423

کیااسلام اور سا ئینس متصادم ہیں


عصرِ حاضر میں سائنسی علوم نکتۂ کمال کو پہنچ چکے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو مذہبی تعلیمات کو سائنسی استدلال کے ساتھ ثابت کرکے مذہب کی عقلی بنیادوں پر تشریح کا رحجان فروغ پارہا ہے ۔ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے ,لہذٰا اسلامی تعلیمات ہر زمانے کی طرح دورِ جدید میں بھی مکمل طورپر قابلِ فہم اور قابلِ عمل ہیں ۔ دراصل اسلام کی آفاقی تعلیمات بذاتِ خود سائنس کی ترقی و ترویج کی بنیاد ہیں ۔ مسلمانوں نے اپنے دورِ عروج میں سائنسی علوم کو مفروضوں سے نکال کر قابلِ عمل راہ پر ڈال دیا ، تاکہ سائنس بنی نوع انسان کے فائدے اور آسانی کا ذریعہ بن سکے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان نسل کو یہ باور کروایا جائے کہ سائنسی علوم صرف اقوام مغرب کی مرہونِ منت نہیں بلکہ یہ مسلمانوں کی اپنی ہی کھوئی ہوئی میراث ہے۔ ماضی کے مایۂ ناز مسلمان سائنسدانوں کےکارناموں کے بارے میں آگہی حاصل کرنے کےلیے سائنس کے طلباء کو ان عظیم ہستیوں پر تحقیق ضرور کرنی چاہیے ، تاکہ مسلمانوں میں اپنی ایک گمشدہ میراث کو واپس پانے کی امنگ پیدا ہوسکے۔ علمِ سائنس کے تناظر میں اگر اسلامی تعلیمات کا جائزہ لیاجائے تو یہ بات سامنے آتی ہےکہ سائنس میں ” تحقیق اور تجربے ” کی روح اسلامی تعلیمات کی مرہون منت داخل ہوئی ۔ قرآن مجید میں بار بار ہمیں علم کی فضیلت بتائی گئی ہےاور غوروفکر کی تلقین کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں واضح طورپر یہ فرمایا گیا کہ “قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ بَدَاَ الْخَلْقُ (عنکبوت:۲۰)”آپ ان لوگوں سے کہیں کہ تم لوگ زمین پر چلو پھرو اور دیکھو کہ خدا تعالیٰ نے مخلوق کو کس طرح ابتداء سے خلق کیا“قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (یونس:۱۰۱)آپ کہہ دیجئے کہ تم غور کرو اور دیکھو کیا کیا چیزیں ہیں آسمانوں اور زمینوں میں“فَلْیَنْظُرِ الاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ (طارق:۵)دیکھنا چاہیے کہ انسان کو کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے“
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عقل پر پہرے بٹھانے کی بجائےعالمِ ارض و سما میں غورو فکر کرنے اورتسخیر کائنات کو بندہ مومن کی بنیادی صفات میں سے شمار کیا ہے قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات پائی جاتی ہیں جن میں لیل ونہار کی گردش، آسمان وزمین کی تخلیق، سمندروں میں کشتیوں کے چلنے اور ہواؤں کے آنے جانے میں بھرپور انداز میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔خالد خان خلجی اسلام اور سائنس کے تعلق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں” قرآن کریم باربار ملکوت السموات و الارض میں غور وفکر ،تدبر اور تسخیر کی تاکید کرتا ہے علم اور حکمت کے حصول پر اسلام کا زور اور وسیع النظری دیکھ کر سائنس بھی اسلام کی مخالف نہیں بلکہ مظہر اسلام اور خادم اسلام ہے جوں جوں دنیا میں ترقی ہو گی سائنس اور حکمت اسلام کو منکشف کرتا رہے گا” موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ ” قرآن جہاں ہمیں سائنس کو ترقی دینے کی دعوت دیتا ہے وہاں خود اس میں قدرتی حوادث سے متعلق بہت سے مشاہدات و شواہد ملتے ہیں اور اس میں ایسی تشریحی تفصیلات موجود ہیں جو جدید سائنسی مواد سے کلی طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ یہودی، عیسائی تنزیل میں ایسی کوئی بات نہیں
اسلام کے قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور سائنسی قوانین فطرت کی دریافت کا نام ہے جو کائنات میں غیر متبدل شکل میں محفوظ ہیں لہذا ہر سائنسِ حقیقت اور صداقت، دین فطرت کا عین تقاضا ہے اسکی ضد اور مخالف نہیں یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال میں مسلمانوں نے اسلام کے اس عطا کردہ تصور کے تحت نہ کسی سائنسی دریافت کی مخالفت کی اور نہ کسی سائنسی حقیقت کی دریافت پر کسی ایک فردکو سزا دی گئی۔ مسلم سائنس دانوں نے سائنس کے حقائق معلوم کیے اور ایجادات بھی کیں اور یورپ نے ان سے سائنس سیکھی لیکن نہ انکی مخالفت کی گئی اور نہ سائنس دانی کی وجہ سے مسلم سائنسدانوں کے اسلامی عقائد میں فرق آیا یہ امر واضح دلیل ہے کہ سائنس اور اسلام میں توافق ہے تخالف نہیں البتہ مسلم سائنسدانوں اور ان کے شاگرد یورپی سائنسدانوں کے بنیادی اصول میں فرق تھا جس کی وجہ سے اسلامی سائنس ان خرابیوں سے محفوظ رہی جو موجودہ یورپی سائنس کو لاحق ہوئیں۔
موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ”اسلام کے نقطہ نظر سے مذہب اور سائنس کی حیثیت ہمیشہ دو جڑواں بہنوں کی سی رہی ہے۔شروع ہی سے اسلامی تمدن کے دور عروج میں سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔جس سے نشاۃ ثانیہ سے قبل خودمغرب نے بھی استفادہ کیا ہے موجودہ سائنسی معلومات نے قرآن کریم کی آیات پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے صحیفوں اور سائنس کے درمیان مقابلہ کے لیے فہم و ادراک کی ایک نئی راہ نکل آئی ہے۔ پہلے یہ آیتیں ان معلومات کے عدم حصول کی بناء پر مبہم تھیں جو ان کی توضیح و تشریح میں ممد و معاون ہوسکتی ہیں”۔
علوم انسانی کے ارتقائی مراحل کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی ایجادات اور نمایاں سائنسی کارناموں کے میدان میں مسلمان سب سے پیش پیش رہے ہیں۔ ڈاکٹر غلام قادر لون لکھتے ہیں کہ علوم شرعیہ کی نشرواشاعت میں مسلمانوں نے جس جانفشانی، عرق ریزی، اور دیدہ وری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے مگر یہ ان کا دینی فریضہ تھا جس کی پشت پر خدمت دین کا جذبہ بھی کار فرما رہا ہے۔حیرت اس پر ہے کہ مسلمانوں نے دنیاوی علوم میں بھی اسی دیدہ وری، تحقیق و تفتیش اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے جو علوم دینیہ کےلیے خاص تھی۔ تاریخ، جغرافیہ، حیاتیات، کیمسٹری، فزکس، طب اور ہئیت اور ریاضی جیسے علوم میں مسلمانوں کے شاندار کارناموں کو پڑھ کر عقل چکرا جاتی ہے۔ جارج سارٹن (George Sarton)مسلمانوں کے دسویں صدی کے نصف اول کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ “بنی نوع انسان کا اہم کام مسلمانوں نے سرانجام دیا ۔ سب سے بڑا فلسفی الفارابی مسلمان تھا، سب سے بڑے ریاضی دان ابو کامل اور ابراہیم بن سنان مسلمان تھے ۔سب سے بڑا جغرافیہ دان اور قاموسی المسعودی مسلمان تھا اور سب سے بڑا مورخ الطبری بھی مسلمان ہی تھا”۔ آرنلڈ ٹائن بی(Arnold Toynbee) ابن خلدون کو یوں خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ جہاں تک فلسفہ تاریخ کا تعلق ہے عربی ادب جس عظیم آدمی کے نام سے روشن ہے وہ ابن خلدون ہے ، عیسائی دنیا اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتی حتی کہ افلاطون، ارسطو وغیر ہ بھی اس خصوص میں اس کے ہم پلہ نہ تھے۔
ذیل میں چند ایک سائنسدانوں کی اسلام کے متعلق آراء کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اسلام اور سائنس میں تعلق کا بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
سارٹن اپنی کتاب تاریخ سائنس کا تعارفمیں لکھتا ہےکہ “مسلمانوں کی سائنس کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں جب تک ہم اس بات کو پوری طرح نہ سمجھ لیں کہ وہ قرآن کے محور پر گھومتی ہے”۔
فرانس کے مشہور شہنشاہ اور ہیرو جرنیل نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا”وہ وقت دور نہیں جب میں دنیا کے تمام تعلیم یافتہ ، داناو مہذب انسانوں کو قرآن کی صداقتوں پر دوبارہ جمع کروں گا۔ قرآن وہ واحد الہامی کتاب ہے جس کی تعلیمات میں وہ صداقت ہے جو دنیا کو مسرت سے ہم کنار کرسکتی ہے”۔
ڈاکٹر بینا ٹسیٹ، جن کا تعلق پیر س سے ہے، 1935ء میں مسلمان ہوئے ا ور اسلامی نام علی
سلمان رکھا، کہتے ہیں ” میں پیرس کی ایک کیتھولک فیملی سے تعلق رکھتا ہوں ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عیسائیت سے منکر ہو گیا۔ کیونکہ اسکے اصول عقل کی رسائی سے باہر تھے چنانچہ میں نے قرآن حکیم کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس میں بعض ایسے سائنسی حقائق پائے جنہیں ماڈرن سائنس نے آج دریافت کیا ہے۔ تب مجھے مکمل یقین ہو گیا کہ خدا ایک ہے اور محمد ﷺ اسکے سچے رسول ہیں”۔
برطانیہ کا فاضل جے ڈبلیو گراف بیان کرتا ہے “قرآن وہ واحد کتاب ہے جس کے الہامی ہونے پر بے شمار تاریخی دلائل موجود ہیں اور محمد ﷺ وہ واحد رسول ہیں جن کی زندگی کا کوئی پہلو پوشیدہ نہیں۔ اسلام ایک ایسافطری اور سادہ مذہب ہے جو فضولیات اور بے ہودگیوں سے پاک ہے۔ قرآن نے اس مذہب کی تفصیل پیش کی اور رسول ﷺ نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ قول وعمل کا یہ حسین امتزاج کہیں اور نظر نہیں آتا”۔
ڈاکٹر لی آن۔ ایم۔اے، پی۔ ایچ۔ڈی، ایل۔ ایل۔ڈی برطانیہ کا ایک سائنسدان تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام ہارون مصطفی رکھا، کہتا ہے۔”اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسکی بنیاد عقل پر رکھی گئی ہے۔عقل انسانی دماغ کی ایک اہم قوت ہے جسے کلیسا خاطر میں نہیں لاتا لیکن اسلام کا یہ حکم ہے کہ کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے اسے عقل کے پیمانے پر پرکھو۔ اسلام اور صداقت دو مترادف الفاظ ہیں اور کوئی شخص عقل کی مدد کے بغیر صداقت تک نہیں پہنچ سکتا”۔
ڈاکٹر مارقس ایک جرمن صحافی تھا اور اسلام لانے کے بعد حامد مارقس کہلانے لگا، لکھتا ہے ” اوّلا میں اس اخلاقی و روحانی انقلاب سے متاثر ہوا جو اسلام نے پیدا کیا دوم اس حقیقت سے کہ اسلامی تعلیمات سائنس کی جدید تحقیقات سے متصادم نہیں
موریس بکائیے لکھتے ہیں” کسی بشر کے لیے جو ساتویں صدی عیسوی میں بقید حیات ہو ‘ قرآن
میں اتنے بہت سے موضوعات پر جو اسکے زمانے سے تعلق نہ رکھتے ہوں اور جو باتیں صدیوں بعد
منکشف ہونے والی ہوں’ بیان دے سکے۔ میرے نزدیک قرآن کے لیے کوئی بشری توضیح و تشریح ممکن نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں