206

اخلاقی ا قدار کا “ اسلام “ میں مقام


تحریر : رضوانہ لطیف (دینی عالمہ )
اسلام ایک عالم گیر مذہب ہے اور تمام بنی نوع انسان کی فلاح اور کامرانی کا علم بردار ہے ۔ یہ زندگی کے ہر اصول پر انسان کی راہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام کے زرّیں اصولوں میں اخلاق کو سر فہرست رکھا گیا ہے۔ انسانی زندگی میں معاشرے کا قیام اس کی فطرت کا تقاضا ہے۔ دوسرے لفظوں میں انسان دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور زندگی بسر کرنے پر فطرتاً مجبور ہے۔ اسلام میں اخلاق سے مراد وہ ’’اخلاق حسنہ‘‘ ہیں جو بنی نوع انسان کی فلاح اور اصلاح کے لیے انسانیت کو عطا کیے گئے۔
اسلام میں عبادت کا تصور عمومی اور جامع ہے، چنانچہ عبادت صرف نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور دیگر اصل عبادات؛ تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ ہر وہ عمل جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کا حصول مقصود ہو،عبادت کے وسیع مفہوم میں داخل ہے ۔اس لئے جب ایک شخص دوسرے شخص سے کوئی اچھا معاملہ اور اس کے ساتھ کوئی حسن سلوک صرف اس لیے کرتا ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کا حکم دیا ہے تو وہ (دراصل )عبادت کا اجر و ثواب حاصل کرتا ہے ۔(عبادت کے )اسی مفہوم کی طرف نبی پاک علیہ السلام نے اپنے اس قول کے ذریعہ اشارہ فرمایا ہے: ’’ بیشک مؤمن اپنے اچھے اخلاق کے ذریعہ تہجد گزار روزہ دار کے درجہ تک رسائی حاصل کرلیتا ہے ‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور موقع پر فرمایا: ’’ایمان میں کامل ترین مومن وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں۔‘‘ مندرجہ بالا احادیث اخلاق حسنہ کی فضیلت پر بھرپور صراحت کے ساتھ روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ بلند اخلاق کے حامل شخص کے معز ز مرتبے اور اعلیٰ منزلت کو بھی بیان کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ لوگوں کے ساتھ اچھے معاملات روا رکھنے اور ان کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کی وجہ سے ایمان میں کامل ترین مومن قرار پاتا ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ لوگوں سے اسی سلوک کے ساتھ پیش آئے جس سلوک کے ساتھ وہ انھیں اپنے سے پیش آنے کا خواہش مند ہے ۔چنانچہ ہر وہ شخص جو یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ ان کے ساتھ حسن سلوک کریں، اس پر واحب ہے کہ وہ بھی دوسروں کے ساتھ اچھا معاملہ روا رکھے،پھر دوسروں کے لیے وہی پسند کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے”۔ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔
مذکورہ بالا احادیث سے اسلام کی نظر میں حسن اخلاق کی اہمیت دو دو چار کی طرح نمایا ںہوجاتی ہے۔چنانچہ اخلاق کے ذریعے ہی انسانی معاشرہ میں محبت و الفت کی خوشبوئیں پھیلتی اور انسانی معاشرے میں بھائی چارگی اور آپسی تعاون کی فضا سازگار ہوتی ہیں۔ بنابریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق حسنہ سے لیس ہونے کی تاکید فرمائی ہے۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن مومن کے ترازو میں حسن اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہیں ہو گی اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والے ،فحش گو اور پھوہڑ لوگوں سے نفرت کرتا ہے۔
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’اللہ تعالیٰ مہربان،کرم فرما اور غریب پرور ہے اور مہربانی ،کرم فرمائی اور غریب پروری کو پسند کرتا ہے ۔ بے مروتی، بد اخَلاقی اور کم ظرفی نا پسند کرتا ہے۔ اور اعلیٰ اخلاق کو پسند کرتا ہے۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نرمی اور خوش خلقی کا معاملہ کریں نہ کہ تشدد وسختی کا ۔اسی طرح اسے چاہیے کہ وہ معاشرت و معاملات میں لچک ،نرمی سے کام لیں۔ جبکہ بدخلقی ، سخت کلامی ،تیز کلامی اور سختی جیسی بری خصلتوں سے کو سوں دور رہ کر فراخ دلی ،فیاضی ، نرمی ، اعلیٰ ظرفی اور رواداری جیسی خوب صورت اور تعمیری صفات کو ہی اپنا ئیں ۔کیوں کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو خرید وفروخت اور ضروت و تقاضے کے وقت فراخ دلی ، فیاضی ، نرم دلی ،رواداری اور اعلٰی ظرفی کا مظاہر ہ کرے۔
ان احادیث بالا کو پڑھنے اور سمجھ لینے کے بعد یقینا کوئی عقل مند اپنے آپ کو تمام طرح کی بھلائیوں سے محروم رکھنے پر راضی ہوگا ۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں ایک سرکش اونٹ پرسوار تھی اور(اس کی سرکشی پر) میں اس کو مارنے لگی ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : عائشہ رضی اللہ عنہا ! نرم روئی اور نرمی اختیار کرو۔کیوں کہ نرمی جس چیز میں ہوتی اس کو زینت بخشتی اور جس چیز سے اس کو نکال دیا جاتا ہے وہ اسے بگاڑ دیتی اور خراب کردیتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ ! بیشک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ (نعمتیں )عطاکرتا ہے جو سختی پر عطا نہیں کرتا۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نرمی ونرم خوئی کی بناپر دنیا میں تمام طرح کے مطالبات کی تکمیل اور جملہ نوعیت کے مقاصد کی تحصیل کو اس قدر آسان اور آخرت میں اجرو ثواب عطا فرما دیتا ہے جس قدر کسی اور چیز (دوسری ادائے انسانیت)پر عطا نہیں فرماتا ۔
مسلمان کو بد اخلاق اور دیگر اخلاقی عیوب سے بہرحال بچنا چاہیے تاکہ وہ ان حقیقی غریبوں کی گروہی فہرست میں شامل نہ ہو جائیں، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے الفاظ میں امت کو بتادیا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مفلس(دیوالیہ،محتاج، بے زر ، غریب ، مسکین ،نادار، فاقہ کش، قلاش ،کنگال،فقیر) کون ہے ؟ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ ہم میں دیوالیہ وہ شخص سمجھا جاتا ہے جس کے پاس پیسہ اور مال نہ ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا دیوالیہ وہ ہے قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا اور وہ اس حال میں آئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی ، اس پر الزام تراشی کی ہوگی ، اِس کا مال کھایا ہوگا ، اِس کا خون بہایا ہوگا اور اِس کو مارا ہوگا ۔تو اُس کو اِس(نمازو روزہ لے کرآنے والا شخص) کی نیکیوں میں د ے دیا جائے گا ، پھر جب اِسکی نیکیاں اِس کے قرض اتارنے سے پہلے ختم ہوجائیں گی تو ان لوگوں (جن کو اس روزہ اور نماز لے کر آنے والے شخص نے ستایا ہوگا ،گالی دی ہوگی اور الزام وغیرہ لگائے ہوں گے )کے بعض گناہوں کو ان پر لاد دیا جائے گا اور پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے جیسا کہ قرآن کریم نے اس کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا ہے : اور آپ عظیم المرتبت شخصیت ہیں اور قرآن کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ بھی بتایا کہ وہ ان تمام اخلاقی خرابیوں سے دور تھے جو لوگوں کو سختی، سنگ دلی و بے رحمی ،کرختگی ،بدخلقی ، بدمزاجی ،تندمزاجی و بے رخی ، بدمعاملگی اور روکھی معاشرت جیسی اخلاقی خرابیوں کے حامل اشخاص سے دور کردیں۔ جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا:’’اور اگر آپ تند خو اور سخت طبیعت ہوتے تو وہ سب آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے ‘‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں