ضیا شاہد
جلال الدین عبدالرحیم ( جے اے رحیم ) پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے سیکرٹری جنرل تھے۔ بھٹو صاحب تاریخ کے پہلے اور آخری چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنے تو جے اے رحیم کو اہم وفاقی وزارت دفاعی پیداوار بھی دی گئی۔ جے اے رحیم 1905ء میں پیدا ہوئے اور 1977ء میں فوت ہوئے۔ وہ پیپلز پارٹی کے بانی ارکان میں سے تھے۔ ان کا تعلق بنگالی کمیونسٹ گھرانے سے تھا۔ وہ دانشور اور فلسفی بھی تھے اور پیپلز پارٹی کے بنیادی خدو خال کو اجاگر کرنے میں بھٹو صاحب کے بعد سب سے اہم کردار جے اے رحیم کا تھا۔ پیپلز پارٹی کو جمہوری سوشلسٹ تشخص دینا ان کا بنیادی نظریہ تھا۔ وہ شروع میں ایک بنگالی سول سرونٹ تھے۔ جے اے رحیم نے بھٹو صاحب کی وزارت خارجہ کے دور میں بھی غیر سرکاری طور پر ان کے مشیر کا کردار ادا کیا۔ وہ فرانس میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔سول سروسز میں آنے کے بعد ان کا انتخاب فارن سروس میں کیا گیا۔ محمد علی بوگرہ وزیر اعظم تھے تو جے اے رحیم نے سیکرٹری خارجہ کے طور پر اپنے فرائض انجام دیئے ۔ 1965ء میں ان کے مراسم بھٹو صاحب سے استوار ہوئے۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر واقع گلبرگ لاہور میں پارٹی کا پہلا کنونشن ہوا تو جے اے رحیم نے ہی پارٹی کا منشور لکھا جس کا بنیادی نظریہ اسلام ہمارا دین ہے، جمہوریت ہماری سیاست ہے سوشلزم ہماری معیشت ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، تھا۔ عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمن سے مذاکرات کرنے والے وفد کی سربراہی بھی جےاے رحیم کے سپر د تھی ۔ 1970ء میں غلام مصطفیٰ کھر کے ساتھ وہ مشرقی پاکستان سے لوٹے تو انہوں نے بھٹو صاحب کو رپورٹ دی کہ شیخ مجیب سے گفتگو بیکار ہے۔ 1971ء کی جنگ کے بعد جے اے رحیم پاکستان ہی میں مقیم رہے۔ 1972ء میں انہیں دفاعی پیداوار کا وفاقی وزیر مقرر کیا گیا۔ بھٹو صاحب سے ان کے تعلقات کی خرابی کا سبب 1974 ء میں شروع ہوا جب بھٹو صاحب نے بائیں بازو کے متشدد افراد تنظیموں اور سرگرم پارٹی رہنماؤں کو خود سے الگ کرنے کا اہتمام کیا۔ جولائی 1974ء میں بھٹو صاحب نے جے اے رحیم کو کھل کر برا بھلا کہنا شروع کیا۔ بھٹو کی خفیہ طاقت فیڈرل سکیورٹی فورس (FSF) تھی۔ مشہور ہے کہ جے اے رحیم کو بھٹو صاحب نے ایک میٹنگ کے لیے بلایا اور کئی گھنٹے بٹھائے رکھا۔ جے اے رحیم نے غصے میں آ کر بھٹو صاحب کے بارے میں سخت الفاظ کہے اور گھر چلے گئے۔ اسی رات ایف ایس ایف کے سپاہیوں نے ان کے سرکاری گھر کا گھیراؤ کیا اور پھر گھر میں داخل ہو کر بوڑھے جے اے رحیم کو تھپڑوں اور ٹھڈوں سے مارا۔ واضح رہے کہ اس وقت جے اے رحیم کی عمر 69/70 سال تھی۔
بعد ازاں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ بھٹو صاحب کے ایک اور جانشین ملک غلام مصطفیٰ کھر بھی تھے، میں نے گزشتہ روز ان سے بھی ٹیلی فون پر جے اے رحیم کے بارے میں گفتگو کی۔ کھر صاحب نے مجھے بتایا کہ جے اے رحیم صاحب سے بھٹو کی دوستی بہت پرانی تھی جب وہ فرانس میں سفیر تھے۔ ایوب خان سے علیحدگی کے بعد بھٹو صاحب سوچ رہے تھے کہ اب کس پارٹی میں جائیں۔ نئی پارٹی بنانے کا مشورہ جے اے رحیم صاحب نے دیا اور ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر پہلے کنونشن سے بھی قبل جے اے رحیم جو پاکستان واپس آچکے تھے نے پیپلز پارٹی کا آئین اور منشور بنانے میں مدد کی ۔ جے اے رحیم صاحب مکمل اور سائنٹیفک سوشلسٹ تھے۔ کھر صاحب کے بقول وہ مذہب پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ نیشنلائزیشن کے بعد بھی ان کا خیال تھا کہ یہ کام جاری رکھناچاہئے حتی کہ ہر کاروبار ریاست کی ملکیت ہونا چاہئے جبکہ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ جتنی نیشنلائز یشن ہو چکی ہے اس پر بھی لوگوں کے بہت اعتراضات ہیں اس کے علاوہ پارٹی میں دائیں بازو سے متاثر اور اسلام ہمارا دین ہے کہ حامی افراد بھی جے اے رحیم کے مکمل نیشنلائزیشن کے فلسفے کے سخت خلاف تھے۔ کابینہ میں شیخ رشید جنہیں بابائے سوشلزم کہا جاتا تھا البتہ جے اے رحیم کے ساتھ تھے۔ کھر صاحب کا کہنا ہے کہ جس رات جے اے رحیم کا بھٹو سے اختلاف کھل کر سامنے آیا بھٹو صاحب نے کابینہ کے وزراء کے علاوہ مجھے بھی کھانے پر بلایا’ آٹھ بجے شب کا وقت دیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو کسی اہم میٹنگ کی وجہ سے دیر ہوگئی ان دنوں کھانے سے پہلے وہسکی سرو کرنا معمول تھا۔ جے اے رحیم صاحب اپنی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے اور دس بجے سونے کے لیے بستر پر جانے کے عادی تھے۔ عام طور پر وہ وہسکی کے صرف دو پیگ لیتے تھے لیکن اس رات انہوں نے انتظار کرتے ہوئے چار پیگ پی لیے جس سے وہ قدرے نشے میں آگئے اور انہوں نے بھٹو صاحب کے دیر سے آنے پر سخت احتجاج کیا اور یہاں تک کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے اور ہم بر کار ہیں جو آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ لیکچر دیا اور پھر احتجاجا اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا میں یہ بے عزتی برداشت نہیں کر سکتا اس لیے گھر جارہا ہوں۔ کچھ دیر بعد بھٹو صاحب میٹنگ سے فارغ ہو کر آئے تو بعض وزراء جو پہلے سے جے اے رحیم کے سخت خلاف تھے نے بڑھا چڑھا کر ان کے احتجاج کا ذکر کیا جس پر قدرتی طور پر بھٹو صاحب کو غصہ آیا تا ہم وہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہیں دیا۔ بعد میں ہمیں پتا چلا کہ ایف ایس ایف کے کارندوں نے جے اے رحیم کے گھر پر دھاوا بول دیا تھا۔ کھر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ جے اے رحیم دل کے مریض تھے اور انہیں جلد غصہ آ جاتا تھا۔ کچھ نشے میں ہونے کی وجہ سے بھی انہوں نے بار بار یہ کہا بلاؤ بھٹو صاحب کو میں زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتا۔ پھر یہ کہ کر کہ میںاحتجا جا واک آؤٹ کرتا ہوں وہ گھر چلے گئے۔
کھانے کے بعد ہم سب لوگ رخصت ہو چکے تھے جب ہمیں ان سے ایف ایس ایف کی بدسلوکی کا پتا چلا۔ ان کا ایک ہی بیٹا جس کا نام سکندر ہے وہ پورا صاحب تھا اور یور بھی زیادہ عرصہ پاکستان سے باہر رہنے کے سبب صرف انگریزی بولتا تھا۔ کھر صاحب ۔ میری جے اے رحیم صاحب کے بیٹے سے بیگم اختر سلیمان سے ملاقات کے حوالے سے یقینا وہ سکندر ہو گا بہر حال جے اے رحیم صاحب انتہائی ایماندار اور شریف انسان تھے البت انتہا پسند سوشلسٹ اور مزاج کے ضدی واقع ہوئے تھے۔ ان کے سیاسی مخالفین کو موقع مل گیا اور انہوں نے اس رات بھٹو صاحب کو خوب بھڑ کا یا۔ مصطفیٰ کھر صاحب نے اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کراچی میں ان کے ساتھ کیا ہوا اس کا علم نہیں ہے لیکن معراج محمد خان صاحب نے آپ کو جو بھی بتایا وہ درست ہو گا کیونکہ معراج صاحب بھی نظریاتی طور پر سوشلزم کے قائل اور جے اے رحیم صاحب کے مکتب فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ قارئین! آخری دنوں میں جے اے رحیم نے کراچی میں بڑی تکلیف دہ زندگی گزاری۔ انہوں نے سندھ ہائیکورٹ میں اپنے خلاف انتہائی قابل شرم کا رروائیوں کا اپنی درخواست میں تفصیل سے ذکر کیا۔ میں 1981ء میں پانچ سال کے لیے کراچی منتقل ہوا تو نوائے وقت کا دفتر گرومندر کے پاس اور مزار قائد کے سامنے تھا۔ گرومندر کے قریب ہی حسین شہید سہروردی سابق وزیر اعظم پاکستان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کا گھر تھا۔ ان کی بیٹی شاہدہ جمیل سندھ کی وزیر قانون بھی رہیں اور پرویز مشرف کے دور میں وفاقی وزیر قانون بھی۔ شاہدہ جمیل کے شوہر مسٹر جمیل میرے بہنوئی ڈاکٹر عبدالرحمن چودھری کے انتہائی قریبی دوست اور عزیز تھے۔ جمیل اور شاہدہ جمیل نے مجھے بطور خاص اپنے گھر پر کھانے کی دعوت دی اور اصرار کیا کہ دفتر ہمارے گھر کے پاس ہے جب تک آپ کی فیملی کراچی نہیں آ جاتی آپ دونوں وقت کھانا ہمارے ساتھ کھایا کریں۔ میں نے ان کا شکر یہ ادا کیا تاہم میرا آنا جانا ان کے ہاں بہت زیادہ ہوتا تھا۔ بیگم شائستہ اکرام اللہ بھی ان کی قریبی عزیز تھیں جن کی بیٹی شروت سے اردن کے ولی عہد شہزادہ حسن کی شادی ہوئی تھی ۔ شہزادہ حسن اور ثروت سے میری ملاقات انہی کے گھر پر ہوئی۔ جے اے رحیم کے بھی اس گھرانے سے قریبی تعلقات تھے اور ایک بار جے اے رحیم کے بعض قریبی عزیزوں نے جن میں ان کا صاحبزادہ سکندر بھی موجود تھا مجھے کئی گھنٹے تک رونگٹے کھڑے کر دینے والی تفصیلات سنائیں کہ اسلام آباد میں ایف ایس ایف کے سپاہیوں کی طرف سے جے اے رحیم پر جسمانی تشدد کے بعد بھی بھٹو صاحب نے ان کا پیچھا نہ چھوڑا۔ قید و بند کی سزا بھگتنے کے بعد وہ اپنے کراچی والے گھر آئے تو بھی خفیہ پولیس اہلکار ہر جگہ ان کا پیچھا کرتے تھے اور 24 گھنٹے گھر کا گھیراؤ کیے رکھتے ۔ انہیں فون پر دھمکیاں دی جاتیں اور گھر سے نکل کر سڑک پر آتے تو انہیں گالم گلوچ سے خوفزدہ کیا جاتا۔ بالآخر انہوں نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا۔ سندھ ہائیکورٹ میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی رٹ فائل کرنے کے بعد بھی ان پر ذہنی ٹارچر جاری رہا۔ بھٹو صاحب کا ذکر کرتے ہوئے جے اے رحیم کے صاحبزادے سکندر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے کہا میں نے بڑے بڑے ظالم دیکھے ہیں لیکن بھٹو صاحب نے اپنے ایک محسن اور دیرینہ ساتھی کے ساتھ جو سلوک کیا اس کی یاد آتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ 1977ء میں جے اے رحیم انتہائی ذہنی دباؤ کے باعث ہارٹ اٹیک کا شکار ہوئے اور اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ جے اے رحیم کے بارے میں کافی معلومات بنگالی کمیونسٹوں کے متعلق لکھی گئی کتابوں میں موجود ہیں۔ وہ کمیونزم اور سوشلزم پر پختہ یقین رکھنے والے انسان تھے۔ پیپلز پارٹی کے اندر بھی دائیں بازو کے لوگ بڑے زمیندار جاگیردار ان کے سخت مخالف تھے ۔ مولانا کوثر نیازی کا اپنا گروپ جو مذہبی محاذ پر پارٹی کا دفاع کرتا تھا جے اے رحیم کا دشمن تھا۔ پکے سوشلسٹ خیالات کے حامل لوگوں کی تعداد یوں بھی کم تھی تاہم بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کا حشر بھی جے اے رحیم سے کچھ بہتر نہ ہوا۔ بھٹو صاحب کہا کرتے تھے کہ !
میرے دو جانشین ہیں۔ غلام مصطفیٰ کھر اور معراج محمد خان ۔ معراج کراچی کے رہنے والے ہیں وہ بھی بائیں بازو کے کٹر حامی ہیں لیکن بھٹو صاحب کے دور حکومت ہی میں جب کراچی میں مزدوروں کی پٹائی ہوئی تو معراج محمد خان اور بھٹو صاحب کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ۔ ایک جلوس میں معراج محمد خان کی بھی پٹائی ہوئی اور ان کی ایک آنکھ پر چوٹ لگنے کے باعث وہ بڑا عرصہ بیمار رہے۔
قارئین معراج محمد خان بفضل ربی بقید حیات ہیں، لیکن وہ ان دنوں صاحب فراش ہیں۔ ان سے میں نے جے اے رحیم صاحب کے بارے میں فون پر بات کی انہوں نے حکومت سے علیحدگی کے بعد جے اے رحیم کے بارے میں بتایا کہ یہ درست ہے کہ وہ کافی مشکلات میں تھے اور انہوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ ان کی بیگم اختر سلیمان سے قریبی عزیز داری تھی ۔ آخری عمر میں انہوں نے اپنا گھر بیچ دیا تھا اور کسی اور جگہ منتقل ہو گئے تھے تاہم ان کا انتقال کراچی میں ہوا۔ معراج محمد خان نے بتایا کہ میں نے خود ان کے جنازے میں شرکت کی تھی بعد ازاں ان کے بیٹے بھی پاکستان سے باہر چلے گئے جہاں وہ پہلے بھی ملازمت کرتے تھے۔
معراج محمد خان کو بھی پیپلز پارٹی سے اس طرح نکال دیا گیا جس طرح مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے۔ دوسرے جانشین غلام مصطفیٰ کھر نے بغاوت کی۔ وہ مسلم لیگ کے نائب صدر مقرر ہوئے جس کے صدر مرحوم پیر پگاڑا تھے اور چیف آرگنا ئز رمحمد حنیف رامے۔ رامے صاحب نے اسلامی سوشلزم کا جھنڈا شروع ہی سے اٹھارکھا تھا۔ انہیں بھی پارٹی سے باہر دھکیلا گیا اور وہ مصطفیٰ کھر سے مل گئے ۔ بھٹو صاحب نے اسلم افتخار تاری، چودھری ارشاد اور بابو وارث وغیرہ کو لاہور سے اٹھایا اور پاکستان کی حدود سے باہر آزاد کشمیر میں دریا کے کنارے بنے ہوئے دلائی کیمپ میں بند کر دیا۔ بھٹو دور کی جمہوریت کی ایک شکل یہ بھی تھی کہ ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کسی بھی شخص کے بارے میں لکھ کر ہائیکورٹ میں پیش کر دیتا تھا کہ اس نام کا کوئی ملزم ہمارے پاس موجود نہیں ہے جبکہ ملزموں کو راتوں رات آزاد کشمیر پہنچا دیا جاتا تھا جہاں وہ برسوں قید میں سڑتے تھے۔
جے اے رحیم تنہا بھٹو صاحب کے غیظ و غضب کا شکار نہیں بنے ۔ ڈاکٹر مبشر حسن سیکرٹری جنرل مقرر ہوئے تو وہ بھی زیادہ عرصہ ساتھ نہ چل سکے اور الگ ہو گئے ۔ تیسرے سیکرٹری جنرل جہلم کے ڈاکٹر غلام حسین تھے۔ ایک مرحلے پر انہوں نے بھی سیاسی مخالفین کی چھترول کے خلاف بطور احتجاج استعفیٰ دیدیا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد انہوں نے دوبارہ پریس کانفرنس کی اور اپنے بھٹو مخالف طرز عمل پر معافی مانگی۔ کبھی وقت ملا تو میں جے اے رحیم کی طرح ان پارٹی لیڈروں اور رہنماؤں پر ضرور قلم اٹھاؤں گا جنہیں بے عزتی کے علاوہ قیادت پر نکتہ چینی کے الزام میں جسمانی اور ذہنی تشدد کا شکار بنایا گیا۔ ایوب خان سے آخری ملاقات کے عنوان سے میں اس سلسلہ ہائے مضامین کے آغاز میں لکھ چکا ہوں کہ سابق صدر نے کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب بھٹو صاحب قوم کی گردن پر اس طرح سوار ہوں گے جس طرح سند باد جہازی کے ایک سفر میں ایک شریر بوڑھا اس کی گردن پر سوار ہو گیا تھا اور اپنی ٹانگوں سے اس کی گردن دبالی تھی ۔ وہ سند باد کو مارتا تھا اور جزیرے میں دوڑنے کا حکم دیتا تھا۔ ایوب خان نے یہ بھی کہا تھا کہ آپ لوگ جواب بھٹو کے شیدائی بنے ہوئے ہو ہاتھ اٹھا اٹھا کر خدا سے دعائیں مانگو گے کہ اب اس سے نجات مل جائے مگر تمہیں نجات نہیں ملے گی۔ ڈاکٹر غلام حسین اللہ کے فضل سے حیات ہیں اور آج کل سویڈن میں مقیم ہیں اور پاکستان آتے رہتے ہیں جبکہ جے اے رحیم کی قبر کراچی میں ہے۔
186