196

ناحق قتل قرآن و حدیث کی روشنی میں


تحریر : رضوانہ لطیف (دینی عالمہ )

اسلام میں کسی انسانی جان کی حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاگیاہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’جو کوئی کسی کو قتل کرے جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کیلئے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی‘‘(سورۃ المائدہ: 32)
یعنی ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے، جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ قتل ناحق کی سزا جہنم ہے‘‘۔ دوسری جگہ فرمان ربانی ہے ’’اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور اللہ نے اس کیلئے بڑا عذاب تیار کرر کھا ہے‘‘(سورۃالنسا ء :93)۔
قتل کن صورتوں میں جائز
شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے۔ (1)قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص، (2) شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا، (3)ارتداد کے جرم میں قتل کرنا۔حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا)، شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا‘‘(صحیح البخاری 6878)۔ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میںآئے گا۔
روز قیامت سب سے پہلے خون کا حساب
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا(صحیح البخاری: 6533، صحیح مسلم: 1678)
انسانی خون کی حرمت
نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے‘‘(صحیح البخاری : 6484)۔
ایک مومن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : اے کعبہ تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے۔ مومن کے جان و مال کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے‘‘ (صحیح الترغیب 2339)
مقتول قاتل کوعرش تک لے جائے گا
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس(قاتل)کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ کہے گا : اے میرے رب! اس نے مجھے کیوں قتل کیا؟ حتیٰ کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا(صحیح الترمذی 3029)۔
قاتل کا کوئی عمل قبول نہیں
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض‘‘ (سنن ابی دائود: 4270)
مومن کو قتل کرنیوالے کی بخشش نہیں
حضرت ابودرداؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو،یا جس نے عمدا ًکسی مومن کو قتل کیا ہو‘‘(سنن ابی دائود)۔
اسلحے سے اشارہ کرنے سے ممانعت
فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اِقدام ہے حضور نبی اکرمﷺ نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا :تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ(قتل ناحق کے نتیجے میں)جہنم کے گڑھے میں جا گرے (صحیح البخاری: 7072)۔ حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے ، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ، حتی کہ وہ اسے رکھ دے (صحیح مسلم 2616)۔
اسلحے کی نمائش کی ممانعت
رحمت کائنات ﷺ نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے ،رسول کریمﷺ نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا(صحیح الترمذی: 2163)
جب اسلحہ کی نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے مخلوقِ خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا۔
حجۃ الوداع کا پیغام
حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پرفرمایا:میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا (صحیح البخاری: 7080)۔ آپ ﷺ نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے(صحیح البخاری : 1739)۔
مومن کا قتل پوری دنیا کی
تباہی سے بھی ہولناک
حضرت عبداللہ بن عمروؓسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! البتہ مومن کا (ناحق) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے (صحیح النسائی: 3997)۔
ایک مومن کے مقابلے
میں ساری دنیا معمولی چیز
رسول اللہ ﷺنے فرمایا،’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے۔ یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے ،یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے‘‘(صحیح الترمذی : 1395)
ناحق خون میں شامل سب لوگ جہنم میں
نبی کریم ﷺنے ارشاد نے فرمایا: ’’اگر تمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں ڈال دے گا‘‘(صحیح الترمذی : 139)
قارئین کرام !قرآن وحدیث کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے قاتل کیلئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے۔
جب سے ہم نے اللہ تعالیٰ کے احکامات اور امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے سے منہ موڑا ہے۔ آئے روز ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں کہ بھائی غیرت کے نام پر اپنی بہن کو قتل کر رہا توبہن آشنا کے ساتھ مل کربھائی کو قتل کر رہی ہے۔ باپ بیٹے کو قتل کر رہا ہے توبیٹا باپ کو۔بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے۔ جہیز کم لانے کی وجہ سے بہووں کی جان لے لی جاتی ہے۔کیا ہم انسان کہلانے کے لائق ہیں۔ یہ سب کچھ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔
یہاں صرف مسلمانوں کے قتل ناحق کی ممانعت نہیں بلکہ اسلامی مملکت کے سب شہریوں کے خون ناحق سے روکا گیا ہے۔اگر کوئی شخص ناحق قتل کیاجائے تو شرع اسلامی نے مقتول کے اولیاء کو چارہ جوئی کا حق دیا ہے۔ اور اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قاتل کو سزا دے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں