609

اسلام میں صدقہ وزکواۃ کا حکم


حدیث پاک میں صدقہ و خیرات کی فضیلت:
حدیث پاک میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ جو مال اِنسان صدقات و خیرات کی مَدوں میں اللہ کی راہ میں دوسروں پر خرچ کرتا ہے وہی مال در اصل اسکا مال ہے
اور جو مال وہ چھوڑ جاتا ہے وہ اس کے وارث کا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِنْ شَیْیًٗ فَصُوْ ا یَخْلَفْہٗ وَ ھُوَ خَیْرُالرَّزِقِیْن ترجمہ: تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کروگے اللہ اسکا پورا پورا بدلہ دیگا اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا۔ لَا تَوْ کِیْ فَسْیُوْکِیْ (متفق علیہ) تو ذخیرہ کر کے نہ رکھا کر تجھ پر وہ مُنجمد کر دیا جائے گا یعنی اگرتم خرچ کروگی تو اللہ دیتا رہے گا۔
زکوۃ کی اہمیت اسلام کا چوتھا بنیادی رُکن اور مالی عبادت ہے:
جب ایک صاحبِ نصاب مسلمان اپنے مال کی زکواۃ نکالتا ہے تو اسکے مال کے ساتھ اسکا دل بھی پاک و صاف ہو جاتا ہے اور مال میں خیر و برکت آ جاتی ہے۔ زکواۃ بندے کا تعلق خدا سے جوڑتی ہے۔ زکواۃ کو حکومتوں کے ٹیکس کی طرح محض ایک ٹیکس نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ پوری خوش دلی کے ساتھ اس کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہئے۔ بندہ مومن مال کو اللہ کی امانت سمجھتا ہے اور وہ اپنے مولا و مالک کو راضی کرنے کے لئے اُسکے دیئے ہوئے مال کو اُسکی راہ میں خرچ کرنا اپنے لئے سعادت و نیکی کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ قرآن کریم ترجمہ: اہلِ ایمان کو اس حقیقت کی جانب اسطرح متوجہ فرماتا ہے ۔ سورہ آلِ عمران ، آیت نمبر 92 رکوع 1 پارہ 4 لَنْ تَنَا لُوا الْبِرَّ حَتّیٰ تُنْفِقُوْ مِمَّا تُحِبُّوْنَ ترجمہ(کنزالایمان):
تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے۔ زکوۃ کی اہمیت کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہوگا کہ یہ اسلام کے اُن پانچ ستونوں میں سے ایک ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے۔
قرآن کریم میں جس کثرت اورتوارد کے ساتھ نماز اور زکواۃ کا ساتھ ساتھ ذکر ہے کسی اور کا حکم اتنا نہیں ملتا۔ دل کو دہلا دینے والے عذاب کا ذکر بھی ہے۔
حضرت مولانا احمد رضا قدسرہ نے زکواۃ کی اہمیت پر بڑی دلنشیں اور جامع روشنی ڈالی ہے ۔ آپ تحریر فرماتے ہیں زکواۃ اعظم فرائض دین و اہم ارکان اسلام سے ہے۔
لہذا قرآن عظیم میں بتیس جگہ پر نماز کے ساتھ اس کا ذکر فرمایا: اور طرح طرح سے بندوں کو اس اہم فرض کی طرف بلایا اور صاف صاف فرمادیا کہ بوجھ نہ سمجھنا کہ زکواۃ دینے سے اتنا مال کم ہو گیا بلکہ اس سے مال بڑھتا ہے۔ سورہ بقرہ یَمْحَقُ اللّٰہ الِرّبیٰ وَ یُرْ بیِ الصَّدَ قَاتْ ترجمہ: اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو ۔ بعض درختوں میں کچھ اجزائے فاسدہ اس قسم کے پیدا ہو جاتے ہیں کہ پیڑ کی اُٹھان کوروک دیتے ہیں۔ احمق نادان انہیں تراشنے سے منع کرتے ہیں کہ میرے پیڑ سے اتنا کٹ جائے گا کم ہو جائے گا۔ ہر عاقل ہوش مند تو جانتا ہے کہ ان کے چھاٹنے سے یہ تو لہلہا کر درخت بنے گا ورنہ مُرجھا کر رہ جائے گا، یہی حسا ب زکوتی مال کا ہے حدیث پاک میں ہے حضورپُر نور ﷺ فرماتے ہیں خَا لَطَتِ الصَّدَقَۃُ اَوْ مَالُ الزَّکَواۃ مَا لاً اِلَّا اَفْسَدَتْہُ زکواۃ کا مال جس مال میں ملا ہوگا اُسے تباہ برباد کر دیگا
(راواۃ البزار و بہیقی عن اُمُ المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہُما)
دوسری حدیث محسنِ کائنات ﷺ فرماتے ہیں ’’ خشکی و تری میں جو مال تلف ہوتا ہے وہ زکواۃ نہ دینے سے ہی تلف ہوتا ہے۔ اپنے مالک جل علاء پر اطمینان بھی نہیں کہ وہ فرماتا ہے زکواۃ دو تمہارا مال بڑھے گا۔ اگر دل میں اس فرمان پر یقین نہیں جب تو کھُلا کُفر ہے ورنہ تجھ سے بڑا احمق کون ہے جو اپنے یقینی نفع دین و دنیا کی ایسی بھاری تجارت چھوڑ کر دونوں جہاں کا زیاں (نقصان) مول لیتا ہے۔
رشتے داروں اور متعلقین کو زکوٰۃ دینا
اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ (آیت ۶۰) میں زکوٰۃ کے ۸ مستحقین کا ذکر کیا ہے، یعنی زکوٰۃ کس کو ادا کریں؟ : (۱) فقیر یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ تھوڑا مال واسباب ہے لیکن نصاب کے برابر نہیں۔ (۲) مسکین یعنی وہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ (۳) جو کارکن زکوٰۃ وصول کرنے پر متعین ہیں۔ (۴) جن کی دلجوئی کرنا منظور ہو۔ (۵) وہ غلام جس کی آزادی مطلوب ہو۔ (۶) قرضدار یعنی وہ شخص جس کے ذمہ لوگوں کا قرض ہو اور اُس کے پاس قرض سے بچا ہوا بقدر نصاب کوئی مال نہ ہو۔ (۷) اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا۔ (۸) مسافر جو حالت سفر میں تنگدست ہوگیا ہو۔
رشتہ داروں مثلاً بھائی، بہن، بھتیجا، بھتیجی، بھانجا، بھانجی، چچا، پھوپھی، خالہ، ماموں، ساس، سسر، داماد وغیرہ میں سے جو حاجتمند اور مستحق زکوٰۃ ہوں، انہیں زکوٰۃ دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے، ایک ثواب زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا، جیساکہ حضور اکرم ﷺ کی تعلیمات احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ کسی تحفہ یا ہدیہ کے شکل میں بھی ان مذکورہ رشتہ داروں کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، لیکن ادائیگی کے وقت زکوٰۃ کی نیت ہونی چاہئے۔ البتہ اپنے ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح اپنے بیٹا، بیٹی ، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے جیسا کہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے۔ اس پر بھی امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا کیونکہ بیوی کے اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں۔ البتہ اگر بیوی کے مال پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کا شوہر مستحق زکوٰۃ ہے تو کیا بیوی اپنے مال کی زکوٰۃ مستحق شوہر کو دے سکتی ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک اشتراک فی النفع کی وجہ سے جائز نہیں ہے، حضرت امام شافعی ؒ کے نزدیک جائز ہے، حضرت امام مالک ؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ سے دو قول منقول ہیں، ایک قول مثل احناف ہے، دوسرا قول مثل شوافع۔ جواز کے قائلین نے بخاری ومسلم میں وارد حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی کے واقعہ کو دلیل کو طور پر پیش کیا ہے۔ علماء احناف نے کہا ہے کہ بخاری ومسلم میں وارد اس واقعہ میں زکوٰۃ مراد نہیں ہے بلکہ عام صدقات مراد ہیں، کیونکہ بخاری کی ہی حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ والے اس واقعہ میں شوہر کے ساتھ بیٹے کا بھی ذکر ہے، اور نبی اکرم ﷺ کے اقوال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ بیٹے کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ہے۔
مشہور مصری حنفی عالم علامہ بدر الدین عینی ؒ (۷۶۲ھ۔۸۵۵ھ)نے بخاری کی ۱۴ جلدوں پر مشتمل مشہور شرح (عمدۃ القاری فی شرح صحیح البخاری)میں اس موضوع پر مدلل بحث کی ہے، جس کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کچھ کام نہیں کیا کرتے تھے، البتہ ان کی بیوی کاروبار کیا کرتی تھیں، انہیں کی کمائی سے پورے گھر کا خرچہ چلتا تھا۔ ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے اپنے وعظ ونصیحت میں زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کرنے کی ترغیب دی، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو یہ احساس ہوا کہ میری تو ساری کمائی گھر پر ہی خرچ ہوجاتی ہے، جس کی وجہ سے میں صدقہ وخیرات کرکے اجروثواب کے حصول سے محروم رہ جاتی ہوں۔ چنانچہ آپ ﷺ سے جب اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے رجوع کیا گیا توآپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا شوہر اور بیٹا اس کا زیادہ حقدار ہے، یعنی حضرت زینب کا اپنے شوہر اور بیٹے پر اپنی کمائی کا پیسہ خرچ کرنا ان کے لئے باعث اجروثواب ہے۔ غرضیکہ اس واقعہ میں زکوٰۃ مراد نہیں ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ رشتہ داروں میں سے جو حاجتمند اور مستحق زکوٰۃ ہوں، انہیں زکوٰۃ دینے میں دوہرا ثواب ملتا ہے، ایک ثواب زکوٰۃ کا اور دوسرا صلہ رحمی کا۔ البتہ اصول (مثلاً ماں باپ) اور فروع (مثلاً اولاد) کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی ہے، اسی طرح شوہر اپنی بیوی کو زکوٰ ۃ نہیں دے سکتا ہے۔ بیوی کا اپنے مال کی زکوٰۃ غریب شوہر کو دینے میں علماء کا اختلاف ہے، احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ بیوی اپنے غریب شوہر کو زکوٰۃ نہ دے تاکہ زکوٰۃ کا مال گھر ہی میں استعمال کرنا لازم نہ آئے، البتہ اسے چاہئے کہ وہ اپنے محتاج شوہر کی دوسری شکلوں سے مدد کرے۔ گھر یا دوکان یا فیکٹری وغیرہ کے ملازمین یا اپنے ڈرائیور کو بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے، اگر وہ زکوٰۃ کے مسحتق ہیں۔ ان کو تنخواہ اور مزدوری کے علاوہ زکوٰۃ کی نیت سے بطور ہدیہ بھی زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں