139

محرم کیوں اہم ترین ہے ؟


اسلامی تقویم کا آغاز محرم الحرام کے مہینہ سے ہوتا ہے محرم کے معنی حرمت والا کے ہیں ، یعنی کہ یہ ان چار محترم مہینوں میں سے ہے جس میں قتل و خون بہانا حرام تھا ،
اس مہینے کی اہمیت اسلام ہی میں نہیں بلکہ ایام جاہلیت میں بھی تھی ، اسلام کی برکتیں اور بہاریں تو دیکھیں کہ ہمارے اسلامی سال کی ابتداء ہی شہادت جیسے بابرکت کام سے ہوتی ہے ۔
یکم محرم الحرام کو خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے تو دس محرم الحرام کو یعنی یوم عاشور کو نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا یوم شہادت ہے، اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ محرم کا مہینہ صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ہی مشہور ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے، محرم کا مہینہ صرف اسلام ہی نہیں بلکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں بھی محترم مانا جاتا ہے، ایک روایت میں ہے کہ جب پیارے نبی حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ مدینہ کے یہودیوں نے روزہ رکھا ہوا ہے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس دن یہودی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون سے چھٹکارا ملا تھا تو اسی لیے یہودیوں نے روزہ رکھا ہوا ہے ،
تو پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ فرمایا کہ ” اب ہم بھی دس محرم کا روزہ رکھیں گے لیکن ہمارےدو روزے ہونگے، ایک نو محرم کا اور ایک دس محرم یعنی عاشور کا “۔ کہا جاتا ہے کہ قیامت بھی دس محرم یعنی عاشورہ کے دن ہی آئے گی۔
ایک روایت میں ہے کہ اسی دن دس محرم کو ہی حضرت آدم علیہ السلام جنت سے نکالے گئے ،اسی دن حضرت آدم اور بی بی حوا علیہا السلام کی توبہ قبول کی گئی، اسی دن حضرت آدم و حوا علیہا السلام دنیا میں بھیجے گئے ،اور اسی دن یعنی دس محرم الحرام کو ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر اٹھائے گئے ۔
حضرت عمر فاروق اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی شہادت سے بھی یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ یہ مہینہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنا تن من دھن سب کچھ اسلام کے نام پر قربان کردینے کا عزم کریں۔
طلوع اسلام سے قبل بھی تاریخِ انسانیت کے بے شمار واقعات محرم الحرام میں رونما ہوئے ۔ یہ واقعات محض اتفاقی یا حادثاتی نہ تھے۔ بلکہ قسام ِ ازل کا اٹل فیصلہ تھا جو ہونا تھا اور ہو کر رہا۔ ذیل میں چند اُن واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو محرم الحرام میں ظہور پذیر ہوئے:
(۱) اس ماہ میں کائنات کی تخلیق ہوئی۔
(۲) حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے۔
(۳) حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی
(۴) حضرت آدم علیہ السلام و خلافت کا تاج پہنایا گیا (انی جاعل فی الارض خلیفہ)
(۵) سیدنا ادریس علیہ السلام کو درجات عالیہ عطا ہوئے۔
(۶) کشتی نوح علیہ السلام وادی جودی پہ ٹھہری۔
(۷) سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو منصب و مقام خلیل سے سرفراز فرمایا گیا۔
(۸) سیدنا یوسف علیہ السلام صدیق اللہ کو جیل سے رہائی ملی۔
(۹) سیدنا یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹائی گئی۔
(۱۰) سیدنا یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی ملی۔
(۱۱) فرعون غرقِ نیل ہوا اور موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ کو کامیابی عطا ہوئی۔
(۱۲) سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر زندہ اُ ھایا گیا۔
(۱۳) اس روز قیامت آئے گی۔
(۱۴) اسی ماہ یوم عاشورہ کو اہلِ مکہ خانہ کعبہ پر غلاف چڑھاتے تھے اور اس دن کو یوم الزینتہ کہتے تھے۔
(۱۵) اسی ماہ امام الانبیاء خاتم المعصومین سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے چند سال قبل ابرہہ بیت اللہ پر حملہ کی نیت سے نکلا ۔ تو اللہ نے ابا بیلوں کا لشکر بھیج کر اسے تباہ و برباد کر دیا۔
قمری تقویم اور اس کے فوائد
ر ہم سن ہجر ی کا دوسرے مروجہ سنین سے تقابل کر کے دیکھیں۔ تو یہ سن بہت سی باتوں میں دوسروں سے منفرد و ممتاز نظر آتا ہے۔ سن ہجری کی ابتداء چاند کو بنایا گیا۔اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑا گیا۔ یہ تقدیم خالق کی بنائی چیزسے تعلق رکھتی ہے ۔ اس میں کسی پیوند کاری کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اسلام چونکہ سادہ ، عجزوانکساری والا آسان مذہب ہے (لاکراہ فی الدین)․․․ لہٰذا چاند کے ذریعے ہر علاقہ کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا کہ جنگلوں میں ․․․ خواہ جزیرو ں میں ۔ ان کے لئے آسان ہے کہ اپنے معاملات چاند کے مطابق طے کریں۔ اس میں کوئی مشکل و پیچیدگی نہیں۔پڑھے لکھے اور اَن پڑھ سب آسانی سے حساب کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر تقویمیں ہر آدمی آسانی سے معلوم نہیں کر سکتا۔ جبکہ چاند ہر جگہ نکلتا ہے۔کسی مشکل حساب کتاب کی ضرورت نہیں۔ جبکہ دوسری تاریخوں میں یہ بات نہیں۔ اسلام چوں کہ دینِ فطرت اور عدل و انصاف کا دین ہے ۔ اس میں مساوات و ہمہ گیری ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہی پسند فرمایا۔کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے آیا کریں۔ لہٰذا قمری تقویم کو بنیاد قرار دیا گیا۔اگر اسلام دیگر اقوام کے طریق کواپنا لیتا یا گوارہ کر لیتا جیسے شمسی(عیسوی) تقویم توماہ صیام کسی ایک مقام پر ہمیشہ ایک ہی موسم میں آیا کرتا جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا کہ نصف دنیا کے مسلمان جہاں موسم سرد اور دن چھوٹے ہوتے ہمیشہ آسانی میں رہتے ۔ اسی طرح سفرِ حج کا بھی یہی حال رہتا۔
ہمارا نظریہ دینِ اسلام ہے اس کی بنیاد علاقائیت ، وطنیت ، نسل پرستی یا زبان نہیں ہے، بلکہ ہمارا دین اسلام یہ نہ صرف مذہب ہے بلکہ ضابطہ حیات ہے، ہر قوم کا کوئی نہ کوئی کیلنڈر رہا ہے۔ یہودیوں کا سن ۳۷۰۰ق م سے شروع ہوتا ہے، عیسوی سن کی ابتداء حضرت عیسیٰ کے یوم ولادت سے ہوتی ہے، اس طرح بکرمی سن کی ابتداء مہاراجہ بکر ما جیت کو ساکھا قوم پر فتح حاصل ہونے کے واقعے سے ہوتی ہے، اس طرح سن ہجری حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ ہجرتِ مدینہ کی یاد دلاتا ہے ۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا یہ سفر آٹھ ربیع الاول کو ہوا۔ جو عیسوی سن کے مطابق ۲۰ستمبر ۶۲۲/ کا واقعہ ہے، یہیں سے اسلامی سال کی ابتداء ہوتی ہے، جس کو سیدنا فاروق اعظم نے اپنے دورِ خلافت میں نافذ کیا اور اسی سال یکم محرم الحرام سے اسلامی سن کی ابتداء کی گئی۔گو یا پہلے اسلام صدی کی ابتداء اور آغاز ۱۶جولائی ۶۲۲/ کو ہوا۔ اس امر میں بھی ایک عجیب حکمت پنہاں ہے کہ جب پہلی اسلامی صدی کی ابتداء ہوئی تو یکم محرم الحرام کو جمعہ کا دن تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں