1,147

حضرت خواجہ غلام فرید ،حیات و تعلیمات

تحریر و تحقیق : مجاہد جتوئی ،کوٹ مٹھن شریف
سلطان الاحشقین حضرت خواجہ غلام فریدؒ اٹھارھویں صدی کے وسط 1845میں پیدا ہونے والی ایسی شخصیت ہیں،جن کے بارے میں ان کے مداحین اور پرستاروں نے جتنا کچھ بھی کاو ہے و ہ ان کے الفاظ سے بڑھ کر تعظیم و اجلال کے مستحق نظر آتے ہیں وہ منفرد دولت افکار اور روشن کردار کے طفیل ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں۔
زندگی کے جملہ امور میں شریعت مُطہرہ پر کاربند رہتے ہوئے آپ نے جس وسیع المشربی کو اپنایا اس سے دین اسلام کا ایک روشن رُخ اُبھر کر سامنے آیا۔
آپ نے ہر پہلو سے ایک بھر پور زندگی گزاری،جس سے اس تاثر کی نفی ہوئی کہ صوفیاءکرام کوئی تارک الدُنیا مخلوق ہوتے ہیں۔
حضرت خواجہ غلام فرید (رحمتہ اللہ علیہ) نے اپنے دور میں رائج دینی،دُنیاوی علوم سے حتی الامکان استفادہ کیا جس کی وجہ سے آپ کے کلام اور افکار میں وسعت پیدا ہوئی۔ مختلف امور پر ان کی درست تاویلات، تفسیر اور تشریحات نے ایک عالم کو حیران کیا۔

قدیم شاستری علوم،قدیم زبانوں سے لے کر جدید انگریزی زبان تک ان کے حصول علم کے شوق کی جولان گاہ تھی۔ وہ بیک وقت نابغۂ روزگار عالم، مرتاض عبادت گزار، صاحبِ بصیرت مرشد، بلیغ واعظ، قادراللاکم شاعر، صاحب ذکروفکر،سلیم اور حلیم الطبع ،قابل تقلید شخصیت رکھتے تھے۔ان کی شخصیت کو علم و طریقت،تصوف اور ولایت کا خلاصہ کہا جا سکتا ہے۔
حضرت خواجہ غلام فرید کا خاند انی پس منظر
دین اسلام کے ابتدائی دور میں اس کی تبلیغ اور نشرواشاعت کی ذمہ داری نبھانے کے لیے، اطراف واکا،ف عالم میں ہجرت کرنے والے حضرات کی طرح آپ کے اجداد میں سے حضرت مالک بن یحیٰی نے سر زمین سندھ کا انتخاب کیا اور اُس وقت کے ساحلی شہر ٹھٹہ کو اپنا مسکن بنایا اور دین اسلام کی روشنی کو اپنے علم وعمل اور روشن کردار کے ذریعے آگے بڑھایا۔ یہاں سے آپ کے علمی تبحر اور تقویٰ کی روشنی تخت ِ دہلی تک پہنچی تو محلات کے مکین بادشاہ فقراءکی جھونپڑیوں کے چکر کاٹتے نظر آئے۔بلکہ شاہی خاندان نے ان سے رشتہ داری کو بھی اپنا اعزاز سمجھا،روایات کے مطابق کچھ کوریجہ بزرگان کی شاہی خاندان میں شادیاں بھی ہوئیں اسی طرح عرب کے اس قریشی قبیلہ جو کہ حضرت عمرؓ کی شاخ سے تھا ان کی مغلوں سے رشتہ داری کا تعلق وجود میں آیا۔کچھ نسلیں آگے چل کر اس خاندان کے بزرگ ٹھٹہ سے مکران مُستقل ہو گئے۔
“کوریجہ” کی وجہ تسمیہ
خواجہ فریدؒ کے اجداد میں سے ایک بزرگ کا نام شیخ حسین تھا -ان کی والدہ محترمہ مقامی مکرانی قبیلہ سے تھیں اور پیار سے اپنے فرزند کو “پریا”بلایا کرتی تھیں۔ لہذا جب ان کے ہاں فرزند کی ولادت ہوئی تو ان کا نام”کور”رکھا گیا (شیخ کور بن شیخ پریا سے لفظ “کوریجہ “یوں وجود میں آیا۔ کورجو(سندھی تلفظ)، کورجہ (مکرانی تلفظ)، کوریجہ (سرائیکی تلفظ)۔(از خواجہ فرید اور ان کا خاندان)
شیخ حسین بن شیخ پریاؒ کو ٹھٹہ کی حکومت بھی حاصل ہو گئی۔ جب مغل بادشاہ ہمایوں تخت دہلی سے شکت( کھا کر بھاگا تو ٹھٹہ پہنچا جہاں اس کی قوم کے مرزا حسین کا بہت اثر و نفود تھا لیکن اس نے ہمایوں کے ساتھ اچھا سلوک نہ کیا تو حضرت شیخ حسین بن پریاؒ نے ہمایوں کی دلجوئی کی اور مرزا حسین کو بھی سمجھا بجھا کر ان کے درمیان صلح کرادی۔ اس ممکنہ لڑائی کو رُکوا کر آپنے ہمایوں کے لیے واپس ایران جانے کی راہ ہموار کردی۔ جس پر ہمایوں ان کا ممنون ہوا۔
بعد ازاں جب ہمایوں تخت دہلی واپس لینے کے لیے آیا تو اس نے شیخ حسین بن پریاؒ کا احترام ، اکرام کیا اور انہیں “امیر حسین ” کا خطاب دے کر اپنے قریبی حلقہ میں شامل کیا۔آگے چل کر جب تخت دہلی میں انتشار پیدا ہوا تو آپ دل برداشتہ ہو کر واپس ٹھٹہ آ گئے۔تخت دہلی پر مغل بادشاہ شاہ جہاں آچکا تھا۔وزیردوم ارادت خان بلوچ پر کسی وجہ سے شاہ جہاں ناراض تھا۔تو وہ دُعا طلبی کے لیے کوریجہ بزرگ مخدوم محمد زکریاؒ کے پاس حاضر ہوا۔اس کی مشکلات آسان ہو گئیں،مخدوم محمد زکریاؒ کے فیوض وبرکات کی داستانیں تخت دہلی کی محافل،مجالس میں گردش کرنے لگیں تو شاہ جہاں نے مخدوم صاحبؒ کو دہلی میں خصوصی طور پر مدعو کیا۔جہاں بہت بڑا طبقہ آپ سے متاثر ہوا۔ خود بادشاہ بھی اس قدر متاثر ہوا کہ اپنی بیٹی دوسری روایت میں اپنی ہمشیرہ کی شادی مخدوم محمد زکریاؒ کے فرزند مخدوم نورمحمدؒ سے کر دی۔خواجہ غلام فریدؒ کے بزرگ مخدوم نورمحمدؒ کو شاہ جہاں نے پانچ ہزار بیگھہ زمین موجودہ ضلع لودھراں کے قریب پیش کی مقام تھا،منگول کوٹ،منگل کوٹ (منگلوٹ)مخدوم نور محمدؒ کے سب سے چھوٹے فرزند مخدوم محمد یعقوبؒ سے یہ سلسلہ آگے بڑھ کر خواجہ فریدؒ کے پڑدادا کے والدحضرت خواجہ شریف محمد تک آتا ہے جن کا مزید تذکرہ آگے چل کر کوٹ مٹھن قدیم کی تعمیر کے ضمن میں آئے گا۔
خواجہ فرید کی ولادت اور احوال
حضرت خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہیؒ۔1206ھ1269کے گھر بمقام چاچڑاں شریف سابقہ ریاست بہاولپور میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی ولادت 1845ء 23دسمبر بمطابق 1261ہجری 23محرم الحرام بروز منگل ہوئی۔
ولادت کے بعد نام کا تعین
آپ کے والد گرامی حضرت محبوب الہیٰؒ نے آپ کے کان میں آذان کہی۔ چَھٹی کی رسم سے پہلےنومولود کے نام کا تعین کرنا ضروری تھا۔ اس موقع پر آپ کے والد خواجہ محبوب الہیٰؒ کے ایک خادم “جندو”نے عرض کی حضور! قبلہ حضور حضرت بابافریدالدین مسعود گنج شکرؒ کی ولادت باسعادت بھی بروز منگل ہوئی تھی، کیا ہی بہتر ہو کہ صاحبزادہ صاحب کا نام بھی انہی کی نسبت سے ” غلام فرید”رکھا جائے۔یہ تجویز پسند کی گئی اور اس طرح نام طے پایا اس موقع پر کسی نے پیدائش کے حوالے سے مادہ ء تاریخ یوں مرتب کیا”خورشید عالم”(1261ھ کا ئنات کا سورج)
آپ کے برادر بزرگ اور بعدازاں مرشد خواجہ فخر جہاںؒ کی ولادت 27سال قبل 1234ھ میں ہو چکی تھی۔
خواجہ فریدؒ کی تعلیم کا آغاز:
ایک روایت کے مطابق جب آپ کی عمر چار برس چار ماہ ہوئی تو آپ کی رسم بسم اللہ ادا کرنے کے لیے اس موقع پر ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا گیا آپ کے بڑے بھائی حضرت فخر جہانؒ نے اپنے والد محترم سے کہا”بھائی کی زبان صاف ہے الفاظ درست ادا کر لیتا ہے۔ لہذا رسم بسم اللہ ادا کی جائے “لہذا آپ کو پہلا سبق پڑھا نے کے لیے آپ کے والد محترم کے چھوٹے بھائی حضرت خواجہ تاج محمودؒ کا انتخاب ہوا کہ وہ صاحبزادہ صاحب کو پہلا سبق پڑھائیں۔اس پر خواجہ تاج محمود صاحب نے صاحبزادہ صاحب سے مخاطب ہو کر کہا” آکھ غلام فرید الف “جواب میں آپ نے کہا” آکھ غلام فرید الف “خواجہ تاج محمود نے دُہرایا ” آکھ غلام فرید الف ” اس پر صاحبزادہ نے پھر دُہرایا” آکھ غلام فرید الف “خواجہ تاج محمود نے تیسری بار کہا ” آکھ غلام فرید الف ” جب صاحبزادہ صاحب نے تیسری مرتبہ بھی کہا” آکھ غلام فرید الف “تو خواجہ تاج محمودؒ کو وجد آگیا اور انہوں نے زانو پر مار ہاتھ کر اسے مصرعے کی طرح دُہرانا شروع کردیا۔وہاں موجود قوالوں نے موقع غنیمت جانا اور اس فقرے کو ترنم سے گانا شروع کیا تو اسی کیفیت میں حضرت خواجہ تاج محمودؒ کی شام ہو گئی۔
والدہ محترمہ کی وفات حسرت آیات:
ابھی آپ کی عمر چار برس ہی تھی کہ آپ کی والدہ محترمہ حضرت عائشہ بی بی،زوجہ دوم خواجہ محبوب الہیٰ ” 1265ھجری بمطابق اواخر 1849عیسوی وفات پا گیئں اور وہ یتیمی کے پہلے صدمے سے روشناس ہو گئے۔
والد محترم کا وصال:
والدہ محترمہؒ کے وصال کو ابھی چار ہی برس گزرے تھے کہ آپ کے والد محترم حضرت خواجہ محبوب الہٰیؒ کا بھی بُلاوا آ گیا اور آپ 12 ذی الحج 1269ھ بمطاق 16ستمبر1853عیسوی بروز یوم الخمیس بوقت عشاء وصال فرما گئے۔
نواب فتح خان عباسی کی درخواست پر آپ کا ڈیرہ نواب صاحب جانا:
نواب بہاولپور فتح خان والی ریاست بہاولپور حضرت محبوب الہٰی ؒکے وصال سے بہت غمزدہ تھے۔ انہوں نے حضرت فخر جہاں صاحبؒ کی خدمت میں یہ عرض داشت بھیجی کہ اگر کرم فرمائیں تو صاحبزادہ کو میرے پاس بھجوا دیں تا کہ پیرزادہ کو دیکھ کر میرے دل کو قرار آئے۔

چنانچہ خواجہ صاحب کو ان کے ماموں کی نگرانی میں ان کے اتالیق اور دیگر خدام کے ہمراہ ڈیرہ نواب صاحب بھجوادیا گیا۔ اور شاہی محل میں ان کی تعلیم و تربیت کے مراحل طے ہوتے رہے۔
آپ فرماتے ہیں “میں نے قرآن شریف میاں جی صدرالدین کے ہاں پڑھا جب ان کا انتقال ہو گیا تو میاں جی محمد بخش کے ہاں قرآن ختم کیا۔ کتب فارسی حافظ خواجہ جی کے ہاں پڑھنی شروع کیں۔ چند کتب پڑھنے کے بعد میاں جی احمد یار خوجہ کے ہاں چند کتابیں پڑھیں پھر میاں جی برخودار کے ہاں تمام کتب فارسی نظم کی ختم کیں۔”اس مرحلے کے اختتام پر اگلی کتابیں پڑھنے کے لیے ایک صوفی مزاج استاد مولوی فرید بخش کا انتخاب کیا گیا تو انہوں نے معاملے کی اہمیت اور نزاکت کو محسوس کرتے معذرت کر لی چنانچہ بقیہ تعلیم کے لیے مولوی قائم الدین کو مقرر کیا گیا اور باقی کتب میں نے انہی سے پڑھیں۔‘‘
خواجہ فریدؒ کی تعلیم کا سلسلہ سفر و حضر میں بھی جاری رہتا تھا نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ ابتدائی عمر میں انہوں نے جن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی آگے چل کے انہی کو علوم کی باریکیوں سے آگاہ کیا۔ابھی آپ کی عمر صرف 9برس تھی کہ مکمل قرآن حفظ کر لیا 16برس کی عمر تک تمام مروجہ کتابیں بہت اچھی طرح پڑھ چکے تھے اور پڑھانا بھی شروع کر دیا تھا۔
خواجہ فریدؒ کا اپنے بڑے بھائی کا بیعت ہونا
جن دنوں آپ نواب فتح خان عباسی کی خواہش پر ڈیرہ نواب صاحب میں مقیم تھے اور آپ کی عمر تقریباساڑھے 13برس تھی۔ان دنوں میں آپ نے ایک خواب دیکھا جس کے بارے میں وہ خود بتاتے ہیں کہ “میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک ڈیرہ ہے میں اُس کے صحن میں ہوں ایک قلندر آیا اور اُس نے مجھے پکڑ نا چاہا میں نے ڈرکے مارے بھاگنے کی کوشش کی جب ایک سوراخ میں داخل ہو رہا تھا تو اُس قلندر نے پیچھے سے میرے دونوں پاؤں پکڑ لیے،اتنے میں میرے برادر بزرگ حضرت فخر جہاںؒ تشریف فرما ہوئے اور اُس قلدسر کو ڈانٹا تو وہ بھاگ گیا آپ نے مجھے تسلی دی اور دل دہی فرمائی۔جب آنکھ کھلی تو کچھ بھی نہ تھا لیکن دل پر صدمہ کے اثرات ابھی باقی تھے”


صرف چار سال کی عمر میں والدہ اورآٹھ سال کی عمر میں والد مکرم کے وصال کے بعد آپ کی تعلیم و تربیت کی تمام تر ذمہ داری آپ کے بڑے بھائی حضرت فخر جہانؒ کے کندھوں پر آگئی جو آپ سے 27برس بڑے تھے دوسری والدہ سے۔ حضرت فخر جہانؒ نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی اور پوری توجہ بھائی کی تعلیم و تربیت اور روحانی ریاضت کرانے پر صرف کر دی تعلیم اور ذکروفکر کے معاملے وہ اپنے دل وجان سے پیارے بھائی پر قدر ے سختی بھی روا رکھتے تھے۔
خواب والے واقعہ کے بعد نوجوان خواجہ فریدؒ نے خود کو اپنے برادرِ بزرگ کی روحانی تحویل میں دینے کا فیصلہ کیا۔ جب وہ ڈیرہ نواب صاحب سے واپس چاچڑاں شریف آئے اور اپنےمربی ومحسن کو پہلے سے کہیں زیادہ شفیق پایا تو خانقاہ سے وابستہ مقربینِ خاص حضرت میاں نصیر بخش صاحب منگھیروی اور سردار امام بخش خان بُزدار کے ذریعے اپنی خواہش کا اظہار حضرت فخر جہانؒ تک پہنچایا تو اس پر حضر ت نے فرمایا”مالک اپنی امانت طلب کرے تو امین کیوں تاخیر کرے۔
مرُشد فخر جہان کا وصال اور سجادہ نشینی
خواجہ غلام فریدؒ جو نصابی تعلیم کے بعد مرُشد کی زیر نگرانی روحانی ریاضت کے مراحل بھی طے کر چکے تھے ابھی آپ کی عمر صرف 27برس تھی کہ آپ کے برادرِ مہربان اور مرُشد کا وصال ہو گیا تو پچھلی کئی صدیوں سے بزرگوں کے علمی مقام و مرتبہ اور خانقاہی ذمہ داریوں کا بوجھ حضرت خواجہ فریدؒ کے کاندھوں پر منتقل ہو گیا۔اس طرح 5جمادی الاول 1288ھجری بمطابق 24جولائی 1871عیسوی بروز سوموار خواجہ فخر جہاںؒ کے وصال کے بعد آپ سجادگی کے منصب پر متمکن ہوئے۔ اور آپ کے اندر کی دنیا میں ایک کشمکش کا بھی آغاز ہوا ایک طرف تو مخلوقِ خدا کی رہبری،رُشد و ارشاد،وعظ و نصیحت، مہمان داری، خبرگیری کی خانقاہی ذمہ داریاں تھیں اور دوسری طرف ان علائقِ دُنیا سے بیزاری ادرلاتعلقی کا اندرونی جذبہ تھا۔وہ گومگو کی حالت میں تھے۔مگر انہیں معاملہ درپیش تھا مزید روحانی،مزید ذکرواذکار اور مزید مجاہدہ کے ذاتی تجربہ کا لہٰذا آپ نے ان علائقِ دنیا سے کنارہ کشی اور دُنیا پر ست اقرباء سے دوری اختیار کرتے ء ہوئے چولستان کی گوشہ نشینی کو فوقیت دیتے ہوئے “متوجہ الی الا صل ” ہو گئے۔
چولستان میں قیام:
حضرت خواجہ غلام فرید ایک غیر معمولی انسان تھے۔ سجادگی ادروستار فضیلت ملنے کے بعد وہ اظہار فضیلت میں مشغول نہ ہوئے بلکہ بوریا بستر باندھ کر “پرُوحشت سُڑج ی روہی”کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔
؎ روہی محض بشارت درسُوں مرسُوں،بھُرسوں مول نہ ڈرسوں
(روہی تو ہمارے لیے صرف اور صرف درشن کا مقام ہے ہم خواہ مر جائیں ریزہ ریزہ ہو جائیں لیکن خوفزدہ ہو کر قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے)
؎ دل جھر،جنگل دی باندی ہے جتھاں جھوک میڈے متراں دی ہے
؎ بُو صدق وفا دی آندی ہے انہاں ساویںج سنھڑیںا لیئں کنوں
(ہمارا دل تو فریفتہ ہے اس جنگل کا جہاں ہمارے پیاروں کا ٹھکانہ ہے یہاں کی سر سبز لائی کے پودوں سے ہمیں صدق وفاکی خوشبو آتی ہے۔)
قاری کو کلام فرید پر چولستان کا منظر نامہ چھایا ہوا ملتا ہے آپ نے اپنے کلام کی 271کافیوں میں کم و بیش 40 مقامات پر روہی کا نام لیا ہے۔ چولستان کا کوئی پودا -درخت، بیل، بُوٹا، ٹیلہ، ٹوبھا، جانور، پرندہ، درندہ، ایسا نہیں ہے جسے کلام فریدؒ میں جگہ نہ ملی ہو۔یوں لگتا ہے جیسے روہی خود خواجہ صاحب کے اندر رچ بس گئی ہو ایک مقام پر انہوں نے فرمایا”اہل اللہ کو پہاڑ بھی پسند ہیں لیکن مجھے ریگستان پسند ہے” (یعنی پہاڑ تو اللہ کی ہیبت اور جلال کی علامت ہیں اور صحرا اللہ تعالیٰ کی لطافت اور جمال کا اظہار ہیں)۔
ایک روایت کے مطابق 12اور دوسری میں 18برس تک کے برساتی ایام آپ نے چولستان میں گزارے۔
؎ جاں وُٹھڑے دی ووڑ سُنڑیوے سندھڑوں روح اُچاک ڈِسیوے
(جونہی چولستان میں بارش ہونے کی کوئی اُڑتی ہوئی سی خبر ہم تک پہنچتی ہے تو ہمارا دل آبادی والے علاقوں سے اُچاٹ ہو جاتا ہے۔)چولستان سے اُن کی وابستگی اس حد تک جاتی ہے
؎ جے پانی کُھٹ ویسے بَہسُوں ڈھائے تے کل اَتے
(اگر چولستان میں بارشوں سے حاصل ہونے والا پانی ختم بھی ہو گیا تو بھی ہم اسی چولستان سے جُڑی ہوئی آبادی کے کنارے پر جھونپڑی ڈال کر بیٹھ جائیں گے (یعنی چولستان کو نہیں چھوڑیں گے)
“حضرت روہی” ان کے لیے ” مقام درشن” تھا
“آپ نے وہاں اس قدر سخت مجاہدہ کیا کہ جسدِ مبارک پر صرف پوست و استخواں رہ گیا تھا” (مناقب فریدی)
خواجہ فریدؒ کی عبادات و اذکار
دینِ اسلام سے ملنے والی عبادات کے ساتھ ساتھ اپنے بزرگوں سے عطا ہونے والے ذکرو اذکار کا سلسلہ تہجد، نماز فجر سے ہی شروع ہو جاتا تھا۔ نماز کے بعد “متوجہ الی اللہ ” ہو جاتے تھے۔ نماز ظہر تک میل ملاقات اور تشگانِ علم و عرفان کو شریعت اور طریقت کے آبِ حیات سے سرفراز فرماتے۔ چیدہ چیدہ اصحاب کو تصوف کی اُمہات الکتب کا درس دیتے۔پیچیدہ مسائل کو سُلجھاتے۔ نماز ظہر کے بعد تلاوت میں مشغول ہو جاتے۔ نماز عصر کے بعد پہلے سورۃ ” عما یتَسَائَلُون ” پانچ مرتبہ، سورۃ اِخلاص سولہ بار، پھرکچھ آہستگی سے پڑھتے اور اس کے بعد محفل تبلیغ و ارشاد قائم ہوئی۔
نماز عشاء کے بعد تین سو بار سورۃاخلاص پڑھنے کا دستور بھی بہت عرصہ تک رہا۔ پاس انفاس بھی ان کا پسندیدہ وِرد تھا اس طریقے سے کہ زبان تا لُو سے لگی رہے اور سانس باہر جاتے وقت لا اِلہٰ اور اند آتے وقت “اِلا اللہ ” کی ادائیگی ہوتی تھی۔
شاگرد کے درس میں اساتذہ کی شمولیت:
بچپن میں خواجہ فریدؒنے جن اساتذہ سے درسی کتب کا سبق لیا تھا آگے چل کر انہی اساتذہ کو اپنے مطالعہ سے متاثر کیا۔
حضرت مولانا محمد شاکر صاحبؒ،مولانا محمد مسلمؒ نے خواجہ صاحب سے “عوارف المعارف،العلوم،کیمائے سعادت، فصوص الحِکم، جواہر جلالی،جامع العلوم، کشکول کلیمی،لوائحِ جامی،تحفہ مرسلہ پر ان اساتذہ سے گفتگو رہتی تھی۔ مولا نا شاکرؒ سے ایک دوست نے پوچھا کہ آپ نے اب تک کیا حا صل کیا؟ “وہ کہنے لگے “چھ ماہ ہو گئے ہیں ابھی تک تو” لا الہ الا اللہ” کی تشریح ختم نہیں ہوئی۔(ہفت اقااب)
فریضہ حج کی ادائیگی ، سفرِ حجاز:
جب آپ کو مسندِارشاد سنبھالے آٹھ برس ہو چلے تھے تو آپ کے دل میں فریضہ حج کی ادائیگی اور دیارِ مقدس کی زیارت کی خواہش پیدا ہوئی۔
چنانچہ آپ کی طرف سے ایک مراسلے کے ذریعے خاص خاص احباب کو ارادے سے آگاہی اور سفر کی تاریخ کی اطلاع دی گئی اور یہ مراسلہ رفاقت کا دعوت نامہ بھی تھا جو 16 رمضان المبارک 1296کو لکھا گیا ۔روانگی کی تاریخ مقرر ہوئی 21شوال 1296ہجری بمطابق 9اکتوبر 1879عیسوی یوم الخمیس = 17 شوال 1296ھ کو آپ چاچڑاں سے دریا پار کر کے حاجی پور شریف پہنچے حضرت نور محمد نارُو والا ؒ کی مزار پر حاضری دے کر کوٹ مٹھن شریف پہنچے۔ ڈیڑھ دن وہاں رُکے اپنے بزرگوںکے مزارات پر حاضر ہوئے اور کسب ِ فیض کر کے چا چڑاں شریف واپس آ گئے۔ 21شوال کو اونٹنی پر بیٹھ کر چاچڑاں شریف سے روانہ ہو کر مغرب کے وقت قریبی قصبہ کوٹلہ پٹھان پہنچے۔ لوگوں کی استدعا پر وہاں کچھ دیر کے لیے رُکے۔ رات کو تاخیر سے خان پور کٹورہ پہنچے، 22شوال 1296کو خان پور کٹورہ سے بذریعہ ریل گاڑی ملتان کی طرف روانہ ہوئے۔ اس حوالے سے کسی نے سوال کیا “حضور! اِدھر کدھر بمبئی تو بہت دور ہے اور کراچی نزدیک ہے ” آپ نےفرمایا ’’اِدھر سے ہم تمام بزرگ حضرات سے کسبِ فیضِ کرتے چلیں گے اس کے لیے جو بھی اخراجات ہوں گے یا جسمانی تکلیف ہو گی فقیر کو اس کی پرواہ نہیں ہے‘‘۔اس طرح آپ 22شوال کو 77 چندِہ،احباب،مُریدین، خلفاء،اہل خانہ اور خدام کے ساتھ روانہ ہوئے۔ اگلے اسٹیشنوں سے لوگ قافلے میں شامل ہوتے گئے۔ اس موقع پر ایک مقامی سرائیکی شاعر نے ایک نظم کہی۔
؎ جاں ماہی جول گائی ، شوال وویں آہی۔
(جب اُس دلوں کے محبوب کی روانگی ہوئی تو شوال ماہ کی 22تاریخ تھی۔)
اس وقت آپ کی عمر ہجری اعتبار سے 34سال 10ماہ اور عیسوی حساب سے 33سال 10ماہ تھی۔24شوال =ملتان کے مزار ات پر حاضری۔26شوال کو لاہور کے مزارات پر حاضری۔28شوال کو لاہور سے دہلی پہنچے اور مزارات پر حاضری دی = 5 ذی قعدہ 1296۔21اکتوبر بروز منگل دہلی سے اجمیر شریف پہنچے۔ خانقاہ معلی پر حاضری دی۔ جہاں پر خانقاہ کے متولیان کی طرف سے آپ کی دستار بندی کی گئی۔
۔9ذی قعدہ کو اجمیر شریف سے بمبئی پہنچ کر جہاز کی ٹکٹوں کے حصول کی کوشش ہوئی۔20ذی قعدہ کو جہاز”بہادر” پر سوار ہوئے۔ 21ذی قعدہ کو جہاز نے بندرگاہ کو چھوڑا۔27ذی قعدہ کو بحری جہاز عدن کی بندرگاہ پہنچا۔ آپ اور آپ کے احباب نے شہر عدن کی سیر کی۔ 2ذی الحج 1296۔17نومبر1879سوموار کے دن جدہ کے ساحل پر پہنچے اگلے دن شہر جدہ کی سیر کی۔
5ذی الحج کو مکہ المکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کیا۔7ذی الحج کو میدان منٰی کے لیے روانہ ہو گئے ادائیگی حج کے بعدواپس مکہ المکرمہ پہنچے قیام کیا۔ کئی عمرے ادا کیئے۔ زیارات کیں۔22ذی الحج 1296بمطابق 8دسمبر 1879اتوار آپ مکہ سے مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے 5محرم الحرام 1297ھ 19دسمبر یوم الجمعہ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔مدینہ منورہ میں مکمل ایک ماہ قیام کیا 4صفرالمظفر 1297ہجری کو واپس مکہ المکرمہ طواف الوداع کے لئے روانہ ہوئے۔جدہ کی بندرگاہ سے جہاز 19صفر المظفر کی یکم فروری کو روانہ ہوا 12ربیع الاول بمبئی بندرگاہ اور 14ربیع الاول 1297۔16فروری 1880آپ اپنے گھر چاچڑاں شریف پہنچ گئے اس سفر میں ہجری اعتبار سے 142دن اور عیسوی حساب سے 139دن صرف ہوے۔
خواجہ فرید ؒ کا شوقِ سیاحت
” سیرونی الارض” کی ترغیب کے پیش نظر خواجہ صاحب کے عمر کا بڑا حصہ سیر و سیاحت میں گزارا۔چولستان کے طول و عرضمیں برسوں گزارنے کے علاوہ انہوں نے اجمیر شریف کا کم و پیش چھ مرتبہ سفر کیا اور اس میں مال و اسباب کی کمی بیشی کو بھی خاطر میں نہ لائے ایک مرتبہ جب آپ کے دل میں اجمیر شریف کی زیارت کی اُمنگ پیدا ہوئی تو آپ نے سفر کا ارادہ ظاہر فرمایا۔خزانچی نے عرض کیا ” حضور لنگر میں صرف روپیہ سَو ا روپیہ ہی موجود ہے”۔آپ سُنی ان سُنی کرتے ہوئے روانہ ہو گئے اور جملہ ساتھیوں سمیت زیارت کر کے بخیر و خوبی واپس آگئے راستہ بھر مالک الملک کی طرف سے اسباب مہیا ہوتے گئے۔ اسی طرح ہندوستان کے تمام بڑ ے شہروں،دہلی، بمبئی،لکھنؤ وغیرہ تک ان کے شوق کی جولان گاہ تھے۔
مشاہیر سے ملاقاتیں اور تاثرات
” سر سید احمد خان سے ملاقات”
اپنے صاحب زادہ صاحب کے پوچھنے پر آپ نے فرمایا ” جب اُن سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھے کُرسی پر بٹھایا خود بھی کُرسی پر بیٹھ گئے اس اثناء میں رسول اللہ ﷺ اور اصحاب کرام ؓ کی محبت کا تذکرہ ہوا تو بات کرتے ہوئے وہ رونے لگے اور آنکھوں سے اس قدر آنسو جاری ہوئے کہ داڑھی تر ہو گئی اور قطرے ٹپکنے لگے”
“مولوی نذیر حسین محدث دہلوی”
آپ کے فرزند خواجہ محمد بخش عرف نازک کریم ؒنے دریافت کیا آپ نے حضرت محدث دہلوی کو کیسا پایا۔؟ آپ نے فرمایا:
سبحان اللہ وہ تو ایک صحابی معلوم ہوتے ہیں کسی شخص کی عظمت کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ دُنیا میں اُس جیسا کوئی نہ ہو چنانچہ آج کل کے زمانے میں علم حدیث میں ان کا کوئی ثانی نہیں کہتے اگرچہ لوگ ان کو منہ پر بُرا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن وہ کسی کو بھی بُرا نہیں کہتے ‘‘
مولوی عبدالحئی سے ملاقات:
آپ نے فرمایا ” میں نے مولوی عبدالحئی کو دیکھا ہے جب ہم لکھنؤ گئے تو دل میں خیال آیا کہ مولوی عبدالحئی جو کہ بڑے متبحر عالم دیکھنا چاہیے جب ہم محلہ فرنگی محلی پہنچے تو دیکھا کہ وہ اپنے مکان میں سوئے ہوئے ہیں۔ ہم نے ان کو بیدار کرنا مناسب نہیں سمجھا اور اسی طرح دیکھ کر واپس آ گے” بعد میں ایک سوال کے جوا ب میں فرمایا کہ
” مولوی عبدلحئی صاحب متبحر عالم اور فاضلِ جلیل تھے اور تمام علوم میں خوہ وہ صَرف ہو یا نَحو،بدیع ہو یا بیان، منطق ہو یا معقول، تفسیر ہو یا حدیث کے ماہر تھے ” حضرت امداد اللہمہاجر مکیؒ،شیخ الہند حضرت محمود حسنؒ،حضرت میاں محمود صاحبؒ کے علاوہ اُس دور کی تمام نمایاں شخصیات سے بھی آپ کی ملا قاتیں تھیں حضرت خلیل احمد انبیٹھوی، حضرت محمد قاسم نانوتویؒ ،مولانا رشید احمد گنگوہیؒ۔امام کعبتہاللہ حضرت عبدالقادرؒ ۔ حضرت مولانا ٖغلام دستگیر قصوریؒ سمیت ہر مسلک کے علماء کرام، اُس وقت کے سجادگان، روحانی، علمی، ادبی شخصیات، مخادیم، سادات اور مشاہیر سے آپ کے رابطے تھے اور درجن بھر نوابان،تُمندار،سرداران، قبائلی عمائدین، سربراہان، صاحبزادگان تو آپ کے مریدوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کے خلفاء بنگال،رنگون سے لیکر دیگر اطراف و اکناف میں موجود تھے۔ گویا آپ کے دائرہ ء تعارف میں ایک دنیا سمائی ہوئی تھی۔
کچھ ماضی کے بارے میں عربستان سے چاچڑاں تک:
خواجہ فریدؒکے بارے میں تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کے اجداد عربستان سے سندھ کے ساحلی شہر ٹھٹہ میں تشریف لائے۔ اور وہاں قیام کر کے تبلیغ اسلام کا کام شروع کیا۔ مغل بادشاہ شاہ جہان کی درخواست پر آپ کے بزرگوں نے منگول کوٹ، منگل کوٹ، منگلوٹ کے مقام پر قیام کو قبول کر لیا۔ جہاں سے آپ کے بزرگ دریا چناب کے اُس پار ” یارے والی” منتقل ہو گئے۔
اور پھر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے پڑدادا حضرت قاضی محمد عاقل ؒ کے والد حضرت مخدوم شریف محمدؒ نے اپنے ایک مخلص مُرید مٹھن خان جتوئی کی درخواست پر یارے والی سے کوٹ مٹھن میں قیام کو ترجیح دی۔
کوٹ مٹھن قدیم کی دریا بُردگی اور جدید کوٹ مٹھن کا قیام:
مٹھن خان جتوئی کا قائم کردہ شہر” کوٹ مٹھن”کم و بیش 140برس تک قائم رہا مگر 1862 عیسوی جولائی میں بہت بڑا سیلاب آیا جس کے نتیجے میں کوٹ مٹھن قدیم دریا بُرد ہو گیا۔اس پر پُرانے کوٹ مٹھن سے تقریباً 5میل کے فاصلے پر موجودہ کوٹ مٹھن شہر آباد کیا گیا۔ انگریزی دورِ حکومت تھا۔یاد رہے کہ کوٹ مٹھن کی دریا بُردگی کے وقت خواجہ غلام فریدؒ کی عمر ساڑھے 17برس تھی۔ اس سے قبل سکھوں کے قبضے کے وقت آپ کے والد کوٹ مٹھن سے دریا پار ریاست بہاولپور کے دریائی قصبے چاچڑاں شریف منتقل ہو گئے جو کوٹ مٹھن کے بالکل قریب تھا۔خواجہ غلام فریدؒ کی ولادت بھی اسی قصبہ چاچڑاں شرید میں ہوئی۔
کوٹ مٹھن جدید:
قدیم شہر کی مکمل دریا بُردگی کے بعد اُس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر مسٹر بروس لین نے نئے شہر کی تعمیر کچھ اس طرح کی۔ پرانے دریا بُر د شہر سے تقریباً 5میل کے فاصلے پر موضع کوٹلہ حسین اور موضع محب علی کے درمیان نقشے میں شہر کے وسط میں ایک گول مارکیٹ، سیدھے بازار ،چوکور، بُلاکس میں محلہ جات، سیدھی گلیاں اور شہر کے باہر گول سڑک (رِنگ روڈ) بنائی گئی۔ شہر کے باہر چاروں اطراف سے شہر کی فضا کو درست رکھنے کے لیے باغیچے بنائے گئے جو کُنوؤں سے سیراب ہوتے تھے اور شہری ضرورت کے لیے سبزیاں بھی کاشت کی جاتی تھیں۔
مقبرہ جات کی تعمیرِ نو:
مٹھن خان جتوئی کا آباد کردہ شہر کوٹ مٹھن جب 1862میں دریا بُرد ہو چکا تو اس میں موجود مکانات، مسا جد، کاروباری مراکز،آستان اور قبرستان بھی دریا کی نذر ہو رہے تھے تو اس وقت وہاں سے حضرت خواجہ شریف محمدؒ ان کے فرزند حضرت خواجہ قاضی محمد عاقلؒ اُن کے فرزند حضرت خواجہ احمد علیؒ اور آپ کے والدِ محترم حضرت خواجہ خدا بخش عرف محبوب الہیٰؒ کے علاوہ ان کے کئی معاصرین کی قبور بن چکی تھیں۔ جب دریا میں طغیانی آئی اور شہر کے بچنے کے کوئی امکانات نہ رہے تو وہاں سے پانچ حضرات کے صندوق نکال کر موجودہ جگہ پر نئے سِرے سے دفن کیے گئے۔ اور پھر اس نئے منتخب کردہ مقام پر موجودہ مزار بنایا گیا جسے شروع میں تو حضرت قاضی محمد عاقل ؒ کے مزار کے طور پر شہرت ملی لیکن بعد ازاں جب 1901جولائی میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا وصال ہو گیا اور انہیں بھی یہاں دفن کیا گیا تو پھر یہ محض “دربار خواجہ غلام فریدؒ” ہی بن گیا اوراب اس کا صرف اور صرف یہی ایک ہی تعارف ہے۔ “دربارِ خواجہ غلام فریدؒ جو مرجعء خلائق ہے” اس مقبرہ کی تعمیر عرصہ 10سال میں مکمل ہوئی اور اس پر خواجہ فخر جہاںؒکے اُس وقت کے 20ہزار روپے صرف ہوئے جب ایک تولہ سونا کی قیمت پانچ سے آٹھ روپے تھی۔ مقبرہ کی تعمیر 1287ھ میں مکمل ہوئی تعمیراتی نگرانی کا کام خلیفہ احمد یارؒ کے ذمہ تھا۔ مقبرے کے آگے کا سماع ہال نواب صادق محمد خان عباسی رابعؒ نے 1890میں تعمیر کرایا مقبرہ کی تعمیرمستری غلام حسین ملتانی کے ہاتھوں ہوئی۔ فرش کا پتھر چینوٹ کے کاری گروں نے لگایا مقبرہ کے قریب کا زنان خانہ سردار امام بخش بُزدار آف مہرے والا نے بنوایا۔ جبکہ روضے کے اندر موجود قبور کو فرش سے بلند کر کے کٹہرا بنانے کا کام نواب قصیر خان مگسی نواب آف ریاست جھل مگسی نے کروایا۔
مزار کے چاندی والے دروازے پر چاندی لگانے کا کام بہاولپور کے سنیاروں حاجی خدا بخش زرگر بہاولپوری اور دائیں طاق پر خادم الفقراء دُر محمد زرگر لکھا ہوا ہے۔ اُن دنوں چاندی کا نرخ چھ آنے تولہ تھا لہذا کام بہتر اور چاندی کو مزید خالص رکھنے کے لیے ساڑھے چھ آنے تولہ ادا کیے گئے۔
دربار فریدؒ کے احاطے سے متصل مسجد ڈیرہ غازی خان کے حمل خان نتکانی کے بیٹے سردار مسُو خان نتکانی نے تعمیر کرائی1287ھ۔ اس مسجد کی تعمیر 1871عیسوی میں مکمل ہوئی۔ اس مسجد کی پیشانی پر یہ کتبہ موجود ہے۔
اسی طرح آپ کی رہائش کے لیے چاچڑاں شریف والے گھر میں نواب بہاولپور کی طرف چند کمرے تعمیر کئے گئے جنہیں عقیدت سے “فریدی محل چاچڑاں شریف”کہا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر 1896عیسوی میں ہوئی۔
؎ رشکِ بہار گلُشنے ایجاد کردہ ءِ یعنی چہ کاخِ خاص خود آباد کردہءِ
چولستان اور دیگر مناظر فطرت سے وابستگی:
حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے کلام اور محافل، مجالس کی گفتگو کا اگر جائزہ لیا جائے توآپ حُسنِ فطرت کے بہت بڑے قدردان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ریگستان، دریا ئی جنگل، بیلے،سنگلاخ پہاڑ، دریاؤں کا بہاؤ موجوں کا تلاطم،ویرانوں کی وحشت،وحُوش کی چنگھاڑیں، حشرات الارض کی چنگھاریں، آوازیں، خاموشی، بادل، برسات، بجلی، زرخیزی، سرسبزی، سکوت،شور، سکون، ہل چل، اُجالا، اندھیرا، طلوع، غروب، قوس و قزح، بادلوں کا گھمسانِ الغرض انسانی وجود، انسانی وجود کی رنگینیاں، پھولوں کا کھلنا، مرجھانا، العرض کا ئنات کے جملہ مظاہر خواجہ فریدؒ کے مشاہدے مطالعے کا میدان ہیں۔ایک سلیم الفطرت شخص کے طور پر ان تمام کیفیات، احساسات اور رنگارنگی سے وہ خود کو الگ نہیں دیکھتے۔
خواجہ فریدؒ کی شاعری کے موضوعات:
آپ کی شاعری کو عام طور پر چار بڑے موضوعات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔توحید ۲۔عشقِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) ۳۔عظمتِ انسان ۴۔مناظرِ فطرت کا بیان اور وابستگی۔
مذکورہ بالا موضوعات کے دیوان فریدؒ اور مقابیس المجالس سے لا تعداد حوالے دیئے جا سکتے ہیں۔
خواجہ فریدؒ کی تصنیفات:
آپ کے رشحات قلم میں سے سب سے زیادہ شہرت تو آپ کے سرائیکی کلام پر مبنی” دیوان فریدؒ” کو حاصل ہوئی۔جس میں 271کافیاں ہیں،اپنے اس مجموعہ کلام کو خواجہ فریدؒ نے خود ہی ترتیب دیا تھا اس میں ایسی الف بائی ترتیب رکھی گئی ہے کہ بقول حضرت خواجہ غلام فریدؒ اگر لاکھوں کافیاں بھی ہوں تو ہر کافی کو اس کے اپنے مقام پر ہی جگہ ملے گی اور اور اسے ایک کافی بھی آگے یا پیچھے نہیں رکھا جا سکتا۔
دیوانِ فریدؒ کا گہرا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ترتیب صرف قافیے کے حوالے سے نہیں جیساکہ عام دواوِین میں ہوتا ہے ان 271کافیوں کو دونوں اطراف کی الف بائی ترتیب سے مرتب کیا گیا ہے اور یہ دیوان کُلی اور جزوی طور پر لا تعداد مرتبہ شائع ہو چکا ہے۔
دیوانِ فریدؒ اردو:
خواجہ فریدؒ نے اُردو زبان میں بھی شاعری کی اور یہ پہلے پہل منو ی معدنِ عشق کے نام سے شائع ہوئی (اسی نام سے سرائیکی کلام بھی جزوی طور پر شائع ہوا)خواجہ فریدؒ کے اردو کلام کی ترتیب و تحقیق کئی لوگوں نے کی ہے۔
فوائد فریدیہ :
یہ ایک مختصر رسالہ ہے جو خواجہ فریدؒ نے ابتدائی عمر میں مرتب کیا تھا اور بعد ازاں یہ شائع بھی ہوا بعمر 23 سال(1876-1284)
مناقب محبوبیہ:
کم و بیش 24برس کی عمر میں خواجہ صاحب نے اپنے والدِ محترم حضرت خواجہ محبوب الہٰیؒ کے حوالے سے ایک کتاب ترتیب دی جس کے آٹھ ابواب میں انہوں اس میں اُس وقت کے جملہ معاملات پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب تین مرتبہ شائع ہو چکی ہے۔خواجہ فریدنے اپنے قلم سے متعدد اہم کتابوں کی نقول بھی تیار کیں جن میں لوائح جامی، گلشنِ رازاز محمود الجستری/شبستری،سفینۃ الاولیا ازداراشکوہوغیرہ شامل ہیں۔
اشارات فریدی
باوجود اس کے کہ یہ کتاب آپ کی تصنیف نہیں ہے لیکن یہ آپ کی گفتگو کی خاص خاص باتوں پر مشتمل ایک ایسی شاندار کتاب ہے جو خواجہ فریدؒ کے علمی تبحرکی روشن گواہی ہے اگر آپ کے مرید اور بعد ازا ں خلیفہ مولوی رکن الدین پر ہاروی،سونکی نے پانچ جلدوں میں یہ کتاب مرتب نہ کی ہوتی تو شاید دنیا کو خواجہ فریدؒ کے مقام و مرتبہ سے اشنائی نا مکمل رہتی۔ان پانچ جلدوں کو لیاقت پور کے قریب اللہ آباد کے ایک قابل قدر بزرگ حضرت کپتان واحد بخش سیال صاحب نے ترجمہ کیا ہے جس کےدرجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
خواجہ فریدؒ کی وسیع المشربی:
حضرت خواجہ غلام فریدؒ تصوف کے سلسہ ء چشتیہ کی نرم مزاجی اور صلح کُل کی عملی تصویر تھے وہ کسی کی خطا پر اُس کی گرفت نہیں کرتے تھے بلکہ اس کے اندر کی خوبیوں کو اجاگرکر کے اُسے خود اپنی اصلاح پر مائل کر لیتے تھے۔ ان کے ہاں کوئی بھید، بھاؤ،زبان،رنگ،نسل، خطے،رنگت،مذہب،مسلک کا مختلف ہونا مسئلہ نہیں تھا وہ اس رنگارنگی کو خالق مالک کی پیدا کردہ رنگارنگی قرار دیتے تھے اُن میں اس قدر نرمی تھی کہ کئی ہندو اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے بھی آپ کے مُرید ہو جاتے تھے۔ ان کی تبلیغ اپنے حال کے ذریعے ہوتی تھی صرف قیل وقالکے ذریعے نہیں پھر بھی بے شمار لوگوں نے آپ کی محبت اور شفقت سے متاثر ہو کر دین اسلام کو قبول کر لیا اور آپ نے ان کی دینی تعلیم کی تکمیل کے لیے اہتمام بھی کیا مخلوق خدا کی آسانی کے لیے وہ زندگی بھر کوشاں رہے۔
چولستان میں کنویں اور ٹوبھے کھدوا کر اللہ کی رضا کے لیے وقف کر دئیے زندگی بھر سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹایا۔سادات اور شُرفاء کی تعظیم کی۔ علماء کا اکرام، احترام کیا۔ مشائخ سے نیاز مندی کا تعلق قائم کیا۔ کبھی کسی سے تلخ کلامی نہ کی۔ غلطی کرنے والوں کو دل سے معاف فرمایا۔ جو بھی ہاتھ میں آیا اُسے فی الفورمستحقین تک پہنچایا۔ ان کی زندگی فقرواستغناء کا اعلیٰ نمونہ تھی درجن بھر سربراہان اور رُوساءحلقہ ارادات میں تھے لیکن ان کے ساتھ آپ کا تعلق صرف نیکی اور اچھائی کی ترغیب کے لیے تھا۔
ان کی بارگاہ میں جتنی رسائی ایک غریب، مسکین، لاچار، یتیم، بیوہ، عام انسان، چولستانی، دیہاتی کو حاصل تھی اتنی رسائی نوابان اور رُوساء کو حاصل نہ تھی۔جب کسی نے آپ کو کوئی نقصان پہنچایا آپ نے کبھی دل پر نہ رکھا اس حد تک کہ کسی نے کچھ چُرا لیا اور اس کی غلطی ظاہر ہو گئی تو آپ نے وہ چیز برضاورغبت اسے عطا کر دی۔ سیکڑوں ناداروں کو وظیفہ پابندی کے ساتھ دینا ،وسیع ترین لنگر کا ہمہ وقت اہتمام،آپ کا لنگر عام طور پر تین مقامات پر مسلسل جاری رہتا تھا۔
۱۔چاچڑاں شریف میں جو کہ آپ کی جائے سکونت تھی۔
۲۔کوٹ مٹھن میں جہاں آپ کے بزرگوں کے مزارات تھے۔
۳۔ اور تیسرا لنگر آپ کے ساتھ ساتھ رہتا تھا، آپ جہاں بھی موجود ہوتے لنگر جا ری رہتا تھا۔ چولستان میں آپ کے ساتھ 300سو سے 500 لوگوں کا قافلہ ہوا کرتا تھا۔ جن کے خورونوش کا جملہ انتظام لنگر کی طرف سے کیا جاتا تھا۔
آپ کے مرید مغل بادشاہ بہادر ظفر شاہ کے پوتے مرزا احمد اختر گورگانی کے بقول آپ کے لنگر میں 12من چاول اور آٹھ من آٹا روزانہ کا پکتا تھا۔
1845 سے1901یہ کوئی بہت زیادہ زمانہ قدیم نہیں ہے صرف 120سال پُرانی بات ہے لیکن تاریخ میں قرونِ اُولیٰ کے جن اولیاء کرام کا ذکر ملتا ہے خواجہ فریدؒاُن روشن افکار اور اعلیٰ کردارکی عملی تعبیر تھے۔ اُن میں اس قدر روداری تھی کہ آپ کو مختلف الخیال علماء کرام اپنے مناظروں میں فیصل اور منصف تسلیم کرتے تھے۔ انہیں آپ کے علم،غیرجانبداری پر مکمل اعتماد ہوا کرتا تھا (ایسے ہی ایک مناظرے کی مکمل روداد ملتی ہے۔جس میں اُس وقت کے جید ترین علماء نے دونوں اطراف سے شرکت کیاور متفقہ طور آپ کو حکم تسلیم کیا۔
خواجہ فرید ؒ کی عائلی زندگی
خواجہ غلام فریدؒ کی عائلی زندگی پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو وہ ہمیں ایک مطمعن زندگی گزارتے ہوئے ملتے ہیں ان کی” پہلی شادی “کا اہتمام ان کے برادرِ بزرگ اور مرشد حضرت فخر جہاںؒ نے فرمایا اور ان کے لیے میاں محمد چاولیؒ کی دختر نیک اختر مسماۃ زہرہ بی بی کا رشتہ بی بی صاحبہؒ کے والدِ محترم اور برادران سے طلب کیا اور 27ربیع الاول 1282ہجری بمطابق 20اگست1865بروز اتوار بعمر 20 سال بمقام چاچڑاں آپ کی رسم نکاح ادا ہوئی۔ صرف اسی بی بی صاحبہ سے آپ کے ایک فرزند اور ایک دختر پیدا ہوئے۔ دوسرا نکاح ملتان سے تعلق رکھنے والی بی بیؒ صاحبہ محترمہ ہوتاں بی بی ؒسے آپ کا نکاح 7جمادی الاول1290بمطابق3جولائی 1873یوم الخمیس بمقام ملتان منعقد ہوا۔ اس بی بیؒ سے اولادنہ ہوئی جبکہ تیسرا اور آخری نکاح محترمہ جان بی بی بنت جام جمعہ لاڑ1299ہجری بمطابق 1882۔ہوا۔ان زوجہ محترمہ سےبھی کوئی اولاد نہ ہوئی۔
وفات زوجات
پہلی زوجہ: خواجہ صاحب کی پہلی زوجہ محترمہ زہرہ بی بی بنت میاں محمد چاولیؒ جب سفر حج سے واپس آئیں تو بیمار پڑ گئیں ان کی وفات وسط 1297ہجری بمطابق وسط1880۔کوٹ مٹھن میں دفن کیا گیا۔
دوسری زوجہ: آپ کی زوجہ دوم محترمہ ہوتاں بی بی نے 4اگست 1913کو وفات پائی۔
زوجہ سوم= خواجہ فریدؒ کی زوجہ سوم جان بی بی بنت جام جمعہ لاڑ تھیں، انہوںنے اللہ تعالیٰ سے لمبی عمر پائی ان کا وصال خواجہ صاحب سےتقریباً42سال بعد 31جنوری1943کو چاچڑاں شریف میں ہوا اور وہ بھی کوٹ مٹھن میں آسودہ خاک ہوئیں ،آپ کے فرزندخواجہ محمد بخش عرف نازک کریمؒ کا وصال 21رمصان المبارک1329 ہجری بنطابق 15ستمبر1911 عیسوی بمقام چاچڑاں شریف ہوا کوٹ مٹھن شریف میں مدفن بنا۔ جبکہ پیدائش 5ربیع الاول 1283ھجری بمطابق 18 جولائی 1866میں ہوئی بمقام چاچڑاں شریف خواجہ فخر جہانؒ نے ان کےکان میں اذان کہی۔
آپکی اکلوتی دختر”الودانی بی بی” کی پیدائش اور وفات:
اللہ تعالیٰ نے خواجہ فریدؒ کی زوجہ اول زہرہ بی بی بنت میاں محمد چاولی سے ایک فرزند اور ایک ہی دُختر عطا کی تھی۔ اس دختر نیک اختر کے پیدائشی نام کا تو پتہ نہیں چل پایا لیکن انہیں سب نے بی بی الودانی (بہت زیادہ لاڈلی) کے نام سے پُکارا اور تاریخ نے ان کا یہی نام محفوظ کر لیا، ان کی پیدائش او اخر1284ھ بمطابق اواخر1867ءمیں ہوئی۔ان کی شادی خواجہ صاحب کے قریبی عزیز میاں امام بخش کوریجہ ؒ سے ہوئی۔ تاریخ نکاح22ربیع الاول 1300ہجری بمطابق 31جنوری 1883بروز بدھ بمقام چاچڑاں شریف۔
فکر فریدؒ کا سفرماضی سے حال اور مستقبل کی طرف:
کسی شخص سے شخصیت بننے اور انفردی عمل کا روشن مثال بننے تک کے مراحل ہمیں خواجہ فریدؒ کے قولوعمل میں پوری شان و شوکت سے نمایاں نظر آتے ہیں جملہ قول و عمل ، سلاسل تصوف کی جو روشن روایات خواجہ فریدؒ تک پہنچی تھیںانہوں نے کمال اخلاص سے نا صرف خود اپنایا بلکہ زیادہ خوبصورت کرکے آگے بڑھایا اگر ان کی زندگی کے حالات و واقعات دیکھے، پڑھے اور سنے جائیں تو وہ ہمیں صدیوں پہلے کے اولیاء کرام کا مکمل اور خوبصورت عکس نظر آتے ہیں ان کی زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جسے لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی ضرورت پیش آئے۔
وہی روشن روایات انہوں نے اپنے رُشدوارشادکے ذریعے، اپنے روز وشبانہ عمل کے حوالے سے لوگوں تک پہنچائے اور اس قول کو عملی طور پر ثابت کیا کہ صوفی ماحول کے لیے ایک خوشخبری اور بشارت ہوا کرتا ہے۔ صوفی کا اختیار کردہ تحمل،برداشت،بُردباری کا راستہ اور رویہ ایسا پُرامن ماحول پیدا کرتا ہے جو سماج میں ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ خواجہ غلام فریدؒ کے انسان دوست روشن افکار کو آگے بڑھانے کا ایک ذریعہ تو ان کے چالیس کے قریب خلفاء کرام تھے۔ اور دوسری طرف ان کے بعد کے سجادگان نے یہ فریضہکماحقہ طریقے پر نبھایا۔ آپ کے بعد آپ کے فرزند خواجہ حضرت محمد بخش عرف نازک کریم ؒ ان کے بعد آپ کے پوتے حضرت خواجہ معین الدینؒ اور پڑپوتے حضرت خواجہ قطب الدینؒ ،حضرت خواجہ احمد علیؒ ،حضرت خواجہ نظام الدینؒ سے موجودہ سجادہ نشین حضرت خواجہ معین الدین محبوب تک پہنچا جنہوں نے اپنا فرض منیرت سمجھتے ہوئے ان تمام روشن روایات کا احیاء کیا جو امتدادِ زمانہ سے زوال کا شکار ہو چکے تھے آپ نے لنگر خانے کے دروازے کھولے۔ درس کی رونق بحال کی۔ مہمان خانے کو بہت بڑی گنجائش کے ساتھ 24گھنٹوں کے لیے کھول دیا۔ ملک بھر کی جملہ خانقاہوں اور مشائخ و علماءسے روابط بڑھائے اور اتحادِ اُمت کو اپنا مشن بنایا۔
ملک بھر میں پھیلی دھشت گردی کی لہرکے سامنے دیوار بننے کی کوشش کی اور علماٰء کرام اور خانقاہوں کو اتحادِامت کےایک نکاتی ایجنڈے پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ جس میں ان کے اخلاص کو ملک بھر کی خانقاہوں اور ہمہ فکر علماء کرام کی بھر پور تائید حاصل ہوئی۔دریار فرید کے حوالے سے انہوں نے وہاں زائرین کی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں کی دستیابی کے لیے دن رات ایک کر دئیے۔ اعراس کے انعقاد میں باقاعدگی پیدا کی۔ عرس کی روایتی رسومات پر بھر پور توجہ دی۔
دربارِفریدؒروایتی مزار سے جدید علمی مرکز تک:
جیسا کہ یہ علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ قوموں کی زندگی سب سے کٹھن مرحلہ پُرانی روِش کو چھوڑ کر خود کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالناہوتا ہے۔ وہ خانقاہ جس کی ابتداء قریباً تین صدی قبل ایک علمی مرکز کے طور پر ہوئی تھی اور یہاں سے جاری ہونے والے فیضان نےایک دنیا کو متاثر کیا تھا یہاں حضرت خواجہ شریف محمدؒ ،حضرت قاضی محمد عاقلؒ ،حضرت خواجہ احمد علی،حضرت خواجہ محبوب الہی، حضرت خواجہ فخر جہاں اور پھر خود حضرت خواجہ فریدؒ جیسے متبحر علماء و صلحاء نے لوگوں کے دلوں اور اذہان کو منور کیا تھا وہ آگے چل کر کسی قدرزوال کا شکار ہو رہا تھا۔وقت کا تقاضہ تھا کہ اس مرکز کو وقت کے تقاضوں کے مطابقایک علمی،ادبی،تربیتی مرکز میں تبدیل کیا جائے مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ وابستگانِ عقیدت کا ذوق و شوق بھی مجروح نہ ہو۔
خواجہ فریدؒ میوزیم اور لائبریری کا قیام:
دربارفریدؒ پرعقیدت مندوں کی روحانی تسکین کے لیے تو بہت کچھ تھا۔ضرورت اس امر کی تھی کہ علمی،ادبی،ثقافتی، سماجی،تحقیق کے لیے کتابیں، جرائد،قدیم اشیاء مہیا کی جائیں اور یہ ریسرچ اسکا لر کی دسترس میں بھی ہوں تا کہ وہ ان سے علمی استفادہ کر سکیں۔
اس غرض سے سجادہ نشین صاحب خواجہ معین الدین محبوب نے خواجہ فرید فاؤنڈیشن قائم کرکے اس کے تحت ایک بڑی لائبریری قائم کی جس میں ہزاروں کتابیں۔قدیم قلمی نسخہ جات، جرائد مہیا کر دئے گئے علاوہ ازیں ضرورت اس امر کی بھی تھی کہ خواجہ فریدؒ کے تبرکات بھی مہیا کیے جائیں تا کہ جہاں عقیدت مند اس سے روحانی تسکین حاصل کر سکیں وہاں ریسرچ اسکالر اس سے خواجہ فریدؒ کی پسند نا پسند اور معیارزندگی کے راز جان سکیں۔اس غرض سے ایک بہت بڑا میوزیم بھی قائم کیا گیا جس میں سیکڑوں تبرکات موجود ہیں۔اس ادارے میں ریسرچ اسکالر کو صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ قیام وطعام، ہر کتاب سے اور تمام نادر اشیاء سے استفادہ کی مکمل سہولت دی جاتی ہے، جن سے درجنوں ریسرچ اسکالر مستفید ہو چکے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
فکرِ فریدؒکی ترویج:
گزرتے وقت کے ساتھ جس طرح علمی دنیا میں “فریدیات” ایک متبر علمی اصطلاح کی شکل اختیار کر چکی ہے اسی طرح “فکر فرید” بھی ایک با معنیٰ اصطلاح بن چکی ہے۔خواجہ فریدؒ کے انسان دوست،روشن افکار کی ترویج کے لیے سماج کی ہر سطح پر منظم کوشش کی ضرورت کی محسوس کرتے ہوئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں 24سال سے اعلان شدہ ” خواجہ فریدؒ چیئر” کو بحال کیا گیا ہے جس کے لیے 13رکنی کمیٹی بنائی گئی ہے۔جس کے لیے جناب وائس چانسلر ڈاکٹر اطہرمحبوب ،سجادہ نشین خواجہ معین الدین محبوب، ڈاکٹرشہزاد قیصر۔ڈاکٹر سعدیہ کمال،محمد سعید احمد شیخ،مجاہد جتوئی۔ پروفیسر عصمت اللہ شاہ۔ اطہرلاشاری۔ملک خدا یارچنڑ کے ساتھ خواجہ راول معین کوریجہ کوڈائریکٹر متعین کیا گیا۔ اس چیئر کے مقاصدو منشور میں خواجہ غلام فریدؒ کے پیغام کو جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے دنیا تک پہنچاناہے۔
خواجہ فریدؒ کے بارے میں مشاہیر کی رائے:
کچھ خوش نصیب افراد ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان کی پیدائش ساتھ ہی ان کی منقبت کسی نہ کسی شکل میں لکھی جانے لگتی ہے۔ بلا شبہ خواجہ فریدؒ بھی ایسے ہی ممدوحین کے ضمن میں آتے ہیں۔ ان کی وِلادت کے ساتھ کئی لوگوں نے ان کےتولدنامےلکھے۔طالب علمی کے زمانے میں اساتذہ نے ان کی تعریف و توصیف بیان کی۔ان کی حیات میں کئی شعراء نے قصائد لکھے، گیت گائے،خطابات، القابات سے مخاطب کیا گیا۔ان میں سے “غریب نواز” حاجی پیر، سخی پیر،خورشید عالم، سلطان العاشقین وغیرہ شامل ہیں۔
خواجہ فریدؒ کی حیاتِ مبارکہ اور بعد از وفات جو کچھ ان کے بارے میں لکھا جا تا رہاہے اُس سے تو کئی ضخیم کتابیں مرتب ہو سکتی ہیں۔
اختصار کے لیے ہم بات حضرت علامہ اقبال سے شروع کرتے ہیں۔
“مجھے تو ان کی شاعری میں آفاقی شاعری والی خوبیاں نظر آتی ہیں‘‘۔(علامہ اقبالؒ)
؎ گلخن عشق چشتیاں پہ تپید شعلہ اش خواجہ غلام فریدؒ”
“حسرت از دلے ندیم نرفت۔ کہ نصیب اش نہ شُد نگاہ فرید”(سید عطااللہ شاہ بخاریؒ)
؎ کسی سے بن نہ پڑی آج تک تیری تقلید وحیدِ عصر،سخن ور، شہیدِ عشق فرید
” ترے قدم نے بدل دی فضائے کوٹ مٹھن۔ کہ جیسے لوگ مناتے ہیں جنگلوں میں عید”(سید ہاشم رضا)
” میں نے حضرت خواجہ صاحب کی کافیاں بہت سنی ہیںجنہوں نے مجھے مست کر دیا ہے”۔(دیوان سنگھ مفتون)
” باہر نوابی محل تھا اور اندر فقیر کا بوریا بچھا رہتا تھا۔”(حضرت خواجہ حسن نظامیؒ)
” خواجہ صاحب کے کلام میں تین خوبیاں نمایاں ہیں۔” خواجہ صاحب کے کلام کا محاسن اور خوبی کے لحاظ سے پلہ بھاری ہے” (فیض احمد فیض)
” خواجہ صاحب کی شاعری میں کلاسیکی ادب کی تمام بنیادی اقدار موجود ہیں۔(سید عابد علی عابد)
” سرائیکی زبان کی مٹھاس، شیرینی، گُھلاوٹ اورخواجہ صاحب کے وجدان کی آمیزش نےکلام فریؒدکو ایک مؤ ثر پیغام بنا دیا ہے۔” (مولانا کوثر نیازی)
” لوگوں میں آپ کی سخاوت کا شہرہ تھا اور لوگوں کا اعتقاد تھا کہ آپ سخاوت میں تمام مشاہر اسخیاء سے سبقت لے گئے (مولانا غلام احمد اختر)
یہ تو تھے نمونے کے چند تاثرات اگر اس حوالے سے گزشتہ 150 برس کے تاثرات جمع کئے جائیں تو نجانے کتنی کتابیں وجود میں آئیں گی۔یہ سلسلہ پیدائش سے لے کر وصال کے مواقع پرکہےگئے قطعات تاریخ سے لے کر آج تک ان کے بارے میں کچھ نہ کچھ کہا ہی جا رہا ہے۔
حیات فریدؒتواریخ کے آئینے میں
٭23ذی الحج 1261 ہجری 23دسمبر1845بروز منگل ولادت حضرت خواجہ فریدؒ7پوس ،پوہ 1902 بکرمی قبل از
طلوع آفتاب بمقام چاچڑاں شریف
٭8 رجب المرجب 1265ھ دسمبر۔رسم بسم اللہ از حضرت خواجہ تاج محمود ؒ
٭اواخر1265 – اواخر 1849وفات والدہ محترمہ حضرت خواجہ غلام فریدؒ ۔
٭وسط 1269 ختم حفظ قرآن شریف
٭12ذی الحج 1269ہجری۔ 16ستمبر1853 – وصال والدِ محترم حضرت خواجہ غلام فریدؒ خواجہ محبوب الہیؒ بوقت عشاء یوم الخمیس شب جمعہ بمقام چاچڑاں شریف۔
٭آغاز 1270ھ 1853 – نواب آف بہاولپور فتح خان عباسی کی فرمائش پر آپ بعمر 8 سال اپنے ماموں ملک غلام محمد ماڑھا اور ممتاز عالمِ دین مولوی قائم الدین کی نگرانی میں ڈیرہ نواب صاحب منتقل ہو گئے۔
٭24صفر المظفر 1275ھ۔13اکتوبر1858 ء وفات نواب آف بہاولپور حاجی خان عرف فتح خان عباسی۔
٭7رجب المرجب 1275ھ۔11فروری1859عیسوی حضرت خواجہ غلام فریدؒ دست بیعت ہوئے اپنے برادرِ بزرگ حضرت خواجہ فخر جہانؒ کے اور یہ موقع تھا آپ کے پڑ دادا حضرت قاضی محمد عاقلؒ کے عرس کا۔
٭ماہ صفر المظفر 1279ھ ماہ جولائی 1862ء۔ کوٹ مٹھن قدیم دریا بُرد ہو گیا۔
٭6جمادی الثانی 1279ھ۔ 29نومبر 1862۔خواجہ غلام فریدؒ نےمعروف کتاب لوائح جامی کا حاشیہ اپنے قلم سے نقل کر کے مکمل کیا۔
٭10محرم الحرام 1281ھ۔15جون1864ء۔تکمیل کتابت کتاب گلشنِ راز۔ تصنیف۔ شیخ محمود الجستری(شبستری)
٭8ذی قعدہ 1281ھ 14 اپریل 1265ء۔ آپ کے مرشد اور برادرِ بزرگ حضرت خواجہ فخر جہان نے آپ کی شادی کے لیے میاں محمد چاولیؒ سے رشتے کی بات چیت کی۔
٭27ربیع الاول1282ھ۔20اگست 1865 اتوار بمقام چاچڑاں آپ کا عقد محترمہ مسماۃ زہرہ بی بی بنت دختر میاں محمد چاولیؒ سے ہوا زیر نگرانی حضرت خواجہ فخر جہاںؒ۔
٭5ربیع الاول 1283۔ 18جولائی 1866ء پیدائش خواجہ محمد بخش عرف خواجہ نازک کریم (اکلوتے فرزند) بروز بدھ شب جمعرات بوقتِ سحر۔
٭ 5جمادی الاول 1288 ھ – 24 جولائی 1871 ء وصال حضرت خواجہ فخر جہانؒ بروز سوموار بوقت چاشت (مُرشد،مُربی، برادرِ بزرگ خواجہ فریدؒ)
٭7جمادی الاول 1290ھ – 3 جولائی 1873 عیسوی۔ نکاح دوم ہمراہ ” محترمہ ہوتاں بی بیؒ عرف ملتان والی بی بی ؒ”
٭5ربیع الثانی 1291ھ23- مئی 1874ء چولستان میں ایک کنواں تعمیر کروایا۔
٭یکم شوال 1292ھ۔ 23مئی1875 ء ۔ عید الفطر کوٹ مٹھن میں منائی۔
٭8ذی الحج 1294ھ۔14دسمبر 1877ء ریاست جھل مگسی کے نواب قیصر خان مگسی آپ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔(وفات 11ستمبر 1927 تدفین قلعہ کہنہ ملتان)۔
٭16رمضان المبارک 1296ھ۔ 3ستمبر 1879ء آپ کی طرف سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا جس میں مقربین کو اطلاع دی گئی کہ جناب نے فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے ارادہ فرما لیا ہے، اور یہ مراسلہ دعوت نامہ بھی تھا۔
٭ رمضان المبارک 1297ھ اگست 1880۔ آپ نے اجمیر شریف کا سفر کیا خواجہ صاحب نے کم و بیش چھ بار حضرت شیخ معین الدین اجمیریؒ کے مزار مبارک کی زیارت کے لیے سفر کیا۔
٭آغاز محرم الحرام 1298ہجری دسمبر 1880ء خواجہ فریدؒ کی چاچڑاں شریف سے ڈیرہ نواب صاحب تشریف لائے۔ اس موقع پر نواب صادق محمد خان عباسی رابع آپ کے دست حق پرست پر بیت ہوئے۔
٭1298 ہجری۔ 1881عیسوی خواجہ فرید کا نکاح سوم مسماۃ جان بی بی ؒ بنت جام جمعہ لاڑ صاحب سے ہوا۔
٭7شعبان المعظم 1302ہجری۔ 22مئی 1885عیسوی۔دولت خانہ محل بہاولپور میں نو تعمیر شدہ مسجد کا افتتاح فرمایا اور نماز جمعہ کیامامت فرمائی۔
٭یکم تا تین شوال ھ۔ 3 جون 1889 ء برصغیر کے بڑےعلماء کے درمیان ہونے والے ایک بڑے مناظرے میں آپ متفقہ طور پر حَمز (جج) تسلیم کیا گیا اور آپ کے فیصلے کو بھی فریقین نے خوشی سے قبول کیا۔ اس مناظرہ کے شرکاء میں مولانا غلام دستگیر قصوری بمع ان کے احباب اور مولانا خلیل احمد انبیٹھوی، حضرت شیخ الہند محمود حسن، اور دیگر علماء دیوبند شامل تھے۔
٭14فروری 1899ء بروز منگل۔نواب صادق محمد خان عباسی والیءِ ریاست بہاولپور (مُریدِ خاص) کی وفات ہوئی۔
٭18شوال 1318ھ 8فروری یوم الجمعہ سے خواجہ فریدؒ کی علا لت کا آغاز ہوا ابتداء میں زکام، بخار وغیرہ ہوا بعد ازاں ٹانگ میں تکلیف ہوئی جہاں پھوڑا نمودار ہوا۔ جس کا علاج شروع کیا گیا۔ نواب بہاولپور کی طرف بھیجے گئے ڈاکٹر عمر بخش نے آپریشن کیا۔ لیکن معا ملہ روز بروز بگڑتا گیا۔
٭ 2ربیع الثانی 1319ھ 19جولائی بروز ہفتہ آپ کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔
٭6ربیع الثانی 1319ہجری 23جولائی 1901عیسوی۔ بمقام فرید محل چاچڑاں شریف بوقت شام عین وقت اذان مغرب بروز بدھ آپ نے داعی ءِ اجل کو لبیک کہا۔ انا للہ و اِنا الیہ راجعون۔
آپ کا جنازہ رات کے 11بجے پڑھ کر اور اسی وقت دریا کے ساحل پر لے جایا گیا۔
7ربیع الثانی 1319ھ 24 جولائی ۱۹۰۱ عیسوی یوم الخمیس بعمر 55سال 7ماہ 20دن عیسوی۔ 57سال 3 ماہ 14دن ہجری۔
آپ کو کوٹ مٹھن شریف حضرت قاضی محمد عاقلؒ والے مقبرہ میں بوقت دوپہر آسودہ ء خاک کیا گیا۔
٭14ربیع الثانی 1319عیسوی 31جولائی 1901 عیسوی یوم الخمیس آپ کے فرزند خواجہ محمد بخش عرف خواجہ نازک کریمؒ کی دستار بندی کی گئی اور اس طرح وہ سجادہ نشین ہوئے۔ ان کے بعد اُن کے فرزند،اور پھر ان کے فرزند سجادہ نشین ہوئے۔ یہ سلسلہ موجودہ سجادہ نشین حضرت خواجہ منیی الدین محبوب سلمہ تعالیٰ تک جاری و ساری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں