41

ماہ شعبان احادیث کی نظر میں


تحریر : رضوانہ لطیف (دینی عالمہ )

شعبان اسلامی تقویم کا آٹھواں مہینہ ہے۔ اسے شعبان المعظم بھی کہا جاتا ہے۔ اسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے منسوب کیا جاتا ہے۔ یہ ایک متبرک مہینہ ہے اور اس میں مسلمان نفلی روزے رکھتے ہیں۔ شعبان کے مہینہ میں زیادہ سے زيادہ روزے رکھنے مستحب ہيں، حدیث میں بیان کیا گيا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سارے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے :
ام سلمہ بیان کرتی ہيں کہ :
( میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کبھی بھی دو ماہ مسلسل روزے رکھتے ہوئے نہيں دیکھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کے روزوں کو رمضان کے ساتھ ملایا کرتے تھے ) ۔
پانچ شعبان المعظم یومِ ولادتِ باسعادت سید الساجدین حضرت سیدنا امام زین العابدین علیہ السلام تمام محبین اہلبیت اطہار علیہم السّلام کو مبارک ہو
شعبان کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ شعبان تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق کے ہیں ۔چونکہ اس ماہ میں بھی خیر کثیر متفرق ہوتی ہے ۔نیز بندوں کو رزق اس مہینہ میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے اپنی کتاب ـ ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں حضرت انس بن مالکؓ کے حوالہ سے یہ بیان فرمایا ہے کہ روزہ دار کی نیکیوں (کے ثواب) میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ شعبان کے مہینے میں بہت سی نیکیاں تقسیم کی جاتی ہیں، جیسے رمضان کے مہینے میں گناہ جلا دیئے جاتے ہیں، اس وجہ سے اس کو شعبان کہتے ہیں ۔
شعبان کا لفظ عربی گرائمر کے اعتبار سے ’’شعب‘‘ سے بنا ہے، جس کے لفظی معنی شاخ در شاخ کے ہیں، اس مہینے میں چونکہ خیرو برکت کی شاخیں پھوٹتی ہیں، اور روزہ دار کی نیکیوں میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کو شعبان کہا جاتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کو اس لئے شعبان کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ دار کے لئے خیر کثیر تقسیم ہوتی ہے ۔یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوتا ہے ۔ (ماثبت من السنتہ صفحہ141)
شعبان معظم میں مندرجہ ذیل مشہور واقعات ہوئے ۔
1اسی مہینہ کی پانچ تاریخ کو سیدنا حضرت امام حسین ؓ کی ولادت مبارک ہوئی ۔
2اسی مہینہ کی پندرہویں تاریخ کو شب برا¿ت یعنی لیلہ¿ مبارکہ ہے جس میں امت مسلمہ کے بہت افراد کی مغفرت ہوتی ہے ۔
3اسی ماہ کی سولہویں تاریخ کو تحویل قبلہ کا حکم ہوا ۔ پہلے ابتداءاسلام میں کچھ عرصہ بیت المقدس قبلہ رہا۔اور پھر اللہ تعالیٰ نے حضور کی مرضی کے مطابق کعبہ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنادیا ۔اس وقت سے ہمیشہ تک مسلمان کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں ۔(عجائب المخلوقات صفحہ47)
شعبان المعظم کی فضیلت:شعبان کا مہینہ ایک با برکت مہینہ ہے جس کی فضیلت میں کتب احادیث لبریز ہیں ۔چند احادیث مبارکہ لکھی جاتی ہیں ۔
۱۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شعبان رجب اور ماہِ رمضان کے درمیان ایک مہینہ ہے لوگ اس کی شان سے غافل ہیں ۔اس میں بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرے اعمال اس حال میں اٹھیں کہ روزہ دار ہوں ۔ (ماثبت من السنة صفحہ141)
۲۔شعبان میرا مہینہ اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے ۔ (ماثبت من السنة صفحہ141)
۳۔حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ ؓفرماتی ہیں کہ نبی کریم کو تمام مہینوں سے زیادہ پیارا مہینہ شعبان تھا ۔(نزہة المجالس جلد1صفحہ131)
۴۔سیدی و سندی حضرت شیخ عبد القاد ر حسنی حسینی جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ شعبان میں پانچ حرف ہیں ۔
1۔شین 2۔عین 3۔بائ 4۔الف 5۔نون
پس شین عبارت ہے شرف سے اور عین عبارت ہے علو سے ۔باءعبارت ہے بر(بھلائی ) سے اورالف عبارت ہے الفت(محبت) سے اور نون عبارت ہے نور سے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ ماہِ شعبان میں اپنے نیک بندوں کو یہ پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے ۔نیز فرماتے ہیں کہ اس مہینہ میں محبوب کبریا پر درود شریف کثرت سے پڑھنا چاہےے کیونکہ یہ مہینہ حضور سراپا نور شافع یوم النشور کا ہے ۔اس لئے اس مہینہ کے وسیلہ سے بارگاہ الہٰی میں قرب حاصل کرنا چاہےے۔ (غنیة الطالبین جلد1صفحہ188)
پہلی شعبان کے نفل اور روزہ:حضور اقدس نے فرمایا کہ جو پہلی تاریخ شعبان کی رات بارہ رکعت نفل پڑھے ۔ہر رکعت میں الحمد للہ شریف کے بعد قل ھو اللہ احد 5مرتبہ پڑھے ، تو اللہ تعالیٰ اس کو 12ہزار شہیدوں کا ثواب عطا فرماتا ہے اور 12سال کی عبادت کا ثواب اس کے لئے لکھا جاتا ہے ۔گناہوں سے ایسا پاک ہو جاتا ہے کہ گویا ابھی وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے اور 80دن تک اس کے گناہ نہیں لکھے جاتے ہیں۔
نیز آپ نے فرمایا کہ جو آدمی شعبان کی پہلی جمعرات اور آخری جمعرات کو روزہ رکھے گا تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے ۔ (نزہة المجالس جلد1ص131)
شب برا¿ت کی فضیلت:ماہ شعبان کا تمام مہینہ برکتوں والا سعادتوں کا مجموعہ ہے ۔خصوصاً اس کی 15ویں رات جس کو شب برا¿ت اور لیلہ¿ مبارکہ کہتے ہیں ،باقی شعبان کی راتوں بلکہ تمام سال کی اکثر راتوں سے افضل ہے ۔
مطلب یہ ہے کہ لیلہ مبارکہ سے مراد شب برا¿ت ہے اور یہی مفسرین کا مذہب ہے اور اس مبارک رات میں ہر شخص کا رزق لکھ دیا جاتا ہے کہ اس سال اس قدر اس کو ملے گا اور اتنا استعمال کرلے گا۔
اسی طرح اجل بھی لکھ دی جاتی ہے کہ فلاں شخص اتنی مدت تک زندہ رہے گا اور فلاں وقت میں مرے گا۔ اسی طرح جو کام آئندہ سال ہونے والا ہوتا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے غرضیکہ اس رات میں نئی فہرستیں تیار ہوتی ہےں اور بارگاہ الہٰی میں پیش کی جاتی ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ شعبان کی 15ویں رات میں خدائے ذوالجلال اس سمائِ دنیا پر نزول اجلال فرماتا ہے یعنی اس کی رحمت نازل ہوتی ہے اور کارکنان غیبی اللہ تعالیٰ کے سامنے سال بھر کے اعمال نامے پیش کرتے ہیں ۔اس کے بعد احکم الحاکمین اپنی شفقت سے بندوں کو پیارے خطاب فرماتا ہے ۔ ”خبردارہے کوئی مغفرت مانگنے والا کہ میں اس کے گناہوں کو بخش دوں ۔خبردار ہے کوئی روزی مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ۔خبردار ہے کوئی کسی مصیبت میں گرفتار کہ میں اس کو معافی عطا کروں ۔خبردار ہے کوئی ایسا ایسا یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے ۔ وہ لوگ کتنے سعادت مند ہیں جو اس رات کو عبادت کرتے ہیں اور توبہ کر کے اپنے رب کو راضی کرتے ہیں اور اپنے گناہوں کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور رزق حلال مانگ کر خزانہ¿ غیب سے مالا مال ہو جاتے ہےں ۔بیماریوں اور مصیبتوں سے پناہ مانگ کر ان سے خلاصی حاصل کرتے ہیں ۔اس رات اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کے لئے عام معافی کا اعلان ہوتا ہے اور سب کی مغفرت ہو جاتی ہے سوائے چند لوگوں کے ۔ سیدنا حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کہ حضور رحمة اللعالمین نے فرمایا:” بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی 15ویں رات میںرحمت کی تجلی فرماتا ہے ۔پس تمام مخلوق کی سوائے مشرک اور کینہ پرور کے بخشش فرماتا ہے۔ “رواہ ابن ماجہ(مشکوٰة صفحہ115)
بعض روایتوں میں ہے کہ مشرک ۔جادو گر ۔ کاہن ۔زنا پر اصرار کرنے والا ۔ہمیشہ شراب پینے والا ۔ان کی بخشش نہیں ہوتی ۔اس سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے غیر شرعی طور پر کینہ اور عداوت رکھتا ہے اس کی مغفرت نہیں ہوتی ۔اس لئے پہلے زمانہ کے لوگ شب برا¿ت سے پہلے ہی ایک دوسرے سے معافی مانگتے اور ان کو راضی کرتے تھے تاکہ اس رات کی رحمت و مغفرت سے بہرہ ور ہو سکیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں