57

یوکرین کے مسئلے پر برطانیہ اور امریکہ کے درمیان چپقلش

یوکرین کے مسئلے پر برطانیہ اور امریکہ کے درمیان عمومی طور پر کسی بڑی چپقلش کی صورت نظر نہیں آتی، کیونکہ دونوں ممالک نیٹو (NATO) کے اتحادی ہیں اور یوکرین کی حمایت میں یکساں مؤقف رکھتے ہیں۔ تاہم، کچھ معاملات میں پالیسیوں اور ترجیحات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔امریکہ یوکرین کو مالی اور فوجی امداد دینے میں سب سے آگے ہے، جبکہ برطانیہ نے بھی یوکرین کو اسلحہ اور تربیت فراہم کی ہے۔ البتہ، بعض اوقات برطانیہ زیادہ جارحانہ حکمت عملی اختیار کرتا ہے، جیسے کہ روس کے خلاف سخت پابندیوں کا مطالبہ۔امریکہ یوکرین جنگ کے حل کے لیے سفارتی راستے پر بھی کام کر رہا ہے، جبکہ برطانیہ عام طور پر روس کے خلاف سخت رویہ اپناتا ہے اور یوکرین کو زیادہ جارحانہ مدد دینے کی حمایت کرتا ہے۔امریکہ میں یوکرین کے لیے مزید امداد پر اندرونی سیاسی اختلافات ہیں، خاص طور پر ریپبلکن اور ڈیموکریٹ پارٹی کے درمیان۔ برطانیہ میں اس مسئلے پر زیادہ سیاسی اتفاق نظر آتا ہے۔برطانیہ، یورپی یونین سے نکلنے کے باوجود، یوکرین کی حمایت میں یورپی ممالک کے ساتھ زیادہ قریب نظر آتا ہے۔ دوسری طرف، امریکہ نیٹو میں اپنی برتری برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ایشیا میں چین کے ساتھ مقابلے پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔اگرچہ دونوں ممالک یوکرین کی حمایت میں متحد ہیں، لیکن بعض حکمت عملیوں اور ترجیحات میں فرق ضرور پایا جاتا ہے، جو بعض مواقع پر معمولی اختلافات یا چپقلش کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔دوسری طرف یہ نکتہ بھی انتہائی اہم ہے کہ اگر امریکہ یورپ کی سیکیورٹی میں کم دلچسپی لینا شروع کر دے یا مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائے، تو یورپ کو اپنی سلامتی خود یقینی بنانے کے لیے کئی بڑے اقدامات کرنے ہوں گے۔ فی الحال، یورپی ممالک اپنی دفاعی صلاحیتوں میں امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر نیٹو (NATO) کے ذریعے۔ اگر امریکہ پیچھے ہٹتا ہے، تو یورپ کو درج ذیل چیلنجز کا سامنا ہوگا اور انہیں حل کرنے کے لیے متبادل حکمت عملی اپنانی پڑے گی ، امریکہ کے بغیر یورپی ممالک کو اپنے دفاعی بجٹ میں نمایاں اضافہ کرنا ہوگا۔ فی الحال، زیادہ تر یورپی نیٹو ممالک اپنی معیشت کا 2% سے بھی کم دفاع پر خرچ کرتے ہیں، جبکہ امریکہ تقریباً 4% خرچ کرتا ہے۔ اگر یورپ کو اپنی سیکیورٹی خود سنبھالنی ہے تو اسے زیادہ دفاعی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی، خاص طور پر فوجی سازوسامان، فضائی دفاعی نظام، اور نیوکلیئر ڈیٹرنس میں۔نیٹو میں امریکہ سب سے بڑی فوجی طاقت ہے، اور اگر وہ الگ ہو جاتا ہے تو یورپ کو نیٹو کو خود سنبھالنا ہوگا یا پھر ایک نیا یورپی فوجی اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ فرانس اور جرمنی جیسے ممالک ایک “یورپی دفاعی فورس” بنانے کی تجویز دیتے رہے ہیں، لیکن اب تک یہ مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکا۔ فی الحال، یورپ کی نیوکلیئر سیکیورٹی کا انحصار امریکہ پر ہے، جو نیٹو کے نیوکلیئر شیلڈ کے ذریعے یورپ کو تحفظ دیتا ہے۔ اگر امریکہ الگ ہو جاتا ہے، تو فرانس اور برطانیہ (جو نیوکلیئر طاقتیں ہیں) کو یورپی نیوکلیئر ڈیٹرنس کو مضبوط کرنا ہوگا اور ممکنہ طور پر دیگر یورپی ممالک کے ساتھ نیوکلیئر شیئرنگ کے معاہدے کرنے ہوں گے۔ امریکہ کے بغیر، یورپ کو روس کے خلاف اپنی دفاعی حکمت عملی خود بنانی ہوگی۔ اس کا مطلب ہوگا کہ مشرقی یورپی ممالک، جیسے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں (لیتھوانیا، لیٹویا، ایسٹونیا)، کو زیادہ مضبوط فوجی اتحاد بنانے ہوں گے تاکہ روسی جارحیت کا مقابلہ کیا۔امریکہ کے بغیر، یورپ کو اپنی انٹیلیجنس اور سائبر سیکیورٹی کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ فی الحال، امریکہ یورپی ممالک کو اہم انٹیلیجنس معلومات فراہم کرتا ہے، اور اس کی NSA اور CIA جیسی ایجنسیاں یورپی سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر امریکہ الگ ہوتا ہے تو یورپ کو اپنی انٹیلیجنس نیٹ ورک کو بڑھانا ہو گا۔امریکہ یورپ کے لیے نہ صرف روس بلکہ چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے سیکیورٹی چیلنجز میں بھی مددگار ہے۔ اگر امریکہ الگ ہو جاتا ہے، تو یورپ کو اپنی بحرالکاہل اور افریقی پالیسیوں کو بھی ازسرنو تشکیل دینا ہوگا تاکہ وہ اپنی معاشی اور سیکیورٹی مفادات کا تحفظ کر سکے۔امریکہ کے بغیر یورپ کی سیکیورٹی یقینی بنانا ایک مشکل کام ہوگا، لیکن ناممکن نہیں۔ اگر یورپی ممالک اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرتے ہیں، ایک مشترکہ یورپی فوجی اتحاد بناتے ہیں، نیوکلیئر ڈیٹرنس کو مضبوط کرتے ہیں، اور جدید انٹیلیجنس و سائبر سیکیورٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو وہ طویل مدتی میں اپنی سلامتی خود یقینی بنا سکتے ہیں۔ تاہم، اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں اور یورپی اتحاد کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنانا ہوگا۔دوسری طرف یہ نکتہ بھی انتہائی اہم ہے کہ اگر امریکہ یورپ کی سیکیورٹی میں کم دلچسپی لینا شروع کر دے یا مکمل طور پر پیچھے ہٹ جائے، تو یورپ کو اپنی سلامتی خود یقینی بنانے کے لیے کئی بڑے اقدامات کرنے ہوں گے۔ فی الحال، یورپی ممالک اپنی دفاعی صلاحیتوں میں امریکہ پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، خاص طور پر نیٹو (NATO) کے ذریعے۔ اگر امریکہ پیچھے ہٹتا ہے، تو یورپ کو درج ذیل چیلنجز کا سامنا ہوگا اور انہیں حل کرنے کے لیے متبادل حکمت عملی اپنانی پڑے گی ، امریکہ کے بغیر یورپی ممالک کو اپنے دفاعی بجٹ میں نمایاں اضافہ کرنا ہوگا۔ فی الحال، زیادہ تر یورپی نیٹو ممالک اپنی معیشت کا 2% سے بھی کم دفاع پر خرچ کرتے ہیں، جبکہ امریکہ تقریباً 4% خرچ کرتا ہے۔ اگر یورپ کو اپنی سیکیورٹی خود سنبھالنی ہے تو اسے زیادہ دفاعی سرمایہ کاری کرنی پڑے گی، خاص طور پر فوجی سازوسامان، فضائی دفاعی نظام، اور نیوکلیئر ڈیٹرنس میں۔نیٹو میں امریکہ سب سے بڑی فوجی طاقت ہے، اور اگر وہ الگ ہو جاتا ہے تو یورپ کو نیٹو کو خود سنبھالنا ہوگا یا پھر ایک نیا یورپی فوجی اتحاد قائم کرنا ہوگا۔ فرانس اور جرمنی جیسے ممالک ایک “یورپی دفاعی فورس” بنانے کی تجویز دیتے رہے ہیں، لیکن اب تک یہ مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکا۔ فی الحال، یورپ کی نیوکلیئر سیکیورٹی کا انحصار امریکہ پر ہے، جو نیٹو کے نیوکلیئر شیلڈ کے ذریعے یورپ کو تحفظ دیتا ہے۔ اگر امریکہ الگ ہو جاتا ہے، تو فرانس اور برطانیہ (جو نیوکلیئر طاقتیں ہیں) کو یورپی نیوکلیئر ڈیٹرنس کو مضبوط کرنا ہوگا اور ممکنہ طور پر دیگر یورپی ممالک کے ساتھ نیوکلیئر شیئرنگ کے معاہدے کرنے ہوں گے۔ امریکہ کے بغیر، یورپ کو روس کے خلاف اپنی دفاعی حکمت عملی خود بنانی ہوگی۔ اس کا مطلب ہوگا کہ مشرقی یورپی ممالک، جیسے پولینڈ اور بالٹک ریاستوں (لیتھوانیا، لیٹویا، ایسٹونیا)، کو زیادہ مضبوط فوجی اتحاد بنانے ہوں گے تاکہ روسی جارحیت کا مقابلہ کیا۔امریکہ کے بغیر، یورپ کو اپنی انٹیلیجنس اور سائبر سیکیورٹی کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔ فی الحال، امریکہ یورپی ممالک کو اہم انٹیلیجنس معلومات فراہم کرتا ہے، اور اس کی NSA اور CIA جیسی ایجنسیاں یورپی سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر امریکہ الگ ہوتا ہے تو یورپ کو اپنی انٹیلیجنس نیٹ ورک کو بڑھانا ہو گا۔امریکہ یورپ کے لیے نہ صرف روس بلکہ چین، مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے سیکیورٹی چیلنجز میں بھی مددگار ہے۔ اگر امریکہ الگ ہو جاتا ہے، تو یورپ کو اپنی بحرالکاہل اور افریقی پالیسیوں کو بھی ازسرنو تشکیل دینا ہوگا تاکہ وہ اپنی معاشی اور سیکیورٹی مفادات کا تحفظ کر سکے۔امریکہ کے بغیر یورپ کی سیکیورٹی یقینی بنانا ایک مشکل کام ہوگا، لیکن ناممکن نہیں۔ اگر یورپی ممالک اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرتے ہیں، ایک مشترکہ یورپی فوجی اتحاد بناتے ہیں، نیوکلیئر ڈیٹرنس کو مضبوط کرتے ہیں، اور جدید انٹیلیجنس و سائبر سیکیورٹی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، تو وہ طویل مدتی میں اپنی سلامتی خود یقینی بنا سکتے ہیں۔ تاہم، اس میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں اور یورپی اتحاد کو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنانا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں