تحریر : رضوانہ لطیف (دینی عالمہ )
1 حضرت امام حسین بن علی
2 حضرت عباس بن علی
3 حضرت علی اکبر بن حسین
4 حضرت علی اصغر بن حسین
5 حضرت عبداللہ بن علی
6 حضرت جعفر بن علی
7 حضرت عثمان بن علی
8 حضرت ابوبکر بن علی
9 حضرت ابوبکر بن حسن بن علی
10 حضرت قاسم بن حسن بن علی
11 حضرت عبداللہ بن حسن
12 حضرت عون بن عبداللہ بن جعفر
13 حضرت محمد بن عبداللہ بن جعفر
14 حضرت عبداللہ بن مسلم بن عقیل
15 حضرت محمد بن مسلم
16 حضرت محمد بن سعید بن عقیل
17 حضرت عبدالرحمن بن عقیل
18 حضرت جعفر بن عقیل
19 حضرت حبیب ابن مظاہر اسدی
20حضرت أنس بن حارث اسدی
21 حضرت مسلم بن عوسجہ اسدی
22 حضرت قیس بن عشر اسدی.
23 حضرت ابو ثمامہ بن عبداللہ
24 حضرت بریر ہمدانی
25 حضرت ہنزلہ بن اسد
26 حضرت عابس شاکری
27 حضرت عبدالرحمن رہبی
28 حضرت سیف بن حارث
29 حضرت عامر بن عبداللہ ہمدانی.
30 حضرت جندا بن حارث
31 حضرت شوذب بن عبداللہ
32 حضرت نافع بن حلال
33 حضرت حجاج بن مسروق مؤذن
34 حضرت عمر بن کرضہ
35 حضرت عبدالرحمن بن عبد رب
36 حضرت جندا بن کعب
37 حضرت عامر بن جندا
38 حضرت نعیم بن عجلان
39 حضرت سعد بن حارث
40 حضرت زہیر بن قین
41 حضرت سلمان بن مضارب
42 حضرت سعید بن عمر
43 حضرت عبداللہ بن بشیر
44 حضرت وھب کلبی
45 حضرت حرب بن عمر-شیخ الاسلام قیس
46 حضرت ظہیر بن عامر
47 حضرت بشیر بن عامر
48 حضرت عبداللہ ارواح غفاری
49 حضرت جون غلام ابوذر غفاری
50 حضرت عبداللہ بن امیر
51 حضرت عبداللہ بن یزید
52 حضرت سلیم بن امیر
53 حضرت قاسم بن حبیب
54 حضرت زید بن سلیم
55 حضرت نعمان بن عمر
56 حضرت یزید بن سبیت
57 حضرت عامر بن مسلم
58 حضرت سیف بن مالک
59 حضرت جابر بن حجاج
60 حضرت مسعود بن حجاج
61 حضرت عبدالرحمن بن مسعود
62 حضرت بیکر بن حئ
63 حضرت عمار بن حسن تائی
64حضرت زرغامہ بن مالک
65 حضرت کینانہ بن عتیق
66 حضرت عقبہ بن سولت
67 حضرت حر بن یزید تمیمی
68 حضرت عقبہ بن سولت
69 حضرت حبلہ بن علی شیبنی
70 حضرت کنب بن عمر.
71 حضرت عبداللہ بن یکتیر
72 حضرت اسلم غلام ای ترکی
رضوان الله تعالى عليه اجمعين
کربلا میں شہید ہونے والے حضرت امام حسینؓ رسول اللہﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ الزہراؓ کے بیٹے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ اپنے بھائی حضرت امام حسنؓ کے بعد پیدا ہوئے اور حضرت امام حسنؓ 3ہجری میں پیدا ہوئے۔
آپ 5 شعبان 4 ہجری کو پیدا ہوئے اور قتادہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت امام حسینؓ چھٹے سال کے پانچویں مہینے کی 15 تاریخ کو پیداہوئے اور محرم 21 ہجری کے 10ویں دن بروز جمعتہ المبارک شہید ہوئے اور آپ کی عمر 54 سال ساڑھے چھ ماہ تھی۔
حضور نبی کریمﷺ نے حضرت حسینؓ کو گھٹی دی اور ان کے منہ میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے لئے دُعا کی اور آپ کا نام حسین رکھا اور اس سے پہلے آپ کے والد حضرت علی المرتضیٰؓ نے آپ کا نام حرب رکھا تھا۔
جعفر بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے ساتویں روز اُن کا نام رکھا اور عقیقہ کیا۔
حضرت علی المرتضیٰؓسے روایت ہے کہ حضرت امام حسینؓ سینے کے درمیان سے سر تک رسولؐ اللہ کے مشابہ تھے اور حضرت امام حسینؓ اس سے نچلے حصے میں آپؐ کے مشابہ تھے۔
زبیر بن بکار نے بیان کیا ہے کہ محمد بن ضحاک خزاعی نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت حسینؓ کا چہرہ رسولؐ اللہ کے چہرے سے مشابہ تھا اور حضرت امام حسینؓ کا جسم رسول اللہؐ کے جسم سے مشابہ تھا۔
حضرت حسینؓ نے حضور نبی کریمﷺ کی زندگی سے 5 سال یا اس کے قریب پائے اور آپؐ سے احادیث روایت کی ہیں اور مسلم بن الحجاج نے بیان کیا ہے کہ آپؓ کو حضور نبی کریمﷺ کی رویت حاصل تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسینؓ ایک جلیل القدر صحابی تھے۔ آپ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ رسول اکرم ؐ کی سب سے چھوٹی اور سب سے پیاری صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کے لختِ جگر تھے اور رسول اکرمﷺ کو آپ سے اور اِسی طرح حضرت حسنؓ سے شدید محبت تھی۔
عطاء بن یسار ؒ کہتے ہیں کہ ایک صحابی نے مجھے خبر دی کہ رسول اکرمﷺ نے حضرت امام حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: ’’اے اللہ! مَیں ان سے محبت کرتا ہوں، لہٰذا تو بھی ان سے محبت کر‘‘۔ (مسند احمد، ترمذی)
اور حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اکرم ﷺ اپنے گھر سے نکل کر ہمارے پاس تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی تھے، ایک آپ ؐ کے ایک کندھے پر اور دوسرے آپ ؐ کے دوسرے کندھے پر تھے اور آپ ؐ کبھی ان سے پیار کرتے اور کبھی اُن سے۔ چنانچہ ایک شخص نے آپ ؐ سے پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ ! کیا آپ کو ان سے محبت ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا:’’جس نے اِن سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اِن سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا‘‘۔ (احمد، ابن مااجہ)
حضرت بریدہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اکرمﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نمودار ہوئے۔ انہوں نے سرخ رنگ کی قمیضیں پہنی ہوئی تھیں اور وہ ان میں بار بار پھسل رہے تھے، چنانچہ رسول اکرمﷺ منبر سے نیچے اُترے، اپنا خطبہ روک دیا، انہیں اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا، پھر آپ ؐ انہیں اٹھائے ہوئے منبر پر چڑھے۔ اس کے بعد فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا ہے کہ’’بے شک تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں‘‘۔ مَیں نے انہیں دیکھا تو مجھ سے رہا نہ جا سکا‘‘۔ پھر آپ ؐ نے اپنا خطبہ مکمل فرمایا: (ابو داؤد نسائی)
اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے پوچھا گیا کہ حالتِ احرام میں اگر کوئی آدمی ایک مکھی کو مار دے تو اس کا کیا حکم ہے؟آپؓ نے فرمایا: اہلِ عراق مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں، حالانکہ وہ تو نواسۂ رسول ؐ کے قاتل ہیں! اور رسولﷺ نے فرمایا تھا: ’’(حسنؓ اور حسینؓ ) دنیا میں میرے دو پھول ہیں‘‘۔ (بخاری)
جبکہ سنن ترمذی میں اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اہلِ عراق میں سے ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے سوال کیا کہ اگر مچھر کا خون کپڑے پر لگ جائے تو اس کا کیا حکم؟ انہوں نے کہا: اس آدمی کو دیکھو! یہ مچھر کے خون کے متعلق سوال کرتا ہے، جبکہ انہوں نے رسول اکرمﷺ کے جگر گوشے کو قتل کیا اور مَیں نے رسول اکرمﷺ سے سُنا تھا کہ آپ نے فرمایا:
’’بے شک حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دنیا میں میرے دو پھول ہیں‘‘۔(ترمذی)
اور حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:
’’بے شک یہ فرشتہ آج رات زمین پر نازل ہوا، اس سے پہلے یہ کبھی زمین پر نہیں آیا تھا، اس نے اللہ تعالیٰ سے مجھے سلام کرنے اور مجھے یہ خوشخبری دینے کی اجازت طلب کی کہ فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہوں گی اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نوجوانانِ جنت کے سردار ہوں گے‘‘۔ (ترمذی)
اور حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ حضرت حسینؓ بن علیؓ رسول اکرمﷺ سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔ (بخاری)
ایک اور روایت میں ان کا بیان ہے کہ حضرت حسنؓ سے زیادہ کوئی اور آپ ؐ کے مشابہ نہ تھا (بخاری)
ان دونوں روایات کو جمع کرتے ہوئے حافظ بن حجر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت حسن ؓ آپؐ کی زندگی میں اور حضرت حسینؓ آپ ؐ کے وصال کے بعد آپ ؐ سے مشابہت رکھتے تھے۔ (فتح الباری)
ان تمام احادیث میں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے فضائل ذکر کئے گئے ہیں اور انہی احادیث کے پیش ِ نظر ہم ان دونوں سے محبت کرتے اور اس محبت کو اپنے ایمان کا جزو سمجھتے ہیں اور ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ حضرت حسینؓ کی شہادت کا واقعہ انتہائی المناک اور افسوس ناک واقعہ ہے۔
حضرت حسینؓ کی شہادت کے بارے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے پہلے ہی رسول اکرمﷺ کو آگاہ کر دیا تھا۔
حضرت اُم سلمہؓ کا بیان ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ؐ کے پاس حاضر ہوئے، اُس وقت حضرت حسینؓ میرے پاس تھے، اچانک وہ (حضرت حسینؓ ) رونے لگ گئے، مَیں نے انہیں چھوڑا تو وہ سیدھے آپ ؐ کے پاس چلے گئے جبرائیل نے پوچھا کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟اور آپ ؐ نے فرمایا: ہاں۔ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا:
بے شک آپ ؐ کی اُمت انہیں عنقریب قتل کر دے گی اور اگر آپ ؐ چاہیں تو مَیں آپ ؐ کو اس سرزمین کی مٹی دکھلا دوں، جس پر انہیں قتل کیا جائے گا، پھر انہوں نے اُس کی مٹی آپ ؐ کو دکھلائی اور یہ وہ سرزمین تھی، جسے کربلاء کہا جاتا ہے۔ (احمد بسند حسن)
حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ رسول ؐاللہ نے فرمایا کہ جس نے حسن و حسینؓ سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے اُن سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علی المرتضیٰؓ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ اور فاطمہؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ جوتم سے جنگ کرے میری اس سے جنگ ہے اور جو تم سے صلح رکھے میری اس سے صلح ہے۔ (ان دونوں حدیثوں میں امام احمد منفرد ہیں)۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسولؐ اللہ ہمارے پاس تشریف لائے۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ بھی آپؐ کے ہمراہ تھے۔ آپؐ نے ایک کندھے پر حضرت امام حسنؓ کو اور دوسرے کندھے پر حضرت امام حسینؓ کو اٹھایا ہوا تھا۔ آپؐ کبھی حسنؓ اور کبھی حسینؓ کو چومتے آ رہے تھے کہ آپؐ ہمارے پاس پہنچ گئے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ کیا آپ کو ان سے محبت ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت کی اس نے مجھ سے عداوت کی۔(اس میں بھی احمد منفرد ہیں)۔
حضرت براءؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو دیکھا تو دعا مانگی کہ اے اللہ! مجھے ان دونوں سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت فرما۔ (ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے)۔
یعلی بن مرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں، جو حسینؓ سے محبت رکھے، اللہ اس سے راضی ہوتا ہے۔ حسینؓ میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے۔ (ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے)۔
حضرت ابو سعید خدریؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حسنؓ اور حسینؓ نوجوانان اہل جنت کے سردار ہیں۔ سوائے میرے اور دو خالہ زاد بھائیوں حضرت یحییٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کے۔
وکیع بن ربیع بن سعد بن ابی سابط سے روایت ہے کہ حضرت امام حسینؓ مسجد میں داخل ہوئے تو حضرت جابر بن عبداللہؓ نے کہا کہ جس نے نوجوانانِ جنت کے سردار کو دیکھنا ہو،اُن کی طرف دیکھ لے۔یہ بات میَں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے سنا ہے۔ (اس حدیث میں امام احمد منفرد ہیں)
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ میَں نے رسول اللہﷺ کو حضرت حسن اور حسینؓ کے بارے میں فرماتے سنا ہے کہ جس کو مجھ سے محبت ہو وہ ان دونوں سے محبت کرے۔
امام احمد کہتے ہیں کہ ہم سے سلیمان بن داؤد نے، اُن سے اسماعیل یعنی ابن جعفر نے، اُن سے محمد یعنی ابن حرملہ نے، اُن سے عطا نے اور ان سے ایک شخص نے کہا کہ میَں نے رسول اللہﷺ کو حضرت حسن اور حضرت حسینؓ کو سینے سے لگا کر یہ فرماتے سنا ہے کہ اے اللہ! مجھے ان سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت کر۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ ؐ سجدے میں گئے تو حضرت حسنؓ اور حضرت حسین ؓ کود کر آپ ؐ کی پیٹھ پر سوار ہو گئے،جب آپ ؐ نے سجدہِ سے سر اُٹھایا تو ان دونوں کو پکڑ کر آرام سے نیچے بٹھا دیا۔ آپ ؐ دوبارہ سجدے میں گئے تو پھر وہ دونوں پہلے کی طرح کود کر آپ ؐ کی پیٹھ پر سوار ہو گئے۔حتیٰ کہ آپ ؐ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ؐ نے ان دونوں کو گود میں بٹھا لیا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میَں نے اُٹھ کر عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! کیا میَں انہیں ان کی ماں کے پاس چھوڑ آؤں؟ اسی اثناء میں بجلی چمکی تو آپ ؐ نے ان سے فرمایا کہ اپنی ماں کے پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کے اپنی ماں کے پاس پہنچنے تک بجلی کی روشنی قائم رہی۔