صاحبزادہ سید خورشید گیلانی
برسوں سے وطن عزیز میں ایک رحجان چلا آ رہا ہے اور ہر بار یہ رحجان پختہ تر ہورہا ہے کہ جونہی محرم الحرام کی آمد ہوتی ہے تو ایک غیر معمولی اور ہنگامی نوعیت کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
جس طرح بحث کی آمد سے قبل اشیاء کی قلت ، ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی کے امراض قوم کو لاحق ہو جاتے ہیں اسی طرح محرم کے آغاز میں مذہبی فضا میں تناؤ اور کھچاؤ سا آ جاتا ہے ، حکومت کی طرف سے بعض علماء کی زبان بندی ، بعض علماء پر دوسرے علاقوں میں جانے کی ممانعت ، دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ ، اور انتظامیہ کو الرٹ کر دینے کے احکام جاری کر دیئے جاتے ہیں۔ امن کمیٹیاں بننی شروع ہو جاتی ہیں، ان کے اجلاسوں کا سلسلہ چل نکلتا ہے، اور سنی شیعہ فرقوں کے درمیان دھمکی آمیز بیانات کی یلغار ہو جاتی ہے، یہ رحجان کم از کم ایک سادہ اور عام مسلمان کے لئے ناقابل فہم اور انتہائی تعجب انگیز ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سیلاب یا طوفان آرہا ہے جس کی پیش بندی کے یہ سارے سامان ہو رہے ہے، اگر بند نہ باندھے گئے ، پشتے مضبوط نہ کئے گئے، کٹاؤ کے انتظامات نہ کئے گئے، اور بہاؤ کے رخ متعین نہ کئے گئے تو خدا نخواستہ بڑی تباہی بچ سکتی ہے۔
آخر آغاز محرم میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کی سادہ کی وجہ فرقہ واریت ہے جس کے زہر نے ذہنوں کو آلودہ اور جس کی نفرت نے دلوں کو کبیدہ کر رکھا ہے ، اور وہ ایام اور مواقع جو کسی قوم کے لئے ذریعہ اتحاد سرمایہ افتخار، اور طرہ امتیاز ہوتے ہیں الٹا موجب افتراق، باعث فساد اور وجہ نزاع بن جاتے ہیں۔
حالانکہ کوئی بادنی تعمق دیکھے تو عاشورہ محرم تاریخ اسلام کا ایک دردناک باب ہے اور غم آگیں ورق ! دنیا کا دستور ہے کہ غم اور دکھ کے موقع پر برادریوں میں اختلاف ہو بھی تو وقتی طور پر ختم ہو جاتا ہے اور ہر فرد دکھ درد میں شریک ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں اس لمحنه الم میں پہلے بھی زیادہ اختلاف رونما ہو جاتا ہے اور دلوں کی دوریاں اور بڑھ جاتی ہیں، اس ناخوشگوار کیفیت کے یوں تو بہت سے اسباب ہیں جن کا گہرا علمی اور تاریخی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے تا ہم بادی النظر کچھ یوں وجوہ اوراس نفرت کو ختم کرنے کے مندرجہ ذیل طریقے ہیں۔
1۔ہمارے فرقہ وارانہ ذوق نے ہماری ملی اور تاریخی شخصیات کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہم ان شخصیات کے آفاقی کردار کو اپنے گروہی دائرے میں بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے درمیان ان شخصیات کے حوالے سے ایک طرح کی کشمکش ابھر آتی ہے، انہی میں ایک مظلوم ہستی حضرت امام حسین کی ہے حالانکہ سانحہ کر بلا محض ایک واقعہ نہیں تاریخ کا مستقل اور مسلسل کردار ہے جب تک نوح انسانی کے درمیان حق اور باطل، خیر وشر ، ظالم اور مظلوم کی آویزش رہے گی سانحہ کربلا اور حضرت امام ایک قومی علامت کے طور پر انسانیت کو حق اور خیر کے لئے ظلم کے خلاف جدو جہد کا درس دیتے رہیں گے یا مگر بدقسمتی سے ہم نے اس واقعے کوسنی ، شیعہ کی بھینٹ چڑھا دیا ہے سب سے پہلے اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے ، تب مفاہمت کی فضا پیدا ہوگی ۔
2۔ایک الجھن یہ بھی ہے کہ ہم غم حسین کا اظہار کم کرتے اور اسے اپنے مسلک کا شعار زیادہ بناتے ہیں ، چنانچہ اس ذہنیت کے نتیجے میں اس دوران تصادم کے کئی مرحلے آ جاتے ہیں، پھر مسئلہ کر بلا کا نہیں رہتا اپنے دھڑے کی بقا اور انا کا ہو جاتا ہے، ظاہر ہے جہاں ان کا ٹکراؤ ہوگا وہاں سے خیر اور محبت کیسے برآمد ہوگی؟
3۔اس سلسلے میں ایک اور سبب بھی قابل توجہ ہے کہ ہمبظاہر امام حسین ؓ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جلسہ اور جلوس کا اہتمام کرتے ہیں مگر در اصل بلاتے ان لوگوں کو ہیں جن کی اپنی بقاء اور گزراں اسوہ حسینی سے وابستہ نہیں بلکہ امام کے نام پر تفرقے سے منسلک ہوتی ہے پیشہ ور ذاکر اور فرقہ پرست واعظ حضرت امام کی شخصیت اور قربانی کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا انہوں نے یہ سب کچھ اسلام کی بالا دستی اور وحدت ملی کو قائم رکھنے کے لئے نہیں کیا بلکہ کسی ایک گروہ کی سر بلندی اور حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے قربانی دی، حالانکہ امام کا یہ جہاد کسی فقہی ، فروعی اور جزئی مسئلے کے لئے نہیں تھا بلکہ انہوں نے اپنے خون سے خلافت راشدہ اور ملوکیت کے درمیان حد فاصل کھینچ دی ، اگر ایسا نہ ہوتا تو امت کے لئے یہ جاننا مشکل ہو جاتا کہ اسلام کا اصل سر چشمہ مسجد نبوی ہے یا شام کے محلات ! شہادت حسین کا یہ سب سے بڑا احسان ہے کہ اس نے امت کو فکری یکسوئی عطا کر کے ذہنی انتشار سے بچالیا، چنانچہ آج تک حکمرانوں نے عوام کو بے شمار دھو کے دیئے اور لوگوں نے دھو کے کھائے مگر اسلام کی مثالی نظام پر دو آراد نہیں ہیں اور کوئی حکمران اپنی ملکوکیت ، موروثیت اور آمریت کو خلاف راشدہ کا متبادل نہ تو ثابت کر سکا اور نہ عوام سے منوا سکا، گویا عاشورہ محرم امت کی وحدت رائے کو قائم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنا ،مگر ہماری گروہی عصبیت نے اس کی قدر نہ جانی۔
4۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی بد اعمالیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بہت بڑی ناروا جسارت کرتے ہوئے اصحاب نبی صلى الله عليه وسلم اور اہل بیت رسول ہونے کو ایک دوسرے کا حریف بنا دیا ہے، حالانکہ یہ حریف نہیں ایک دوسرے کے جگری حلیف ہیں ، آل رسول صلى الله عليه وسلم سے اظہار عقیدت کا مطلب اصحاب نبی سے گریز نہیں ہے اور اصحاب نبی کا احترام آل نبی کے احترام کے منافی نہیں لیکن ہر چیز کے انکمہار کا ایک موقع ہوتا ہے اور کسی چیز کو اس کے اصل محل اور موقع سے ہٹا دینے کوعربی میں ظلم کہتے ہیں اور ہم برابر اس ظلم کے مرتکب ہوتے ہیں ، جس قوم کے ہاتھ میں میزان عدل نہ رہے قدرت اس قوم کی معاشرت کو اعتدال سے محروم کر دیتی ہے اور اس محرومی نے ہمیں ایک دوسرے کی بات سنے اور جذبات سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
5۔ آخر میں بنیادی سبب کا بھی تذکرہ ہو جائے کہ مختلف مسلک اور مشرب اسلام کی منشاء کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لئے وجود میں آئے مگر ہم نے ان مسالک اور مکاتب کو ذریعہ نہیں اصل سمجھ لیا ہے اور درمیان سے اسلام کا جو ہری رشتہ کمزور پڑ گیا ہے ، گروہی شناخت نے اسلام کے آفاقی تعارف پر غلبہ پالیا ہے، اور ہم نے اس غلطی کو ماننے کی بجائے بڑی شخصیات کی آڑ میں اور بھاری بھر کم اصطلاحوں کے پردے میں اور مقدس ناموں کے دامن میں چھپا کر اس کو غلطی نہیں رہنے دیا بلکہ اسے عین اسلام اور حق سمجھ لیا ہے جس کے منفی اثرات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہرے اور رہ ناک ہوتے جا رہے ہیں۔ قومیتی ، لسانی ،صوبائی اور علاقائی عصبتوں کے ساتھ مذہبی منافرت نے ہمارا ملی وجود خطرے میں ڈال دیا ہے اس کے لئے ہمیں اپنے طرزعمل پر از سر نو غور کرنا پڑے گا۔
عاشورہ محرم ایسے ایام در حقیقت ہمیں غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں کہ اصول اور فروع کے درمیان فرق کیا جائے ، دین اور فرقوں کی صحیح نوعیت سمجھی جائے ملی مفاد اور گروہی مفاد کے تقدم اور تاخر کا اور اک حاصل کیا جائے ،اہم اور غیر اہم باتوں کے درمیان حد قائم کی جائے اور ہر مسئلے کو اس کے صحیح تناظر میں رکھ کر فیصلہ کرنے اور رویہ
اپنانے کی شعوری کوشش کی جائے۔ یہ وہ مختصر باتیں ہیں اگر دل و دماغ انہیں قبول کر لیں تو محرم الحرام نہ صرفامن کے ساتھ گزرسکتا ہے بلکہ امت کے لئے امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔
176