854

’’ رحمت للعالمین‘‘


جس طرح خزاں چاہے چمن کا سارا حسن نوچ لے بہار ضرور آتی ہے گہری کالی رات صبح کے سورج سے ہار جاتی ہے اسی طرح جہالت میںڈوبی انسانیت پر جب اللہ کی رحمت برسی تو محبوب رب اللعالمین یعنی رحمت للعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی اور آپ تمام مخلوقات کے لیے رحمت اور برکت بن کر تشریف لائے ۔
یہ ہی ہمارا آج کا موضوع گفتگو ہے ۔
1۔ ولادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت دنیا کے کیا حالات تھے ؟
2۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں قرآن مجید میں کیا ارشاد ہوا ؟
3۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاف کر دینے کی عملی مثال کیسے دی؟
4۔ اہل ایمان کو کیسے اخلاق اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا ؟
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غربیوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
’’رحمت اللعالمین ‘‘
اللہ تعالی نے جس مقام کو اعلان اسلام کے لیے منتخب فرمایا وہ عرب کی سرزمین تھی جلد ہی اسلام کو رومی اور ایرانی معاشروں کا سامنا کرنا تھا بنی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے وقت دنیا کی معاشرت کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
عرب ۔

عرب شجاع اور جرات مند تھے لڑائی ، لوٹ مار ، ظلم اور سنگدلی جیسی خصلتیں بہادری کا ثبوت تھیں ان مقبول رجحانات نے معاشرے کو ہمدردی اور احساس سے محروم کر دیا تھا اخلاقی پستی کا دور تھا لوگ قریبی رشتہ داروں سے بھی ناروا سلوک کرتے تھے بت پرستی ، شراب نوشی، جوا عام تھا رنگ، نسل اور زبان کی بنیاد پر انسانوں کی درجہ بندی عرب معاشرے کی خصوصیت تھی کمزوروں اور غلاموں کے ساتھ حیوانی سلوک کیاجاتا تھا۔ صحرائی اور شہری علاقوں پر مشتمل یہ جزیرہ قبائل سے آباد تھا ہر قبیلہ اپنی جگہ ایک وحدت تھا اپنے معاملات میں خود مختار تھا زندگی سادہ تھی اور مقاصد بہت محدود تھے خاندان کا سربراہ بنیادی حیثیت کا حامل تھا اکثر خاندان کی ابتداء نکاح سے ہوتی تھی لیکن سفاح (زنا) سے بھی نسب ثابت ہو جاتا تھا منہ بولی اولاد حقیقی شمار کی جاتی تھی نکاح کی کوئی حد مقرر نہیں تھی کثیر الازدواجی عام تھی ایک مرد کے نکاح میں کہیں دس سے زیادہ عورتیں تھیں اور دوسری طرف ایک عورت کئی شوہر رکھتی تھی بیوی کی حیثیت سے عورت کا کوئی حق نہ تھا والد کی وفات کے بعد بیٹے اس کی بیویاں بھی میراث کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
عرب معاشرے میں عورت کی حالت قابل رحم تھی بعض قبائل اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے البتہ چند معزز خاندانوں کی عورتیں بلند مرتبہ و مقام رکھتیں تھیں جیسے حضرت خدیجہ بنت خویلد اور ہندہ زوجہ ابو سفیان وغیرہ ۔
ایران ۔
ایرانی معاشرہ شاندار ورثے کا مالک تھا لیکن طبقاتی نظام نے سیاسی وحدت کے باوجود انتشار کو ترویج دی تھی طبقاتی درجہ بندی میں ہر گروہ کا ایک مخصوص کام تھا ایک طبقہ دوسرے میں شامل نہیں ہو سکتا تھا کمتر طبقے کا بندہ ملازمت حاصل کر سکتا تھا نہ جائیداد خرید سکتا تھا مذہبی اثرات نے معاشرے میں استحکام کی بجائے انتشار کو جنم دیا مثلاً ’’مانی ‘‘ چاہتا تھا اس دنیا کو ’’انسان ‘‘ سے پاک کرنا چاہیے کہ وہ ہی شر کی وجہ ہے ۔اس نے شادی کو حرام قرار دے کر نسل انسانی کی فنا کا راستہ ہموار کرنا چاہا اس کی رائے میں ’’ انسان ‘‘ ایک لعنت کا نام تھا فتنہ و فساد اور گناہ کے سوا نسان کی زندگی کچھ نہیں تھی۔
اس کے بعد ’’مزدک ‘‘ آیا اس نے کہا عورت اور مال پر حق ملکیت ہی فساد کی جڑ ہے اس کی ملکیت کا حق ختم کر دینا چاہیے تا کہ مسئلہ حل ہو اس فیصلے نے اخلاقی حدود و قیود کو ختم کر دیا ماں بہن اور بیٹی کی تمیز ہی ختم ہو گئی عورت عام استعمال کی ایک چیز بن کر رہ گئی ۔ معاشرہ ہوس پرستی اور شہوت کی پستیوں میں گھِر گیا نفرتوں نے جنم لیا حتی کہ ’’نوشیرواں‘‘ نے ’’مزدک ‘‘ کوقتل کر دیا یہ اسلام کے قریبی عہد کا واقعہ ہے ایرانی معاشرے میں بھی عورت کی حالت خراب تھی اس کا درجہ غلام کی برابر تھا غلام اور کمزور برے حالات میں رہ رہے تھے چھوٹی چھوٹی باتوں پر عورت اور غلام کی جان لے لینا معمول کی بات تھی۔
روم ۔
عرب کے ساتھ منسلک یہ سلطنت طلوع اسلام کے وقت زوال پذیر تھی خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ کے باعث یہ مہذب اور تمدن معاشرہ انتشار کا شکار تھا۔
خاندان کا سربراہ مرد تھا ساری طاقت اس کے ہاتھ میں تھی اولاد کو کوئی اختیار نہ تھا بیٹا چالیس سال ہو کر بھی باپ کا محتاج تھا عورت کی حیثیت کو بطور فرد قبول نہیں کیا گیا تھا اس کی حالت غلاموں سے بدتر تھی باپ شوہر اور بیٹا اس کے مالک تصور کیے جاتے تھے خاوند بے پناہ اختیارات کا مالک تھا وہ اپنی بیوی کو قتل بھی کر سکتا تھا غیر رومی اقوام ذ لت و حقارت کی نظر سے دیکھے جاتے غیر رومی علاقوں کی دولت اکھٹی کر لی جاتی تھی لیکن ان سے بدتر سلوک کیا جاتا تھا طبقاتی نظام رائج تھا ۔
ہندوستان ۔
ہندوستان قدیم ترین مذہب رکھنے والا علاقہ ہے ان کے یہاں کئی دیوتا ہیں زمین آسمان روشنی اور تاریکی تباہی کے علیحدہ علیحدہ خدا ہیں جو کبھی ایک ایک دوسرے سے ہی متصادم ہو جاتے ہیں ذات پات کا نظام اس کی خصوصیت ہے طبقاتی بٹوارے کی وجہ سے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ حیوانوں سے بدتر زندگی گذارنے پر مجبور تھا شرک ، بت پرستی، جادو منتر ہندو مذہب کی خصوصیت تھی اولاد تک کو دیوی دیوتائوں کی خوشنودی کے لیے قربان کر دیتے تھے باربار جنم لینے کا عقیدہ رکھتے ہیں عورت کی حیثیت قابل رحم تھی عورت جائیداد کی وارث نہیں بن سکتی تھی نہ دوبارہ شادی کر سکتی تھی شوہر کے مرنے پر اس کی چتا میں زندہ جل کر مرنا مذہبی فرض شمار ہوتا تھا عورتوں کی خرید و فروخت عام تھی راجہ مہاراجہ لاتعداد بیویاں ر کھتے تھے۔

ایسے میں انسانی معاشرت منتظر تھی کہ کوئی جہالت کی تاریکیوں کو ہدایت کی روشنی میں بدل دے ظلم و جور کی چکی میں پستے غلام اور عوام کسی رہبرو راہنما کی برکت سے سکھ کا رسانس لیں خالق کون و مکان نے انسانیت کی اس ضرورت کی تکمیل فرمائی رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن مجید دے کر بھیجا اور آپ کی ذات انسانیت کے لیے ایک ابدی نمونہ بن گئی ۔
اسلام کا سورج طلوع ہوا اسلام نے ’’فرد ‘‘ کو اہمیت دی خاندان جو معاشرے کی بنیادی اکائی ہے اس کی بنیاد عورت اور مرد کے مقدس رشتہ نکاح پر رکھی گئی میاں بیوی کے حقوق و فرائض مقرر کر کے عورت کو پستیوں سے نکال دیا بد سلوکی اور جبر کا شکار غلام بھی مسلمان ہونے کے بعد ’’سیدنا بلال ‘‘ کہلائے سردار ان قریش کے ساتھ ایک ہی صف میں نماز پڑھنے لگے بقول علامہ اقبال ۔۔۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
اسلام نے رنگ ، نسل ، زبان ، وطن اور حسب نسب کی بنیاد پر کسی فضیلت کو ماننے سے انکار کر دیا اللہ جل شانہ نے ایک ضابطہ مقرر فرمادیا۔
اسلام نے وحدت کا درس دیا انسان کو شرف اور بزرگی بخشی فضیلت کا معیار صرف تقویٰ کو قرار دیا نبی اکر صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کا قابل فخر نمائندہ بنایا ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی۔ (اسراء : ۷۰)
ایک اور جگہ اللہ تعالی نے فرمایا ۔
بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی ) ساخت میں پیدا فرمایا ۔(والتین : ۴)
اللہ تعالی نے آدم کو تخلیق کیا اسے تمام جانداروں سے افضل بنایا فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہوں یہ فوقیت عقل کی بنا پر عطا کی گئی ۔
اے لوگوں!ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا تا کہ ایک دوسرے کو شناخت کر سکو اللہ کے نزدیک سب سے عزت والا وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ (حجرات ۱۳)
فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا سیرت ابن ہشام میں اس کے یہ الفاظ نقل ہیں۔
’’ اے گروہ قریش !اللہ نے تمہیں جاہلیت کے غرور اور آباء پر فخر کرنے سے منع کردیا ہے سب آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے ‘۔
ام المومنین سید ہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کے اخلاق کریمہ کے بارے میں فرماتی ہیں۔
’’ اللہ تعالی آپ کی شان بلند رکھے گا اور اپنی مدد کو نہیں روکے گا آپ تو رشتہ داروں کے ساتھ بہتر سلوک کرتے ہیں ناداروں کابوجھ اٹھاتے ہیں محتاجوں کے لیے کماتے ہیں مہمان نوازی فرماتے ہیں اور مصیبتوں کے وقت لوگوں کے کام آتے ہیں‘‘۔(بخاری )
حضرت بلال ایک دشمن خدا امیہ بن خلف کے غلام تھے وہ نبی رحمت سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال یوں سناتے ہیں۔
’’میں مکہ کے لوگوں کو بہت کم جانتاتھا کہ کیونکہ غلام تھا عرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک عام تھا ان کی طاقت سے بڑھ کر کام لیا جاتا تھا مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کر لوگوں سے ملوں لہٰذا مجھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کی بعثت بارے کسی چیز کا علم نہ تھا ‘‘ ۔
ایک دفعہ مجھے سخت بخار ہو گیا سردی کا موسم ٹھنڈ اور بخار نے مجھے بے حال کر دیا تھا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا ادھر میرا مالک آیا کہ دیکھے میں اناج پیس رہا ہوں یا نہیں مجھے آرام کرتا دیکھ کر اسے غصہ آ گیا اس نے لحاف اتارا اور مجھے حکم دیا قمیض بھی اتار دو اور مجھے کھلے صحن میں وروازے کے پاس بٹھا گیا کہ یہاں بیٹھ کر اناج پیس ۔
تکلیف برداشت سے باہر ہو گئی تو میں رونے لگا کچھ ہی دیر میں دروازے پر دستک ہوئی ایں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک خوبصورت پر نور چہرے والا شخص اندر آ گیا اور محبت بھری آواز میں پوچھا جو ان کیوں روتے ہو ؟
جواب میں تکلیف سے بے حال میں چڑ گیا اور کہا جائو اپنا کام کرو یہاں کون کسی کے دکھوں کا مداوا کرتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چلنے لگے میرے دل میں جاگی ہلکی سی امید بھی دم توڑنے لگی میں نے رنج سے کہاں میں نہ کہتا تھا کوئی مدد نہیں کرتا یہ سن کر بھی آپ نہیں رکے میں بے خبر تھا کہ ا ب جس سے واسطہ بنا ہے وہ رحمت للعالمین ہیں۔
کچھ دیر میں وہ کریم شخص واپس لوٹ آیا اس کے ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور کھجوریں تھیں آپ نے فرمایا کھائو پیو اور جا کر سو جائو میںنے کہا اناج نہ پیسا گیا تو میرا مالک مارے گا آپ نے فرمایا میں پیس دو نگا ساری رات آپ اناج پیستے رہے تین دن تک مسلسل ایسا ہوتا رہا یہاں تک کہ میری طبیعت ٹھیک ہو گئی قرآن مجید میں اسی لئے مذکور ہے۔
اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ( الا نیبا : ۱۰۷)
یہ وہ تعارف تھا جس نے حضرت بلال بن رباح کو عاشق رسول بنا دیا ایثار و اخوت کا یہ جذبہ اتنا طاقتور تھا کہ آپ ایمان لانے والوں میں ساتویں شخص تھے ۔
سید انس بن مالک فرماتے ہیں۔
’’میںنے دس برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا آپ نے مجھے کبھی ’’ اُف ‘‘ تک نہیں فرمایا اور کسی معاملے میں یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کیوں کیا ‘‘۔(ترمذی )
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق کے ہر معیار کو اپنی ذات میں اختیار کر کے دکھایا اب خواہ وہ صدق ہو صبر ہو حیا ہوا احسان ہو پاک دامنی ہو امانت داری ہو دیانت ہو ایفائے عہد ہو شکر ہو حلم و برد باری ہو تواضع و انکساری ہو جود و سخادت ہو شجاعت و بہادری ہو ایثار و کسر نفسی ہو حق گوئی ہو اعتدال اور توازن ہو یا رفق اور نرمی ہو آپ کے نزدیک انسان کی محبت اور دلجوئی کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔
ایک غریب دیہاتی مسجد نبوی میں انگوروں سے بھری ایک پلیٹ کا تحفہ لے کر پیش ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پلیٹ لے لی اور انگور کا ایک دانہ منہ میں رکھا مسکرائے پھر دوسرا دانہ منہ میں رکھا پھر مسکرائے وہ غریب دیہاتی آپ کو خوش دیکھ کر بے انتہا خوش ہوا کہ میرا تحفہ قبول کر لیا گیا ہے ۔
انسانی شرف اس کی صورت کی وجہ سے نہیں بلکہ سیرت کی وجہ سے ہے اور یہ سیرت آقائے دو جہاں کے ذریعے اہل ایمان کو انعام کی گئی قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا
’’حقیقت میں تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات نہایت ہی حسین نمونہ ہے ۔ ‘‘ (احزاب : ۲۱)
اخلاق ہی بعثت مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا مرکز و محور ہے حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں۔
’’مجھے مکمل اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے ۔(سنن الکبری بیہقی )
امام مالک نے مئوطا میں حدیث کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
میں حسن اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔
آپ کا سارا خلق قرآن ہی ہے۔ (مسلم )
خلق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی قرآن سے پھوٹی ہے آپ کی ذات اقدس قرآن کے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا اظہار اور مضبوط ثبوت ہے۔
سید عائشہ رضی اللہ تعالی عہنا روایت کرتی ہیں رسول اللہ صلی علیہ وسلم دعا مانگا کرتے ۔
’’اے اللہ تو نے مجھے صورت میں ظاہری حسن و جمال عطا کیا پس اس طرح مولا میرے اخلاق و کردار کو حسن و جمال کی بلندیوں پر پہنچا اور میرے خلق کو حسن خلق سے مزین فرما ‘‘ (مسن احمد بن حنبل )
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی اگر آپ نے فرمایا اللہ پسند کرتا ہے کہ تم معاف کرنے کی عادت ڈال لو غصہ پر قابو پائو تو طائف کے بازار میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت حق کے جو اب میں جب آپ پر پتھر برسائے گئے آپ لہو لہان ہو گئے غیرت الہیٰ جوش میں آئی اور جبرئیل امین حاضر ہوئے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں میں ان پہاڑوں کو اہل طائف پر الٹ دوں لیکن آپ نے گوارہ نہ کیا فرمایا شاید ان کی نسلوں میں سے کوئی اللہ پر ایمان لے آئے۔
فتح مکہ کے دن آپ بطور فاتح شہر میں داخل ہوئے یہ وہی وطن عزیز تھا جہاں کی زمین آپ پر تنگ کر دی گئی تھی اہل ایمان کے ساتھ ذلت آمیز سلوک روا رکھا گیا تنگ آ کر مسلمان پہلے حبشہ اور پھر مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیئے لئے تھے ۔
آج اہل مکہ سر جھکائے کھڑے تھے یہ وہ تھے جو آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے بار ہا آپ پر پتھروں کی بارش کر چکے تھے آپ پر قاتلانہ حملے کی سازشیں کرتے رہے تھے ان کی فوجیں مسلسل مدینہ طیبہ پر حملے کر کے مسلمانوں کو پریشان کرتی رہیں وہ بے رحم اور بے درد تھے شفاک اور درندہ صفت تھے حضرت حمزہ کو شہید کر کے ان کی ناک کان کاٹنے والے ، ان کی آنکھیں نکال لینے والے اور ان کا جگر چبانے والے بھی اسی ہجوم کا حصہ تھے آپ کے جانثار صحابہ کرام بلال ، خباب ، خبیب، صہیب اور ذید رضوان اللہ علہیم کو دہکتے کوہلوں پر لٹانے والے ستمگر بھی سر جھکائے منتظر تھے سب خاموش نبی رحمت کے تیور دیکھ رہے تھے ۔
نبی احمد مصطفے نے فرمایا ۔
’’ اے قوم قریش !اب جاہلیت کا غرور اور خاندانوں کا افتخار خدا نے مٹا دیا تمام لوگ آدم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم مٹی سے بنائے گئے تھے ‘‘ ۔
اس کے بعد آپ نے مشرکین مکہ سے دریافت فرمایا ۔
’’کیا تم جانتے ہو کہ (آج) میرا تم سے کیا سلوک ہو گا ‘‘ ۔
آپ کے اس سوال کے جواب میں قریش مکہ نے یک زبان ہو کر کہا ۔
’’ وہی جس کی ایک مہربان بھائی کے بیٹے سے امید کی جا سکتی ہے ‘‘۔
ان کے اس جو اب پر آپ نے فرمایا ۔
’’ جائو تم سب آزاد ہو ‘‘۔ (تاریخ ابن کثیر )
حضرت اسامہ بن شریک روایت کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اعرابی لوگ آپ سے سوال کر رہے تھے اور پوچھ رہے تھے ۔
’’یا رسول اللہ ایک بندے کو سب سے بہترین چیز رب کی بارگاہ سے کیا عطا کی گئی ہے ؟‘‘تو اس پر آپ نے فرمایا ۔ ‘‘ وہ سب سے بڑی نعمت حسن خلق ہے ‘‘ ۔
رب کی ہر نعمت انسان کے لیے عظیم ہے لیکن کچھ نعمتیں دوسری نعمتوں کا سبب بن جاتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام مسلمانوں کو اخلاق حسنہ اپنانے اور اختیار کرنے کا حکم دیا ۔
’’ مومنین میں ایمان کے لحاظ سے کامل وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں ‘‘ ۔ (ترمذی )
’’ اللہ کے بندوں میں اللہ کا سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں ‘‘۔ (طبرانی )
بارگاہ رسالت کا دستور تھا کہ جو بھی ہدیہ آتا تمام حاضرین مجلس میں بانٹ دیا جاتا لیکن سارے صحابہ کرام منتظر رہے آپ نے مسکراہٹ کے ساتھ وہ سارا خوشہ تناول فرمایا غریب دیہاتی کے لیے جیسے وہ دن عید ہو گیا وہ خوشی سے دیوانہ خالی پلیٹ لے کر واپس لوٹ گیا۔
اس کے جانے کے بعد حاضرین مجلس میں سے ایک صحابی نے پوچھ ہی لیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج آپ نے ہمیں شامل نہیں کیا سرکار دو عالم مسکرائے اور فرمایا تم لوگوں نے اس کی خوشی دیکھی تھی میں نے جب انگور چکھے تو کھٹے تھے مجھے لگا اگر تمہارے ساتھ بانٹتا ہوں تو ہو سکتا ہے کوئی یہ راز ظاہر کر دے مجھے ناپسند ہوا کہ اس کا مسکراتا چہرہ ملال سے بھر جائے آپ کا ہر خلق خلق عظیم بنتا چلا گیا شاید اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات میں کمال کی نوید دی ۔
اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں ۔ (قلم : ۴)
جب حضرت عائشہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا ۔
کان خلقہ القرآن ۔۔
ام المئو منین سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہا آپ کے اخلاق کریمہ کے بارے میںفرماتی ہیں۔
’’ اللہ تعالی آپ کی شان بلند رکھے گا اور اپنی مدد کو نہیں روکے گا آپ تو رشتہ داروں کے ساتھ بہتر سلوک کرتے ہیں ناداروں کا بوجھ اٹھا تے ہیں محتاجوں کے لیے کماتے ہیں مہمان نوازی فرماتے ہیں اور مصیبتوں کے وقت لوگوں کے کام آتے ہیں ‘‘۔(بخاری )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں