473

رحمت جہاں، کا دوستوں و دشمنوں کیساتھ سلوک


رسولِ خدا حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
وَمَا اَرْسَلْناَکَ اِلّاَ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔
یعنی ’’اے نبی، ہم نے تمہیں سارے جہاں کے لیے محض رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
دنیا میں آپؐ کے تشریف لانے کا اصل مقصد خدا کی رحمت کااظہار تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے آپؐ کو منصبِ رسالت پر فائز کیا گیا۔ انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کی جو خدمت آپؐ نے انجام دی ہے اس میں رحمت ہی کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ جس طرح خدا کی الوہیت اور ربوبیت عام ہے اسی طرح خدا کے رسول کی شفقت اور تعلیمات سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں۔ آپؐ ساری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے تشریف لائے تھے۔ آپؐ کی تعلیم دوست تو دوست، دشمنوں کو بھی دوست بنانے کی تعلیم ہے۔ قرآن میں ہے:
’’برائی کو اچھے سے اچھے کردار کے ذریعہ سے دور کرو۔ پھر دیکھوگے کہ وہی شخص تمہارے اور جس کے درمیان عداوت پڑی ہوئی تھی ایسا ہوگیا، جیسے وہ کوئی جگری دوست ہو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین حق سے یکساں طور پر سارے عالم کو روشناس کرانے کی کوشش فرمائی۔ اس میں خویش و بیگانہ کی کوئی تفریق روا نہیں رکھی۔ پھر آپؐ کی تعلیم یہ بھی تھی کہ نیکی اور خدا ترسی کے کاموں میں سب کے ساتھ تعاون کیا جائے اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں تعاون سے پرہیز کیا جائے۔ آپؐ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ خدا نے مجھے محض اس غرض سے بھیجا ہے کہ میں اخلاقی خوبیوں کو درجۂ کمال تک پہنچادوں کہ ان میں کسی قسم کا نقص باقی نہ رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزوروں اور بیکسوں کو اوپر اٹھایا۔ مظلوم عورتوں کو عزت بخشی اور ان کے حقوق کا پاس و لحاظ رکھنے کی تاکید فرمائی۔ زندگی کے تمام ہی شعبوں میں آپؐ نے رہنمائی فرمائی اور آپ کی حیات کے ہرہر گوشے میں عدل و انصاف اور رحمت کا پہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے۔ یہاں آپ کے کارناموں کی تفصیل پیش کرنا مقصود نہیں ہے۔ اس وقت ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ آپ ؐ کا سلوک غیروں اور اپنے دشمنوں کے ساتھ کیا رہا ہے۔ جو اپنے دشمنوں کا بہی خواہ ہو اس کا سلوک اپنے پیروؤں کے ساتھ کس درجہ مشفقانہ ہوگا اِسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔
جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو جس خاص بات کا انکشاف ہوتا ہے وہ یہ کہ آپؐ نے کبھی بھی اپنے کسی بڑے سے بڑے دشمن سے بھی ذاتی انتقام نہیں لیا۔ نبوت کے اعلان کے بعد آپ کے مخالفوں نے آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ جوظالمانہ سلوک کیا تھا وہ تاریخ کے صفحات میں درج ہے۔ ظلم و ستم کی کون سی قسم ہے جو آپ اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ نہ اختیار کی گئی ہو۔ آپ کے کتنے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرت کرکے حبشہ میں پناہ لینی پڑی۔ دشمنوں نے وہاں بھی ان کا پیچھا کیا۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی سازش رچی گئی، اور آپ کو اپنے محبوب شہر مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ منتقل ہونا پڑا۔ مدینہ جانے سے پہلے آپ کی خواہش تھی کہ کعبہ میں داخل ہولیں لیکن کعبہ کا دروازہ آپ کے لیے نہیں کھولا گیا۔ اور کنجی بردار نے سختی سے آپ کے لیے کعبہ کا دروازہ کھولنے سے انکار کردیا۔ لیکن دنیا نے یہ منظر بھی دیکھا کہ فتح مکہ کے موقع پر کعبہ کی کنجی آپؐ نے اسی شخص کو عطا فرمائی جس نے کعبہ کا دروازہ آپ کے لیے بند رکھا، اور ذرا بھی نرمی اختیار نہیں کی۔ آپ نے کنجی اس کے حوالہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص کنجی اس سے چھینے گا ظالم ہوگا۔
مکہ میں آپ فاتحانہ داخل ہوتے ہیں۔ آپ کے وہ دشمن آپ کے سامنے تھے، جو آپ کے خون کے پیاسے رہے ہیں، جنہوں نے طرح طرح کی اذیتیں آپ کو پہنچائی تھیں، ۳؍سال تک شعب ابی طالب میں آپ کو اور آپ کے اہل خاندان کو قید کر رکھا تھا، معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کی سختیاں جھیلنے پر آپ کو مجبور کردیا تھا۔ آج وہ سارے دشمن مغلوب ہوکر سامنے کھڑے تھے، وہ خائف تھے کہ دیکھئے ان کے ساتھ کیاسلوک کیا جاتا ہے۔ آپؐ نے کوئی خوں ریزی نہیں کی۔ اعلان کرادیا کہ جو حرم میں پناہ لے لے اسے پناہ دی جاتی ہے۔ جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے لے اس کے لیے بھی امان ہے۔ اور جو اپنے گھر میں پناہ گزیں ہوجائے اسے بھی بخش دیا جائے گا۔ ابو سفیان قریش کے سرداروں میں سے تھا اس نے آپ کی دشمنی میں کسی طرح کی کمی نہیں کی تھی، لیکن آج آپ یہ کہہ کر اسے عزت دے رہے ہیں کہ جو ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے لے اس کے لیے بھی امان ہے۔
آپ کا اخلاق کریمانہ دیکھئے کہ آپ کے دشمن آپ کے قبضے میں تھے۔ وہ لرزاں و ترساں تھے کہ جانے کیا سلوک ان کے ساتھ کیا جاتا ہے کہ آپ اعلان فرماتے ہیں:
لا تثریب علیکم الیوم اِذْھَبُوا فأنتمُ الطلقاء۔
’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘
وحشی نام کا ایک شخص مکہ میں رہتا تھا۔ وحشی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل تھا۔ وہ یہ سوچ کر مکہ سے بھاگ گیا کہ وہ بخشا نہیں جاسکتا۔ لیکن اسے جب آپؐ کے حسنِ سلوک کی اطلاع ملی تو آکر آپ کے دامنِ رحمت میں پناہ لی۔ آپ نے اسے معاف کردیا۔ صرف اتنا کہا کہ تم میرے سامنے نہ آیا کرنا، کیونکہ تمہیں دیکھ کر مجھے چچا کی یاد آئے گی اور غم تازہ ہوجائے گا۔
ہندہ ابو سفیان کی بیوی تھی۔ اس نے آپ کے چچا حضرت حمزہؓ کا سینہ چاک کرکے ان کے دل وجگر کے ٹکڑے کیے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر نقاب پوش آپ کے پاس آئی کہ آپ پہچان نہ سکیں اور اسے امان حاصل ہوجائے۔ اس موقع پر بھی گستاخانہ انداز اختیار کرنے سے وہ باز نہ آئی۔ آپ نے اسے پہچان لیا۔ آپ نے اس کو معاف کردیا، اور اس دلخراش واقعہ کا ذکر تک نہ کیا۔ ہندہ آپ کے اس بلند اخلاق سے جو کسی بھی حیرت انگیز کرشمہ سے کم نہ تھا متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ وہ پکار اٹھی:
’’یارسول اللہ، آپ کے خیمہ سے بڑھ کر مبغوض تر کوئی خیمہ میری نگاہ میں نہ تھا، لیکن آج آپ کے خیمہ سے بڑھ کر محبوب تر خیمہ کوئی دوسرا میری نگاہ میں نہیں ہے‘‘۔
صفوان بن امیہ قریش کے رؤساء میں سے تھا اور اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ یہی شخص ہے جس نے عمیر بن وہب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر مامور کیا تھا اور اس کے لیے اس نے ایک بڑے انعام کا وعدہ کیا تھا۔ مکہ فتح ہوا تو بھاگ کر جدہ چلا گیا اور وہاں سے سمندر کے راستے سے یمن جانے کا ارادہ کر رہا تھا۔ عمیر بن وہب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ صفوان بن امیہ اپنے قبیلہ کے رئیس ہیں۔ ڈر سے بھاگ گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو امان ہے۔ انھوں نے کہا کہ امان کی کوئی نشانی مرحمت فرمائیں جسے دیکھ کر انہیں اعتبار آجائے۔ آپ نے اپنا عمامہ عنایت فرمایا۔ جب وہ عمامہ لے کر صفوان کے پاس پہنچے تو صفوان نے کہا کہ مجھے وہاں جانے میں اپنی جان کا خوف ہے۔ عمیر نے کہا صفوان، تم ابھی محمدؐ کے حلم و عفو کو نہیں جانتے۔ صفوان عمیر کے ساتھ حضوؐر کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور کہا کہ عمیر کہتے ہیں کہ آپ نے مجھے امان دی ہے۔ آپ نے فرمایا: سچ ہے۔ صفوان نے کہا کہ مجھے دو مہینے کی مہلت دیں۔ آپ نے فرمایا کہ تمہیں چار مہینے کی مہلت ہے۔ اس کے بعد صفوان بخوشی دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔
عکرمہ دشمنِ اسلام ابوجہل کے بیٹے تھے۔ یہ بھی اپنے باپ ہی کی طرح آنحضرتؐ کے سخت ترین دشمن تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر بھاگ کر یمن چلے گئے۔ عکرمہ کی بیوی نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ وہ یمن گئی اور عکرمہ کو اطمینان دلایا۔ عکرمہ اسلام اختیار کرلیتے ہیں اور حضوؐر کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ رسول اللہؐ نے جب عکرمہ کو دیکھا تو فرط مسرت کی انتہا نہ رہی، فوراً کھڑے ہوگئے اور تیزی سے عکرمہ کی طرف بڑھے۔ اس وقت آپؐ کی زبان پر یہ الفاظ تھے:
مرحبا بِالرَّاکبِ المُھاجِرِ!
’’اے ہجرت کرنے والے سوار تمہارا آنا مبارک ہوا۔‘‘
عرب کے قبیلوں میں سے کوئی قبیلہ اگر آخرتک اسلام کا مخالف رہا تو وہ بنی حنیفہ کا قبیلہ تھا۔ ثمامہ بن اثال اس قبیلے کے رؤسا میں سے تھے۔ اتفاق سے مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں مسجد کے ستون سے باندھ دیا گیا۔ آپ مسجد میں تشریف لائے تو پوچھا کہ ثمامہ تمہارا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے اے محمدؐ! اگر مجھے قتل کرتے ہو تو ایسے شخص کو قتل کروگے جو اپنی قوم کا سردار ہے(اس کا خون رائیگاں نہ جائے گا)، اور اگر احسان کروگے تو یہ احسان ایک شکر گزار شخص پر ہوگا۔ اگر مال درکار ہے تو کہو کیا چاہتے ہو، میں دوں گا۔ آپ اسے اس حالت میں چھوڑ کر تشریف لے گئے ۔ پھر دوسرے روز تشریف لائے اور فرمایا: ثمامہ تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ میرا وہی حال ہے جو پہلے عرض کرچکا ہوں۔ اگر احسان کروگے تو یہ احسان ایک شکر گزار شخص پر ہوگا۔ آپ پھر اسے اس حال میں چھوڑ کر چلے گئے۔ یہاں تک کہ جب اس کے بعد پھر تشریف لائے تو فرمایا: اے ثمامہ کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ میرا حال وہی ہے جو پہلے بیان کرچکا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ثمامہ کو کھول دو۔ ثمامہ کے لیے یہ لطف و عنایت خلاف توقع تھی۔ قید سے رہا ہوکر قریب کے ایک باغ میں جاکر غسل کیا اور مسجد میں واپس آکر اسلام قبول کرلیا اور کہا کہ
’’یا رسول اللہ!پہلے روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض چہرہ میرے نزدیک کوئی نہ تھا۔ لیکن آج آپ کا چہرہ تمام چہروں میں سب سے محبوب ہے۔ بخدا پہلے آپ کے دین سے بڑھ کر مبغوض میری نگاہ میں کوئی دوسرا دین نہ تھا اور آج سب سے محبوب دین میرے نزدیک آپ ہی کا دین ہے۔ بخدا پہلے تمام شہروں میں سب سے مبغوض شہر میری نگاہ میں آپ کا شہر تھا لیکن آج سب شہروں میں میرے نزدیک سب سے عزیز شہر آپ کا شہر ہے۔‘‘
پہلے دن ثمامہ کا خیال تھا کہ جاں بخشی نہ ہوگی۔ لیکن جب اس نے آپ کے عفو و کرم کا مشاہدہ کیا تو مایوسی امید میں بدل گئی اور اپنی گفتگو کا آغاز اس نے احسان اور شکر گزاری سے کیا۔ آپ کے اخلاق اور حسنِ سلوک کا یہ اثر تھا کہ آپ سے شدید نفرت کرنے والا یہ شخص بالکل بدل جاتا ہے۔ بلا تاخیر آپ کے جاں نثاروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اور آپ کی ہرچیز اس کے لیے سب سے بڑھ کر محبوب ہوجاتی ہے۔ یہ تھا آپ کے اخلاق و کردار کا جادو جس سے بڑھ کر کسی سحرکاری کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
صلح حدیبیہ کے زمانے میں حضرت اسماءؓ کی ماں جو مشرکہ تھی اپنی بیٹی اسماء کے پاس اعانت کی غرض سے آتی ہیں۔ حضرت اسماءؓ حضوؐر کے پاس آکر دریافت کرتی ہیں کہ میری مشرکہ ماں میرے پاس آئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ’’ ان کے ساتھ نیکی کرو۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ کی ماں کافرہ تھیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھیں۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے جب آپ کی خدمت میں عرض کیا تو بجائے غیظ و غضب کے آپؐ نے ان کے حق میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔
فدک کی فتح کے بعد کا واقعہ ہے۔ یہ ہجرت کا ساتواں سال تھا۔ حضرت بلالؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص مقرب اور آپ کے گھر کے منتظم رہے ہیں۔ ناداری کی حالت میں بازار سے سودا قرض بھی لاتے تھے۔ رقم آجاتی تو ادا کردیتے۔ ایک موقع پر ایک مشرک نے ان سے کہا کہ قرض لینا ہو تو مجھ سے لے لیا کرو۔ حضرت بلالؓ نے اس سے قرض لے لیا، ایک دن جب حضرت بلال اذان دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو وہ مشرک کچھ سوداگروں کے ساتھ آیا اور کہا کہ ’’اے حبشی، وعدہ کے صرف چار روز رہ گئے ہیں۔ قرض ادانہ کیا تو تم سے بکریاں چروا کے رہوں گا۔‘‘
حضرت بلالؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ دنوں کے لیے ہٹ جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔ حضوؐر نے سنا تو اس مشرک کے متعلق کچھ نہیں کہا۔ اس کی بدزبانی اور سخت گیری سے درگزر فرمایا۔ اسی دوران اتفاق سے کہیں سے غلہ آجاتاہے اور پھر مشرک کا قرض ادا کردیا جاتاہے۔
ایک یہودی کا لڑکا بیمار ہوتا ہے۔ آپؐ اس کی عیادت کے لیے اس کے یہاں جاتے ہیں۔ دیکھا کہ وہ مرنے کے قریب ہے آپ کو اس کی عاقبت کی فکر ہوتی ہے، وہ لڑکا اپنے باپ کی موجودگی میں اور باپ کے حکم سے اسلام قبول کرلیتاہے۔
عیسائیوں کا ایک وفد نجران سے مدینہ آیا۔ آپ نے اس وفد کی مہمان داری فرمائی اور اس وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ اتنا ہی نہیں آپؐ نے اس کی بھی اجازت دے دی کہ وفد اپنے طریقے سے مسجد میں عبادت بھی کرسکتاہے۔ عام مسلمانوں نے وفد کے لوگوں کو ایسا کرنے سے روکنا چاہا مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔
عبد اللہ بن ابی منافقوں کا سردار تھا۔ مصلحۃًوہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا۔ لیکن دل سے وہ آپ کا اور اسلام کا دشمن تھا۔ اس کے ساتھیوں کی روِش بھی منافقانہ تھی۔ اس شخص نے جب بھی موقع ملا اسلام اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اور نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے میں اس نے کوئی کمی کی۔ جنگ احد میں عین لڑائی کے نازک موقع پر اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ آپ نے پھر بھی درگزر فرمایا۔ منافقوں کا یہ سردار جب مرا تو اس احسان کے بدلے میں کہ اس نے حضرت عباسؓ کو اپنا کرتا دیا تھا، آپ نے اسے اپنا کرتا پہنا کر دفن کیا۔
تاریخ اس واقعہ کو بھی فراموش نہیں کرسکتی جو طائف میں پیش آیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے لوگوں نے نہایت بدخلقی کا مظاہرہ کیا۔ لڑکوں کو آپ کے پیچھے ستانے کی غرض سے لگادیا، آپ پر پتھروں کی بارش کی گئی، جس سے آپ کے پاؤں لہولہان ہوگئے، لیکن آپ نے طائف والوں کے حق میں بد دعا نہیں کی۔ آپ سمجھتے تھے کہ آج یہ لوگ خدا کے رسول کو نہیں پہچان رہے ہیں لیکن کل ان کی اولاد ایمان لاسکتی ہے۔
حضرت طفیل بن عمروؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ قبیلۂ دوس نے نافرمانی کی ہے اور حق کو ماننے سے انکار کیا ہے۔ اس کے حق میں آپ بددعا کریں، لیکن بد دعا کے بجائے آپؐ کی زبان مبارک سے ادا ہوتے ہیں تو یہ کلمات:
اَللّٰھُمَّ اھْدِ دَوْسًا وَأتِ بِھِمْ۔
’’اے اللہ دوس کو ہدایت دے اور انھیں میرے پاس لادے۔‘‘
مثالیں اور بھی پیش کی جاسکتی ہیں لیکن یہ مثالیں بھی یہ جاننے کے لیے کافی ہیں کہ آپ کا طرز عمل اپنے دشمنوں اور غیروں کے ساتھ کیسا رہا ہے۔ آپؐ کاارشاد ہے۔
اِرْحَمُوْا مَنْ فِی الْاَرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَنْ فِی السَّمَاءِ۔
’’زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا خدا تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘
اسی تعلیم کی آپ کی پوری زندگی آئینہ دار تھی۔
راہ میں کانٹے جس نے بچھائے
گالی دی پتھر برسائے
اس پر چھڑکی پیار کی شبنم
صلی اللہ علیہ وسلم

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں