306

سائنس کے بڑھتے قدم کہانیوں سے نہیں رُکیں گے !

وجاہت علی خان:

سائنس نے مشاہدات اور تجربات سے سر ٹکرایا اور نیچر کے اسرار میں سے نت نئی ایجادات سے اس دُنیا کو لباب بھر دیا، یقینا سائنسی ایجادات اچانک معرض وجود میں نہیں آ گئیں بلکہ اس میں ہزاروں سال کا عرصہ لگا لیکن گزشتہ دو سو سال خصوصا پچھلی پانچ دہائیوں میں جو سائنسی انقلابات برپا ہوئے ہیں ان کی مثال نوع انسانی کی لاکھوں سال کی تاریخ میں نہیں ملتی آج وہ ہوشربا ایجادات ہیں ہماری دسترس میں ہیں جن کا کبھی تصور بھی محال تھا۔ سائنس کی بڑھتی ہوئی ترقی کا راستہ تھیو کریٹ نظریات رکھنے والوں نے سینکڑوں برس تک روکے رکھا لیکن سائنس کی بڑھتی ہوئی “برکات و قدم” بہرحال ماضی کے خوُش کُن جادوئی قصے کہانیوں سے رُک نہ سکے اور تجربے کی کسوٹی نے ان بچھاڑ کر رکھ دیا۔
آج ڈیجیٹل ریوولیشن کا ایک انقلاب آ چکا ہے آج ایک کمپیوٹر چپ کی قیمت ردی یا ایک پنس سے بھی کم ہے، آنے والے دو ایک سال میں کانٹیکٹ لینز کی دُنیا میں ایسا انقلاب آئے گا کہ امتحانی مرکز میں بیٹھا ہوا کوئی طالبعلم آنکھ جھپکے گا اور سارا سوالنامہ گھر بیٹھے کسی شخص کے پاس پہنچ جائگا اور طالبعلم ہال بیٹھے ہدایات لے سکے گا، انسان صرف آنکھ جھپکے گا اور آن لائن ہو جائیگا، اگر آپ بیمار ہیں آنکھ جھپکیں گے سامنے Robo Doc کھل جائیگا جو مصنوعی ذہانت سے بھر پور ہو گا جو ہر زبان بول سکے گا اور آپ کو بیماری سے متعلق ہر قسم کا مشورہ اور ادویات بتائے گا۔ فرض کریں کسی ایسے ملک میں آپکا ایکسیڈنٹ ہو جائے جہاں کی زبان و قانون اے آپ واقف نہیں تو آپ اپنی کلائی کی گھڑی سے بات کریں گے تو سامنے جھپکیں گے تو Robo Lawyer ہر قسم کی زبان میں اس ملک کے قانون کے مطابق ضروری مشورہ دے گا۔ آٹو موبیل انڈسٹری مکمل طور پر ڈیجٹلائز ہو گی ،مستقبل قریب میں کاریں آپ سے باتیں کریں گی اپنے اندر خرابی کی درست اطلاع دیں گی ، ڈرائیور لیس اور خود کار ہوں گی آپ صرف بولیں گے اور وہ ازخود پارک ہو جائیں گی ، آپ اپنی یادداشت کو اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کر سکیں گے بلکہ یادداشتوں کو کمپیوٹر کی مدد سے محسوس کر سکیں گے۔ ہیومین باڈی شاپس عام ہو جائیں گی ، انسان کی ہڈیاں ، رگیں، جلد اور تمام اندرونی و بیرونی اعضا دُکانوں پر دستیاب ہوں گے، اور آئندہ پچاس سال تک سائنس اس قابل ہو جائیگی کہ عمر میں دو سو سال یا اس سے زیادہ اضافہ ممکن ہو سکے گا۔


شعرو ادب، سائنس و ٹیکنالوجی، فن و موسیقی تمام علوم و فنون کا ایک بحرِ بے کراں ہے جس نے معلومات کے ایک سیلِ رواں کی صورت اختیار کر لی ہے، اگر کمپیوٹر سائنس دنیا کا معجزہ ہے تو دنیا کا سب سے بڑا قدرتی کمپیوٹر یعنی انسانی ذہن اپنی بلندیٔ پرواز، تفکر اور قدرتی تخلیق کی ایسی مثال ہے جس کے ذریعہ کی گئیں ایجادات و دریافت پر رشک آتا ہے۔ اس کا ایک مظہر دیکھنا ہو تو ٹی وی کے چینل نیشنل جیوگرافک اور ڈسکوری دیکھیں اور میرے خیال میں جو یہ چینل نہیں دیکھتا وہ خود کو کنوئیں کامینڈک بنے رہنا پسند کرتا ہے۔ اہل مغرب جس طرح کی سرنگیں سمندر کے اندر نکال رہے ہیں اور جیسے پل سمندروں کے اوپر بچھا رہے ہیں، انہیں دیکھ کر حیرت بھی انگشت بدنداں رہ جاتی ہے یہ قدرت کا انعام ہے کہ اس نے انسان کے مختصر دماغ کو اس قدر کمال اور فراست بخشی کہ وہ محیر العقول کارنامے تخلیق کر رہا ہے۔
انسان کو اس لئے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے کہ وہ قدرت کے مظاہر کو اظہار کا لبادہ بخش سکے۔ سائنس کے عجائب اور ٹیکنالوجی کے کرشمے دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا ایسا فقط ماضی کے قصے کہانیوں کو سننے اور اندھی تقلید سے ممکن ہو سکتا تھا ؟
تاج محل کو دیکھیں، جسے بنے ساڑھے تین سو سال ہوگئے، مگر اس کی چمک دمک آج تک ماند نہیں پڑی، اور نہ ہی کوئی دراڑ سامنے آئی ہے۔ تاج محل کو سالانہ ایک ارب لوگ دیکھنے جاتے ہیں اور بھارت کو ایک ارب ڈالر بھی منافع ہوتا ہے۔موجودہ وقت میں امریکہ، یورپ حتیٰ کہ مشرق قریب میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کر چکی ہے اور ایسے کارنامے سرانجام دیئے جارہے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سمندروں کو سمندروں سے اور ملکوں کو ملکوں سے ملایا جا رہا ہے۔ ہالینڈ، فرانس اور برطانیہ دو الگ ممالک ہیں جن کے بیچ میں ایک زور آور سمندر حائل ہے، لیکن ان دونوں ممالک کو اندر ہی اندر اس طرح ملا دیا گیا ہے کہ ہالینڈ سے داخل ہونے والا کوئی بھی شخص راستے میں پانی کا ایک قطرہ تک نہیں دیکھتا اور برطانیہ پہنچ جاتا ہے۔
انسان نے صنعتی میدان میں بھی تیزی سے ترقی کی ،آبادی میں اضافے کے باعث غذائی اجناس کی ضروریات بڑھتی گئیں ،پھر اس مسئلے کے حل کے لئے فصلوں میں مصنوعی کھاد اور فصلوں کو کیڑے سے بچانے کے لئے زرعی ادویات کا استعمال شروع کیا گیا۔ سائنس وٹیکنالوجی کی بدولت انسان نے میڈیکل میں ترقی کی جن بیماریوں کا علاج کبھی ممکن ہی نہیں تھا یعنی ٹی بی اور کینسر وغیرہ آج ڈاکٹرز ان بیماریوں کا علاج کر رہے ہیں۔ انسانوں نے سائنس کی بدولت زمین، چاند اور ستاروں کو بھی مسخر کر لیا ہے۔ جن جانوروں سے انسان کبھی ڈرا کرتا تھا آج ان کا استعمال روزمرہ زندگی میں کر رہا ہے۔
ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کی ایجادات نے انسانی زندگی میں کافی سہل اور آسانی پیدا کر دی ہے۔ ٹیلی ویژن کے ذریعے ہم گھر بیٹھے ہر قسم کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں جبکہ انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن تعلیم حاصل کی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ نے انسان کے لئے گھر بیٹھے بیٹھے تمام کام آسان کر دیئے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن بات چیت اور خرید و فروخت بلکہ روزی کمانا بھی ممکن ہو چکا ہے۔
ٹیلی فون کی ایجاد نے رابطوں کو آسان بنا دیا اور اب ہم دنیا بھر میں کہیں بھی کسی بھی رشتہ دار سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ سائنس وٹیکنالوجی نے انسان کی زندگی کو آرام دہ بنا دیا ہے اور آنے والے وقتوں میں اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ انسان بالکل سست اور کاہل ہو جائے گا اوراپنے تمام کام مشینوں سے کروائے گا۔موبائل فون کی مثال دیکھ لیں یہ انقلاب ہماری نگاہوں کے سامنے وقوع پذیر ہوا، اور اب صرف ایک بٹن دبانے سے آپ چند سیکنڈ میں قطب شمالی پہنچ جاتے ہیں،موبائل فون کی ایجاد کے بعد انسانی زندگی میں اس قدر تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں کہ آج کا انسان یہ سوچتا ہے کہ آخر دنیا اب تک اس کے بغیر زندہ کیسے رہی؟ کمپیوٹر کو دیکھیں تو دنیا سحر انگیز لگنے لگتی ہے۔
جس طرف بھی نظر ڈالیں سائنسی کرشموں کے تحیر خیز نظارے انسان کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ،صدیوں کے فاصلے سمٹ کر لمحوں کی دسترس میں آگئے ہیں ،اب دنیا نہ صرف ایک عالمی گاؤں کا منظر پیش کر رہی ہے بلکہ گاؤں پھیل کر پوری دنیا تک رسائی حاصل کر چکا ہے،اگر ایک واقعہ دنیا کے ایک کونے میں وقوع پذیر ہوتا ہے تو دوسرے لمحے اس کی خبر دنیا کے دوسرے کونے میں پہنچ جاتی ہے ،موبائل ہی کو لیجئے! جس نے دنیا کے رہن سہن اور برتاؤ کے رویے ہی بدل ڈالے ہیں ،گلی کی نکڑ پر بیٹھے نوجوانوں کا ٹولہ موسیقی سے بذریعہ موبائل لطف اندوز ہو رہا ہے، دوسری طرف انٹرنیٹ نے دنیا جہاں کی معلومات کو انسان کے قدموں میں ڈھیر کر رکھی ہے لوگ اپنی ضرورت اور مزاج کے مطابق اس ذریعے سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔
شعرو ادب، سائنس وٹیکنالوجی، فن و موسیقی تمام علوم و فنون کا ایک بحرِ بے کراں ہے جس نے معلومات کے ایک سیلِ رواں کی صورت اختیار کر لی ہے۔ شمسی توانائی جیسی مفت ملنے والی دولت کو انسان نے مسخر کر کے اپنے دماغ میں چھپی ہوئی قوتوں کو باہر نکالا ہے اور انسانیت کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب شمسی توانائی سے چلنے والے پینل بجلی گھروں کی جگہ لے رہے ہیں ،ایٹم کے سینے کو چیر کر انسان نے توانائی کا ایک ایسا بحرِ بے کراں دریافت کیا جس نے ایجادات کے میدانوں میں ایک ایسی ایجاد کی جس نے تہذیبوں کو اندھیروں کو بھی تبدیل کر دیا اور اندھیرے میں ڈوبی قوموں کو روشنی کے ایسے مینار عطا کیے جو ان کی عظمت کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ لیزر اور بصری ریشوں یعنی آپٹیکل فائبر کی ایجاد نے پیغامات کی ترسیل کا کام اتنا سریع اور تیز رفتار بنا دیا کہ اب انسان یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ ’’محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی سائنس کی ان بہاروں کا تذکرہ تو ایک لامحدود وقت کا متقاضی ہے گھر سے دفتر تک اور دفتر سے بازار تک ہر مقام سائنسی بہاروں کا جلوہ پیش کرتا ہوا ہی نظر آتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق انسانی جسم میں سب سے اہم جزو جس پر انسان کی زندگی، اسکے اعضاء، رنگ، شکل الغرض ہر چیز کا دارومدار ہے وہ جین (gene) ہے۔
گو 1900 سے پہلے ہی جین کے اور اسکے کردار کے متعلق مختلف سائنسدان بہت کچھ بتا چکے تھے۔ لیکن جین لفظ اور اسکی صحیح پہچان کرنے کا سہرا ایک ڈینش باٹینسٹ (Botanist) ویل ہیلم جاہنسن (Wilhelm Johannsen) کو جاتا ہے ۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں علم حیاتیات میں جہاں دیگر ترقی ہوئی۔ وہیں وراثیات یعنی جینٹکس کی جانب سائنسدانوں کی توجہ مرکوز ہونا شروع ہوئی۔ کیونکہ وراثیات کے علم کے بغیر انسانی جسم کے متعلق کچھ جاننا ایک نا ممکن امر ہے۔
انسانی جنین کیسے ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے؟ کیسے ایک انسان میں مختلف عادتیں اور جسمانی خدوخال پائے جاتے ہیں؟ کیا کسی بھی جاندار کی پیدائش سے قبل ہی اسکے متعلق ایسی معلومات مل سکتی ہے جس کی مدد سے اسکی صحت کو بہتر کیا جاسکے؟ یہ چند ایسے سوال ہیں جو سائنسدانوں کے ذہن میں کئی دہایوں تک رہے۔ اور انکے جوابوں کی کھوج میں ہی انسان نے خوردبین بنائی۔
خورد بین نے بصری دنیا سے نیچے کی دنیا کو کھولا اور خلیے تک پہنچایا۔ خلیے کی اندرونی اناٹومی (Anatomy) اور فزیولوجی (Physiology) پر سوال کھڑے کئے اور پھر ان کی تلاش میں مزید طاقتور خوردبین کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ بنائی گئیں کہ وہ خلیے کے اندر کی دنیا کا کھوج لگائیں۔ پس یہ کھوج اپنی انتہا ء کو تب پہنچی جب یکم اکتوبر 1990 میں تاریخ کا اور حیاتیات کا سب سے بڑا سائنسی پراجیکٹ شروع کیا گیا۔
اس پراجیکٹ کا نام ہے ’’ہیومن جینوم پراجیک (Human Genome Project)۔ اس پراجیکٹ کا بنیادی مقصد 5 سال کہ عرصہ میں انسانی جین یعنی انسانی جسم میں پائے جانے والے اس جینیاتی مادےکے متعلق معلومات حاصل کی جائیں۔ اس پراجیکٹ کی ابتدائی کھوج میں مندرجہ ذیل معلومات شامل تھی :
انسانوں میں پا ئی جانے والی مختلف خصلتوں (traits) اور بیماریوں کا پتہ لگانا کہ وہ کس جین پر موجود ہیں۔
جینز کی نقشہ کشی کی گئی جس کو سائینسی اصطلاح میں جین میپنگ (gene mapping) کہا جاتا ہے۔
انسانوں میں پائی جانے والی مورثی خصائل جن کو inherited traits بھی کہا جاتا ہے کا پتہ لگانا ۔
ان تمام علوم کے حصول کا بنیادی مقصد انسانی نسلوں میں ان تمام خصائل اور ان سے متعلق معلومات کا محفوظ کرنا اور ان میں آنے والے تغیرات کو ریکارڈ کرنا تھا۔ جس سے آنے والے وقت میں بے شمار پیچیدگیوں سے بچنا ممکن ہوسکے گا۔
گو یہ منصوبہ ابتدائی طور پر 5 سال کے عرصہ پر محیط تھا۔ لیکن اس سے حاصل ہونے والی بے پناہ کامیابی کی بناء پر یہ منصوبہ 13 سال تک جاری رہا۔ اور آخر کار 2003 اپریل میں اسکا اختتام ایسی عظیم الشان کامیابی پر ہوا جسکا٢٠ سال پہلے تصور کرنا بھی ایک ناممکن سی بات تھی۔
۔ اور یہی پروٹینز انسانی زندگی کی بنیاد رکھتے ہیں اور عمر بھر انسانی جسم میں اپنا کردار ادا کرتے رہتے ہیں۔ اور اگر ان میں سے محض ایک بیس پئیر بھی اپنی جگہ سے ادھر سے ادھر ہوجائے تو انسانی جسم میں بیماری یا پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔
ہیومن جینوم پراجیکٹ سے حاصل ہونے والی معلومات کے ذریعے سے پیدائش سے قبل ہی بہت سی بیماریوں کی تشخیص کی جا سکتی ہے۔ اور اسکی مدد سے قبل از وقت علاج ممکن ہوجاتا ہے۔ ہیومن جینوم پراجیکٹ کے اور بہت سے فوائد میں سے ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ ان مختلف پروٹینز بنانے والے جینز کو انسانوں اور باقی جانداروں میں پروٹینز یا دیگر کیمیائی مواد کی کمی کو پورا کرنے کے لئے جینیٹک انجئینرنگ (genetic engineering) کے ذریعے استعمال کیا جارہا ہے۔ اسکی ایک مثال انسولین (insulin) ہے ۔انسانوں اور بیکٹیریا ای -کولائی (e. coli) میں انسولین بنانے والے جینز مشترک ہیں اسلئے انسانوں میں انسولین کی کمی کو پورا کرنے کے لئے اسکی پیداوار ای -کولائی میں کروائی جاتی ہے۔
الغرض ہیومین جینوم پراجیکٹ نے ریسرچ کے میدان میں ایسے نئے راستے کھول دئے ہیں جن سے نا ممکنات کو حاصل کیا جارہا ہے۔ کینسر جیسی جان لیوا بیماری جو کل تک لا علاج گمان کی جاتی تھی۔ آج اسکے لئے اسی پراجیکٹ کے نتیجے میں نت نئے علاج کے طریقے مرتب کئے جارہے ہیں۔ اور اسکے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کے باعث اناج کی کمی کو دور کرنے کے لئے بھی یہی ریسرچ کلیدی کردار ادا کر رہی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں