151

اوورسیز طلبہ کی کمی، برطانوی یونیورسٹیز کو شدید نقصان

رواں سال جنوری میں اُس وقت کی کنزرویٹو حکومت نے برطانوی یونیورسٹیز میں داخلہ لینے والے طلبہ پر اپنے خاندان کے کسی فرد کو برطانیہ لانے پر پابندی عائد کر دی تھی یہ پابندی تا حال تو جاری ہے لیکن لیبر پارٹی سے اُمید کی جا رہی ہے کہ وُہ اوورسیز طلبہ کے ساتھ ساتھ برطانوی یونیورسٹیز کا مستقبل بچانے کے لئے راست اقدامات کرے کیونکہ برطانیہ میں بیرونی ممالک سے آنے والے بین الاقوامی طلبہ کی تعداد میں کمی ملکی یونیورسٹیوں کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہے اور بہت سے اعلیٰ تعلیمی ادارے تو اس وجہ سے تنزلی اور ناکامی کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ حال ہی میں بعض اعلیٰ نجی اور حکومتی اداروں کی رپورٹس کے مطابق یہ تنبیہ ماہرین کی ایک ایسی تازہ رپورٹ میں کی گئی ہے، جو لندن حکومت کے ایما پر تیار کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانیہ میں اگلے تعلیمی سال سے حصول تعلیم کے لیے جن غیر ملکی طلبہ نے اپنی رجسٹریشن کرائی ہے، ان کی تعداد میں گزشتہ تعلیمی سال کے مقابلے میں واضح کمی ہوئی ہے۔ اسی پس منظر میں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ برطانوی یونیورسٹیوں کی بین الاقوامی ساکھ کے تسلسل اور ایسے کئی اداروں کی تنزلی سے بچنے کے لیے لازمی ہے کہ یہ حکومت اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ آنے والے غیر ملکی طلبہ کی تعداد کو محدود کر دینے والے مزید کوئی اقدامات نہ کرے اور پچھلی حکومت کے غیر انسانی فیصلے کو معطل کرے۔ دوسری طرف ٹوری حکومت کا کہنا تھا کہ طلبہ کے ویزوں کے حوالے سے یہ پابندیاں حکومت کی جانب سے ملک میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی کرنے اور امیگریشن سسٹم کے غلط استعمال کو روکنے کے سلسلے میں لاگو کی گئی ہیں۔ برطانیہ کے ہوم آفس کے مطابق اس سال جنوری سے کورسز شروع کرنے والے بین الاقوامی طلبہ خاندان کے افراد کو لانے کے اہل نہیں ہوں گے تاہم یہ پابندی پوسٹ گریجویٹ ریسرچ کورسز اور سرکاری فنڈز سے چلنے والے سکالرشپس پر عائد نہیں ہو گی۔ یاد رہے کہ ٹوری حکومت نے گذشتہ سال مئی میں پہلی بار اعلان کردہ ان تبدیلیوں میں لوگوں پر برطانیہ میں کام کرنے کے لیے ’بیک ڈور روٹ‘ کے طور پر سٹوڈنٹ ویزا استعمال کرنے پر بھی پابندی عائد کردی تھی جو اب تک نافذ العمل ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ممالک سے باوسائل اور باصلاحیت افراد کے اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ کا رخ کرنے کی بین الاقوامی روایت سالوں پرانی ہے۔ اس عمل کو سابق وزیر اعظم رشی سوناک کی قیادت میں کیے گئے اقدامات سے نقصان پہنچا ہے۔ مثال کے طور پر رشی سوناک کی حکومت نے طبی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور کم تنخواہ والے ورکرز کے روزگار کے لیے برطانیہ آنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی مشکل بنا دیا ہے کہ دیگر ممالک سے پوسٹ گریجویشن کے لیے برطانیہ آنے والے طلبہ اپنے اہل خانہ کو بھی ساتھ لا سکیں۔ دنیا کی چند مشہور ترین یونیورسٹیز برطانیہ میں ہیں، جن میں آکسفورڈ اور کیمبرج بھی شامل ہیں اور امپیریل کالج لندن جیسے عالمی سطح پر شہرت یافتہ ادارے بھی۔ برطانوی حکومت کے لیے یہ رپورٹ مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی نامی اس ادارے نے تیار کی ہے، جو ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر لندن حکومت کی مشاورت کرتا ہے۔ مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس سال ستمبر میں برطانوی یونیورسٹیوں میں اپنی اعلیٰ تعلیم شروع کرنے کے لیے رقوم جمع کرانے والے انٹرنیشنل پوسٹ گریجویٹ طلبہ کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں 63 فیصد کم ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ زیادہ تر سابق حکومت کی طرف سے تعلیمی ویزوں پر لگائی جانے والی پابندیاں اور شرائط بنیں۔
برطانیہ میں غیر ملکی طلبہ کو حصول تعلیم کے بعد دو سال تک یہاں کام کرنے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار کو گریجویٹ روٹ کہتے ہیں۔ مائیگریشن ایڈوائزری کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ سابق حکومت کی طرف سے گریجویٹ روٹ پر لگائی جانے والی مزید پابندیوں سے نہ صرف روزگار کے مواقع ختم ہوتے جا رہے ہیں بلکہ ان تعلیمی اداروں کو کئی تعلیمی کورس بند کرنا پڑیں گے بلکہ اس طرح ”چند تعلیمی اداروں کی ناکامی کا خطرہ‘‘ بھی پیدا ہو جائے گا۔ لیبر حکومت کو یہ بات بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ بین الاقوامی طلبہ کے یہاں آنے سے برطانیہ کو فائدہ پہنچتا ہے۔ وہ یونیورسٹیوں کا عالمی معیار برقرار رکھنے کے لیے بھی اہم ہیں کیوں کہ ان کی فیس سے مقامی طلبہ کو تعلیم میں مدد ملتی ہے اور برطانیہ میں تحقیق کے لیے بھی مالی معاونت فراہم ہوتی ہے۔‘ لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہو گی کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے لیبر پارٹی نے مختصر کورسز میں داخلہ لینے والے غیر ملکی طلبہ پر پابندیوں کی حمایت کی تھی لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ برطانیہ کی لیبر مارکیٹ میں مہارتوں اور تربیت میں ’گہری ناکامیوں‘ سے نمٹنے یا ملک کی سست رو معیشت میں تیزی لانے کے لیے کافی نہیں ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں