254

افغانستان میں طالبان ’اقتدار‘ پر دنیا کی نظریں

طالبان دس دنوں میں تیزی کے ساتھ پیش قدمی کرتے ہوئے پورے افغانستان پر قابض پر ہو چکے ہیں۔ طالبان جنگجوؤں نے چھ اگست کو افغانستان میں پہلے صوبائی دارالحکومت پر قبضہ کیا تھا اور پھر 15 اگست تک وہ کابل شہر کے دہانے پر آن کھڑے ہوئے تھے۔ ان کی برق رفتار پیش قدمی نے افغانستان کے ہزاروں شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے۔ کچھ لوگ وفاقی دارالحکومت کابل کی جانب دوڑے اور چند ملک چھوڑ کر ہمسایہ ممالک نکل گئے۔ اور پھر طالبان کے کابل پہنچنے اور افغان صدر اشرف غنی کے ملک چھوڑ جانے کے بعد وہاں افراتفری کا عالم پیدا ہو گیا۔ ہزاروں شہری وہاں سے فرار ہونا چاہتے تھے۔ طالبان نے جس تیزی سے افغانستان پر اپنا قبضہ جمایا ہے اس نے پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ گذشتہ چند دنوں میں افغانستان کے صوبائی دارالحکومت طالبان جنگجوؤں کے سامنے تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے نظر آئے۔ ممکنہ خون خرابے سے بچنے کے لیے کئی صوبوں کے گورنروں نے خود طالبان کے سامنے سرنڈر کیا اور سکیورٹی فورسز کو مزاحمت نہ کرنے کے آرڈرز جاری کیے۔ دارالحکومت کابل پر طالبان نے جتنی آسانی سے قبضہ کیا ہے یہ اس حقیقت کی بہترین مثال ہے کہ طالبان کے سامنے افغانستان کی صوبائی حکومتیں کس قدر کمزور تھیں۔ اتوار کو طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا اور صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کے جانے سے ملک میں ایک سیاسی ویرانی پھیل گئی۔ لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ جن لوگوں کو ملک کی کمان سونپی تھی اور عوام کے تحفظ کی ذمہ داری دی گئی تھی وہ مشکل کے وقت میں اس طرح الٹے پیروں کیوں بھاگ گئے۔ گذشتہ ہفتے امریکی خفیہ ادارے کی ایک لیک ہونے والی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی تھی کہ دارالحکومت کابل آنے والے ہفتوں میں طالبان کے حملے کی زد میں آ سکتا ہے اور ملک کی حکومت تین ماہ کے اندر گر سکتی ہے۔ لیکن صرف تقریباً دس دنوں میں طالبان نے ملک کے تمام اہم شہروں میں اپنے قدم جما لیے ہیں اور اب دارالحکومت بھی اب ان کے قبضے میں ہے۔ گذشتہ 48 گھنٹوں میں افغانستان میں جو کچھ بھی ہوا ہے اسے دیکھ کر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک جمہوری ملک میں حکومت اتنی تیزی سے کیسے گر سکتی ہے۔ جاتے جاتے صدر اشرف غنی نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا تھا ’عوام غیر یقینی مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہے۔ طالبان کے لیے یہ اہم ہے کہ وہ تمام عوام کو، پورے ملک کو، سماج کے ہر طبقے اور افغانستان کی خواتین کو یقین دلائیں اور ان کے دلوں کو جیتیں۔‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اشرف غنی یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے ملک کی اندرونی حالات کیا ہیں؟ یا کیا وہ سب کچھ جانتے ہوئے اس دن کا انتظار کر رہے تھے یا یہ سب قسمت کا کھیل تھا جس سے افغان حکومت اور امریکی خفیہ ادارے مکمل طور پر لاعلم تھے؟ ستمبر 2001 میں امریکہ پر ایک بڑا دہشت گردی کا حملہ ہوا جس کے لیے امریکہ نے القاعدہ کو قصوروار ٹھہرایا۔ اس کے بعد القاعدہ کی حمایت کرنے کے الزام میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور طالبان کو اقتدار سے بے دخل کر کے وہاں ایک جمہوری حکومت کی راہ ہموار کی۔ تب سے اب تک امریکہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے تھا۔ لیکن طالبان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کے آغاز کے بعد امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوج واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔ دوحہ کے دارالحکومت قطر میں ابھی مذاکرات جاری تھے کہ طالبان نے تیزی سے افغانستان کے شہروں اور قصبوں کا کنٹرول سنبھالنا شروع کر دیا۔ افغانستان کی فوج طالبان جنگجوؤں کے سامنے ڈھیر ہوتی گئی امریکہ، برطانیہ اور نیٹو افواج نے گذشتہ 20 برسوں میں افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت میں کافی پیسہ اور وقت خرچ کیا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے متعدد فوجی جرنیلوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے ایک مضبوط اور طاقتور افغان فوج تیار کر دی ہے لیکن طالبان نے جتنی تیزی سے ملک پر اپنا کنٹرول مستحکم کیا ہے اس کے سامنے یہ سارے وعدے اور دعوے کھوکھلے لگ رہے ہیں۔ ملک چھوڑنے پر وضاحت دیتے ہوئے اشرف غنی نے لکھا کہ طالبان کے کابل پہنچنے کے بعد اگر میں وہاں رہتا تو تشدد ہوتا جو لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتا تھا۔ ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اشرف غنی نے اچانک ملک چھوڑ کر ملک کو ایک نئے قسم کے بحران میں ڈال دیا ہے۔ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاہدے کی کوششوں کے درمیان طالبان نے کہا کہ وہ افغانستان پر طاقت کے زور پر کنٹرول نہیں چاہتے ہیں اور جب تک کابل میں نئی ​​حکومت نہیں بنے گی اور صدر اشرف غنی کو عہدے سے نہیں ہٹایا جائے گا تب تک ملک میں امن کا قیام نہیں ہو گا۔ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا تھا کہ ’مذاکرات کے بعد کابل میں ایک حکومت بنائی جائے گی جو تمام فریقوں کے لیے قابل قبول ہو گی اور اشرف غنی کی حکومت ختم ہو جائے۔‘ اشرف غنی ایک سابق ٹیکنوکریٹ ہیں جنھوں نے افغانستان واپس لوٹنے سے پہلے اپنی زندگی کا بیشتر وقت بیرونی ممالک میں گزارا ہے۔ اشرف غنی ایک لمبے وقت تک امریکہ میں ایک پروفیسر رہے اور انھوں نے ورلڈ بینک میں بھی ملازمت کی ہے۔ اس لیے ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کو اتنے بہتر طریقے سے نہیں سمجھتے ہیں جتنے بہتر طریقے سے سابق صدر حامد کرزئی سمجھتے ہیں۔ 2002 میں جب حامد کرزئی افغانستان کے صدر تھے اس وقت اشرف غنی ان کے قریبی سمجھے جاتے تھے۔ حامد کرزئی کی حکومت میں انھیں وزیر خزانہ بنایا گیا۔ ان کے آج کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ اس وقت وزیر خارجہ تھے۔ حامد کرزئی کی حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد اشرف غنی دوبارہ تعلیم کے شعبے سے منسلک ہو گئے اور 2004 میں انھیں کابل یونیورسٹی کا چانسلر منتخب کیا گیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار 2018 میں اشرف غنی نے طالبان کو معاہدے کی پیشکش کی تھی جس کے بعد اسی سال جون کے مہینے میں تین دنوں تک سیز فائر یعنی جنگ بندی بھی رہی تھی۔ چار مئی 2021 کو فارن افئیرز ڈاٹ کام کے لیے لکھے ایک آرٹیکل میں اشرف غنی نے کہا تھا ’میری حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔ اگر طالبان کو امن قبول ہے تو میں اپنا دور اقتدار جلد ختم کرنے کو تیار ہوں۔‘ ’یہی ہے طالبان اور اشرف غنی کے درمیان اختلافات کی اہم وجہ۔ ویسے اس وقت افغانستان کو جو بھی صدر ہوتا طالبان اس کو ہٹانے کی شرائط رکھتے۔‘ یہ سوالات پوچھے جاتے رہیں گے کہ واقعی وہ طالبان کی طاقت کو نہیں سمجھ پائے تھے؟ کیا حقیقت میں انھوں نے امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو افغانستان کی صحیح تصویر پیش نہیں کی تھی؟ یا پھر وہ سب کچھ جاتنے ہوئے خاموش رہے؟ ان سوالات کے جواب حاصل کرنے میں ابھی وقت لگے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں