر کرنے والے لوگ بھی اس آیت کے مخاطب ہیں ۔ چنانچہ ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا، دیگر سواریوں اور پیدل چلنے والوں کا خیال کرنا، دوسرے کی خطا پر درگذر کرنا، کسی بھی صورت حال میں لڑائی جھگڑے سے گریز کرنا وغیر کچھ امور ہیں جو اس ذیل میں آتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں