تحریر : رضوانہ لطیف (دینی عالمہ )
اگرچہ ذوالقعد کے مہینے میں مسلمانوں کے لیے عبادت کے کوئی دن مقرر نہیں ہیں، لیکن یہ وہ مہینہ ہے جسے اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے مقدس مہینوں میں سے ایک منتخب کیا ہے۔
اسلامی کیلنڈر کا گیارواں مہینہ ہے جو اللہ کے بتائے ہوے مقدس چارمہینوں میں سے پہلا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے اور یہ سارے کے سارے ذوالقعدہ میں کیے سوائے اس ایک عمرے کے جو آپ نے اپنے حج کے ساتھ کیا تھا۔
سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں جب اسلامی حکومت دور دور تک پھیل گئی۔ ایک مرتبہ حضرت ابو موسی اشعریؓ جب کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کی، آپ کی طرف سے ہمیں جو احکامات ملتے ہیں ان خطوط پر تاریخ نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں حکم نامہ کی تاریخ کا وقت معلوم نہیں ہو پاتا۔ جس کی وجہ سے ان پر عمل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے صحابہ کرام کی ایک کمیٹی ترتیب دی جو اسلامی کیلنڈر مرتب کرے۔ اس سلسلہ میں چند ایک تجاویز زیر غور آئیں۔
حضرت علیؓ نے تجویز دی کہ اسلامی کیلنڈر کا آغاز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے مدینہ کی ہجرت کے وقت سے شروع کیا جائے۔ کیونکہ پہلی اسلامی مملکت ہجرت کے بعد ہی مدینہ میں قائم ہوئی تھی۔ حضرت عمر فاروقؓ کو حضرت علیؓ کی یہ تجویز پسند آئی اور اسی کی آپ نے منظوری عطا فرمائی۔ لہذا اسلامی کیلنڈر کا آغاز ہجرت سے ہوتا ہے، اس لیے اسے ہجری کیلنڈر بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری کیلنڈر کے اعتبار سے غروب آفتاب سے نئی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ اسلامی کیلنڈر کے مہینوں کے اسماء اور ترتیب قبل اسلام بھی عرب معاشرہ میں انہی ناموں کے ساتھ رائج تھے۔ احادیث میں ان اسماء کا ذکر کئی اہم واقعات کے سلسلہ میں ملتا ہے۔
اسلامی مہینوں کے نام
(1) محرم الحرام، (2) صفر المظفر، (3) ربیع الاول، (4) ربیع الثانی، (5) جمادی الاول، (6) جمادی الثانی، (7) رجب المرجب، (8) شعبان المعظم، (9) رمضان المبارک، (10) شوال المکرم، (11) ذوالقعدۃ الحرام، (12) ذوالحجۃ الحرام
قرآن کریم سورۃ توبہ آیت 36 میں ارشاد ہوا ’’بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے ہاں بارہ مہینے ہے اللہ کی کتاب میں جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ ان میں سے چار مقدس ہیں.‘‘
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمانہ گھوم پھر کر اسی حالت پر آگیا جیسے اس دن تھا جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے تھے۔ سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، چار مہینے اس میں سے حرمت کے ہیں۔ تین تو پے درپے (1)ذی القعدہ (2) ذی الحجہ(3) اور محرم، اور (4) رجب جو جمادی الاخر اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔ (صحیح بخاری)
ذوالقعدہ اسلامی کیلنڈر کا گیارواں مہینہ ہے جو اللہ کے بتائے ہوئے مقدس چار مہینوں میں سے پہلا ہے، اس کی وجہ تسمیہ ہے کہ یہ قعود سے ماخوذ ہے جس کے معنی بیٹھنے کے ہیں۔ ماہِ
ذوالقعدہ کی حرمت کے پیش نظر عرب کے لوگ اس میں تجارت، قتال اور سفر وغیرہ سے اجتناب کرتے تھے۔
ذوالقعدہ میں پیش آنے والے اہم واقعات:
ذوالقعدہ کی پہلی تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ سلام کو کتاب دینے کے لیے تیس راتوں کا وعدہ فرمایا۔ اور یقیناً ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا کہ اپنی قوم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاؤ اور انہیں اللہ کے دن یاد دلاؤ۔ یقیناً اس میں ہر اس شخص کے لیے نشانیاں ہیں جو صبر کرنے والا اور شکر گزار ہے۔ (قرآن، 14:5)
حضرت ابراہیم علیہ السلام 25 ذی القعدہ کو پیدا ہوئے۔
حضرت عیسیٰ بن مریم بھی 25 ذی القعدہ کو پیدا ہوئے۔
1 ذوالقعدہ- ولادت حضرت فاطمہ ۔ آپ امام موسی کاظم کی دختر اور امام علی ابن موسی الرضا کی بہن ہیں۔ آپ کا روضہ قم، ایران میں ہے۔
11 ذوالقعدہ – ولادت امام علی ابن موسی الرضا ۔ آپ اہل تشیع کی آٹھویں امام ہیں اور آپ کا روضہ اطہر مشہد، ایران میں ہے۔
ماہ ذوالقعدہ کی پانچ تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام و حضرت اسمعیل علیہ السلام نے بیت اللہ شریف کی بنیاد رکھی تھی۔
خندق کی جنگ ذوالقعدہ میں پیش آئی۔ مدینہ کے مسلمانوں نے 27 دن تک یہودیوں اور عربوں سے اپنا دفاع کیا۔
بیعت عقبہ اولیٰ
مدینہ منورہ سے آنے والے حاجیوں نے سنہ 11نبوت کو ایام حج میں جمرہ عقبہ کے پاس آپؑ ﷺسے ملاقات کی اور آپ ؑ نے ا نہیںاسلام کی دعوت دی۔یہ فوراً آپ ؑ کے دست مبارک پر اسلام لے آئے۔ان کی تعداد چھ یاآٹھ تھی ۔ان میں ابو اسامہ ، اسعد بن زرارہ انصاری سب سے پہلے اسلام لائے اور عقبہ کی تینوں بیعتوں میں شریک ہوئے۔
غزوہ بنی قریظ
5ھ غزوہ خندق کے فوراً بعد یہ پیش آیا حتیٰ کہ حضوراکرمؑ نے جنگی لباس بھی نہیں اتارا ۔’’بنانہ‘‘نامی عورت کو قصاص کی سزا ملی۔اس بد بخت عورت کے علاوہ کسی عورت کو قتل نہیں کیا گیا۔اس غزوہ میں یہودیوں کا رئیس جو ا’م المو منین حضرت صفیہ ؓ کا والد تھا حضور ؑ سے شدید بغض رکھتا تھا اور حالت کفر میں قتل ہوا۔اسی غزوہ میں ابو لبابہ ؓ الانصاری کی توبہ قبول ہوئی۔انہوں نے اپنے آپ کومسجد طوبہ کے ایک ستون سے پندرہ دن تک باندھے رکھا ۔ حتٰی کے آنحضرت ؑ نے اپنے ہاتھوں سے انہیں کھولا۔
غزوہ حدیبیہ
6ھ آنحضرت ﷺ ؑ پیر کے دن یکم ذیقعد ہ کوچود ہ سو افراد کی معیت میں روانہ ہوئے اور ذوالحلیفہ سے عمرہ کا احرام باندھا ۔مگر کفار مکہ کی ہٹ دھرمی کی بناء پراس سال عمرہ نہ کر سکے بلکہ اگلے سال اس کی قضاء کی۔اس غزوہ میں جنگ نہیں ہوئی بلکہ صلح ہو گئی۔یہاں قیام بائیس دن رہا ۔حدیبیہ مکہ سے 12میل دور ایک کنواں کا نام تھا اس کے نام سے یہ بستی موسوم تھی۔یہی صلح حدیبیہ آگے چل کر فتح مکہ کا سبب بنی اور سورۃ فتح اسی بارے میں اتری۔
حضرت زینب ؓبنت حجش سے حضورﷺکا عقد
یکم ذی قعدہ کو حضرت ؓبنت حجش سے حضورﷺکا عقد ہوااور آپ کی رخصتی کے دن پردے کا حکم نازل ہوا۔سن میں اختلاف ہے۔ زینبؓبنت حجش رشتہ میں حضورﷺ کی رشتہ میں پھوپھی زاد بہن تھیں ۔
حضور ﷺ کے عمرے
آپ ﷺنے ہجرت کے بعد چار عمرے کئے جن میں تین ذ ی القعدہ میں اور آخری حج الوداع کے موقع پر۔عمرہ الحدیبیہ 6ھ،عمرہ القضا7ھ ،عمرہ الجعرانہ8ھ,اور عمرہ مع حج الوداع10ھ۔
یمن کی طر ف خروج
10ھ حضرت ابی موسٰی اشعری اور معاذؓبن جبل کو آنحضرتنے تبوک سے واپسی کے بعد یمن روانہ فرمایا۔حضورﷺ حضرت معاذؓکی مشاعیت کے لئے خودنکلے۔آنحضرتﷺان کی سواری کے ساتھ پا پیادہ تھے۔حضرت معاذ ؓ بن جبل نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں سوار ہو ںاور آپ پیدل چل رہے ہیں۔اجازت دیجئے کہ میں اتر جائوں۔فرمایا ‘‘ میں ان قدموں کوفی سبیل اللہ شما ر کرتا ہوں ۔
جنگ فراض
سنہ 12ھ 634ء فراض دریائے فرات کے کنارے تھا جو عراق و شام کے درمیان ہے۔حضرت خالدؓ بن ولید کا رومی افواج سے زبردست معرکہ ہوا وہ میدان میں ایک لاکھ سے زائد لاشیں چھوڑ کر بھاگے۔ سیدنا خالدؓ بن ولیدفراض میں تقریبا ایک ماہ رہے
فتح حمص(ملک شام )
عربی میں شام کو سوریہ کہتے ہیں اور حمص سوریہ کا ایک قدیم اور تاریخی شہر۔ دمشق سے 300کلومیٹر شمال کی جانب دریائے عاصی کے مشرقی کنارے واقع ہے ۔ حضرت ادریس علیہ السلام اپنے مولد بابل سے ہجرت کرکے حمص کے راستے فلسطین کے شہر الخلیل پہنچے اور وہاں سے مصر کے شہر ممفس پہنچے ۔ حمص کو حمص بن مہر عملی کی نے آباد کیا تھااور اسی کے نام سے منسوب ہے ۔ بہت بڑا تجارتی مرکز ہے ۔ یہاں ریشمی اور سوتی کپڑے کے کارخانے ہیں۔ قدیم زمانے میں حمص سورج دیوتا کے مندر کی وجہ سے مشہور تھا۔ 272ء میں اورلین نے حمص پر قبضہ کر لیا۔ رومیوں کے بعد حمص بازنطینی حکومت کا بڑا مرکز رہا۔ یہ شہر خلافت فاروقی 14ھ 635ء میں خالد بن ولید اور عبیدہ بن الجراح کے ہاتھوں سے فتح ہوا ’’ جہاں معروف مشرک جر نیل ہرقل موجود تھا۔ یہاں خالد بن ولید ان کی زوجہ ان کے بیٹے عبد الرحمن،عیاض بن غنم،عبید اللہ بن عمرو،سفینہ مولیٰ رسول اللہ ﷺ،ابو درداء اور ابوذر غفاری کی قبریں ہیں۔
بیعت معاویہؓ بن ابی سفیان
37ھ حضرت امیر معاویہ ؓحضرت حسن بن علیؓ کے بعد تخت خلافت پرمتمکن ہوئے۔وہ ہجرت سے سترہ سال پہلے پیدا ہوئے اور حضرت علی سے چھ سال چھوٹے تھے۔حضرت امیر معاویہ ؓسے 163 ۔ احادیث مروی ہیں۔ حضرت جابر ؓ کا قول ہے کے حضرت معاویہ سے بڑ ھ کرحلیم و عقیل نہیں دیکھا ۔وہ 22رجب 60ھ کو انتقال کر گئے جب کے ان کی عمر 70سال تھی ۔
وفات شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ
728ھ(27ء 1328-9-) ولادت 10ربیع الاول661ھ۔
(ابن تیمیہ )فقیہ، محدث، مفسر اور عالم دین (ولادت: 22 جنوری 1263ء، 621ھ – وفات: 26 ستمبر 1328ء، 20 ذوالقعدہ 728ھ) جو ابن تیمیہ کے نام سے زیادہ مشہور ہیں، ایک مشہور عالم دین، فقیہ، محدث، الٰہیات دان، منصف، فلسفی، ماہر معاشیات اور جامع العلوم تھے ۔ آپ کا اصل نام احمد، کنیت ابو العباس اور ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہیں۔ 621ھ میں پیدا ہوئے ۔ حنبلی مذہب کے فروغ اور اس کو پروان چڑھانے میں شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ کی خدمات جلیلہ قدر ہیں۔ اُن کو مذہبِ حنبلی کا شارح سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن بعض مسائل میں ابن تیمیہ نے امام احمد بن حنبل سے بھی اختلاف کیا۔[21] قلعہ دمشق ملک شام میں بحالت قید و بند 20 ذوالقعدہ 728ھ میں وصال ہوا۔
الپ ارسلان سلجوتی اور قیصر روم کے درمیان معرکہ
٭ 462ھ1072ء(سن ہجری میںکچھ اختلاف ہے)یہ معرکہ اپنے زمانے کے سب سے بڑے مسلمان دیندار،زبردست،شہنشاہ الپ ارسلان سلجوتی اور قیصر روم کے درمیان ہوا۔الپ ارسلان کے ساتھ صرف بارہ سو اور رومی عیسائیوں کے پاس تین لاکھ جرار فوج تھی جس کو شکست فاش ہوئی اور رومانوس گرفتار ہوا۔الپ ارسلان 455ھ میں بادشاہ بنے اور 465ھ میں انتقال کر گئے ۔ان کا تعلق ترکستان سے تھا سلجوق نامی ایک شخص نواح بخارا میں آکر مسلمان ہوا۔اصلاً یہ کیانی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جو ایرانی تھے۔کہا جاتا ہے کہ اس علاقہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والے یہی لوگ تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے ہیں اور یہ سارے کے سارے ذوالقعدہ میں کیے سوائے اس ایک عمرے کے جو آپ نے اپنے حج کے ساتھ کیا تھا۔ علماء کرام فرماتے ہیں کہ آپ نے یہ عمرے اس لیے کیے تا کہ لوگ اس مہینے کی عظمت اور فضیلت اچھی طرح جان لیں اور اہلِ جاہلیت کی مخالفت کی جو اس مہینے میں عمرہ کرنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔