337

برطانوی عوام میں پٹرول کے بعد فوڈ سپلائی رکنے کا بے بنیاد خوف

مشتاق مشرقی

آفس فار نیشنل سٹیٹسکس کے حالیہ سروے کے مطابق برطانوی آبادی کے 17% بالغ افراد اکتوبر میں شاپنگ مارکیٹس سے اپنی پسندیدہ اشیائے ضروری تلاش کرنے میں ناکام رھے۔ آجکل سپر مارکیٹس کے شیلف کھلونوں اور کرسمس پارٹیوں کے ڈرنکس اور کھانے والی اشیا سے بھرے پڑے ھیں لیکن وہ چیز آپ کو نظر نہیں آتی جو آپ خریدنے کے لئے جاتے ھیں۔ بہت لوگوں کو دیکھا گیا ھے کہ وہ ٹائلٹ پیپرز کے سیکڑوں رولز ٹرالیوں میں ڈال کر لے جاتے ھیں یہ وہ لوگ ھیں جنہوں نے پچھلے سال لاک ڈاون میں ضرورت سے زیادہ چیزیں خرید کر اپنے سینکڑوں پونڈز ضائع کئے تھے۔ کووڈ نائینٹین کی وجہ سے لوگ غیر یقینی صورتحال کا شکار ھو گئے ھیں اب جبکہ پٹرول کے بحران کا حساب کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا ھو چکا ھے اس لئے کانپیرسی تھیوریسٹس فوڈ کی قلت کا مصنوعی بحران پیدا کرنے کی کوشش کر رھے ھیں۔
برطانیہ کے طول و عرض میں ستمبر کے آخری ہفتے میں پٹرول پمپوں پر کار ڈرائیوروں کی لمبی قطاریں دیکھ کر مجھے 1974 آئل بحران یاد آ گیا جس کی وجہ سے عالمی معیشت کا پہیہ جام ھو گیا تھا اور دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں لوگ کساد بازاری اور بے روزگاری نے لوگوں میں مایوسی اور نا امیدی کی لہر دوڑا دی تھی۔1973 میں عرب اسرائیل جنگ کے خاتمے کے بعد تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم OPEC نے نہ صرف آئل پروڈکشن کم کر دی تھی بلکہ تیل کی ایکسپورٹ پر بھی امبارگو لگا دیا تھا جس کا ڈائریکٹ نتیجہ یہ نکلا کہ ترقی یافتہ ممالک میں فیکٹریاں اور کارخانے بند ھو گئے تھے۔ اس زمانے میں بھی لوگ پٹرول پمپوں پر لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کرتے اور ایک دوسرے سے الجھتے تھے۔ ستمبر کے مہینے میں پٹرول سٹیشنوں پر جو کمی دیکھنے میں آئی تھی وہ دراصل پٹرول کی قلت سے پیدا نہیں ھوئی تھی بلکہ اس وقتی بحران کی وجہ HGV ڈرائیوروں کی کمی تھی۔ جب سے برطانیہ بریگزٹ معاھدے پر عمدرآمد شروع کیا ھے اس کے بعد سے دس ھزار سے زائد یورپی ٹرک ڈرائیورز برطانیہ چھوڑ کر اپنے ملکوں میں چلے گئے ھیں ان ٹرک ڈرائیوروں کو برطانیہ میں کام کرکے اتنی انکم نہیں ھوتی جتنی یورپی ڈرائیورز اپنے ملکوں میں حاصل کرتے ھیں

روڈ ہالیج ایسوسی ایشن کے مطابق برطانیہ کے ساڑھے تین لاکھ ٹرک ڈرائیوروں کی اوسط عمر پچاس برس ھے جن میں سے ایک تہائی ڈرائورز آئندہ دس برسوں میں ریٹائر ھو جائیں گے لیکن سب بڑی فکر کی بات یہ ھے کہ نوجوان ٹرک ڈرائیونگ کے پیشے کو اپنانے کے شوقین نہیں جس کی وجہ سے ھزاروں جابز آسامیاں خالی پڑی رھتی ھیں حکومت برطانیہ نے یورپین ڈرائیورز کے لئے فوری طور پر پانچ ھزار ورک پرمٹ جاری کئے ھیں لیکن گزشتہ ایک ماہ کے دوران یورپ سے صرف ستائیس افراد نے ٹرک ڈرائیور کی جاب کے لئے اپلائی کیا ھے۔ یوکے میں اس وقت تقریبا ایک لاکھ ٹرک ڈرائیورز کی کمی ھے جس کو پورا کرنا مشکل دکھائی دے رہا ھے۔ چیرمین آف پیٹرول ری ٹیلرز ایسوسی ایشن برائن مینڈلسن کے مطابق لندن اور نواحی علاقوں سد فیصد پیٹرول پمپوں پر پیٹرول دستیاب نہیں۔ اس صورتحال سے ٹیکسی ڈرائیورز اور ڈلیوری کمپنیاں گہری تشویش میں مبتلا ھیں۔ پیٹرول کی قیتیں ستمبر 2013 کے لیول تک جا پہنچی ھیں اور ڈیزل کی قیمت 140.66 پر لیٹر تک چلی گئی ھیں جبکہ پیٹرول کی اوسط پرائس 137.17 تک ھے۔
ٹرک ڈرائیوروں کی کمی تو ھر یورپی ملک میں ھے لیکن برطانیہ نے چونکہ بریگزٹ کے بعد اپنے ٹیکس اور امیگریشن رولز کو سخت کر دیا ھے اس لئے جس طرح پہلے ای یو کے شہری آزادانہ آ جا سکتے تھے وہ فری موومینٹ رک گئی ھے اس رکاوٹ کا اثر ایمپلائمنیٹ کی فیلڈ میں بھی ھو رہا ھے۔ کووڈ نائینٹین کی وجہ سے بھی لوگوں کو دوسرے ملک میں سفر کرنے کے لئے سخت ترین ھیلتھ چیکس سے گزرنا پڑتا رہا جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے بیرون ملک سفر کا ارادہ ھی ترک کر دیا تھا۔ لاک ڈاونز کی وجہ سے برطانیہ میں ڈرائیونگ سنٹرز بند ھو گئے تھے جس کی وجہ سے نئے ڈرائیورز کے ٹیسٹ نہ کئے جا سکے اور گزشتہ سال تقریبا 25 ھزار کم لوگوں نے ٹرک ڈرائیورز کے ٹیسٹ پاس کئے تھے۔
ابھی تک کئی لوگ سمجھنے سے قاصر ھیں کہ برطانیہ میں ظاھری طور پر نہ تو انرجی کا کوئی بحران تھا اور نہ ھی پٹرول کے سٹاکس حادثے سے ختم ھوئے تھے۔ 23-24 ستمبر کو BP آئل کمپنی نے اعلان کیا تھا کہ HGV ٹرک ڈرائیورز کی کمی کے باعث کمپنی اپنے کئی پٹرول سٹیشنز تک تیل سپلائی نہیں کر سکی جس کی وجہ سے ان علاقوں میں فیول کی سپلائی متاثر ھو ہی ھے اسی طرح Esso آئل کمپنی نے بھی اپنے بلیٹن میں کہا کہ ھم نے ٹیسکو کمپنی کو ڈیمانڈ سے کم پٹرول سپلائی کر سکے ھیں۔ ان دو بڑی آئل کمپنیز نے جب یہ بات کی ھم آئل سپلائی نہیں کر سکے تو عام پبلک نے اس کا مطلب یہ نکالا کہ ان بڑی آئل کمپنیوں کو تیل سپلائی کرنے میں مشکلات پیش آرھی ھیں۔ یہ بات تو ایک لحاز سے درست تھی کہ آئل سپلائیز پٹرول سٹیشنز تک پہنچانے میں مشکلات پیش آ رھی ھیں لیکن اس میں جو بات سب سے اھم تھی اس کی وضاحت ضروری نہ سمجھی گئی کہ سپلائی نہ ھونے کی وجہ تیل کی قلت نہیں تھی بلکہ تیل لے جانے والے ٹرک ڈرائیوروں کی کمی تھی جن کے ھونے سے تیل پٹرول سٹیشنز تک نہیں پہنچ پایا تھا اور لوگوں گھبرا کر پٹرول کی زخیرہ اندوزی شروع کردی جس سے سینکڑوں پٹرول پمپوں سے پٹرول غائب ھو گیا حالانکہ برطانیہ میں ضرورت سے زیادہ تیل کے سٹاکس موجود ھیں۔
ماھرین معیشت نے انتباہ کیا ھے کہ ورلڈ اکانومی کے Supply Chain میں رکاوٹ کے تباہ کن نتائج برآمد ھو سکتے ھیں۔ دنیا میں اس وقت کمپیوٹر چپ کی کمی کے ساتھ بڑی بڑی بندرگاھوں پر جہازوں سے سامان آف لوڈ کرنے اور اس سامان کو کنٹینروں میں سٹور کرنے میں مشکلات پیش آرھی ھیں۔ کئی انڈسٹریلائزڈ ممالک میں بندرگاھوں پر جگہ کم ھونے کی وجہ سے سامان سے لدے ھوئے سینکڑوں جہاز سمندر کے اندر ھی کھڑے ھیں۔ اس صورتحال سے دنیا میں مینوفیکچرنگ اور فیکٹریاں بند ھونے کا خدشہ ظاھر کیا جارہا ھے جو سامان بندرگاھوں سے آف لوڈ ھو رہا ھے اس لے جانے کے لئے ٹرک ڈرائیور ھی موجود نہیں۔ اقتصادی ماھرین کا کہنا ھے کہ یہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار رھی تو پینڈمک کے بعد ریکوری کے اندازے الٹے پڑ سکتے ھیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں