410

عمران خان ….. سب کی جان سب کامان(آخری حصہ )


میں نے کہا ’’بندہ خدا، جس طرح تم کرکٹ کے میدان میں اپنا ثانی نہیں رکھتے بہر حال ہم نے بھی عمر کا بڑا حصہ اخباروں میں صحافتی اداروں میں جھک ماری ہے اللہ کے بندے تمہیں کون سمجھائے کہ تم جسے مسئلہ سمجھ رہے ہو وہ کچھ بھی نہیں کسی دوست نے اسے فون کیا جسے سن کر عمران نے کہا ’’ یار میں مشکل میں پھنس گیا ہوں میرے کچھ دوست بڑے زمینداروں کے بیٹے ہیں لیکن خود بڑے پڑھے لکھے اور بہت اچھے خیالات رکھتے ہیں ۔ نواب سعادت قریشی کا بیٹا تو میرے ساتھ شوکت خانم میں بھی رہا بڑا زبردست انسان ہے بہت ذہین اور محنتی ، ایک اور دوست نے مجھے فون کیا ہے کہ کہیں کوئی اخبار والا یہ سوال پوچھ لے کہ زمین کی ملکیت کی حد کیا مقرر کرو گے تو میں کیا جواب دونگا مجھے اس پر سوچنے دو، میں نے جل کر کہا اگر تمہارا وہ دوست اس کمرے میں موجود ہوتا تو میں اس جاہل انسان کے سر پریہ ٹرے مارتا جو میز پر رکھی ہے ،معلوم نہیں تمہارے دوستوں میں بیوقوفوں کی تعداد اتنی زیادہ کیوں ہے جنہیں سیاست کی اے بی سی نہیں آتی تم صبح صرف سیاست میں آنے کا اعلان کرنا ہے جس میں مختصرا ملکی حالات کا جائزہ ہم نے تمہارے مشورے سے قلمبند کیا ہے۔ اول تو کوئی رپورٹر پہلے دن سیاست میں آنے والے سے یہ سوال نہیں کرے گا اور اگر کوئی بیوقوف ایسا کر بھی دے کہ احمقوں کی بڑی تعداد ہر میدان میں پائی جاتی تو تم آسانی سے کہہ سکتے ہو کہ ابھی تو میں نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔
ہم اپنی پارٹی کا پہلا کنونشن بلائیں گے ، منشور کمیٹی کا اعلان کرینگے جو پارٹی کا منشور بنائے گی اور ان سارے مسائل پر پارٹی لائن واضح کی جائے گی ، آج کی میٹنگ میں مختلف مسائل کے حل کیلئے کہ ہم نے کیا فیصلہ کیا ہے یا کر ینگے اس کی تفصیل بیان نہیں کی جا سکتی ، اکثر دوستوں نے جو کمرے میں موجود تھے میری تائید کی جس پر بالآخر عمران مان گیا اس نے وعدہ کیا کہ کسی متنازع مسئلے پر کوئی فیصلہ کن بات نہیں کروں گا ۔ اگر چہ وہ تیار شدہ بیان کی کاپیاں پھاڑی جا چکی تھیں لیکن میں نے کمپیوٹر سیکشن سے اس کی نقل پھر سے تیار کر وائی اورکئی کا پیاں منگوا کر عمران اور چار پانچ شرکاء میں تقسیم کیں ۔ میری تجویز پر عمران نے حامی بھری کہ وہ اسے پڑھ کر سنا دیں تا کہ کوئی لفظ مشکل ہو یا تبدیل کرنا مقصود ہوتو تبدیل کیا جا سکے ۔ عمران نے پڑھنا شروع کیا تو اندازہ ہوا کہ بعض الفاظ اس کے لئے مشکل ہیں وہ عمر بھر انگریزی میں پڑھتا اور لکھتار ہا تھا لہذا اخباری اور سیاسی زبان سے پوری طرح آگاہ نہ تھا۔ ہم نے کچھ الفاظ پر نشان لگائے اور پھر الگ سے انہیں کاغذ پر لکھا اور دوبارہ رومن میں کمپیوٹر پر کمپوز کروایا۔
حقیقت یہ ہے کہ عمران پڑھائی لکھائی میں بہت ذہین اور محنتی ہے ۔
ایک بار بیان پڑھنے کے بعد وہ اور ہم سب مطمئن ہو گئے کہ مزید وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ۔ رات بھر اسی کمرے میں جہاں میں اس وقت بیٹھ کر اپنی یادداشتیں لکھوا رہا ہوں صبح پانچ بجے مجلس برخاست ہوئی اور دو پہر سے قبل 11 بجے ہوٹل میں ملاقات کے وعدوں کے بعد ہم نیچے اترے ۔اس وقت تک ہماری بلڈنگ میں لفٹ نہیں لگی تھی لہذا ہم سیڑھیوں کے ذریعے گراؤنڈ فلور تک پہنچے ۔ عمران نے کہا وقت پر ہوٹل پہنچ جانا بلکہ آدھا گھنٹہ پہلے آجانا‘‘
میں نے کہا میں رات بھر جاگا ہوں صبح دیر سے آنکھ کھلے گی یوں بھی میرا کام ختم ہوا۔ تم وقت پر پہنچ کر پر یس کا نفرنس کر د ینا پھر میں نے مذاق میں کہا اب راستے میں یا گھر جا کر اپنا ارادہ تبدیل نہ کر لینا پہلے ہی بڑی مشکل سے گھیر گھار کر تمہیں یہاں تک لائے ہیں‘‘
قارئین یہ اس رات کی روداد ہے جب ہم نے نو جوان پہلوان کو سیاست کے اکھاڑے میں اتارا اب تو ماشاء اللہ وہ اس میدان کا تجربہ کار کھلاڑی بن چکا ہے۔ آپ اس سے اتفاق کریں یا اختلاف لیکن 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کے بعد پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی اس کی ہے اسکے باوجود اس نے پنجاب میں بالخصوص دھاندلی پر احتجاج کیا ،تحریک چلائی دھرنا دیا، جوڈیشل کمیشن بنوایا۔ اگر چہ بڑےپیمانے پر دھاندلی کا اعتراف کمیشن نے نہیں کیا۔ تاہم بڑے پیمانے پر بے قاعد گیوں کی تصدیق ضرورکی ۔
آج عمران 2 نومبر کو اسلام آباد کے دھرنے کے نتیجے اور سپریم کورٹ سے فیصلے کے بعد دھرناختم کر چکا ہے ۔ ملک بھر میں حکومتی پارٹی ہو یا دیگر سیاسی جماعتیں اکثر اس کی مخالفت کر رہی ہیں ۔ آپ بھی عمران سے اختلاف کر سکتے ہیں ۔ ایک صحافی کی حیثیت سے مجھے بھی اسکی بہت سی باتوں سے اختلاف ہے لیکن آپ کو ماننا پڑے گا کہ اتنے برسوں کی مشقت کے بعد وہ اپنے آپ کو ایک سیاسی حقیقت کے طور پرتسلیم کروا چکا ہے۔ نئی نسل بالخصوص پڑھے لکھے لڑکے لڑکیاں اس کی پارٹی کا غالب حصہ ہیں ۔ گزشتہ بہت سے برسوں میں اس نے بہت ناکامیاں دیکھیں اور موجودہ اسمبلی سے پہلے تو وہ گزشتہ الیکشن میں صرف اپنی سیٹ جیت سکا آج خیبر پختونخوا میں اس کی پارٹی حکمران ہے لیکن وفاقی حکومت میں حکمرانی کا خواب ابھی بہت دور ہے ۔ تاہم جیسا کہ میں نے پہلے کہا میری تحریر کا مقصد اس کی سیاسی حمایت ہے نہ مخالفت ۔ میں نے تو ایک دوست اور خیر خواہ کی حیثیت سے اس کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں کی طرف نشاندہی کی ہے اور میرا دعوی ہے کہ میرا تخمینہ میرا اندازہ عمران کے بارے میں Assessment سو فیصد نہیں تو اسی فیصد درست ضرور ثابت ہوئی درست ثابت ہوا ہے لیکن چھوڑیں اس بات کو ہم پھر ماضی کی طرف لوٹتے ہیں اور اس کی پہلی پریس کا نفرنس کے بعد ابتدائی دنوں کے کچھ دلچسپ واقعات کا جائزہ لیتے ہیں ۔
انہی دنوں کا ایک اور واقعہ بہت دلچسپ ہے ۔ ہم نے سوچا پریس کا نفرنس میں تو صرف اخبارنویس آتے ہیں، عمران کوسوسائٹی کے سب ہی اہم طبقوں کے منتخب افراد سے ملانا اور اس کی سیاست میں آمد کے حوالے سے سوال و جواب کرانے چاہئیں ۔ میں نے روز نامہ خبر یں کے پہلے صفحے پر دو دن اشتہار چھاپا جس کا عنوان تھا ’’عمران سے ملیے ‘‘ہمارےدوست اور خبر یں کے ایک ڈائر یکٹر اقبال ملک ٹیمپل روڈ پر جواب حمید نظامی روڈ بن چکا ہے لاہورپیلس کے نام سے ایک شادی ہال ہے جو بہت اچھی تعمیر شدہ بلڈنگ میں اوپر نیچے تین بڑے ہالوں پر مشتمل ہے۔ ہم نے سب سے بڑے ہال کا انتخاب کیا اور سٹیج بنایا مائیک لگوایا جوروسٹرم کے سامنے تھا اور اپنی اپنی ٹیلی فون ڈائریوں میں سے ہر شعبہ زندگی کے اہم افراد کا انتخاب کیا اور انہیں ٹیلی فون پر دعوت دی لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ بڑی عمر کے سنجیدہ افراد کی بجائے بال کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان کے مداحوں سے بھر گیا بہر حال تلاوت کلام پاک کے بعد میزبان کی حیثیت سے میں نے چند الفاظ میں تعارف کروایا کہ قومی کرکٹ میں ورلڈ کپ جیتنے والے عمران خان جو کرکٹ کے بعد سوشل ورک میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی شکل میں زبردست فلاحی پراجیکٹ بنا چکے ہیں نے اب سیاست میں آمد کا اعلان کیا ہے ۔ ہم نے آپ دوستوں کو اس لیے بلایا ہے کہ آپ میں سے جو صاحب عمران سے کچھ پوچھنا چا ہیں تو ہاتھ کھڑا کر یں ہم کارڈ لیس مائیک ان کے پاس بھیج دیں گے ۔ عمران آپ کے سوالوں کے جواب دیں گے ۔
میں نے صرف ابتداء میں ملکی سیاست کے حوالے سے چند الفاظ کہے تھے۔ عمران کی سیاست میں آمد کے حوالے سے بات کی تو حاظرین کی تالیوں سے ہال گونج اٹھا جس سے مجھے احساس ہوا کہ لوگ سیاست کی دنیا میں نو وارد سے ملکی حالات پر سوالات کرنے کی بجائے کرکٹ اور سوشل ورک میں ان کی خدمات کے اعتراف میں جمع ہوئے ہیں اور عمران کے پروانوں اور دیوانوں کا مجمع دکھائی دیا۔ جونہی میں نے عمران کو مائیک پر آنے کی دعوت دی اور خود اپنی کرسی کی طرف بڑھا ہال میں دیر تک تالیاں بجتی رہیں ۔عمران نے روسٹرم پر جانے کی بجائے میری طرف آ کر میرے کان میں کہا ضیا ساری باتیں تو تم نے کہہ دیں اب میں کیا کہوں ۔ میں ہنس پڑا اور اسے کہا اپنے چاہنے والوں کے سوالوں کا جواب دو اور کیا۔‘عمران کا لہجہ بہت پر اعتاد تھا یوں بھی اسے معلوم تھا کہ ہال میں اس کا ایک بھی مخالف موجود نہیں بلکہ سب اسے چاہنے والے ہیں ۔ اس نے ملکی حالات کا مختصر جائزہ لیا اور یہ واضح کیا کہ دونوں بڑی جماعتیں آپس کی لڑائی میں مصروف ہیں اور عوام کے مسائل سے کسی کو دلچسپی نہیں کر پشن لوٹ مار لاقانونیت بیڈ گورننس کا دور دورہ ہے اور ہم ایک نیا سیاسی پلیٹ فارم بنا کر ان مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں جن کے لیے پاکستان قائم کیا گیا تھا مگر جن کو آج کے سیاستدان فراموش کر چکے ہیں ۔
مجھے انداز نہیں تھا کہ عمران اتنی مہارت سے گفتگو کر سکے گا لیکن کرکٹ اور سوشل ورک دونوں میدانوں میں اسے جو عزت اور شہرت ملی تھی اس کے باعث اس کے لیے میں بہت اعتماداً گیا تھا اوپر سے ہمارے پرانے دوست اور کالم نو یس حسن کا شمار بھی میری طرح عمران کے مداحین میں تھا ۔
حسن نثار نے جب’خبریں‘ میں کالم لکھنا شروع کیا تو ایک دن میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب وہ کاغذوں کا ایک پلندہ لے کر میری طرف آیا اور کہا ’’ ضیا بھائی میں پندرہ بیس دن کیلئے سعودی عرب جا رہا ہوں، لیکن میری غیر موجودگی میں کالم چھپتا ر ہے اس لیے 26 کالم اس فائل میں موجود ہیں ۔ آپ روزانہ ایک چھاپ دیجئے گا۔ میں نے کہا حسن نثار میں آپ کا کالم روزانہ پڑھتا ہوں آپ بہت اچھا لکھتے ہیں، زبان بھی اچھی ہے اور خیال بھی عمدہ ہے لیکن ہوسکتا ہے آپ کے بعد کوئی نئی صورتحال پیش آ جائے اور اس پر قلم اٹھانے کی ضرورت پڑے ۔ حسن نثار نے ہنستے ہوئے کہا’ ضیا بھائی میرے آنے تک تو کیا آئندہ دس پندرہ برسوں تک بھی ملکی حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی، طاقتور لوٹتے رہیں گے اور عوام پستے رہیں گے میرا کوئی کالم آپ کو پرانانہیں لگے گا۔‘ وہ چلے گئے اور میں نے ان کی عدم موجودگی میں کالم چھاپنا شروع کر دیا۔
ان دنوں حسن نثار کے کالموں کا سٹائل مجھے اب تک یاد ہے نواز شریف کیلئے بابو اور بینظیر کیلئے بی بی کا خطاب اگر چہ بعض سیاست دانوں نے دیا تھا لیکن بابو اور بی بی کااستعمال جس خوبصورتی سے حسن نثار نے کیا اس کی داد نہ دینا بے انصافی ہوگی ۔ عمران کی پہلی تقریرین کر مجھے یوں لگا جیسے وہ حسن شمار کا لکھا ہوا کالم پڑھ رہا ہے ۔
سوال و جواب شروع ہوئے لیکن زیادہ تر سوال کرکٹ سے متعلق تھے اچانک بجلی بند ہوگئی اور ملک صاحب کے منیجر نے جنریٹر چلانے کی کوشش کی لیکن معلوم ہوا کہ اس میں کوئی خرابی آ گئی ہے اس لیے روشنی ہی نہیں مائیک بھی بند ہو گیا جس کے بغیر اتنے بڑے مجمع میں تقریر کرنامشکل تھا۔ عمران نے تقریر سمیٹی میں نے شکر یہ ادا کیا لیکن جتنا وقت تقریب میں لگا اس سے زیادہ عمران کولوگوں سے ہاتھ ملانے پر صرف ہوا بڑی مشکل سے ہم ہال سے باہر نکلے اور گاڑیوں تک پہنچے ۔ شکر ہے اس زمانے میں موبائل پر سیلفی ایجادنہیں ہوئی تھی ور نہ ہاتھ ملانے کے بعد ہر شخص تصویر بنانے پر بھی مصر ہوتا تو شاید ہمیں کئی گھنٹے لگ جاتے ۔
ایک روز میرے گھر پر عمران کا کھانا تھا اس نے بڑی بے تکلفی سے کھانے سے پیشتر ہی مجھے فون پر کہا کہ ضیا تمہیں پتا ہے کہ میں فارمی چکن نہیں کھا تا یار اگر سالن میں چکن ہوتو دیسی مرغی منگوانا ۔ میں نے کہا مجھے معلوم ہے ۔ کھانے پر ہم دُرانی کو سمجھاتے رہے کہ وہ عمران کو جوائن کرئے عمران نے مجھے بھی کہا لیکن میں نے معذرت کی کہ میں سیاست میں عملاً حصہ لینا نہیں چاہتا، مجھے اخبار کے ایڈیٹر کے فرائض ادا کرنے ہیں جن کیلئے غیر جانبداری ضروری ہے البتہ شمولیت کے علاوہ کوئی خدمت ہوتو میں ہمیشہ حاضر ہوں ۔
اس ملاقات کے بعد بھی ہماری بیسیوؤں نہیں سینکڑوں بلکہ اس سے بھی زیادہ ملاقاتیں ہوئیں ۔ عمران رفتہ رفتہ لوگوں کے پاس پہنچ رہا تھا لیکن اس کی پارٹی کی حالت خاصی بری تھی ۔ اس کا کوئی بنیادی ڈھانچہ نہ تھا لوگ ایک جم غفیر کی طرح اس کے ساتھ شامل ہوتے پھر آ پس میں لڑائی جھگڑے یا کوئی ٹھوس جد و جہد کی عدم موجودگی میں مایوس ہوکر جس راستے سے آتے اسی راستے سے نکل جاتے ۔ میں نے اسے کئی بار کہا اپنے لوگوں کو کوئی ٹاسک دو بے کاری میں سوائے لڑنے جھگڑنے کے وہ اور کچھ نہیں کر سکتا۔
وقت گزرتا چلا گیا عمران کی پارٹی کا نام رکھا گیا منشور بنا جھنڈا تیار ہوا میں نے ان کاموں میں نہ کبھی دخل دیا نہ کوئی دلچسپی لی ۔یہ روٹین کے کام تھے اور میں اپنی پیشہ وارانہ مصروفیت میں رہتا تھا۔ اکثر ملاقات ہوتی یا ٹیلی فون پر گپ شپ ہو جاتی عمران ٹیلی فون پر بھی مختصر بات کر نے کا عادی ہے ۔ بہر حال وقتی ناکامیوں کے باوجود وہ حوصلہ نہیں ہارا۔ عمران کی پارٹی میں کتنے لوگ آئے اور کتنے گئے اگر ان کی فہرست تیار کی جائے تو ہزاروں نہیں شاید لاکھوں صفحات کی ضرورت ہو ۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی تاش کے پتے پھینٹ رہا ہے اور رمی کا کھیل جاری ہے ۔ عمران کے دائیں بائیں شاید کوئی پتا ایسا ہو جواپنی جگہ بنا سکتا ورنہ پتے آتے اور نکل جاتے، میں نے برسوں اس کھیل کو بہت قریب سے دیکھا ہے لیکن عمران کی پارٹی میں منشور سازی سے لے کر ان کے پہلے پارٹی الیکشن تک میں نے قطعی طور پر بھی مداخلت نہیں کی حتی کہ عمران سے اتنے قریبی تعلقات ہونے کے باوجود اگر کسی نے گزشتہ سے پیوستہ الیکشن میں یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے ٹکٹ دلوا دو یا کوئی عہدہ حاصل کر نے کے لیے میری سفارش کرو تو آپ آج بھی عمران سے پوچھ سکتے ہیں کہ پچھلے 20 برسوں میں پارٹی کے سلسلے میں الیکشن کے سلسلے میں نے تم سے کچھ مانگا ہو یاکسی کی سفارش کی ہو حالانکہ اس کے پاس آنے والوں کے بارے میں پسند یا نا پسند بہر حال اخبار نویس کی حیثیت سے میرے کچھ خیالات تھے مثبت بھی اور منفی بھی، لیکن خود عمران اس کی گواہی دے سکتا ہے کہ میں نے پوری زندگی اس کے کسی ساتھی کو اچھا یا برانہیں کہا کسی کی حمایت نہیں کی کسی کی مخالفت نہیں کی البتہ کیا کرنا ہے کیا کرنے والے ہو اس کے بارے میں بھی کبھی خود جا کر اسے کوئی مشورہ نہیں دیا ہاں اس کی اپنی خواہش پر جب بھی مجھ سے کسی اصولی مسئلے پر ہاں یا نہ میں کچھ پوچھا گیا تو میں نے اپنی رائے آزادانہ طور پر بیان کر دی۔
ان بہت سارے برسوں میں اس نے اگر کامیابیاں حاصل کی تو میں ہرگز یہ دعوئی نہیں کرتا کہ ان میں میرا کوئی حصہ ہے یا میں نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہے لیکن اسے جو ناکامیاں ملیں ان کی وجہ بھی نہ میں تھا نہ میرا ادارہ نہ میری سوچ نہ میرا مشورہ۔ عمران کی مہربانی ہے کہ وہ پرانے دوستوں کی عزت کرتا ہے بالخصوص وہ مجھے اپنا مخلص دوست خیال کرتا ہے ۔ میں نے بھی ہمیشہ نیک نیتی سے جو اس کیلئے سیاست کیلئے اور ملک کیلئے بہتر سمجھا وہی کچھ اسے کہا اور جس بات سے میں متفق نہیں تھا اسے کھل کر منع کیا۔ بیشمار مرتبہ اس نے میری کسی تجویز یا مشورے کو نہیں مانا جو اس کا حق ہے لیکن بہت سے مواقع پر میری بعض تجاویز یا مشوروں پر اس نے صدق دل سے تو جہ بھی دی اور ان کے مطابق چلنے کی کوشش بھی کی لیکن میں اس کی سیاست کی تفصیل یا تاریخ میں نہیں جانا چاہتا یہ میرا آج کا موضوع نہیں ہے میں تو صرف اپنے پرانے دوست کی جو آج بہر حال اس ملک کی سیاست کا ایک بڑا نام ہے شخصی اعتبار سے کچھ تاثرات آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔
عمران کسی سیاسی پارٹی کا سربراہ نہیں وہ طبعاً اور مزاجا ًایک تحریک کا قائل ہے پارٹی تسلسل کے ساتھ اپنے نظریات کے مطابق چلتی ہے خواہ اس کی رفتار چیونٹی کی طرح ہومگر اس کی سمت متعین ہوتی ہے ۔ عمران فاسٹ باؤلر ہے مخالفوں کی وکٹ اڑانے میں اسے مزہ آ تا ہے بلے باز کی حیثیت سے چھکے لگا کر وہ شائقین سے تالیوں کا خراج وصول کرتا ہے اگر وہ کوئی تحر یک نہ چلا رہا ہو دوسرے لفظوں میں کسی موومنٹ کا لیڈر نہ بنا ہوا ہو تو مہینوں اس کی پارٹی سے آپ کو کوئی نئی خبرنہیں ملے گی کیونکہ کوشش کے باوجود وہ جمہوریت کا نام لینے والے اس معاشرے میں جمہوری اصولوں کے تحت پارٹی الیکشن بھی نہ کروا سکا اور جب کروائے تو وہ نا کام ہو گئے اور پارٹی کا سفر رک گیا جس پر اسے یہ سب کچھ ختم کرنا پڑا۔اس نے طے کیا تھا کہ مڈل کلاس کے نو جوانوں کو سیاست میں کا میاب کروائے گا اور اسمبلیوں تک پہنچائےگالیکن اس نام نہاد اور جھوٹی جمہوریت اور بوگس انتخابات میں میں سارے نو جوان چاروں شانے چت ہو گئے۔
پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے انگریز سے آزادی حاصل کی اور جہیز میں ہمیںبرطانوی جمہوریت مل گئی جسے خدائی قانون سمجھتے ہوئے ہم نے سر پر اٹھالیا حالانکہ برطانوی جمہوریت کیلئے عوام کی خود کفالت، تعلیم کی انتہائی بلند سطح مستحکم ادارے اچھی گورننس ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر معاشی آزادی اور معاشی مساوات لازم ہے ۔ انتہائی منصفانہ اور دیانتدارانہ انتخابی نظام مغربی جمہوریت کی بنیادی اور یہ خوبیاں ہمارے معاشرے میں قطعی طور پر موجود نہیں لہذا ان انتخابات سے آپ کو بھی اچھی لیڈرشپ نہیں مل سکتی ہمارے ہاں جمہوریت صرف ووٹ لینے اور اسمبلیوں میں پہنچ کر بادشاہت قائم کرنے کا نام ہے۔ جس ملک میں 43 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہوں سارے دعوؤں کے باوجود تعلیم کی شرح انتہائی شرمناک ہو جاگیرداروں اور ذمہ دارانہ نظام کے ساتھ سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کا گٹھ جوڑ ہر علاقے اور ہر انتخابی حلقے میں سیاسی اجارہ داریوں کو جنم دے چکا ہو جہاں جاگیردار صنعتکار سرمایہ دار خود یا ان کے گماشتے میدان میں ہوں ۔ جہالت کے باعث لوگ بچے جھوٹے پیروں، گدی نشینوں مذہبی اجارہ داروں کے چنگل میں پھنسے ہوں جو قر آن گلے میں لٹکا کر ووٹ مانگتے ہوں اور گناہ گار لوگ ڈر کر جس نشان پر چاہتے ہوں دستخط کر دیں ۔ جہاں سرمایہ کے بل پر سیٹ حاصل کی جاتی ہو اور پھر لوٹ کھسوٹ کر کے اپنا گھر بھرا جا تا ہو اور کمائی کا کچھ حصہ اگلے الیکشن کے لئے مختص کرنے کا رواج ہو جہاں الیکشن کمیشن بوڑھے اور اذکار رفتہ بچوں کو آسان اور بہترین مشاہرے پر چیئر مینی اور نمبر یاں ملتی ہوں جہاں پر صوبائی حکومت اپنی مرضی کا مبر کمیشن میں بھیجتی ہو جہاں قومی احتساب بیورو کی چیئر مینی پراپوزیشن اور حکومتی پارٹی اتفاق رائے سے بندہ منتخب کرتی ہو جہاں عدالتیں کام تو کرتی ہوں لیکن ان میں انصاف کے حصول کے لئے دولت درکار ہو کہ وکلاء کی بھاری فیسیں ہرشخص ادانہیں کرسکتا۔ جہاں انصاف کے نام پر بے انصافی عام ہو جہاں اسمبلیوں کے ارکان قانون سازی اور بجٹ سازی میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں بلکہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر فنڈ ز چاہتے ہوں جن کو خرچ کرتے وقت انہیں مناسب حصہ سکے ۔
ہمارے ہاں منتخب ارکان اسمبلیوں میں مسائل پر بات نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے علاقوں میں مرضی کا ڈی سی اور ڈی پی اولگوانا چاہتے ہیں وہ صاحبان اقتدار کے لئے قانون سازی میں دلچسپی نہیں رکھتے بلکہ مقامی طور پر اپنے اپنے حلقے میں براہ راست اقتدار چاہتے ہیں تا کہ راجہ بن کر اپنی ریاست میں حکمرانی کرسکیں ۔ جہاں پارلیمنٹ میں کبھی کورم پورا نہ ہوتا ہولیکن سفر خرچ علاج معالجے کے اخراجات کے ساتھ ساتھ نوکر یوں ٹیکسوں کے پس پشت سفارشوں کا نظام رائج ہو اور ہر رکن نوکریوں اور ٹھیکوں میں اپنا کوٹہ چاہتا ہو وہاں مڈل کلاس یا غریب طبقے کا کوئی شخص رکن اسمبلی بننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ جہاں اشرافیہ کے بیرون ملک اثاثے ہوں ان کے بچے وہاں تعلیم حاصل کرتے ہوں ان کے لیڈروں کے بیش قیمت گھر ہوں وہاں تیزی سے بھوک افلاس بیکاری اور تنگدستی کی دلدل میں پھنستے اور گرتے ہوئے لوگوں کا کون مددگار ہوسکتا ہے ۔میرے دوست اور انقلابی شاعر حبیب جالب نے ٹھیک کہا تھا۔
چین اپنا یار ہے
اس پہ جان نثا ر ہے
پر وہاں جو ہے نظام
اس طرف نہ جائیو
ہمارے ہاں جب جمہوریت ہوتی ہے تو لوٹ مار کا شور مچتا ہے ماضی میں مارشل لاء آئے تو جمہوریت کے نعرے لگئے جہاں ہر پارٹی حکومت میں آنے کے بعد پچھلی پارٹی کے کئے کرائے پر پانی پھیر دیتی ہو جہاں 70 سال میں کسی نے نہ سوچا ہو کہ ہماری اگلے دس سال کی کیا ضرورتیں ہوں گی جہاں فیملی پلانگ اور پاپولیشن پلانگ کا مقصد غریب عوام میں غبارے تقسیم کرنا ہو ۔( مجھے بہت مرتبہ چین جانے کا اتفاق ہوا اور کئی بار چینی پالیسی سازوں نے یہ کہا کہ ہمارے ہاں دنیا کی سب سے بڑی آبادی کی پلاننگ کا مطلب یہ ہوتاہے کہ اگلے پانچ سال میں ہمیں کتنے سکول کتنے ہسپتال روزگار کے لئے کتنی آسامیاں علاج کے لئے کتنے ڈاکٹرز تعمیراتی کاموں کے لئے کتنے انجینئرز اور معمار درکار ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں پاپولیشن پلانٹنگ والے کسی سیمینار میں آتے ہیں اور دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں بڑے فخر سے یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے اپنی بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لئے اتنے لاکھ اور اتنے کروڑ غبارے تقسیم کئے ۔ وہاں عمران خان نے نو جوانوں کو ٹکٹ دے کر بار بار شکست فاش پائی اور پھر میرا دوست پلٹ کر اس فارمولے پرعمل کرنے لگا کہ جیسا بھی ہے اس سوسائٹی میں سیٹ جیتنے والا تلاش کیا جائے اور اسے اسمبلیوں کے لئے کامیاب کروا کے نظام بدلا جائے اسے انگریزی میں اینٹی تھیس کہتے ہیں لیکن یہی ہوا اور پھر عمران نے گالیاں کھائیں کہ اس نے بھی استحصالی طبقوں کے مالدار لوگ جمع کر لئے ہیں ۔
میں نے اپنی زندگی میں عمران خان کو بہت فون کئے ایس ایم ایس بھی کرتا رہا میں نے دھرنوں، کینٹیر وں اور جلسوں میں بھی اپنی رائے ضرور اس تک پہنچائی لیکن میں سیاست کی بھول بھلیوں میں گم ہونے کے بجائے اپنے موضوع کی طرف پلٹتا ہوں ۔
عمران خان کے بارے میں میرے کچھ تاثرات چھپے تو بہت سے قارئین نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ میں اٹھارہ برس میں عمران خان کی سیاست کے دلچسپ واقعات بیان کروں لیکن میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ بہت کچھ جاننے کے باوجود میں اس موضوع پر اپنا اور اپنے قارئین کا وقت ضائع کرنانہیں چاہتا۔ ہاں 2013 ء کے الیکشن اور اس کے بعد سے اب تک اپنے خیال میں عمران خان نے جو اچھے کام کیے یا اس سے جو سیاسی غلطیاں ہوئیں اس پر سرسری انداز میں کچھ باتیں ضرور کروں گا۔
2013 ء کے الیکشن میں منظم دھاندلی ہوئی تھی یا بقول جوڈیشل کمیشن منظم تو نہیں تھی مگر بے قاعد گی بہت ہوئی تھی ۔ میں اس شاندار‘ فیصلے پر جوڈیشل کمیشن کے فاضل جج صاحبان کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔ مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے اگر چہ جج صاحبان اگر خود پڑھیں یا کوئی نہیں بتائے تو ان کی تسلی کیلئے یہ ضرور کہوں گا کہ یہ محض لطیفہ نہیں بلکہ واقعہ ہے ویسے اس کا جوڈیشل کمیشن کے فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔
جب میں یو نیورسٹی میں پڑھتا تھا اور ایم اے عربی کر نے کے بعد ایم اے اردو کر نے کی کوشش کر رہا تھا تو اردو کے دو معروف ترین مرثیہ نگار شعراء میرانیس اور میر دبیر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا اہل تشیع ہی نہیں اہل سنت والجماعت کے عقیدے لوگوں کو بھی ان دوعظیم شعراء کے متعلق اس بحث سے بہت دلچسپی تھی کہ انیس اور دبیر میں کون بڑا مرثیہ گو ہے مشکل یہ تھی کہ کسی ایک کو بڑا قرار دینے والے سے دوسرے کو بڑا سمجھنے والے کے حامی ناراض ہو جاتے تھے آخرایک سیانے نے یہ یوں فیصلہ دیا کہ :
’’ ان دونوں عظیم مرثیہ گوشاعروں کی کیا بات ہے جناب ایک آہ ہے تو دوسرا واہ ۔‘‘
یہ جواب سن کر دونوں اطراف کے لوگوں کو خوشی ہوئی کچھ اس طرح کا فیصلہ ہمارے یہاں جوڈیشل کمیشن کے فاضل جج صاحبان نے دیا۔ اب مسلم لیگ ن خوش کہ عمران کا ان کے خلاف الزام کہ منظم دھاندلی ہوئی ہے غلط قرار پایا ( ہمارے دوست نجم سیٹھی پر عمران خانی الزام ) وغیرہ کہ منظم دھاندلی نہیں ہوئی تو دوسری طرف عمران خان بھی خوش کہ بڑے پیمانے پر بے قاعد گیاں ہوئی ہیں ۔اعلیٰ عدالتوں تک پہنچتے پہنچتے ہمارے جج حضرات انتہائی ذہین اور فطین ہو جاتے ہیں، انصاف مانگنے کیلئے آنے والے دونوں فریقوں کو خوش کر دیا۔ دونوں فریقوں کو ایک ایک جھنجھنا تھما دیا اور دونوں اسے بجاتے ہوئے عدالت سے اپنے اپنے ٹھکانوں تک پہنچ گئے ۔قربان جائیے اس ٹربیونلز کے فیصلے پر ۔
قانون کے لکھے ہوئے الفاظ کہتے ہیں کہ چھ ماہ میں انتخاب کا فیصلہ ہو جانا چاہئے جبکہ آج ساڑھے تین سال گزرنے پر بھی اگر فیصلہ ہو جا تا ہے تو سپریم کورٹ میں اپیل کر دی جاتی ہے جہاں سے اس سے مل جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اگر واقعی کسی امیدوار نےدھاندلی کی ہے تو بھی وہ آسانی سے پانچ سال اسمبلی میں گزارسکتا ہے تب تک 2018 ء کا الیکشن آ جائے گا۔ اللہ اللہ خیر صلا ،تازہ ترین خبروں کے مطابق سپریم کورٹ نے بہر حال فیصلہ سنادیا کہ تحر یک انصاف کے عثمان ڈار کی خواجہ آصف کے خلاف دھاندلی کی شکایت غلط ، خواجہ صاحب اس الزام سے بری الذمہ ہو گئے ۔ کسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کے بغیر میں سمجھتا ہوں ویسے میرے دوست اسحاق ڈار صاحب کی سربراہی میں انتخابی اصلاحات پر کام کرنے والی کمیٹی کی کارکردگی معلق نہیں رہنی چاہئے بلکہ 2018ء کے الیکشن سے پہلے اہم فیصلے نہ ہوئے ایکشن کمیشن کی تطہیر ممکن نہ ہوسکی اور دیگر خرابیوں کا تدارک نہ کیا جا سکا جن میں سے بعض کی طرف توجہ خود جوڈیشل کمیشن بھی دلا چکا ہے اور پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی بھی جن پر بحث کر چکی ہے ۔ اگر ان کے بغیر نئے الیکشن ہوئے تو ان کا حشر بھی 2013 ء کے الیکشن والا ہو گا۔ستم بالائے ستم کہ جب بھی مردم شماری کی بات چلتی ہے پتا چلتا ہے سرکاری عملہ اس کام کیلئے نا اہل ہے اور اس کی غیر جانبداری پر کسی کو یقین نہیں جبکہ فوج دہشت گردی کے خلاف مصروف عمل ہے اس لیے وقت نہیں دے سکتی ۔لہذا برسوں سے مردم شماری نہ ہونے کے باعث الیکشن کی اس شاخ نازک پر جو’ آشیانہ‘ بنے گانا پائیدار ہوگا۔
میرا مشورہ عمران خان کے اسلام آ باد کنٹینرز کے دور میں یہی تھا کہ آپ اپنی سیاسی جنگ کو ڈاکٹر طاہر القادری کی نظریاتی جنگ برائے خلافت و اسلامی انقلاب سے الگ رکھیں جو ہو گیا اسے چھوڑ میں کم از کم 2018 ء کے الیکشن سے پہلے مردم شماری انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی تطہیر کا کام کروالیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی مگر نجانے عمران کے ایسے کون سے دوست اور مشیر تھے جنہوں نے اسے مشورے دیے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے ساتھ مل کر وزیر اعظم اور وزیراعلی سے استعفیٰ لیں پارلیمنٹ ہاؤس پر قبضہ کر لیں۔ وزیر اعظم ہاؤس کا گھیراؤ کر کے نہ کسی کو اندر جانے دیں نہ باہر آنے دیں ۔ خدا کا شکر ہے کہ میں ایسے کسی مشورے میں بحیثیت دوست بھی شریک نہیں تھا کہ بجلی کا بل بھی ادانہ کرو نہ دنیا بھر سے بینکوں کے ذریعے پیسے بھیجو یا پاکستان ٹیلی ویژن پر قبضے کے بعد امپائر کا انتظار کر وجو آ کر اعلان کر دے کہ عزیز ہم وطنو…
جاننے والے جانتے تھے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کا ایجنڈا ہرگز سیاسی نہیں انقلابی ہے اور وہ بھی یوٹو پیئن، عمران کی جماعت سیاسی ہے اسے یوٹو پیئن انقلاب کیلئے کسی مار دھاڑ میں شامل نہیں ہونا چاہئے تھا اور نہ اپنے ورکروں بالخصوص خواتین کو جسمانی طور پر مہینوں ٹیکس نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ اللہ جانے وہ کون لوگ تھے جو عمران کے گرد جمع تھے اور اس بنیادی حقیقت سے واقف نہ تھے کہ انسانی جسم کی بہر حال قوت برداشت محدود ہوتی ہے اور اسے پتھر اور فولاد نہیں سمجھنا چاہئے ۔ یہی وجہ ہے کہ دھرنوں میں عمران کے حامیوں کی تعداد کم ہوتے ہوتے چند سوتک رہ گئی ۔
میں کسی بھی سیاسی جماعت کے اس حق کو دل و جان سے تسلیم کرتا ہوں کہ اسے آزادی اظہار کا مکمل موقع ملنا چاہئے، میں جلسے جلوسوں مظاہروں اور دھرنوں کو جمہوریت کا حسن تصور کرتا ہوں لیکن ان عقل کے اندھوں کو خراج تحسین پیش نہیں کر سکتا جنہوں نے عمران خان کو یہ مشورہ دیا اور یہ راستہ دکھایا کہ اسلام آ با د مظاہرے کا نام ’’ اسلام آباد بند کر واور حکومت کے کام روک دو پہلے ہی سے اعلان کرنا ضروری ہے ۔ اس اعلان نے حکومت بالخصوص پنجاب کو یہ آئینی اور قانونی جواز مہیا کر دیا کہ آپ سرکاری کاموں میں مداخلت عوام کی نقل و حرکت میں رکاوٹ اور بری بھلی جیسی بھی ہے ایک منتخب حکومت کو ز بر دستی کام سے روکنے کی بزور قوت کوشش کریں اب عقل کے اندھے ان بحثوں میں مصروف ہیں کہ پنجاب سے دس لاکھ افراد اسلام آباد کیوں نہ پہنچ سکے حالانکہ ہر شہر اور ہر قصبے میں پنجاب حکومت کے بقول ایک غیر آئینی اور غیر قانونی ’ لاک اپ میں شرکت کیلئے جانے والوں کی گرفتاری جائز ہے عمران کے مشیروں سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا لاک اپ کا پیشگی اعلان ضروری تھا۔ حکومت جہاں بھی کہتی تھی وہ اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں بھی دس لاکھ افراد جمع کر لیتے تو قدرتی طور پر شہر خود ہی’ لاک اپ‘ ہو جا تا مجھے یقین ہے کہ عمران کے قریبی مشیروں میں ن لیگی حکومت کے کچھ خیر خواہ بھی شامل ہیں جنہوں نے اتنے بڑے مظاہرے کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دلوا دیا۔ میرے دوست عمران کو سوچ سمجھ کر ہر قدم اٹھانا چاہئے اور اپنے حامیوں کو سیاسی طور پر حامی ہی سمجھنا چاہئے خودکش بمبار سمجھ کر ناممکن کام ان کے سپردنہیں کرنے چاہئیں ۔
اسلام آباد پر پہلے حملے میں غیر محتاط گفتگو کے نتیجے میں جاوید ہاشمی کو اندر سے ’ تارپیڈو‘ مارنے کا موقع دیا گیا اگلے دو گھنٹے میں امپائر انگلی اٹھانے والا ہے جیسے بیان دے کر ایک زبردست سیاسی عمل کو بلا وجہ مشکوک بنانے والے کون تھے تعجب ہے کہ عمران جیسا ذہین لیڈر بھی خود احتسابی کیلئے ایک بھی نشست کا اہتمام نہیں کرتا اور اس کے نابالغ مشیر ہر بارا سے کسی نئے گڑھے میں گرا دیتے ہیں ۔ سیاست ایک ہنرمندی کا نام ہے یہ کھیل ذہانت کا تقاضا کرتا ہے اور کوئی قدم اٹھانے سے پہلے کاغذ پرلکھ کر اس کے سامنے یہ تحریر کرنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم یہ عمل کر یں گے تو رد عمل کیا ہوگا اور اس رد عمل سے بچنے کیلئے ہمیں کون سا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہوگئی پاکستان میں ایسے احمقوں کی کمی نہیں جو 2016 ء میں بھی مارشل لاء کے نفاذ کی باتیں کرتے ہیں اور اس بار بار آ زمائے ہوئے فارمولے پر دو بار عمل کرتے ہیں کہ اسلام آباد کا گھیراؤ کرلو ٔ حکومتی کام ختم کر دو وفاق سے کسی صوبے کو لڑوا دو تا کہ عزیز ہم وطنو والی تقریر کے لئے قانونی اور اخلاقی جواز مہیا ہو سکے ۔ جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنی خوبیوں خامیوں کے باوجود بڑی ذہانت سے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی پر زور حامی ہے تا کہ پاک فوج کی ضرورت کم ہو اور دوسری طرف ترکی میں مارشل لاء کے سامنے ڈٹ جانے والے عوامی مظاہروں کو اپنے پاکستانی حامیوں کے لئے رول ماڈل قراردیتی ہے ۔ کیا یہ ضروری ہے کہ فوج میں پھر سے کوئی مہم جو سامنے آئے ۔تفصیل میں جائے بغیر میں ایک پرانا دلچسپ واقعہ قارئین کے سامنے پیش کروں گا ۔عمران کو بھی چاہئے کہ اسے غور سے پڑھے یا پڑھوا کے سن لے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا دور تھا۔ میرے بہت پرانے اور قابل احترام دوست ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان بھٹو صاحب کے شدید مخالف شمار کئے جاتے تھے ۔ ان کا منشور جس کا ٹائٹل نیلا تھا کی آخری نظر ثانی بھی میں نے کی اور ان کی جماعت میں شامل نہ ہونے کے باوجود ایک ذاتی دوست کی حیثیت سے بعض دلچسپ مشورے بھی دیے منشور کمیٹی کا بنایا ہوا مسودہ کئی ماہ پرانا تھا اور اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ بینک اور انشورنس کمپنیاں نیشنلائز کر دیئے جائیں گے ۔ یہ منشور میں نے ہی اپنے پرنٹنگ پریس میں 50 ہزار کی تعداد میں شائع کیا ( جس کا بل تحر یک استقلال نے ادا کیا ) البتہ میرے مشورے پر مطالبات میں سے بہت سے مطالبے حذف کر دیئے گئے کہ بھٹو صاحب پہلے ہی سے ان کا اعلان کر چکے تھے۔ اصغر صاحب کا خیال تھا کہ تحریک استقلال کے لئے ہفت روزہ شائع کیا جائے‘جسکا نام استقلال تجویز ہوا، ایک پرانے سابق مسلم لیگی سینئر کارکن ابوسعید انور اس کے ایڈیٹر مقرر گئے گئے ۔ ڈیکلریشن حاصل کیا گیا جو ابوسعید انور کے نام تھا۔ مشیر پیش امام ایئر مارشل اصغرخان بیگم عابدہ حسین ( والدہ کی خواہش پر ) اے بی اعوان ( سابق سیکرٹری داخلہ ) شیر باز مزاری اور بعض دوسرے لوگ ہفت روزہ استقلال کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ارکان تھے اور ان سب نے مالی طور پر حصہ ڈالنے کا وعدہ کیا۔اس ہفت روزہ کو میرے پریس میں چھپوانے کا فیصلہ کیا گیا ( عابدہ حسین کی والدہ نے عین وقت پر انکار کر دیا کہ میری بیٹی کو بھٹو صاحب نے پنجاب اسمبلی کے لیے خاتون ممبر بنانے کا اعلان کر دیا ہے اس لئے معذرت )۔ ایک دن اصغر صاحب چائے پر میرے گھر تشریف لائے اور انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں صحافت کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹی میں بھی شمولیت اختیار کروں میں نے معذرت کی اور اپنے اس خیال کو دہرایا کہ اخبار نویس کو سیاسی طور پر کسی جماعت میں شامل نہیں ہونا چاہئے البتہ وہ ہمدرد یا ناقد ہوسکتا ہے۔ تاہم صحافی کے لئے آزاد حیثیت میں کام کرنا ضروری ہوتا ہے ۔ انہوں نے مذاق میں کہا ضیا صاحب آپ بھٹو سے ڈرتے ہو میں نے کہا جناب میں ہرگز نہیں ڈرتا بلکہ میں تو ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف کرتا ہوں البتہ غریبوں اور محروموں کے لئے ان سیاسی وعدوں کا معترف ہوں اصغر خان نے کہا بھٹو کی حکومت جانے والی ہے ۔ میں نے کہا ابھی تو اسے اقتدار میں آئے دو سال گزرے ہیں اور ان کے تین سال باقی ہیں ۔ اصغرخان نے کہا کہ دیکھوان ملکوں میں تبدیلی ضروری نہیں کہ الیکشن کے ذریعے آئے ۔ میرے کریدنے پر وہ بولے حکمران کی شدت سے مخالفت کروہ شمال کہے تو تم جنوب کہو وہ مشرق کی طرف جائےتو تم مغرب کا رخ کرو تم اس کی ہر غلطی پرلوگوں میں تحریک چلاوحتی کہ یہ بات عام ہو جائےکہ اگر بھٹو ہیں تو اصغر خان میں نے کہا لیکن الیکشن سے پہلے آپ حکومت میں کیسے آئیں گے اور الیکشن میں کامیابی تو لازمی ہے وہ بولے دیکھو میں آپ کو بتاؤں کہ حکومت میں تبدیلی کیسے ہوتی ہے۔ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں سیدھی کر لیں اور جو انگلی سب سے او پرتھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ آج کا حکمران بھٹو ہے پھر اس سے چھوٹی انگلی کو اٹھاتے ہوئے بولے یہ آج کا سب سے بڑا اپوزیشن لیڈر ہے اصغرخان میں نے کہا پھر؟ وہ بولے حکومت کا چلنا ناممکن بنا دو پھر یوں ہوگا کہ کوئی انقلاب آئے گا اور سب سے او پر جوانگی تھی اسے موڑتے ہوئے بولے حکمران نیچے آ جائے گا اور جس انگلی کو انہوں نے اپنی قراردیا تھا اس پر دوسراہاتھ رکھتے ہوئے بولے میں آپ ہو آپ حکمران بن جاؤ گئے مجھے بحث کرنے میں بڑا مزہ آتا ہے ۔ میں نے کہا جناب آپ کی تھیوری پاکستان کے حالات پر تو صادق آتی ہے یہاں عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے لیکن جو طاقت حکمران کو اٹھا کر پھینک دے گی وہ خود کیوں نہ حکمران بنے گی آپ کو گھر سے اٹھا کر اسلام آباد کیوں پہنچائے گی؟
حکومت میں پہنچے کا ایک ہی راستہ ہے ۔ الیکشن کمیشن کی تطہیر، نئی مردم شماری نئی حلقہ بندیاں مؤثر انتخابی اصلاحات پارٹی کی تنظیم نو الیکشن تک پہنچنے سے پہلے ایک متبادل سیاسی نظام وضع کرنا اور اس کا اعلان کرنا ڈیفنس لاہور اور ڈیفنس کراچی کے علاوہ بھی عمران کے چاہنے والے ہر جگہ موجود ہیں لیکن کیا عمران کے مشیروں نے بھی سوچا کہ پاکستان کے مجبور اور محروم کسانوں کیلئے اس نے کیا کیا اور حکومت میں آ کر کیا کرے گا ، نو جوانوں کے روز گار اور وسائل میں انکا حق کیسے دلایا جائے گا ، مزدوروں کے بارے میں تو خیر عمران کی پارٹی ویسےہی خاموش ہے۔
پاکستانی معاشرہ سندھ اور جنوبی پنجاب میں بالخصوص وڈیروں، زمینداروں ، جا گیر داروں کے علاوہ گدی نشینوں ، پیروں ، پیرزادوں ، مولویوں اور مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے والوں پر مشتمل ہے ۔ دو ایک بڑے ناموں کو اپنے ساتھ شامل کرنے کے با وجود کیا پنجاب اور سندھ کی عوام کیلئے عمران کے پاس کوئی پروگرام ہے، کیا یہ حقیقت نہیں که حکومت وقت کے پاس بہت سے ترپ کے پتے ہوتے ہیں ، آپ چار بڑے جلسے کر تے ہولیکن حکومت صحت کارڈ کے ایک اعلان ، معذوروں کیلئے خصوصی ملازمتوں کے کوٹے کی ایک خبر ، لوڈ شیڈ نگ کو نصف کر نے کا ایک ہینڈ آؤٹ ،کوئی بڑی ترقیاتی سکیم جس میں بہت سے لوگوں کو روز گار ملتا ہو ہر دوسرے دن کسی ترقیاتی منصوبے کا افتتاح ، تعلیم یا صحت کے شعبے میں کوئی اہم اعلان ، کاشتکاروں کی مالی مدد کا کوئی منصوبہ، غرض بیسیوں ایسے کام ہیں جن سے حکومت وقت عوام کے کسی نہ کسی حصے میں گڈ ول پیدا کر سکتی ہے۔ پہلے دھاندلی اور اب کی کرپشن یقینا اصولی اختلاف ہیں لیکن عمران اور اس کے ساتھیوں کو سوچنا ہوگا کہ 43 فیصد عوام کا خط غربت سے نیچے چلا جانا کیا دو وقت کی روٹی کے محتاج غریبوں ، سرکاری سکولوں سے غربت اور ناداری کے سبب والدین کا بچوں کوسوچتی ہے اب تک تو اس کا ٹارگٹ صرف ایک یا دو پارٹیاں اور چند افراد ہیں ۔عمران کے بقول ان کو کیفرکردار تک پہنچانے میں کامیابی کے باوجود کیا حکومت میں آنے کے بعد آپ کے پاس کوئی جامع نقشہ ہے ۔ افسوس ، عمران کے ساتھیوں میں کئی لوگ پیپلز پارٹی میں رہے ہیں ۔ بھٹو صاحب کے عوام دوست پروگرام جن پر خود بھی بھٹو حکومت نے عمل نہیں کیا اور نہ بینظیر بھٹو ان کے بارے میں کچھ کرسکیں اور زرداری صاحب نے تو بھٹو کے پروگرام کا بھی بستر لپیٹ دیا لیکن کیا تحر یک انصاف کے پاس پنجاب میں بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک لڑنے کا اعلان جیسا نیشنل فارمولہ یا روٹی ، کپڑا، مکان کی فراہمی کا کوئی ملک گیر وعدہ موجود ہے جس پر بالخصوص پنجاب نے اپنا سارا وزن بھٹو صاحب کی جھولی میں ڈال دیا تھا، عمران کو کریڈٹ جا تا ہے کہ اس نے بالخصوص انگریزی پڑھے لکھے لڑکے لڑکیوں کو گھروں سے نکال کر سیاسی میدان میں لانے کا کارنامہ انجام دیا لیکن لالک چوک لا ہور اور ڈیفنس سوسائٹی کراچی کا یہ مجمع اسے چند سیٹیں تو دلاسکتا ہے لیکن پنجاب کی 65 فیصد دیہاتی اور قصباتی ووٹوں کو کوئی ایسا خواب نہیں دکھا سکتا کہ ان سے دُکھ دور ہو جائیں ۔عمران کے پاس نعرے تیار کرنے والوں کی کمی ہے اور اسکی ساری جد و جہد پہلے انتخابی دھاندلی اور اب کرپٹ حکمرانوں تک محدود ہے ، کوئی بہت مجبور کرے تو ایک آدھ تقریب مثلا پھول نگر ،عمران کسانوں کے بارے میں حقوق کی بات کرتا ہے جس کا زبردست استقبال ہونے کے باوجود جماعتی طور پر عمران کے پاس کوئی متبادل سیاسی نظام، ڈھانچہ یا بہت سے سلوگن موجود نہیں ہیں جن سے دیہاتی ، قصباتی آبادیاں، مزدور، کسان ، کاشتکار، چھوٹے ملازم، رشوت سے ستائے ہوئے اور دکھوں میں کراہتے ہوئے لوگوں کو ایسے مستقبل کا نقشہ ملے کہ وہ اس کے ووٹر بن سکیں ۔ بلدیاتی انتخابات میں لاکھ حکومتی مداخلت ہو لیکن عمران کے مشیر اور صلاح کار یہ سوچنے کیلئے بھی تیارنہیں کہ میں مقامی حکومتوں کے الیکشن میں اس بری طرح ناکامی کا سامنا کیوں ہے، بڑے شہروں اور زیادہ سے زیادہ چھوٹے شہروں تک محدود یہ سیاسی جماعت بلوچستان سند ھ ، جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب کے محروموں اور مظلوموں کو کونسا خواب دکھا رہی ہے کہ وہ اسکی طرف متوجہ ہوں ، معلوم نہیں میرا پرانا دوست اور دانشور حسن نثار جو عمران کیلئے خلوص اور محبت کے جذبات رکھتا ہے، اسے اچھے نعرے اور اچھے سلوگن کیوں فراہم نہیں کرتا، بڑے شہروں اور بڑے مظاہروں سے ہٹ کر ملک گیر سیاسی جماعت بنانے کیلئے اور 2018ء کے عام الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی خاطر عمران کو چھوٹے شہروں، قصبوں اور دیہاتی علاقوں میں جانا ہوگا ۔
میں صرف ایک مثال دونگا۔ آج مسلم لیگ ن کے اطلاعات کے بادشاہ پرویز رشید بھی پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن تھے، پارٹی کا ایک اور جانباز راجہ انور عمر بھر میرے رسالوں اور اخباروں کا کالم نو لیس بھی رہا اس نے بھٹو کی پھانسی پر غریب عوام کو آگ لگا کر خودکشی کرنے کی ترغیب بھی دی خود کو بھی آگ نہیں لگائی پھر پرویز رشید کی معرفت نواز شریف صاحب کی پارٹی میں آ گیا اور الیکشن ہارنے کے باوجود پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کا چیئر مین بھی بنا اور شاید کسی ٹاسک فورس کا انچارج بھی ، وہ پیپلز پارٹی کا جیالا رہا۔ مرتضی بھٹو کے ساتھ افغانستان بھی پہنچا بھٹو صاحب کے دور میں ان سے باغی ہو کر مختار رانا اور معراج احمد خان گروپ میں بھی شامل ہوا۔ مختار رانا کی بہن زرمینہ رانا کےضمنی الیکشن میں وہ مجھے زبردستی اور اصرار کر کے فیصل آباد لے گیا اور ہوٹل میں میری بکنگ کے باوجود اس نے رات بھر مجھے گھنٹہ گھر کے پلاٹ میں سونے پر آمادہ کیا۔ ہزاروں لاکھوں نہیں کروڑوں افراد تھےجنہوں نے سڑکوں پر قیام کیا اور بھوکے رہ کر بھی پیپلز پارٹی کیلئے جد و جہد کی ۔
گزشتہ دنوں عمران کی پارٹی کے ایک بڑے لیڈر نے گلہ کیا کہ طاہر القادری کے مقابلے میں ہمارا ورکر بہت’ ڈیمانڈ نگ‘ ہے اور ہمیں اس کی بہت خدمت کرنا پڑتی ہے عمران سے محبت کرنے والوں کی تعداد کم نہیں لیکن کیا وہ اپنی پارٹی میں بھٹو کے جیالوں اور نواز شریف کے متوالوں جیسا کوئی بنا سکا جوگلی گلی ، قصبہ قصبہ ، گاؤں گاؤں پھیل جائے اور اپنی جماعت کیلئے کام کرے کیا یہ درست نہیں کہ اکثر ن لیگی لیڈ رطعنہ دیتے ہیں کہ عمران کی تیار کر دو ممی ڈیڈی برگر کلاس کو پہلی بارسرکاری کُٹ مار‘ کا سامنا کرنا پڑا تو وہ گھروں میں دبک گئی۔
راجہ انور اور میں ایک بار فیصل آباد سے لاہور آ رہے تھے ، اس وقت موٹر وے نہیں بنی تھی پرانی سڑک پر راجہ انور نے مجھے بتایا کہ بھٹو نے فیصل آباد سے لاہور اسی میل کا فاصلہ الیکشن سے پہلے نو گھنٹے میں طے کیا اور 21 مقامات پر رک کر ٹرک میں کھڑے ہو کر بیٹریس سے چلنے والے مائیک کے ذریعے عوامی اجتماعات سے خطاب کیا۔ عمران میں ذاتی طور پرہمت بھی ہے اور جرات بھی ،لیکن اس کے صلاح کار اور مشیر اسے ہر وقت گھیرے رکھتےہیں اور لوگوں میں نہیں جانے دیتے۔ اگر اسے 2018ء کا الیکشن جیتنا ہے تو اپنے شہر، اپنےنعرے، اپنا پروگرام اور اپنے انداز واطوار بدلنا ہونگے ۔
قارئین ،عمران کے حوالے سے اپنی کچھ یادوں اور کچھ تاثرات پر مبنی سلسلہ مضامین ختم ہونے کو ہے۔ میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ برصغیر میں سب سے بڑی سیاسی جنگ قائد اعظم نے لڑی اور اس کے بعد اپنی بے شمار خامیوں کے باوجود ذوالفقار بھٹو واحد سیاستدان تھا جس نے عوام کوموبلائز کیا اور غریب کے دل تک پہنچا۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار بلنڈ رکرنے کے باوجود آج بھی آپ کو ہرگلی محلے میں پرانا پیپلیا مل جاتا ہے ۔ نواز شریف کا زیادہ دور حکومت میں گزرا لیکن اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے بالخصوص بے نظیر کے خلاف تحریک نجات میں میاں صاحب نے بڑی محنت کی اور ساتھیوں کو بھی مشقت پر مجبور کیا۔ میں نواز شریف صاحب کی سیاست میں آمد سے آج تک مختلف ادوار میں انہیں قریب سے دیکھتارہاہوں اور پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہ سکتا ہوں کہ نواز شریف صاحب کبھی ڈر کر یا جھک کر استعفیٰ نہیں دیں گے۔ وہ عز یر ہموطنو والی تقریر کے بعد گرفتار ہونازیادہ پسند کریں گے تا کہ ان کی مستقبل سیاست اور ووٹ بینک محفوظ رہے اور انہیں جمہوریت کی خاطر قربانی دینے والا شمار کیا جا سکے ۔
تجربے اور مشاہدے نے مجھے بہت سکھایا ہے ۔عمران ہو یا طاہرالقادری جم غفیر جمع کر کے حکمرانوں کو مستعفیٰ ہونے پر مجبور کرنے کا طریقہ میری نظر میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ میں یہاں بھٹو صاحب کی زندگی کے آخری حصے کے بارے میں ایک حقیقت سامنے لانا چاہتا ہوں۔
یہ روز نامہ نوائے وقت میں میری ڈپٹی ایڈیٹری کا دور تھا جب شاہراہ فاطمہ جناح پرنوائے پرنٹرز کے سامنے بنی ہوئی دفتر کی نئی عمارت میں مجید نظامی صاحب نے جو ہمارے سینئر صحافی اور اخبار کے چیف ایڈیٹر تھے اپنے معتمد خاص منیر کو بھیج کر مجھے کمرے میں بلایا جسے مذاق میں دفتر کے پرانے لوگ منیر نظامی کہا کرتے تھے۔ محترم مجید صاحب کے کمرے میں چوہدری ظہور الہی مرحوم موجود تھے انہوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کے حکم پر جس قلم سے دستخط کیسے گئے تھے وہ جنرل ضیا الحق سے مانگ کر اپنی جیب میں رکھا اور ملنے والوں کو دکھایا کر تے محترم مجید صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور بولے چوہدری صاحب بھٹو صاحب کے آخری دنوں کا واقعہ سنارہے تھے میں چاہتا ہوں آپ بھی سن لو چوہدری صاحب نے بتایا کہ جنزل ضیاالحق کے آنے سے پہلے بھی سعودی حکومت نے پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے درمیان ایکشن میں دھاندلی کے نتیجے میں احتجاجی تحریک کے اختتام اور مفتی محمود ،نوابزادہ نصر اللہ اور پروفیسر غفور احمد سیکرٹری جنرل کی گرفتاری اور راولپنڈی سے قریب سہالہ کینٹ میں نظر بندی کے زمانے میں پاکستان میں سعودی سفیر ریاض الخطیب کے ذریعے صلح کروانے کی کوشش کی تھی اور انہی کوششوں کے بعد پیپلز پارٹی اور قومی اتحاد کے رہنماؤں میں مذاکرات کا آغاز ہو اتھا اور بھٹو صاحب کچھ سیٹوں پر دوبارہ الیکشن کروانے کے لئے تیار ہو گئے۔
بعد ازاں ایسا نہ ہو سکا اور جنرل ضیا الحق نے بھٹو صاحب کا تختہ فوج کی مدد سے الٹ دیا ۔ چوہدری ظہور الہی نے بتایا کہ اس کے بعد بھٹو گرفتار ہوئے احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کے الزام میں ان پر مقدمہ چلا، ہائی کورٹ نے پھانسی کی سزادی ، سپریم کورٹ نے برقرار رکھی ۔ اس وقت بھی سعودی عرب نے کوشش کی کہ اگر بھٹو صاحب مان جائیں اور پانچ سال کے لئے بیمار ی کے بہانے انہیں باہربھیج دیا جائےاور پھانسی کا عمل رک جائے تو مسئلے کاحل تلاش کیا جا سکتا ہے ، چوہدری ظہور الہی نے اس واقعہ کی تفصیلات بیان کیں کہ کس طرح ضیا الحق کے ایک معتبر جرنیل پنڈی جیل کے سپرنٹنڈنٹ یارمحمد در دانہ کے ساتھ جیل میں بھٹو صاحب کی کوٹھری تک پہنچے اور انہیں سعودی عرب کی پیش کش سے آگاہ کیا گیا جسے ضیا الحق کی پشت پناہی حاصل تھی لیکن بھٹو صاحب نے انتہائی غصے کا اظہار کیا، پیش کش کر نے والے جرنیل کو موٹی موٹی گالیاں دیں ۔ جنرل ضیا الحق کو صلواتیں سنائیں اور کہا جاؤ اسے کہہ دو کہ مجھے پھانسی پر چڑھا دے میں ہرگز سیاست چھوڑ نے اور باہر جانے کا فارمولا قبول نہیں کروں گا ۔ چوہدری ظہور الہی کی روداد سننے کے بعد اگلے کئی ہفتے میں نے بھٹو صاحب کے انکار کی سٹوری پر کام کیا اور کئی حوالوں سے مجھے پتا چلا کہ یہ سٹوری درست ہے ۔
واضح رہے کہ برسوں بعد یہ ڈرامہ ایک بار پھر دہرایا گیا اور پرویز مشرف نے نواز شریف کے خلاف سزاؤں کے اعلان کے بعد سعودی عرب کی مداخلت ہی سے دس سال سیاست سے الگ رہنے کی شرط پر نواز شریف اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اٹک کی جیل سے نکلے اور سعودی طیارے پر جدہ پہنچ گئے جہاں سعودی حکمرانوں نے ان کے لئے ایک آرام د محل مخصوص کر رکھا تھا ۔ بعد ازاں نواز شریف آٹھ سال بعد کس طرح لندن پہنچے اور پھر پاکستان واپس آئے کس طرح الیکشن جیتا۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے جس سے پڑھنے والے مکمل طور پر آگاہ ہیں لیکن یہ امر واضح ہے کہ سیاست دان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ پھر لوٹ کر آئے گا اور اگر اس نے اپنے پتے ٹھیک کھیلے ہیں تو اقتدار کے ایوان ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔
میں نے یہ واقعات اس لئے بیان کئے کہ آپ اسلام آباد کا گھیراؤ کر کے منتخب وزیراعظم جن کی اسمبلی میں اکثریت ہے کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور نہیں کر سکتے ۔ہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی تو یوسف رضا گیلانی ہوں یا راجہ پرویز اشرف انہیں عدالتی حکم پر گھر بھیجا جاسکتا تھا۔ میاں صاحب خوش قسمت ہیں کہ انہیں ہمیشہ عدالتوں سے مدد ہی ملی تاہم آئندہ کے لئے کچھ کہا نہیں جا سکتا مگر وہ عوامی دباؤ کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے اور اس امر کو تر جیح دیں گے کہ برا وقت آ جائے تو بھی وہ گرفتار ہونا اور جیل جانا زیادہ پسند کر یں گے جوعوام میں ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ کرے گا۔
اگر عمران اور اس کے ساتھی ٹھنڈے دل سے اس حقیقت پر غور کر میں تو انہیں اپنا سیاسی پروگرام بدلنا پڑے گا۔ کسی بھی اپوزیشن پارٹی کو پورا حق حاصل ہے کہ وہ برسراقتدار لوگوں کو حکومت سے نکالے لیکن میرے دوست شیخ رشید جن کی ذہانت محنت اور جرات اظہار کا میں ہمیشہ قائل رہا ہوں لیکن بار بار ان کی طرف سے نئی تاریخ دینے کے بعد عمران اور اس کے ساتھیوں کو پھر مایوسی ہوگی کیونکہ جی ایچ کیو کے جس گیٹ نمبر 4 کا بار بار میرے پیارے شیخ رشید حوالہ دیتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ راست اقدام کے لئے تیار ہوں ۔ بار بار کے مارشل لاء سے ہمارے حاضر سروس اور ریٹائرڈ جرنیلوں نے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ ایک بار پھر ایڈونچر کے لئے تیار ہوں ۔ بالخصوص جب سیاسی جماعتوں کی اکثریت ان پر نان سٹیٹ ایکٹر کی حمایت بارے دباؤ ڈال رہی ہے ۔ پاک فوج پر جتنے پر یشر آج میں شاید ماضی میں کبھی نہیں رہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں عوامی خواہشات پر بھارت کی نگی چڑھائی ،نریندرمودی کی بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت سے پاکستان میں نان اسٹیٹ ایکٹر کی بھر پور مخالفت ،سیاسی حکمرانوں سے براہ راست اچھے تعلقات بنانے کی سوچ اور پاک فوج کے متعلق اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کے لئے الزام تراشی کی بین الاقوامی مہم ، دہشت گردی کے خلاف لڑتی ہوئی پاک فوج کے مقابلے میں ’’را‘‘ کے جاسوسی نیٹ ورک کے علاوہ پاکستان میں سیاسی انتشار کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی کی کوشش پنجاب کو چھوڑ کر باقی تینوں صوبوں میں زبان اور نسل کی بنیاد پر دو قومی نظریے کی نفی اور کہیں زیادہ صوبائی حقوق اور کہیں اس سے آگے بڑھ کر علیحد ہ اور آزادریاست کی تمنا۔ میں نے متعدد مارشل لاؤں کو آتے دیکھا ہے لیکن شاید آئندہ بین الاقوامی حالات ہوں یا سیاستدانوں کا اندرونی مک مکا جمہوری دور کو خرابیوں کے باوجود مارشل لاء پر ترجیح دینے کا رجحان ، آپ فوج کی آمد کے لئے جتنی بھی چاہے فضا ہموار کر لیں، شاید چند فوجی گاڑیوں کے ساتھ وزیراعظم ہاؤس کا گھیراؤ کرنے کا دور گزر چکا ہے، پھر فوجی قیادت بھی جو بھی سول حکومت کی اطاعت کا اعلان کرتی ہے، اور بھی ہرقسم کی تحریک کے باوجود آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہنے کا فیصلہ کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ اس کے اپنے مسائل ہی اس کے لئے کافی ہیں ،لہذا ایوب خان، یحیی خاں ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کی کہانی آب شاید نہ دہرائی جاسکے۔
سیاسی جماعتوں کو بہر حال اپنی پوری توجہ پارلیمنٹ کے اندر سیاسی لڑائی پر مرکوز کرنی چاہئے اور پارلیمنٹ کے باہر جلسوں، جلوسوں ، مظاہروں اور دھرنوں سے عوام کوموبلائز کرناان کا جمہوری حق ہے لیکن سب کچھ بند کر کے کہیں امپائر کی انگلی کا انتظار کرنا اور 2018ءکے الیکشن سے پہلے سیاسی نظام پرکسی غیر جمہوری یلغار کی توقع کرنا محض خام خیالی ہوگی ، باقی سیاسی جماعتیں تو آپس میں مکمل طور پر مک مکا کر چکی ہیں اوراکثر نے اسی تنخواہ پر کام جاریرکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔ وہ ایو ان اقتدار سے ملنے والی چھوٹی موٹی’ غذائی امداد پر صابر وشاکر ہو چکی ہیں ۔ دو ایک بڑی سیاسی قوتیں اپنے لئے مزید مراعات کے حصول کے لئےپریشر ڈالتی رہتی ہیں لیکن عمران یاد کریں کہ وہ اور ان کے ساتھی اس خوش فہی میں تھےکہ بلاول بھٹو ساتھ والے کنٹینر میں سوار ہوں گے اور حکومت کے خلاف برسر پیکار قافلے کاحصہ بن جائیں گے، کیا یہی خیال آب باطل ثابت نہیں ہو چکا۔
عمران نے ہمیشہ کھیل میں ہاری ہوئی پوزیشن میں بھی حوصلہ پکڑا ہے اور بہت سے میچ جیتے ، آج ایک بار پھر سے نئی سوچ ،نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی ، 2018 ء تک ابھی کافی وقت ہے اگر وہ فائنل میچ بھی جیتنا چاہتا ہے تو نئے پاکستان کے اس دعوے دارکو علامہ اقبال کا یہ مصرعہ یادرکھنا چاہئے ۔
– پرانی سیاست گری خار ہے
میرا دوست عمران بہر حال پرانی سیاست گری میں گھر گیا ہے، اسے نئی سوچ نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی بالخصوص ان انتہا پسندوں سے بچنا ہوگا جو اس کے بے شمار حامیوں کو ریاستی مشینری کے ذریعے کچلوانا چاہتے ہیں ۔ اپنی طاقت کو مجتمع کرنا 2018ء تک اپنی منصوبہ بندی، کو نئے خطوط پر استوار کرنا بالخصوص آئین اور قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئےاپنی سیاسی قوت کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانا لازم ہے بہر حال تمہاری زبان میں بات کر یں تو بی ون ڈے نہیں ٹیسٹ میچ ہے اسے ٹیسٹ میچ کی طرح کھیلو ون ڈے کی طرح نہیں یہ بار بار فائنل جنگ کا اعلان کرنا اور بعد میں اپنے ساتھیوں اور مداحوں کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دینا تمہارے لیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔ بالخصوص بر سراقتدار جماعت اور اس کی بظاہر اپوزیشن کی دعویدار پارٹی اور اس کے حلیف پاک فوج کو سیاسی طور پر ہرگز ہرگز سامنے آنے نہیں دیں گے ۔ ملک میں بڑے پیمانے پر تر کی میں عوام کو فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹنے کے سچے یا جھوٹے دعوے سنائے جا رہے ہیں ۔عمران بہت سے بنیادی مسائل کے بارے میں اکثر خاموش رہتا ہے کشمیر میں ظلم وستم پر بھی وہ رسمی بیان بازی سے آگے نہیں بڑھتا بھارتی دشمن کی طرف سے پاکستان دشمن پراپیگنڈے کی طرف سے بھی وہ منقار زیر لب ہے ۔ وہ کرپشن کے سوا کسی موضوع پر عوام کو منظم کرنے کیلئے تیار نہیں اور ایک ایسے ملک میں جہاں او پر ہی نہیں نیچے بھی تھانہ کچہری سرکاری دفتر، سکول، کالج محکمہ شہر اور مقامی اداروں تک کرپشن کم و بیش ذہنی طور پر قبول کی جاچکی ہے اور اکثر لوگوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ افسر ہوں یا سیاستدان، چھوٹی موٹی کرپشن تو سب کرتے ہیں ۔ لہذا پہلے الیکشن دھاندلی اور اب صرف کرپشن ہرگز ایسے موضوعات نہیں جن پر قومی سیاست کی بنیادرکھی جا سکے ۔ میں نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ تھوڑی بہت کر پشن تو حکومت ہی نہیں اپوزیشن میں بھی موجود ہے اور اگر کرپشن کے نام پرکسی بر شیرکو بھی شکار کرنے میں کامیابی ہو جائے تو کیا اس گلے سڑے نظام لوٹ مار میںلتھری ہوئی سرکاری مشینری وسائل رزق کی یکساں تقسیم میرٹ کا نظام غربت کی چکی میں پسے ہوئے لوگ بیماری اور ناداری میں انسانوں کی حد سے گر کر جانوروں کی طرح زندگی گزارتی ہوئی پلک کیا انہیں سیاسی معاشی اور عدالتی انصاف مل سکے گا معلوم نہیں گزشتہ چند برسوں سے عمران کے گردکونسا تھنک ٹینک کام کر رہا ہے جو اس کی مستعدی محنت اور لگن کو عوام کیلئے متبادل نظام حیات اور نظام عدل کے لیے کوئی پروگرام وضع کرنے کے نا قابل ہے ۔ میرا تعلق دیہاتی علاقے سے ہے میرے اکثر عزیز رشتہ دار ابھی تک دیہات میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاشتکار ہیں، عمران کو پسند ہو یا نا پسند پنجاب کے دیہات و قصبات میں آج بھی مسلم لیگ ن کی برتری مسلم ہے اور تحریک انصاف کو ہرگز ہرگز وہاں متبادل سیاسی قوت نہیں سمجھا جا تا ۔ بھی عمران کے پالیسی سازوں نے اس حقیقت کو تسلیم کر کے کوئی بڑا منصو بہ یا بڑی پالیسی بنائی گزشتہ ماہ ایڈیٹروں کی تنظیم کے ساتھ مجھے خیبر پختونخوا کے وزیراعلی پرویز خٹک سے تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع ملا انہوں نے یقیناً خیبر پختونخوا میں کچھ نئے کام کیے ہیں، لیکن کیا سندھ بلوچستان بالخصوص پنجاب میں ان کاموں سے عوام واقف ہیں ہمارے چند ساتھیوں کے سوالوں کے جواب میں پرویز خٹک نے کہا کہ ہمارے پاس اپنے کاموں کی پبلسٹی کیلئے فنڈز نہیں ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارا سالانہ بجٹ چند کروڑ سے زیادہ نہیں ہوتا جبکہ پنجاب میں ہر سکیم کا تشہیری بجٹ کروڑوں نہیں اربوں تک پہنچتا ہے ۔ ہم میں سے بعض لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ اس کمی کو دور کریں اور وزیراعلی پنجاب شہباز شریف صاحب کی تعریف کی کہ وہ نہ صرف ہر پراجیکٹ پر ذاتی طور پر محنت کرتے ہیں بلکہ ہر مرحلے پر ہر سکیم کی زبردست پروجیکشن کے بھی ماہر ہیں ۔ وسائل کیکمی کو دور کرنا خیبر پختونخوا کی حکومت کا فرض ہے لیکن ایک صوبے میں کیسے جانے والے کا میاب اقدامات پاکستان بھر کی عوام تک بہر حال نہیں پہنچ سکتے اور تحریک انصاف عوامی زبان میں کسی ایسے متبادل نظام کی امید دلا سکتی ہے جوان کے مسائل حل کر دے گا۔مجھے عمران کی سیاست میں آمد والی رات یا د ہے لگتا ہے کہ تحر یک انصاف کی لیڈرشپ اپنے اندر کے بعض طبقات کو ناراض کرنے کیلئے تیار نہیں حالانکہ ذوالفقار علی بھٹو جس کی سندھ میں تمام نشستیں وڈیروں پر مشتمل تھیں لیکن پنجاب میں اس کا سیاسی پیغام وڈ سروں جاگیرداروں کے خلاف تھا جس پر پنجاب کے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں نے لبیک کہا۔ آخر عمران پنجاب کے ایک عام آدمی کے دل تک کیوں نہیں پہنچ سکا وہ اشرافیہ کے خلاف لڑتا ہے آواز بلند کرتا ہے لیکن خود اشرافیہ میں گھرا ہوا ہے اور ابتدائی برسوں کی مسلسل ناکامیوں کے بعد وہ خود اشرافیہ کا دست نگر بن چکا ہے ۔ متوسط طبقے کے پڑھے لکھے لوگوں کے سوا میں نے کسی غریب محروم مظلوم بالخصوص دیہاتی اور قصباتی لوگوں میں سے کبھی یہ نہیں سنا کہ عمران آئے گا تو ہمیں سب مل جائے گا ۔ آپ صرف گڈ گورننس کے وعدے پر لوگوں کو موبلائز نہیں کر سکتے جب تک گلے سڑے نظام اور تباہ شدہ سرکاری مشینری کو درست کرنے کا واضح منصو بہ آپ کے پاس نہ ہو۔ عمران تم کتنے مہینے نواز شریف کے پانامہ لیکس کے حوالے سے کر پشن کو نشانہ بناتے رہے مگر آزاد کشمیر کے الیکشن میں ووٹروں نے ٹوٹ کر میاں صاحب کو ووٹ دیئے جونر یندرمودی سے ذاتی دوستی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یہ خوشخبری سنار ہے تھے کہ بھارت کا’’ مفتوحہ‘ علاقہ پاکستان کا حصہ ہو الیکشن جیتنے کے بعد مظفر آباد میں پہلی تقریر کوغور سے سنیں جس کی ریکارڈ نگ آپ کومل جائے گی ۔ نواز شریف کے اس اعلان پر کہ آزادکشمیر کا سب سے بڑا مسئلہ راستوں اور سڑکوں کی خرابی ہے جب وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ یہاں موٹر وے کا آغاز ہو گا تو کتنی تالیاں بھی تھیں اور سننے والوں نے اس وعدے کو کس قدر سراہا تھا۔ یوں لگتا تھا نواز شریف
پر سارے کے الزامات کشمیری لوگوں نے مستردکر دیئے اور اگر یہ الزامات درست تھے تو بھی ووٹر یہ پیغام دے رہے تھے کہ آپ کے جو جی میں آئے کروہماری سڑکیں بناؤ ہمارے علاقوں میں صنعتیں لگاؤ ہمیں خوشحالی کی طرف لے کر چلو میرے خیال میں میرے بھائی شیخ رشید کے ایسے مشوروں کی عمران کو اتنی ضرورت نہیں کہ فلاں تاریخ کو چڑھائی کرو اور فلاں تاریخ تک حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے گا۔
طویل بحث مباحثے کے بعد کسی عوامی پروگرام کی ضرورت ہے جو ووٹروں کو اپنی طرف کھینچ لے بھٹو صحیحکہتے تھے یا جھوٹ اس بحث سے قطع نظر دیہاتی مزارعے دل سے یہسمجھنے لگے تھے کہ بھٹو حکومت میں آیا تو اسے کاشت کیلئے زمین مل جائے گی ۔ مزدور دل سے اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وہ کارخانے میں حصے دار بن جائے گا نو جوان اور طالب علم کو یقین تھا کہ بڑے بڑے برج بھٹو نے الٹادیئے اب میرٹ پر انہیں روزگار بھی ملے گا اور زندگی کی سہولتیں بھی ۔ بھٹو کے ابتدائی دور میں لوگوں کو جرات اظہار مل گئی تھی اور میں نے خود وفاقی اور صوبائی وزیروں کو دیکھا جنہیں ورکر گھیر لیتے تھے اور ان کی وہ گوشمالی کرتے تھے کہ میں نے خود چمبہ ہاؤس لاہور میں کوثر نیازی کولوگوں کے ہجوم سے بچنے کیلئے نسل خانے میں چھپے ہوئے دیکھا اور میں کئی بار میں لکھ چکا ہوں کہ وہ کموڈ بند کر کے اس پر بیٹھے تھے اور باہر جمع شد مخلوق کی الٹی سیدھی درخواستوں پر ایسی سفارشیں اور ایسے احکام جاری کر رہے تھے جن میں سے کسی پر عمل ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ بھٹو سے لوگوں کو کچھ نہیں مل سکا لیکن اس کا پرو پیگنڈا اتنا مؤثر تھا کہ بھوک سے بلکتے ہوئے لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ عنقریب بھٹو ان کے مسائل حل کر دے گا۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھٹو نے غریب عوام کوسبز باغ دکھائے، لیکن سیاسی کلچر میں بہرحال ایک تبدیلی اس کے ذریعے آ ئی جولوگ عمران کو نا کام سیاست دان سمجھتے ہیں میں ان سےمتفق نہیں 2013 ء کے الیکشن میں اس نے پاکستان بھر سے مسلم لیگ ن کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لیے اور پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر رہی۔ آپ’ نیا پاکستان کا جتنا جی چاہے مذاق اڑالیں لیکن بہت سے لوگوں نے اس نعرے پر لبیک کہا مگر الیکشن میں کامیابی کے بعد عمران پہلے دھاندلی اور اب کرپشن کے خلاف مہم میں غرق ہو گیا۔ اسے اس دلدل سے باہر آ نا چاہئے اپنی پارٹی کو جو دراصل ایک تحریک ہے ہر آنے والے دن اور آنے والے ہفتے میں عوامی قوت کو منظم کر نا اس طرح کہ وہ سرکاری مشینری سے کچلی نہ جا سکے ایک ہی بڑا ٹارگٹ کہ’ وزیراعظم پر حملہ کرو‘ کی بجائے اگر وہ بھوک افلاس ناداری تنگدستی، رشوت ستانی بیڈ گورنس‘ علاج کی ناکافی سہولتوں میرٹ کے نظام کے پر خچے اڑاتی ہوئی بیشمار مثالوں اور دوسری سیاسی سماجی اور معاشی مشکلات میں لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو وہ کیوں وزیراعظم کی کرپشن کے خلاف تو ہفتے مہینے اور سال ضائع کرتا ہے مگر بنی گالہ اور زمان پارک کے قریب تھانے میں مظلوموں کی پٹائی کا نوٹس نہیں لیتا۔
میرا دوست اب خود بھی ایک یوٹوپیئن سیاستدان بن چکا ہے ۔ اس کے چاہنے والوں کو سائیکل رکشہ تانگہ یا گدھا گاڑی بھی میسر نہیں اور وہ چاند اور مریخ پر پہنچنے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ خوشامدیوں کے جھرمٹ نے اس کے صبح شام غارت کر دیئے ہیں حالانکہ اسے اگلے ہفتے کسی شہر اورکسی مقام پر اپنی پارٹی کو جو ایک تحریک ہے نیا ٹارگٹ دینا چاہئے ۔ نہ اس پر سوچ بچار بنی گالہ میں ہوتی ہے نہ زمان پارک میں ۔ تیسری قوت جو درحقیقت پہلی قوت ہونی چاہئے کیا عام آدمی کے لیے ایک سنہرے مستقبل کی ضمانت دیتی ہے ۔ اس نے قائد اعظم ذوالفقارعلی بھٹو اور نواز شریف کے بعد بڑے پیمانے پر لوگوں کوموبلائز کرنے کی کوشش کی مگر عمران خان اچھے کھلاڑی ہو لیکن سیاست میں بھی اپنی لائن اور لینتھ ٹھیک کرو۔ تم بہت سے لوگوں کیلئے مستقبل کی امید ہو مگر کن لوگوں میں پھنسے ہوئے ہو پہلے لوگوں سے کہتے ہو مجھے ووٹ دو اور تھوڑے یا زیادہ جب تمہارے کارکن کامیاب ہو جاتے میں تو ان کے لیے بھی اس تربیتی کورس کا اہتمام نہیں ہوا کہ پارلیمانی پریکٹس کیابلا ہے ۔
تمہیں یاد ہوگا میں نے لاہور میں ایڈیٹروں کیلئے دیئے جانے والے تمہارے ظہرانے میں یہ مشورہ دیا تھا کہ اپنے ارکان اسمبلی کو اسمبلی کے اندر کام کرنے کی تربیت دلواؤ۔ میں نے کہا تھا کہ پاکستان کا سیاسی ماضی میرے سامنے کتاب کے کھلے ورق کی طرح موجود ہے۔ میں نے ایوب خان امیر محمد خان کالا باغ کے زمانے میں ون یونٹ یعنی مغربی پاکستان اسمبلی میں جنگ جوخواجہ آصف کے والد محترم انتہائی ٹھنڈے اور متحمل مزاج کے محنتی، مخلص اور عوام دوست خواجہ صفدر کی کارکردگی کو بطور لیڈر آف اپوزیشن دیکھا ہے آٹھ دس ارکان اسمبلی پرمشتمل خواجہ صفدر کی اپوزیشن اس وقت کے پنجاب سندھ بلوچستان اور سرحد کے عوام کی ہرمشکل پر حکومت کو مجبور کرتی تھی کہ وہ ان کا مسئلہ حل کر میں ۔ ان دنوں جب میں طالب علم لیڈر تھا ہم سیاست کے رہنماؤں سمیت زندگی کے ہر طبقے سے محروموں اور مظلوموں کو ان کے پاس پہنچتے ہوئےدیکھتے تھے اور حیرت ہوتی تھی کہ یہ چند ارکان اپوزیشن کس طرح پشاور سے کراچی اور کوئٹہ لاہور تک حکومتی پالیسیوں کو کیونکر تبدیل کرواتے تھے۔
خواجہ صفدر رحمت اللہ ارشد نوابزادہ افتخار احمد انصاری حاجی سیف اللہ عبدالباقی بلوچ کیا لوگ تھے حاجی سیف اللہ نے تو ضیاء الحق کے زمانے میں اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے قومی بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ کو دو گھنٹے تک بات نہیں کرنے دی تھی اور پیکر کو مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ اسمبلی کی سینئی عمارت ہے کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا لہذا یہاں قومی بجٹ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ لوگ محنت کرتے تھے پارلیمانی پریکٹس سے واقف تھے اسمبلی کی کارروائیوں میں حکومتی بینج ان سے پناہ مانگتے تھے ۔
میں روز نامہ جنگ سے وابستہ تھا جب میں نے حاجی سیف اللہ سے پارلیمانی پریکٹس نام سے ہفتہ وار کالم لکھوانا شروع کیا۔
آج بھی اس دور کی طرح حکومتی پارٹی سمیت اکثر سیاسی پارٹیوں کے ارکان رولز اینڈریگولیشن سے بھی واقف نہیں، انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کرپشن کے کس بڑے سکینڈل پر حکومتی افراد وزیروں پارلیمانی سیکرٹریوں کو کس طرح فلور پر جواب دہ بنایا جاتا اور ان کے جوابوں پر غور وفکر کے بعد اور تحقیق کے نتیجے میں اسمبلی کے فلور پر جھوٹ بولنے کے سبب انہیں حکومتی پارٹی کے پیکر سے کیسے سرزنش کروائی جاتی ہے ۔ پنجاب اسمبلی کے اندر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والا اپوزیشن لیڈ محمودالرشید ایک محنتی شخص ہے میں اس کی جماعت اسلامی سے وابستگی کے دنوں سے محمود الرشید کو جانتا ہوں اور ہمیشہ اسے کہتا ہوں کہ اسمبلی کے اندر محنت کرنا سیکھو اور صوبے میں پھیلے ہوئے مظلوموں محروموں کی آواز کو اسمبلی کے اندر مہارت اور ہنر مندی سے حکومتی وزراء تک پہنچاؤ اور انہیں کارنر کرو۔ عمران کا یہ فلسفہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ پہلے الیکشن لڑ کر اپنے لوگ اسمبلیوں تک پہنچا پھر یہ کہہ کر وہاں سے کچھ نہیں ملتا اور بھی استعفیٰ دوتو کبھی بائیکاٹ کر و عوامی فیصلوں کو اہمیت دیتے ہوئے جلسے جلوس مظاہرے اور دھرنے کا اہتمام کرو باہرتحریک چلانا بھی ضروری ہے لیکن اسمبلیوں میں محنت کرنا اور جان لڑانا بھی لازم ہے ۔ جہاں برسوں سے اور کم و بیش ہر حکومت کے دوران میں دیکھتا آیا ہوں کہ بجٹ کی کتابیں ارکان اسمبلی کے کمروں میں پہنچائی ضرور جاتی ہیں لیکن جلدی میں چھاپے جانے کے سبب ان کے ورق جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور انہیں چاقو یا مچھری سے الگ کر نا پڑتا ہے لیکن نوے پچانوے فیصد ارکان اسمبلی انہیں کھول کر بھی نہیں دیکھتے اور ان کو مہیا کی جانے والی بجٹ دستاویزات یا دوسری معلومات پر مشتمل کتا بچے وہ سرے سے نہیں پڑھتے اور سینکڑوں کی اسمبلی میں دو یا تین افراد سے زیادہ پارلیمانی پریکٹس سے کوئی آ گاہ نہیں ہوتا۔
اتفاق سے میں خبر یں اخبار میں اور میرے دوست حسن شار جب روز نامه’’ صداقت‘‘ سے منسلک تھے تو ہم دونوں نے اپنے اپنے طور پر پنجاب اسمبلی کے گونگے بہرے ارکان کی مکمل فہرست شائع کی تھی اور ہم دونوں کے خلاف پنجاب اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے تحریک استحقاق منظور کیے جانے کے بعد ہمیں کمیٹی میں پیش ہونے کیلئے بلا لیا تھا۔ کمیٹی اس لیے ہمارے خلاف کوئی کارروائی نہ کرسکی کہ ارکان اسمبلی خود جاہل تھے اور جب انہوں نے مجھ سے کہا کہ ہم آپ کو چھ ماہ تک سزا دے سکتے ہیں تو میں نے جواب دیا کہ آپ رولز کی کتاب نہیں پڑھتے آپ عدالت نہیں ہیں اور صرف عدالت کسی کوسزادے سکتی ہے آپ نے مجھے گواہ کے طور پر بلایا ہے تا کہ سچائی تک پہنچ سکیں، میں تو لا ہور سے تعلق رکھتا ہوں اور یہیں مال روڈ پر میرا دفتر ہے لیکن اگر میں صوبے کے کسی اور شہر میں مقیم ہوتا تو سرکاری طور پر مجھے آنے جانے کے اخراجات دینا پڑتے اور اگر میں یہ ثابت کر دیتا کہ سماجی طور پر اور انکم ٹیکس ادا کر نے کے حوالے سے میں ٹرین میں نہیں ہوائی جہاز میں سفر کرتا ہو تو آپ ہی کے لیے بنائے ہوئے رولز کی کتاب یہ کہتی ہے کہ مجھے ہوائی جہاز کا ٹکٹ فراہم کرنا بھی آپ کی ذمہ داری ہوتی ، میں چونکہ تیاری کر کے گیا تھا لہذا میں نے کہا کہ آپ مجھے کوئی سزا سنا کر دیکھیں اسمبلی کی کسی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا آپ بھی سزا تجویز کر کے کسی عدالت میں بھجوا سکتے ہیں، لیکن میں ملزم ہوں یا محرم اس کا فیصلہ بہر حال عدالت کرے گی ۔ استحقاق کمیٹی کے ارکان اس قدر زچ ہوئے کہ انہوں نے مجھے کہا کہ آئندہ خیال رکھیں اور اس طرح کے الفاظ نہ چھاپیں ۔ میں نے اصرار کیا کہ گزشتہ تین اسمبلیوں کی مدت میں ان ارکان کی فہرست آپ ہی کے ریکارڈ سے حاصل کی ہے کہ پانچ پانچ سال تک تین بار اسمبلی میں آنے کے باوجود انہوں نے کارروائی میں ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا لہذا انہیں گونگے ارکان لکھنا کوئی جرم نہیں ۔
استحقاق کمیٹی کے چیئر مین نے کہا ہم آپ کے الفاظ پر اگلے اجلاس میں فیصلہ دیں گے اور اس اسمبلی میں پانچ سال پورے کرنے کے باوجودا پنی استحقاق کمیٹی کے ذریعے مجھےدو بار کبھی نہیں بلایا گیا۔یہ ایک مثال واضح کرتی ہے کہ ہماری اسمبلیوں کے ارکان بالعموم اس بات سے بھی ناواقف ہوتے ہیں کہ وہ کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے میں عمران ہی نہیں ساری سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کو مشورہ دونگا کہ وہ گونگے ارکان کے خلاف ایکشن لینے کا بھی کوئی قانون وضع کریں ۔ برطانیہ جہاں سے مغربی جمہوریت آئی وہاں پارلیمنٹ کا اجلاس سال بھر جاری رہتا ہے اور مسلسل بدلتی ہوئی ضروریات کے مطابق قانون سازی کی جاتی ہے ۔ آپ برطانوی پارلیمنٹ سے رہنمائی حاصل کر یں کہ کس طرح عوامی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور قانونی دلائل کے ساتھ ان کے حل کیلئے حکومت وقت کو مجبور کر تے ہیں ۔
میری بات کچھ لمبی ہوگئی لیکن جمہوریت صرف الیکشن لڑنے اسمبلیوں میں پہنچنے، ٹی اے ڈی اے وصول کر نے علاج معالجے کے اخراجات حاصل کر کیلئے وزیروں سے درخواستوں پر دستخط کروانے اور متعلقہ وزارتوں سے دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کے افسران لگوانے ، ان کے ذریعے اپنے اپنے علاقے میں بادشاہتیں قائم کر نے کا نام نہیں، جمہوریت اچھا نظام ہے مگر اس نظام پر چلنے والے کتنے لوگ اسمبلی میں پہنچتے ہیں ۔قربان جائیے ہماری پارلیمنٹ کے ارکان پر کہ جب ضیا ء الحق جس پر آمریت کا الزام لگایا جا تا ہے نے بہت سے غلط فیصلوں کے ساتھ ساتھ ایک اچھا فیصلہ کیا کہ رکن اسمبلی بننے کے لیے کم سے کم تعلیم بی اے ہونی چاہئے اور دھڑا دھڑ جعلی ڈگری والوں کے خلاف کیس بننے لگے اور کچھ کی رکنیت مخصوص ہوگئی تو ارکان اسمبلی نے اکثریت سے نہیں بلکہ متحد ہو کر یہ قانون ختم کروا دیا تا کہ انگوٹھا چھاپ پرائمری یا مڈل پاس بھی صوبائی قومی اسمبلی یا سینٹ میں پہنچ سکے ۔
اس زمانے کا دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ پتا چلا ایوب خان کے صاحبزادے کیپٹن ریٹائرڈ گوہر ایوب بھی نئے الیکشن میں اسمبلی کے رکن نہ بن سکے کہ ان کی تعلیم ایف اے تھی اور وہ بی اے نہ ہونے کے باعث الیکشن نہیں لڑ سکتے جبکہ موصوف سپیکربھی رہے اور وزیر خارجہ بھی خلاصہ کلام یہ کہ یا تو جمہوریت کو مانو یا نہ مانو ماننا ہے تو پھر اسمبلیوں اور سینٹ کو فعال ادارے بناؤ پہلے اسمبلیوں اور سینٹ میں جاتے ہو پھر کہتے ہو یہاں کام نہیں ہوسکتا، چلو باہر چل کر جلسہ جلوس کرتے ہیں یا دھرنا دیتے ہیں ۔ عمران کوعوامی طاقت کو یقینا منظم کر کے بڑے جلسے بڑے مظاہر ے بڑے دھر نے کرنے چاہئیں، لیکن اسمبلیوں کے اندر بھی کام کرنا چا ہئے صرف بائیکاٹ کرنانہیں ۔
کاش عمران کو کوئی سمجھانے والا ہو کہ جتنی زیادہ صلاحیت محنت اور مستقل مزاجی اس کے اندر ہے اگر وہ اپنی پارٹی کی جو تحریک ہے کے لیے صحیح راستے کا انتخاب کر نے آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئ
پارٹی کارکنوں کو ریاستی مشینری کی پکڑ میں آنے سے بچائے ہر تیسرے دن حکومت کو چلتا کرنے کے دعوے نہ کرے بلکہ یکسو ہو کر عدالتی جنگ بھی لڑے اور 2018 ء کے الیکشن کیلئے انتخابی اصلاحات کروائے الیکشن کمیشن کوصحیح خطوط پر استوار کروائے صوبائی حکومت کی طرف سے نامزدگیوں کے قانون کو ختم کروائے عوامی تائید کے لیے بھر پور منشور تیار کرے اور مقبول عام نعروں کا انتخاب کرئے صرف ایک صوبے پر امید میں لگانے کی بجائے بالخصوص سند ھ ، بلوچستان اور جنوبی پنجاب پر پوری توجہ دے جہاں اس کا ذاتی گلیمر بھی کم ہے اور عوامی تائید بھی اور حکومت میں آنے کیلئے صرف اور صرف مضبوط اور منصفانہ الیکشن پر تکیہ کرے اور شیخ رشید صاحب کے مشوروں کے مطابق جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4 کی طرف بار بار نہ دیکھے تو میرے دوست کی شاندار صلاحیتیں ملکی سیاست میں زبردست کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ وہ بنتی ہے ہمت نہ ہارنے والا ہے دھاندلی اور کرپشن کے خلاف ہے اور بہتر طرز حکومت کا دعویدار ہے ۔یہ تحریر کافی طویل ہے لیکن اسے بڑے میں قتل کے ساتھ اسے پڑھنا چاہئے اور اس کے ساتھیوں کو بھی جن کی اکثریت مخلص اور اچھے لوگوں پرمشتمل ہے اس پر غور کرنا چاہئے ۔ میں عقل کُل نہیں، لیکن اپنی پچاس سالہ صحافت میں میں نے حکومتوں کو آتے جاتے دیکھا ہے اور میں سیاسی کھلاڑیوں کے اچھے یا برے کھیل کو بخوبی سمجھتا ہوں ۔
عمران اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو، صحیح راستے کا انتخاب کرو، اسمبلیوں کے اندر بھی جد و جہد کرو اور باہر بھی، بڑے اور درمیانے درجے کے شہروں کے پڑھے لکھے لوگ بالخصوص نوجوان تمہارے ساتھ ہیں، لیکن دیہات اور قصبات میں لوگ ابھی تک زمینداروں ، پٹواریوں ، سکول ماسٹروں ، محکمہ شہر کے لوگوں ، پولیس والوں اور اجارہ دار سیاست دانوں کے چمچوں کر چھوں کے چنگل میں پھسنے ہوئے ہیں ۔ یہ تعداد کروڑوں میں پہنچتی ہے جب تک تم انہیں رہائی نہیں دلواتے اور ایسے انقلاب کا قابل عمل پروگرام نہیں دیتے وہ اس قید سے رہائی نہیں پا سکتے جس میں و نسل درنسل خود کو حالات میں جکڑے ہوئے محسوس کر رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے بہت سے اچھے کام بھی کیسے ہیں یہاں آپ کی حکومت بھی ہے لیکن یہاں بھی آپ کو اکثریت حاصل نہیں اور حکومت سازی کے لئے سمجھوتے کرنا پڑتے ہیں اور ایسے لوگوں کو ساتھ ملانا پڑتا ہے جو تمہاری سوچ سے کوسوں دور ہوں ، بندۂ خدا پہلے وہاں تو مکمل اکثریت حاصل کر نے کے لیے جامع پروگرام ناو ، پھر پنجاب کے دیہات اور قصبات کے لوگوں کے دلوں تک پہنچو، آخر میں بلوچستان اور سندھ کے چند بڑے ناموں کو ساتھ ملا کر تسلی سے نہ بیٹھ جاؤ ، بھی تم نے سوچا کہ مسائل میں گھری ہوئی ایم کیوایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی تو تحر یک انصاف اس کی جگہ کیوں نہ لے سکی ،تمہارے پہلے جلسے جس قدر بڑے تھے بعد میں ان کے حاضرین کی تعداد کیونکر کم ہوتی چلی گئی ، کیا تمہارے لوگ ایسا کیڈٹ تیار نہیں کر سکے جسے اسمبلی کی رکنیت میں کھڑا کر و مگر وہ الیکشن سے کچھ گھنٹے پہلے مخالف سے جا ملتا ہو بھی تم نے ایم کیو ایم کی شدید گرفت میں اور اس کے ناجائز غیر قانونی دفاتر میں بیٹھے ہوئے مسلح افراد کی مدد سے محلوں ، آبادیوں اور شہری علاقوں کو کیونکر یرغمال بنایا گیا کہ وہاں سانس لینے کے لیے بھی ایم کیوایم کے سیکٹر انچارج کی مدد کی ضرورت پڑتی ہے لیکن تو کیا پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت انہیں رغمال کی کیفیت سے نکالنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ۔حتی کہ صوبے میں حکمران موجود پیپلز پارٹی بھی آئے دن ان سے سمجھوتا کرنے اور ساتھ ملانے کی کوشش کرتی ہے تم کیوں انہیں رہا نہ کروا سکے ۔ کیا تمہاری پارٹی نے بھی واقعی تحریک بن کر سندھ کے ہاریوں کو وڈیروں اور زمینداروں کے چنگل سے آزاد کرانے کی کوشش کی ، کیا جنوبی پنجاب میں تم نے ووٹروں کو بڑے زمینداروں ، جاگیرداروں، ان کے گماشتوں ، پیروں ، گدی نشینوں سے رہا کروانے کا کوئی پروگرام وضع کیا۔ کیا پاکستان صرف وسطی پنجاب کے کچھ بڑے شہروں کا نام ہے؟ کیا یہ مقام حیرت نہیں کہ تمہارا اپناضلع میانوالی جہاں تم نے ایک شاندار یو نیورسٹی بھی قائم کی وہاں تمہارے اپنے عزیز رشتہ دار بھی تمہارا ساتھ چھوڑ گئے اور حکومتی پارٹی نے وہاں سے نشستیں جیت لیں ۔ تاثر کیوں عام ہے کہ زمیندار طبقے کی انگریزی سکولوں کی پڑھی ہوئی معمولی تعلیم یافتہ مگر جاگیردارانہ سوچ اور استحصالی نظام کی علمبر دارخوش شکل خواتین تمہاری پارٹی ٹکٹ کی امیدوار بنتی ہیں تم نے کبھی نہیں سوچا کہ یہ خواتین اور ان کے آباؤ اجداد اس علاقے میں ظلم اور جبر کی علامت رہے ہیں ۔ بے چارہ عام شہری ایک طرف سے تمہاری طرف سے نئے پاکستان‘ کی نوید سنتا ہے اور اس نو ید کوعملا کامیابی کی شکل دینے کیلئے تم انہیں انہی استحصالی طبقات کی خوش شکل خواتین کے حوالے کر دیتے ہو، جن کی تعلیمی ڈگریاں بھی جعلی ہوتی ہیں ، بہت سے لوگ جوتمہیں پسند کرتے ہیں جب پانی کی طرح پیسہ بہانے والے لوگوں کے لیے انہیں بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے تو وہ اپنے اندر سے ٹوٹ جاتے ہیں کہ ہم یہ کن لوگوں کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تمہارے پاس اچھی شہرت کے خوشحال لوگ بھی موجود ہیں لیکن قرعہ فال تمہاری پارٹی میں قبضہ خوروں لینڈ مافیا اور جاگیرداروں کی بگڑی ہوئی اولادوں کے نام نکلتا ہے۔ مجھے تمہارے ایک ناقد کا یہ جملہ بھی نہیں بھولتا جب اس نے کہا کہ عمران خان کو برسوں لگ جائیں گے مگر وہ ایک سمیرا ملک ایک عائلہ ملک ایک عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کی صفائیاں نہیں دے سکتے ۔مگر میں ذاتی طور پر جہانگیر ترین کو جانتا ہوں جس کی سیاسی سوچ منجھی ہوئی ہے اور جو وفاقی وزیر تھا وہ نہ مسلم لیگ ق سے مطمئن تھا نہ ہمارے سیاسی نظام سے مگر شاعر کا ایک مصرعہ ضرور سامنے رکھو کسی نے کیا خوب کہا تھا
:لو گ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
قارئین محترم میرا دوست عمران ایک اچھا محنتی اور مخلص انسان ہے، لیکن وہ جن لوگو ں میں بری طرح گھرا ہوا ہے وہ رفتہ رفتہ اسے اپنے ووٹ بنک سے بھی محروم کر تے جا رہے ہیں ۔ کرپشن دھاندلی اور لوٹ کھسوٹ سے پاک منصفانہ نظام کا خواب کون نہیں دیکھتا مگر عدالتوں کے بارے میں جس طرح کہتے ہیں کہ انصاف ہونا نہیں چاہئے ہوتے ہوئے نظر آ نا چا ہئے ۔ عمران کی جد و جہد بھی غریب اور محروم طبقات کو نظر آنی چاہئے ۔ لالک چوک لاہور اور ڈیفنس تک محدود نہیں رہنی چاہئے God Bless You۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں