تحریر: محمد نواز کھرل
آہ ۔۔۔ المصطفیٰ آئی ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر محمد شریف ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے ۔۔۔ وہ 14 مارچ کی صبح بھرا میلہ چھوڑ کر وہاں چلے گئے جہاں ہم سب کو جانا ہے ۔ جب کوچ نقارہ بج اٹھتا ہے تو جانے والا اپنے پیاروں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی طرف دیکھتا ہے نہ اپنے چاہنے والوں کی اشک بار آنکھوں کی طرف ۔۔۔ ایک نہ ایک دن ہم سب کو اس رنگوں بھری دنیا سے رخصت ہو جانا ہے ۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کا نام موت ہے ۔ جو پیدائش کے لمحہ اول سے انسانوں کے ساتھ چلتی ہے اور کسی دن اچانک انگلی پکڑ کر دور کی وادیوں کو نکل جاتی ہے ۔ جہاں سے لوٹ کر کوئی نہیں آتا ، صرف ان کی یادیں آتی ہیں ۔
پیارے دوستو !
زندگی بھر تنی رسی پر چلنے والے محتاط اور مطمئن ، شفیق اور خلیق ڈاکٹر محمد شریف چلے گئے لیکن ان کی یادیں ہمارے دلوں میں ہمیشہ مہکتی رہیں گی ۔ وہ سرخ گلابوں کے طشت کی طرح المصطفے آئی ہسپتال کے ماحول میں چار سو دمکتے اور مہکتے رہیں گے ۔ ان کی قبر کے سرہانے کوئی چراغ جلے یا نہ جلے ، ہم جیسے ان کے کولیگز کے دلوں کے کسی نہ کسی طاق میں وہ شمع بن کر جگمگاتے رہیں گے ۔ المصطفیٰ آئی ہسپتال کے در و دیوار انھیں کبھی نہیں بھولیں گے ۔ ان کی کمی قدم قدم پر محسوس ہوتی رہے گی ۔ وہ پچھلے ایک سال سے المصطفیٰ آئی ہسپتال لاہور میں ایم ایس کے اہم منصب پر فائز تھے ۔ گزرے سال کا زیادہ وقت اسی درویش صفت انسان اور سادگی و سچائی کے پیکر کی رفاقتوں ، سنگتوں ، مجلسوں اور باتوں کی مہکتی چھاوں میں گزرا ۔۔ زندگی بھر قناعت ، درویشی ، سادگی اور استغنا کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھنے والے سیلف میڈ ڈاکٹر محمد شریف کو معاشرتی چکا چوند سے ذرا سی دلچسپی بھی نہیں تھی ، تصنع ، بناوٹ ، چمک دمک اور لشکارا انھیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا ۔ وہ ہر تکلف اور نمائش سے آذاد ، حال مست بزرگ تھے ۔ وہ اپنی حدوں کے اندر سمٹی سمٹائی لیکن پروقار اور شاندار زندگی گزارنے والے قلندرانہ اور من موجی مزاج کے کھلے ڈھلے انسان تھے ۔ ان کی شخصیت کا کھلا ڈھلا پن دوستانہ سی بے تکلفی پیدا کر دیتا تھا ۔ وہ زاہد خشک نہیں تھے ، ان کے قریب بیٹھ کر ان کی شخصیت کا مشفقانہ جمال نہال کر دیتا تھا ۔ اجلی ، شفاف اور بےداغ شخصیت کے مالک ڈاکٹر محمد شریف جناح ہسپتال لاہور ، لیڈی ویلنگٹن ہسپتال اور اتفاق ہسپتال جیسے بڑے ہسپتالوں کے ایم ایس رہے لیکن ان کی ذات الزامات اور تنازعات سے پاک رہی ۔ وہ طمانیت کے اس احساس کے ساتھ اس مفاد پرستیوں سے اٹی دنیا سے رخصت ہوئے کہ ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں ، دامن پر کوئی داغ نہیں ۔ مرد پاکباز ڈاکٹر محمد شریف کی شخصیت کا نمایاں پہلو ان کا دینی ذوق و شوق تھا ۔ وہ ایک پختہ نظریاتی انسان تھے ۔ قرآن کے ساتھ ان کی والہانہ وابستگی مثالی تھی ۔ ان کا ایمان صورت فولاد پختہ تھا ۔ پیغمبر اسلام پیارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ان کا عشق ان کی ہر ہر بات میں جھلکتا تھا ۔ مدینے کی گلیاں ان کے دل ، دماغ اور روح میں موتیے کی کلیاں بن کر مہکتی رہتی تھیں ۔ صحابہ کرام ، اہل بیت اطہار ، اولیاء کرام اور سلف صالحین کا معطر تذکرہ ان کی زبان پہ ہر وقت سجا رہتا ۔ اسی نور سے ان کے من کی دنیا آباد تھی اور اسی نور سے ان کی قبر منور ہو گی۔ بلاشبہ ان کی جبیں اس سجدے سے آشنا تھی جو ہزار سجدوں سے نجات دلا دیتا ہے ۔ انھیں نہ رعب ڈالنے کی لت ، نہ مرعوب ہونے کا عارضہ ۔ شرافت و نجابت کے پیکر ڈاکٹر محمد شریف نے نومبر 2020 میں قائم ہونے والے’’ المصطفیٰ آئی ہسپتال ‘‘کے پہلے ایم ایس کی حیثیت سے اخلاص ، نیک نیتی اور صادق جذبے کے ساتھ شاندار اور یادگار خدمات سرانجام دیں اور اس علاج گاہ کو مفلوک الحال خاک نشینوں کے لئے پناہ گاہ بنانے کے لئے انتھک محنت کی ۔ المصطفیٰ آئی ہسپتال کا سارا سٹاف ان کی شفقتوں کا گھائل اور قائل تھا ۔ ان کی نگرانی میں پرچی سے آپریشن تک مفت سہولیات فراہم کرتے المصطفیٰ آئی ہسپتال میں صرف ایک سال اور تین ماہ کے مختصر عرصہ میں کرونا کی سنگین صورت حال کے باوجود چار ہزار سے زائد مستحق بندگان خدا کی آنکھوں کے مفت اور معیاری آپریشن کر کے ان کی بینائی پھر سے بحال کی گئی ۔ ہسپتال فنگشنل ہونے کے بعد کچھ ماہ ہفتہ میں صرف بدھ کا ایک دن آپریشن کے لئے مخصوص تھا ۔ لیکن چند ہی مہینوں میں مریضوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر بدھ کے ساتھ ساتھ جمعہ کے دن بھی آپریشن کئے جانے لگے جبکہ ڈاکٹر محمد شریف کی زندگی کے آخری ایام میں ہر ہفتے مسلسل تین دن سفید موتیا کے آپریشن کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یومیہ او پی ڈی کی تعداد بڑھتے بڑھتے تین سو تک پہنچ گئی ۔ ان تمام جگمگاتی کامیابیوں کے پیچھے فرض شناس ڈاکٹر محمد شریف اور ان کی مخلص ٹیم کی محنت ، جذبہ ، خلوص اور لگن کار فرما تھی ۔ وہ المصطفیٰ آئی ہسپتال کو وسعت و توسیع دینے کے لئے عزائم کا جہان تازہ اپنے دل میں رکھتے تھے ۔ ہسپتال کے مزید دو فلوز کی تعمیر پر بہت خوش تھے اور مستقبل میں بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن افسوس کہ ظالم وقت نے طنابیں کھینچ لیں ۔ پرانے وقتوں کی اجلی روایات میں گندھے ڈاکٹر محمد شریف ہر روز بلاناغہ صبح ٹھیک نو بجے ہسپتال میں اپنی مخصوص کرسی پر مسکراتے چہرے کے ساتھ موجود ہوتے اور شام چار بجے تک دفتر میں فروکش رہتے ۔ اب ان کی خالی کرسی دیکھ کر دل گہری اداسی میں ڈوب جاتا ہے ۔۔ فرض شناسی کی قندیل ان کے اندر ہمہ وقت روشن رہتی ۔ وہ ہسپتال پہنچتے ہی سب سے پہلے سارے سٹاف کو ساتھ بٹھا کر مرشد کریم حضرت پیر سید ریاض حسین شاہ جی قبلہ کے ترجمہ قرآن کی مدد سے درس قرآن دیتے ، درس قرآن کے دوران مفاہیم قرآن بیان کرتے ہوئے ان کی کیفیت دیدنی ہوتی ۔ پچھلے ایک سال اور چند ماہ کے ان دروس میں بیس پارے مکمل کئے گئے ۔ ہر آپریشن ڈے کے موقع پر ڈاکٹر محمد شریف رات نو بجے تک ہسپتال میں ڈٹ کر اور جم کر بیٹھتے اور ہر ہر کام کی خود نگرانی کرتے اور مسلسل انٹرکام پر ساری ٹیم اور او ٹی سٹاف کے ساتھ رابطے میں رہتے ۔ آپریشن لسٹ ختم ہونے کے بعد ہسپتال کے ایچ او ڈی اور سرجن صوفی مزاج پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری آپریشن تھیٹر سے باہر آتے تو ڈاکٹر محمد شریف ان کی دلداری کے لئے سامنے کھڑے ہوتے ۔ مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا اور پھر ہسپتال کے ایگزیکٹو آفس میں روحانی محفل سج جاتی ۔ ڈاکٹر محمد شریف اس وجدانی محفل کے روح رواں ہوتے ۔ محفل کے شروع میں نہایت ذوق و شوق کے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر ناصر چوہدری کے عظیم شیخ طریقت حضرت پیر ڈاکٹر فرخ حفیظ کا آڈیو لیکچر سن کر سماعتوں کو معطر کیا جاتا اور لیکچر ختم ہونے پر ڈاکٹر محمد شریف اس علمی ، فکری اور اصلاحی لیکچر کی مزید تشریح کرتے ، اہم نکات کو دہراتے اور ہم جیسے ہم نشینوں کے من میں روشنی بھر دیتے ۔ ان کی تشریحات سن کر محفل میں شریک ہر شخص اپنے باطن کی لو کو تیز ہوتے محسوس کرتا ، محفل کے دوران اکٹھے کھانا کھایا جاتا ۔ اسی مستقل معمول کے تسلسل میں جمعہ 11 مارچ کو پچاس آپریشن مکمل ہونے کے بعد شام سات بجے حسب معمول پھر سے محفل سجی ، ڈاکٹر محمد شریف ہمیشہ کی طرح محفل کے دولہا بنے چہکتے اور مہکتے رہے اور سارا ماحول خوشبووں سے مہکتا رہا ، اکٹھے ڈنر کیا ، ہسپتال کے مستقبل کے منصوبوں پر مشاورت ہوئی ، گپ شپ کے کئی دور چلے ، ہلکا پھلکا ہنسی مذاق بھی چلتا رہا ، ڈاکٹر محمد شریف خوش گفتاری اور خوش کلامی کا جادو جگاتے رہے اور ہم سر دھنتے رہے ۔ ساڑھے نو بجے شب یہ بیٹھک ختم ہوئی اور ہم ایک دوسرے سے الوداعی مصافحوں اور معانقوں کے بعد اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔ یہ مجلس ڈاکٹر محمد شریف کے ساتھ آخری ملاقات ثابت ہوئی ، گھر پہنچ کر وہ نماز اور تلاوت قرآن کے بعد سو گئے ، رات تین بجے اچانک ان کی طبیعت بگڑنے پر انھیں جناح ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ دو دن آئی سی یو میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ہم سب کو روتا بلکتا چھوڑ کر اس جہان رنگ و بو سے ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گئے ۔ انھوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یوں اچانک چلے جانے سے ان سے محبت کرنے والے ان کے پیاروں کے دل کتنے ویران اور خالی خالی ہو جائیں گے ۔
دوستو !
خوشاب شہر میں جناب محمد لطیف کے گھر یکم اپریل 1958 کو پیدا ہونے والے ۔۔۔ 83 میں نشتر میڈیکل کالج ملتان سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر 63 برس انسانوں کی بستیوں میں اجالے بونے ، شفا بانٹنے اور روشنیاں تقسیم کرنے والے ۔۔۔ پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے باپ ڈاکٹر محمد شریف کی نماز جنازہ کے لئے ان کے آبائی شہر کے معروف روحانی مرکز دربار بادشاہاں میں 14 مارچ کی اداس شام صفیں آراستہ ہوئیں تو تاحد نظر لوگوں کا ہجوم دکھائی دیا ۔ لوگوں کی آنکھوں سے ٹپکتے آنسو بتا رہے تھے کہ جانے والا انھیں کتنا عزیز تھا ۔ ڈاکٹر محمد شریف نہیں رہے ، ہم نے بھی نہیں رہنا ۔ موت کو ہر وقت یاد رکھو ، کسی وقت بھی زندگی کا چراغ بجھ سکتا ہے ۔ نفرتوں اور عداوتوں کو محبتوں میں بدل لیں ۔۔۔ احسان دانش نے کہا تھا
قبر کے چوکھٹے خالی ہیں انھیں مت بھولو
جانے کب کون سی تصویر لگا دی جائے
لیکن ہم قبر کے چوکھٹوں کو بھولے رہتے ہیں ۔ دنیا کے لوبھ لالچ اور دنیاداری کے دھندوں میں اس طرح الجھ کر رہ جاتے ہیں کہ کسی دوسرے جہان کا تصور بھی باقی نہیں رہتا ۔ یہاں تک کہ کوچ کا نقارہ بج اٹھتا ہے اور سب ٹھاٹھ باٹھ یہیں پڑا رہ جاتا ہے ۔۔۔
لوگو ! جان لو کہ روئے زمین پر ہر چیز فانی ہے ۔ باقی رہے نام اللہ کا
دعا ہے اللہ کریم ڈاکٹر محمد شریف کی روح کو آسودگی بخشے ، ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور انھیں اپنے حلقہ خاصاں میں جگہ دے ۔۔۔
لے او یار حوالے رب دے تے میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہوسی جس دن فر ملاں گے