595

دین اسلام میں بیٹیوں کا مقام (پہلا حصہ )


بیٹوں پر بیٹیوں کے ذکر کو مقدم کرنے میں بیٹیوں کی اہمیت و فضیلت کو اجاگر کرنے اور ان کے تئیں مشفقانہ رویہ اختیار کرنے کی تاکید مقصود ہے، کیونکہ ہر دور میں بہت سے والدینمیں بیٹی کی پیدائش پر بوجھ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کی پیدائش پراس حد تک نفرت انگیز طریقہ کار اختیار کیا جاتا تھاکہ وہ انہیں زندہ درگور کرنے سے بھی کتراتے نہ تھے۔ لہٰذا اس آیت میں گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ : تمہاری نگاہوں میں یہ کمتر اور حقیر بچی، میری نگاہوں میں سب سے زیادہ مقدم ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے بیٹیوں کا ذکر اس لئے فرمایا تاکہ ان کی صنفی نزاکت کی جانب توجہ مبذول کرے اور یہ کہ ان پر بہت زیادہ توجہ اور نگہبانی کی ضرورت پیش آتی ہے۔”
دورِ جاہلیت میں لڑکیوں کی حالت زار
بیٹیوں کے حق میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کا عظیم اعزاز و اکرام فرمایا اور اس کے برعکس ماقبل اسلام دور میں اس صنف نازک کے ساتھ بہت ہی بدترین سلوک روا رکھا جاتا تھاکہ وہ خواتین کو بہت ہی حقیر درجہ کا حامل سمجھتے اور انہیں اپنی دولت کا ایک حصہ شمار کرتے، اگر ان میں سے کسی کو لڑکی کی ولادت کی خبر دی جاتی تو گویا ان پر کوئی بجلی گر پڑی ہو، اللہ تعالیٰ نے اس منظر کی عکاسی کرتے ہوئے فرمایا:
“وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ٥٨﴾ يَتَوَارَىٰ مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ ۚ أَيُمْسِكُهُ عَلَىٰ هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ ۗ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿٥٩﴾”
ترجمہ”ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہره سیاه ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے (58) اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لئے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آه! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟ (59)”
خود اس کا گناہ رہیگا اور اس کی پیروی کرنے والے دیگر افراد کا بھی گناہ اسی کے سر ہوگا۔ ماقبل اسلام عہد میں اپنی بیٹی کو قتل کرنے والے ایک صحابی رسول ﷺ نے نبی کریم ﷺ کے روبرو اس واقعہ کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
” ماقبل اسلام عہد میں ہم مورتی پوجا کرتے اور اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جو اس عمر کو پہنچ چکی تھی کہ بات کو سمجھ سکے اور بات چیت کرسکے اور اس کا معمول تھا کہ جب کبھی وہ مجھے دیکھتی تو خوشی و مسرت سے جھوم اٹھتی اور میری بات کا فوری جواب دیتی۔ ایک روز میں نے اس کو بلایا اور میرے ساتھ چلنے کو کہا، تو وہ میرے ساتھ چل پڑی یہانتک کہ ہم ایک ایسے کنویں کے پاس پہنچ گئے جو میرے قبیلہ ہی کی ملکیت تھی۔میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کنویں میں اس کو پھینک دیا اور سب سے آخری بات جو میں نے اس کی چیخ میں سنی وہ “اے میرے ابو! اے میرے ابو! تھی۔ (الدارمی)
ماقبل اسلام عہد میں لوگ اپنی بیٹیوں کو دو طرح سے قتل کر دیتے تھے:
لڑکی کی ولادت کے موقع پر شوہر اپنی بیوی کو اس بات کا حکم دیتا کہ وہ میدان میں کھودے گئے ایک گڈھے سے متصل مقام پر ژجگی کا عمل مکمل کرے، اگر نومولود لڑکا ہوتا تو وہ اس کو گھر لے آتی، ورنہ لڑکی کی پیدائش کی صورت میں اس کھودے گئے گڑھے میں اس کو پھینک دیا جاتا اور اس میں زندہ درگور کردیا جاتا۔
جب بیٹی کی عمرچھ سال کو پہنچ جاتی تو شوہر اپنی بیوی سے کہتا کہ وہ بیٹی کا بناؤ سنگار اور اس کو خوشبو میں معطر کردے، پھر وہ اس کو ریگستان میں واقع کسی کنویں کے پاس لے جاتا اور اس سے کہتا کہ وہ اس کنویں میں جھانک کر دیکھے اور جب وہ ایسا کرتی تو پشت سے ڈھکیل دیتا۔تاہم اس دور میں صعصعہ بن ناجیہ التمیمی جیسے کچھ ایسے بھی لوگ تھے جو اس طرح کے کاموں سے گریز کرتے اور دوسروں کو بھی منع کرتےاور بیٹیوں کو قتل کا ارادہ رکھنے والوں کو ان کی جان کے عوض کچھ رقم دے دیتے۔
آج بھی ماقبل اسلام عہد کے کچھ لوگ پائے جاتے ہیں جو اس طرح کے جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں کہ اگر انہیں لڑکی تولد ہوتی ہے جو یقینا اللہ تعالیٰ ہی کی جانب سے عطا کردہ نعمت ہے تو ان کے چہروں کا رنگ بدل جاتا ہے اور وہ بے چین و بے قرار ہوجاتے ہیں اور ان کے دل رنج و غم میں ڈوب جاتے ہیں۔
آمد اسلام کے بعد بیٹیوں کی حالت
اسلام کی آمد کے ساتھ ہی اس دور کی تاریکیوں اور ظلمتوں کا خاتمہ ہوگیا اور اللہ عز وجل نے لڑکیوں کے تئیں شفقت، محبت اور لطف و کرم اپنانے کی تاکید فرمادی۔ لڑکیوں پر بہترین توجہ دینے اور ان کی عمدہ نگہبانی کرنے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی گئی جیسے ان کی تعلیم و تربیت کے مراحل میں خصوصی توجہ دی جائے۔ دراصل اسلام نے لڑکیوں کی نشوو نما اور ان کی تعلیم و تربیت کرنے والوں کے لئے کچھ ایسے خصوصی انعام و اکرام مقرر کررکھے ہیں جو لڑکوں کی پرورش و پرداخت کے ضمن میں نہیں ہیں۔جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے:
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جس کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں ” انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے”صحیح مسلم :
ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ “جمیلہ نامی ایک خاتون میرے پاس آئی۔ اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں ، وہ مجھ سے کچھ مانگنے کے لئے آئی تھی۔ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ نہیں تھا وہی میں نے اس کو دے دی۔ میں نے دیکھا کہ اس نے کھجور کو ان دونوں بچیوں میں تقسیم کردیا اور خود کچھ نہیں کھایا۔ اس خاتون کے چلے جانے کے بعد کچھ دیر بعد رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کا سارا حال سنایا کہ باوجود بھوکی رہنے کے اس نے بچیوں کو ترجیح دی” یہ سن کر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”جو شخص لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے یعنی اس کے یہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرے ، انہیں بوجھ نہ سمجھے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی” (مشکوۃ شریف)
صحیح بخاری اور مسلم کی ایک اور روایت میں اسی طرح کا واقعہ موجود ہے ، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ “میرے پاس ایک غریب خاتون اپنی دو بچیوں کے ہمراہ آئی۔ میں نے اس کو تین کھجور دیئے، اس نے اپنی دو بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دے دیئے اور تیسرا کھانا ہی چاہتی تھی کہ ایک بیٹی نے وہ کھجور بھی اس سے مانگ لیا اور ماں نے اس کھجور کے دو حصے کرتے ہوے دونوں میں برابر بانٹ دیئے اور خود کچھ نہ کھایا اور مجھے اس کا یہ عمل بہت پسند آیا۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی آمد ہوئی تو میں نے آپ سے اس خاتون کے عمل کا ذکر کیا اور آپ ﷺ نے فرمایا”اس ایک کھجور کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس خاتون کے لئے جنت واجب کردی اور اس کو جہنم سے نجات دے دی۔” . سنن ترمذی ، کتاب: نیکی اور صلہ رحمی ، باب : لڑکیوں اور بہنوں کی پرورش کی فضیلت کا بیان، حدیث نمبر: 1915، شیخ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا، التعلیق الرغیب (3 / 83)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جس شخص کے یہاں بچی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر زندہ درگور نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر و ذلیل سمجھا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا”(ابوداؤد)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جو لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ لڑکیاں ان کے لئے جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی” (مسلم)
ذرا رسول اللہ ﷺ کے ان الفاظ پر غور کیجئے کہ کیوں آپ نے “آزمائے جانے ” کا لفظ استعمال فرمایا؟ اس کی وجہ یہ ہےکہ لڑکیوں کی پرورش و پرداخت ایک بہت اہم ذمہ داری ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک امتحان و آزمائش کی حیثیت رکھتی ہےکہ کس طرح اس کا بندہ اس ذمہ داری کو نبھاتا ہے، آیا وہ ان کے ساتھ شفقت و محبت اور الفت کا برتاؤ رکھے گا؟ کیا وہ ان کی صحیح تربیت کا نظم کرے گا؟
اس ذمہ داری کے تئیں دیگر روایات میں مزید وضاحت کی گئی ہے جیسے:
نیز آپ کا فرمان “وہ صبر و تحمل کے ساتھ ان کی غذا کا انتظام کرے انہیں کپڑے پہنائے” (سنن ابن ماجہ)
“ان کی ضروریات کو فراہم کرے اور ان کا نکاح کردے” (الترمذی)
“مناسب انداز میں ان کی پرورش و پرداخت کرے اور اس طریقہ کار کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو وہ ان کے ساتھ اختیار کررہا ہے” (الترمذی)
بیٹیوں کے ساتھ معاملہ کرنے میں شفقت و محبت کی ضرورت پیش آتی ہے اور اسی کے نتیجہ میں جنت کا حصول آسان ہوجاتا ہے جیسا کہ محمد ﷺ نے فرمایا”
“جس کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے تئیں محبت و شفقت کا رویہ اپنائے تو یہ لڑکیاں اس کو جنت میں لے جانے کا باعث ہوں گی”
ایک اور روایت میں حضرت ابو سعدی خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جس نے 3 لڑکیوں کی پرورش کی ، ان کی اچھی تربیت کی ، ان سے حسن سلوک کیا پھر ان کا نکاح کردیا تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی” (ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی اس پر بارش کرے اور تعلیم و تربیت اور حسنِ ادب سے بہرہ ور کرے تو میں خود ایسے شخص کے لئے جہنم کی آڑ بن جاؤں گا” (بخاری)
علماء کی آراء
ایک بیٹی، اللہ عزوجل کی جانب سے عطاکردہ ایک بہت بڑی نعمت اور بہت عظیم اعزاز ہے، امام حسن رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“لڑکیاں، اللہ عزوجل کی جانب سے نوازشوں کے نزول کا ایک بڑا ذریعہ ہوتی ہیں اور لڑکےقیامت کے دن کسی بھی شخص کے حق میں انعام و اکرام کا باعث ہوتے ہیں جس دن یہ لڑکیاں اور لڑکے ایصال ثواب اور عظیم اجر وثواب کی شکل میں سامنے آئیں گے۔
اس طرح یہ عقیدہ رکھنا غلط ہے کہ اگر کسی کو لڑکی تولد ہو تو گویا اس کی اس میں اہانت اور ذلت و خواری کا معنی پایا جاتا ہوجبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسی میں اس کی عزت و اکرام ہے اور یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہے جس کے ذریعہ جنت کے دروازے کھولے جاسکتے ہیں۔ پرورش و پرداخت کے اعتبار سے بیٹیوں کی ذمہ داری بہت بھاری نوعیت کی حامل ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لڑکوں کے بالمقابل لڑکیوں کی پرورش ،بہترین تعلیم و تربیت اور ان کے نکاح کی ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی سبکدوش ہونے کا اجر و ثواب عظیم تر مقرر کیا گیا ہے۔
کسی موقع پر ایک مسلم قائدو امیر لوگوں کے استقبال میں مصروف تھے کہ ان کی کمسن لڑکی آئی تو انہوں نے اس کو اٹھا کر اس کو پیار کیا، حاضرین میں سے ایک بدو نے یہ منظر دیکھ کر بیٹیوں کا بہت ہی برے انداز میں ذکر کیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں