80

برطانیہ میں مقیم پاکستان نژاد شہریوں میں بڑھتی بے روزگاری کی وجہ ؟

حال ہی میں شائع شدہ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی ہاؤس آف کامنز ریسرچ لائبریری کی ایک رہورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک میں رہنے والی تمام نسلی اکائیوں میں پاکستان نژاد افراد کی بے روزگاری کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ برطانیہ میں پچھلے دو سال کے دوران بے روزگاری کی شرح 3.8 فیصد تھی جس میں سفید فام آبادی کی شرح 3.1 فیصد جبکہ باقی سب نسلی اقلیتوں کی شرح 7.5 فیصد تھی لیکن جو بات سب سے زیادہ حیرت کی تھی وہ پاکستان نژاد آبادی کی شرح جو کہ 8.7 تھی، برطانوی ادارے کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سب سے زیادہ بے روزگاروں کی تعداد نوجوانوں اور خواتین کی تھی۔برطانیہ میں مقیم پاکستان نژاد ملک کی دوسری بڑی اقلیت ہیں ان کی پہلی آمد دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوئی جب تباہ شدہ برطانیہ کی دوبارہ تعمیر کا آغاز کیا گیا اور لیبر کی بے پناہ ضرورت تھی۔ اس کے بعد مسلسل پاکستانیوں کی بڑی تعداد برطانیہ کو اپنا گھر بناتی رہی ہے۔ برطانیہ کی حکومت ملک کی ترقی اور تعمیر میں پاکستانی کمیونٹی کی خدمات کا اعتراف بھی کرتی ہے لیکن بیشتر پاکستانی ثقافتی اور روایتی وجوہات کی بنا پر اپنے مخصوص علاقوں میں، اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کے مقابلے میں بھارتی اور چین نژاد نوجوان، ملازمتوں میں دوسری اقلیتوں سے بہت آگے ہیں۔ خواتین میں بے روزگاری کا تناسب پاکستانی اور بنگلہ دیش نژاد خواتین میں سب سے زیادہ ہے اور ان میں یہ شرح تقریباً گیارہ فیصد ہے۔ بی بی سی نے پاکستان نژاد شہریوں سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ کیوں پاکستان نژاد برطانوی شہری بے روزگاری کی شرح میں دوسری برادریوں سے اتنے پیچھے ہیں۔ایک شہری نے کہا کہ شاید اس کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ ’جب وہ اس ملک میں آتے ہیں تو شاید اتنے پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور یہاں رہنے اور آگے بڑھنے کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔‘ایک اور شہری نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ پاکستانی اپنی خواتین کو نوکری کرنے کے لیے اتنا سپورٹ نہیں کرتے جتنی دوسری برادریاں کرتی ہیں۔ ایک پاکستان نژاد شہری نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’ہم تو ایک دوسرے کو ہی سپورٹ نہیں کرتے۔ایک خاتون نے کہا کہ جب پاکستانی کسی ملازمت کے لیے اپلائی کرتے ہیں تو انھیں اگر انٹرویو کی کال آ بھی جائے تو وہ انٹرویو میں اچھی طرح انگریزی نہیں بول سکتے۔ ہم اپنے دائروں میں رہتے ہیں، دوسرا ماں باپ بھی بچے کو نئی راہیں ڈھونڈنے سے روکتے ہیں بچے مسلح افواج میں جانے کی کوشش کریں تو ماں باپ اکثر کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ اس طرح بچہ مین سٹریم سے دور ہی رہتا ہے اور جہاں دنیا میں انتہائی مقابلہ ہے تو وہاں ہم مقابلے سے ہی دور ہو جاتے ہیں۔ آپ کو زیادہ تر پاکستانی بچے ٹیکسی چلاتے ہوئے ملیں گے، خصوصاً ملک کے شمالی شہروں میں ، اگرچہ ٹیکسی چلانا کوئی برُا کام نہیں لیکن بہت سوں کی سوچ ’کوئک منی‘ یا تیزی سے آنے والے پیسے کی طرف ہوتی ہے۔ اس لیے وہ تعلیم حاصل کر کے بھی اسی طرف دوڑتے ہیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ برطانوی حکومت کی اپنی ہی دیگر رپورٹس کے مطابق نسلی اقلیتوں کو روزگار کے حصول میں نسلی امتیاز کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ایک سفید فام کو جس درخواست اور سی وی پر نوکری مل سکتی ہے، ضروری نہیں کہ ایک پاکستانی نژاد شخص کو بھی ملے۔ مزکورہ رپورٹ کے مطابق 12 فیصد بنگلہ دیشی، 11.7 فیصد برطانوی گورے، 11.5 فیصد برطانوی سیاہ فام اور 11.3 فیصد اسی عمر کے دیگر ایشیائی نوجوانوں نے ملازمت نہیں کی اور وہ تعلیم یا تربیت حاصل نہیں کر رہے۔ دوسری طرف اگر پاکستان کی بات کریں تو ملک کے اندر بھی پاکستان کی نوجوان نسل کے بارے میں جس کا تناسب اس وقت ملک کی آبادی میں سب سے زیادہ ہے برٹش کونسل اور نیلسن تحقیقاتی ادارے نے ایک رپورٹ مرتب کی ہے، اس رپورٹ سے بڑی تاریک تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان کی نوجوان نسل حکومت سے مایوس اور اپنے مستقبل کے بارے میں ناامید ہے۔ نوجوانوں کی اکثریت اس بات سے متفق ہے کہ ان کا ملک غلط سمت میں جا رہا ہے اور دس میں صرف ایک نوجوانوں کو حکومت پر اعتماد ہے۔ ان میں اکثریت اپنے آپ کو پہلے مسلمان اور بعد میں پاکستانی کہتی ہے، یہ نسل اب روزگار کمانے کی عمر میں داخل ہورہی۔ اعدادوشمار کے مطابق دسمبر اور فروری کے دوران بیروزگاری کی شرح 4.2 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ اعدادوشمار کے مطابق ملازمتوں میں کمی کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ ان اعداد و شمار کی روشنی میں بینک آف انگلینڈ موسم گرما میں شرح سود میں کمی کرسکتا ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اب جبکہ روزگار کے مواقع میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، خدشہ ہے کہ اگلے مہینوں کے دوران تنخواہوں اور اُجرتوں میں بھی کمی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ قومی شماریات دفتر کا کہنا ہے کہ اس بات کے ٹھوس اشارے مل رہے ہیں کہ ملازمتوں کے مواقع میں کمی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق جنوری کو ختم ہونے والی سہ ماہی کے بیروزگاری کی شرح بڑھ کر3.9فیصد ہوگئی جبکہ اس میں مزید اضافہ ہونے اور شرح 4فیصد ہوجانے کی توقع ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق دسمبر اور فروری کے دوران برطانیہ میں بیروزگار افراد کی تعداد1.4ملین تھی۔ اعدادوشمار کے مطابق افراط زر کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ فروری کو ختم ہونے والے 3ماہ کے دوران اجرتوں میں حقیقی معنوں میں 1.9فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر 2023 کے بعد سے کسی سہ ماہی کے دوران اجرتوں میں ہونے والا یہ سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ چانسلر نے اجرتوں میں ہونے والے حقیقی اضافے کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے حال ہی ملازم پیشہ اور خود روزگار لوگوں کی نیشنل انشورنس میں جو کمی کی ہے، جس کا اطلاق آنے والے ہفتوں میں ہوگا اور واضع فرق محسوس ہونا شروع ہوجائے گا لیکن انکم ٹیکس کی حد 2028 تک کیلئے محدود کردینے کی وجہ سے تنخواہوں میں اضافے کے بعد لوگ اگلی کٹیگری میں پہنچ جائیں گے اور انھیں زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ بینک آف انگلینڈ شرح سود میں اضافہ یا کمی کرنے سے پہلے تنخواہوں میں کمی بیشی کی شرح کی مانیٹرنگ ضرور کرتا ہے تاہم اگلے چند ماہ کے دوران افراط زر کی حد کو چھونے کے قریب ہے اور ماہرین اقتصادیات کو اس بات پر تشویش ہے کہ تنخواہوں میں اضافے سے افراط زر میں دوبارہ اضافہ ہوسکتا ہے تاہم ماہر اقتصادیات راب ووڈ کا کہنا ہے کہ تنخواہوں نے لیبر مارکیٹ کو بہت متاثر کیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے بینک آف انگلینڈ کی مالیاتی پالیسی کمیٹی کے ارکان شرح سود کم کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ قومی دفتر شماریات کا کہنا ہے کہ دسمبر اور فروری کے دوران روزگار کی شرح 74.5 فیصد تک آگئی ہے اور 16 سے64 سال تک کے لوگوں کی بیروزگاری کی شرح 21.8 فیصد سے بڑھ کر یہ شرح اب 22.2 فیصد ہوگئی ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ اب بیروزگار لوگوں کی تعداد 9.4 ملین ہوگئی ہے۔ امپلائمنٹ سٹڈیز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ٹونی ولسن کا کہنا ہے کہ ملازمتوں کی صورت حال بہت ہی غیر مستحکم اور جلد بدلنے والی ہوچکی ہے، اس لئے مختصر مدت کیلئے ہونے والی تبدیلیوں پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں