58

بریڈفورڈ میں قاضی اشتیاق احمد کی لکھی ہوئی کتاب شیر اعظم ایم بی ای حیات و خدمات کی تقریب رونمائی

برطانیہ بھر سے مسلمان، سکھ اور ہندو کمیونٹی کا شیر اعظم کو بھرپور خراج تحسین
مسلمانوں کی مذہبی شناخت اور پاکستانی قومیت کے لیے شیر اعظم کی خدمات کو سنہری حروف سے لکھا جانا چاہیے

ایمز رپورٹ

ویسٹ یارکشائر اور انگلینڈ کے دیگر دور دراز علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے شیر اعظم ( ایم -بی -ای ) کے اعزاز میں منعقد ہونے والی تقریب میں جوش خروش سے شرکت کی ۔ تقریب میں بریڈ فورڈ میں مقیم مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگوں نے بھی شرکت کی اور اپنے اپنے انداز میں شیر اعظم کی نصف صدی پر مبنی کمیونٹی کے لیئے خدمات کو سراہا –
تقریب میں شیراعظم کے زندگی کے سفر اور اس دوران ان کی بریڈفورڈ اور برطانیہ میں مقیم مسلمانوں کو درپیش مشکلات کو مستعدی اور حکمت عملی سے حل کرنے پر مقررین نے انہیں خراج تحسین پیش کیا اور شیر اعظم کی طبعیت اور شخسیت میں بردباری مستقل مزا جی اور پختہ کاری کا خصوصاً ذکر کیا۔
سکھ اور ہندو کمیونٹی کے نمائندوں نے اس بات زور دیا کہ شیر اعظم نے کمیونٹی کی بہتری کے لیے جو جدوجہد کی وہ صرف مسلمان کمیونٹی کے لیے ہی نہیں تھی بلکہ اس کے فوائد دوسری مذہبی اقلیتوں کو بھی پہنچے اور سماج میں مساوات کی تگ و دو کو ان کی کوششوں سے تقویت ملی۔ اس زاویہ سے شیراعظم کی جدو جہد تمام اقلیتوں کی ترجمانی کا مقام رکھتی ہے۔
اس خصوصی تقریب کا انعقاد شیر اعظم کی جدوجہد پر مبنی اردو اود انگلش میں قاضی اشتیاق احمد کی لکھی ہوئی تعارفی کتاب کے حوالے سے کیا گیا تھا ۔ مقررین میں کنگ چارلز کا خصوصی نمائندہ اقبال بانہ، عمران حسین ممبر آف پارلیمنٹ کا خاص نمائندہ کو نسلر کامران حسین ، کونسلر انیلا احمد، کونسلر فوزیہ شاھین، نرمل سنگھ ، ڈاکٹر خورشید خان، ڈاکٹر محمد علی، محمد عجیب سابق لارڈ میر آف بریڈفورڈ، اور ڈاکٹر صوفیہ بنسی شامل تھے ۔ تمام مقررین نے شیر اعظم کی زندگی کے مختلف زاویوں کا جائزہ لیتے مفصلانہ گفتگو کی، ہندو کمیونٹی کے منوج جوشی، سکھ کمیونٹی کے رمیندر سنگھ ، بیشپ آف بریڈفورڈ جو بریڈ سے باہر دیگر مصروفیت ہونے کے وجہ سے شامل نہیں ہو سکے ، انھوں نے ویڈیو پر شیرآعظم کے لیے خیرخواہی کے پیغامات بھیجے۔
بریڈ فورڈ کونسل برائے مساجد اور خدمت سینٹر نے شیراعظم کو شیلڈز پیشں کی:
کونسل برائے مساجد کی شیلڈ پر یہ تحریر تھی:
“ہمارے لیئے دینی شناخت پر وقار کے ساتھ کھڑا ہونا ممکن بنانے کے لیئے شکریہ “
خدمت سینٹرز کی شیلڈ پر درج تھا:
“وژن اور قیادت کا شکریہ”۔
شیر اعظم 1961 میں ضلع اٹک کے ایک گاؤں غور غشتی سے بریڈ فورڈ پہنچے۔ ان کی برطانیہ میں آنے کی وجوہات ۵۰ اور ہ۶ کی دہائیوں میں پاکستان سے آنے والے مزدور طبقہ سے الگ نہیں تھیں –
برطانیہ کا صنعتی ڈھانچہ دوسری جنگ عظیم میں عملی طور پر تباہ ہو گیا تھا۔ ساتھ ہی بھاری انسانی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا ۔لہٰذا صنعتی بحالی اور تعمیر نو کے لیے مزدوروں کی اشد ضرورت تھی جس کے لیے سابقہ ​​کالونیوں کا رخ کرنا پڑا ۔ کام کرنے کی عمر کے مردوں کو برطانیہ میں کام کرنے کی کھلی دعوت دی گئی۔ کیونکہ پاکستان نے حال ہی میں اپنی آزادی حاصل کی تھی اور محدود وسائل اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ کی اس دعوت کا خیر مقدم کیا اور لوگوں کو برطانیہ کے لیے سفر کے حوصلہ افزائی کی گئی – شیر اعظم بھی اسی کڑی کا حصہ بن کر بریڈفورڈ پہنچ گئے۔
ان دنوں بریڈ فورڈ کو ٹیکسٹائل انڈسٹری کا دارالحکومت سمجھا جاتا تھا۔ اپنی آمد کے چند ہی دنوں کےبعد شیر اعظم کو ٹیکسٹائل کی ایک مل میں نوکری مل گئی اود پھر کوئی ایک سال مل میں نوکری کرنے بعد بسوں کی ایک کمپنی میں پہلے بس کنڈیکٹر اور پھر ڈرائیور کی پوزیشن حاصل کر لی- بسوں پر کام کرنے کے لیے انگریزی اور ریاضی کی ضرورت ہوتی تھی -پاکستان سے آئے ہوئے وہی لوگ اس طرف رخ کرتے تھے جن کے پاس کچھ نہ کچھ تعلیم اور انگلش زبان ہوتی تھی – کیونکہ کے یہ ایک uniform ملازمت تھی اس کو ذرہ قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا –

بس کمپنی میں تقریباً دو سال کام کرنے کے بعد، شیر اعظم نے ایک دوست کے ساتھ مل کر 1964 میں اپنی پہلی گروسری کی دوکان کا آغاز کیا۔ کاروبار کی دُنیا میں یہ ان کا پہلا قدم تھا اس سوچ کے ساتھ کہ ملازمت کتنی ہی اعلیٰ کیوں نہ ہو لیکن اس میں کمیونٹی کی فلاح و بہبود کا کام یکسوئی سے نہیں ہو سکتا۔ اور اصلاحی کاموں کی صلاحیتیں محدود ہو کر رہ جاتی ہیں جبکہ، کاروبار ایک شخص کو اپنی صلاحیتوں کو آزادی کے ساتھ استعمال کرنے کے مواقعے دیتا ہے تاکہ کمیونٹی کی فلاح و بہبود کو فعال طور پر متاثر کیا جا سکے۔ یہی سوچ تھی جس نے 1985 میں حلال سپر مارکیٹ کے قیام کی بنیاد رکھنے کے لیے شیر اعظم کی رہنمائی کی۔ اس منصوبے کا مقصد ایک ایسی سپر مارکیٹ قائم کرنا تھا جہاں مسلمان نسبتاً سستی قیمتوں پر اعتماد کے ساتھ حلال مصنوعات خرید سکیں۔ یہ کوآپریٹو سرمایہ کاری کے تصور پر مبنی تھا لہذا اس سے یہ بھی ظاہر کرنا تھا کہ جو کام انفرادی طور پر نہیں کیا جا سکتا وہ اجتماعی طور پر ممکن بنایا جا سکتا ہے
بریڈفورڈ آتے ہی شیر اعظم بریڈ فورڈ کی پہلی مسجد کے انتظامیہ میں شامل ہو گئے، جو 1958 میں ضلع اٹک سے تعلق رکھنے والے مزدوروں نے قائم کی تھی -بعد میں 1975 میں اس کے صدر بنے اور اس عہدے پر وہ 1985 تک فائز رہے۔ 1981 میں مساجد کے لیے بریڈ فورڈ کونسل برائے مساجد کے قیام میں مرکزی کردار ادا کیا اور بعد میں اس کے صدر منتخب ہوئے۔ برطانیہ میں اپنی نوعیت کا پہلا مشترکہ مذہبی پلیٹ فارم تھا جس میں بریڈ فورڈ میں مقیم تمام اسلامی مکتبہ فکر کے لوگ شامل تھے- یہ قدم مسلم کمیونٹی کی بڑھتی ہوئی ضروریات بالخصوص تعلیم کے شعبے میں محسوس کرتے ہوئے اٹھایا گیا تھا اور اس حوالے سے بہت سے پہلوں پر بڑی یکسوئی سے کام ہوا مثلاً سرکاری اسکولوں میں حلال گوشت کی فراہمی، اسکول کے مذہبی نصاب میں اسلامی تعلیم کی شمولیت، جدید زبانوں کی تعلیم کے نصاب میں اردو کی شمولیت، اسکولوں میں عیدین کی چھٹیاں۔ اور دیگر اہم ایام جیسے یوم پاکستان وغیرہ کا جشن۔ اس سے اسکولوں میں مسلمان / پاکستانی طرز زندگی کو فروغ ملا اور مسلمان/پاکستانی بچوں میں اپنے کلچر اور دین کے بارے اعتماد کی فضا پیدا ہوئی ۔شیر اعظم کی بصیرت اور رہنمائی میں بریڈ فورڈ کونسل برائے مساجد نے بمسلمانوں کے لیے دینی تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تدفین کے انتظامات کا بھی انعقاد کیا جس میں مسلمانوں کی تدفین کے لیے الگ قبرستان بھی شامل تھا- بریڈ فورڈ کونسل برائے مساجد کی اس پیش رفت سے برطانیہ کے دیگر شہروں میں بسنے والے مسلمانوں میں اعتماد کو فروغ ملا اور وہاں بھی بریڈ فورڈ کی بنیادوں پر کام شروع ہو گیا-
شیر اعظم کو یقین محکم تھا کہ جب تک مسلمان کوئی بھی کام یکجہتی اور منصوبہ بندی کے ساتھ نہیں کریں گئے تب تک وہ اپنی ضروریات اور تقاضوں کو آگے بڑھا نہیں سکیں گے – جس کے لیے کمیونٹی سطع پر مضبوط تنظیم سازی ایک لازمی عمل ہے۔ لہٰذا انھوں نے تنظیم سازی کو ہمیشہ ترجیح دی اور اس کے لیے عملی طور پر متحرک رہے۔ اسی سوچ کے ساتھ مسلم کونسل آف بریٹن کے بنانے میں بنیادی کام کیا اور اس کی تشکیل میں ہر مِمکن کوشش کی۔ آج یہ برطانیہ اور یورپ میں مسلمانوں کی مضبوط ترین اور با اثر تنظیم ہے۔ ساتھ ساتھ کونسل برائے مساجد یو کے اور آئرلینڈ میں ایک سینیئر عہدے دار کی حثیت سے خوب محنت سے کام کیا اور اس کو مضبوط بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

۱۹۸۴ شیر اعظم کو بریڈ فورڈ میں ایک مجسٹریٹ کی پوزیشن پر فائز کیا گیا اور اسی سال ان کو ملکہ برطانیہ نے ام-بی-ای کا ایوارڈ دیا۔ حتی کہ انھوں نے پرنس چارلس جو موجودہ برطانیہ کے بادشاہ ہیں ، کی دعوت پر دو مرتبہ اس کی ذاتی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس طرح برطانیہ کے وزیر اعظم جان میجر اور ٹونی بلیئر سے بھی ملاقاتیں کیں لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی کی دعوت کے باوجود رکنیت اختیار نہیں کی- ان کی سوچ کے مطابق کسی بھی مذہبی رہنما کو کسی ایک سیاسی جماعت سے منسلک نہیں ہونا چاہئے۔
شیراعظم کی سعودیہ کے بادشاہ فہد اور شہزادہ عبداللہ سے ان کے محلات میں ملاقاتیں ہوئیں اور برطانیہ کے مسلمانوں کی او- آئی – سی کی اجلاسوں میں ریاض اور قاہرہ میں نمائندگی کی۔
اس طرح غور غشتی کا ایک جوان زندگی کی منزلوں کو طے کرتے کرتے عالمی سطح پر جانا گیا ۔ اور یہ سفر اب بھی جاری و ساری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں