185

اڑھائی سو سال پہلے کے بنگال کی تاریخ پاکستان میں دہرائی جارہی ہے ؟


میر پور خاص میں ایسا خاص کیا ہو گیا ہے کہ یہ ہمارے لیے خاصی تشویش کا باعث ہے ؟بظاہر سستے آٹے کے حصول کے لیے جو لوگ اکٹھے ہوئے وہ اس آٹے سے کہیں زیادہ تھے جو سرکار تقسیم کرنا چاہتی تھی ۔ لوگوں کو لگا کہ انہیں سستا آٹا نہیں مل سکے گا جس پر بھگ دڑ مچ گئی اور پھر کچھ پتہ نہیں چل سکا کہ کون کس کے نیچے آگیا ہے کیونکہ گھروں میں بھوک تھی اور نظریں سستے آٹے پر ،بس پھر کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ کس کی بھوک کسے کھا گئی ۔ہجوم آگے نکلا تو پیچھے ایک انسان زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا ۔
ہم آپ کو آج کے سندھ سے اڑھائی سو سال پہلے کے بنگال میں لے جاتے ہیں جب 1770ء میں اتنا خوفناک قحط آیا کہ بنگال کی ایک تہائی آبادی یعنی ایک کروڑ افراد لقمۂ اجل بن گئے ۔ قحط دو سال میں ختم ہو گیا مگر کھیتوں میں ہل چلانے والے نہ بچے ۔ بہار اور اڑیسہ میں لوگ درختوں کے پتے کھاتے کھاتے مر گئے ۔ باری علیگ اپنی معروف کتاب ” کمپنی کی حکومت ” میں لکھتے ہیں کہ کسانوں نے اپنے مویشی اور ہل بیچ دیئے ۔انھوں نے اپنے بچوں کو فروخت کر دیا۔جب بچے خریدنے والا کوئی نہیں رہا تو وہ درختوں کے پتے کھانے لگے ۔جون 1970ء میں انگریز ریذیڈنٹ نے تسلیم کیا کہ زندوں نے مردے کھانے شروع کر دیئے ہیں ۔بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے کسانوں نے اپنے گھروں کو چھوڑ دیا ،وہ شہروں کی جانب چل دیئے ،صرف مرنے کے لیے ! بنگال کے سرسبز گاؤ ں ایک سال کے اندر ویرانوں میں بدل گئے انسانوں کی صورت ڈھونڈنے سے بھی دکھائی نہیں دیتی تھی ۔ان سخت جانوں کے لیے جنہیں قحط موت کے منہ تک نہ پہنچا سکا ،وباؤ ں نے گھیر لیا “۔دوسری جانب ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندوں کو ا س بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کتنے انسان مرتے ہیں انہیں اگر غرض تھی تو ا س بات سے کہ کمپنی کے اکاؤنٹ میں کتنی رقم پہنچتی ہے ۔ ایک طرف بنگال کا ہر تیسرا شخص موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا تھا تو دوسری جانب کمپنی کے محاصل میں دس فیصد کا اضافہ کر دیا گیا تھا یہی وجہ ہے کہ آج کے تاریخ دان بنگال کے قحط میں مرنے والوں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے” ہولو کاسٹ ” جیسا سانحہ قرار دیتے ہیں ۔جس میں کمپنی انتظامیہ نے لوگوں کو جان بوجھ کر موت کے منہ میں جانے دیا ۔
آج کے پاکستان میں موجودہ حالات کے پیدا ہونے سے پہلے نظر ڈالتے ہیں عالمی ہنگر انڈیکس پر جس کے مطابق گزشتہ سال میں دنیا کے افلاس زدہ 121ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 99ہے ۔جنگ زدہ یمن اس فہرست میں آخری نمبر پر ہے ۔پاکستان کے آگے پیچھے روانڈا اور انگولا جیسے ممالک ہیں ۔اس رپورٹ کے مطابق پاکستان 2021ء میں دنیا کے ان دس ممالک میں نویں نمبر پر تھا جہاں ایک طرف خوراک کی شدید کمی ہے اور دوسری جانب پناہ گزینوں کا دباؤ ہے ۔ عالمی ادارہ خوراک کے مطابق پاکستان کی آبادی کا43 فیصد خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے جن میں سے 18 فیصد کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا ہے ۔
کیا پاکستان کوواقعی خوراک کی قلت کا سامنا ہے ؟
بنک دولت پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا میں گندم کی پیداوار میں آٹھویں ، چاول میں دسویں ، گنے میں پانچویں اور دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے ۔ وزارت ِ صحت اور عالمی ادارہ اطفال کے 2018ء کے ایک سروے کے مطابق 63.1 فیصد گھرانوں کو خوراک کی کمی کا مسئلہ نہیں ہے ۔دوسری جانب عالمی ادارہ خوراک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خوراک کی کمی کا مسئلہ خوراک کی دستیابی سے جڑا ہوا ہے لوگوں کی قوت ِ خرید میں مسلسل کمی انہیں غربت کی لکیرکے نیچے دھکیل رہی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی ضرورت کے مطابق خوراک خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ پاکستان کی نیشنل فوڈ سیکورٹی کی وزارت سے منسلک ایک اعلی ٰ عہدیدار نے شناخت خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستان میں خوراک کی کمی نہیں لیکن بدانتظامی کی وجہ سے ذخیرہ اندوزی کا رجحان ہے اس لیے بڑے بڑے سرمایہ دار اور حتیٰ کہ عام لوگ بھی اشیا ذخیرہ کر لیتے ہیں ۔ گندم کا حالیہ بحران بھی اس کی ایک مثال ہے ۔ دوسری بڑی وجہ اشیائے خوردونوش کی افغانستان سمگلنگ بھی ہے کیونکہ افغانستان کے پاس زرمبادلہ نہیں وہ باقی دنیا سے کچھ خرید نہیں سکتا تو ا س کے صارفین کا تمام تر بوجھ بھی پاکستان پر پڑ جاتا ہے ۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آبادکے شعبہ فوڈ نیوٹریشن اینڈ ہوم سائنسز کے ڈین ڈاکٹر مسعودصادق نے انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بھی اس تاثر کو رد کیا کہ پاکستان کو قحط جیسی صورتحال کا سامنا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ یہ بحران ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے جب ہم چھوٹے کسان کو کوئی مراعات نہیں دے رہے اور اس کے لیے فصل اگانا ناممکن ہو گیا ہے تو وہ اپنے بچوں کو شہر مزدوری کے لیے بھیج دے گا کیونکہ وہ مہنگی کھاد ، بجلی خریدنے کی سکت نہیں رکھتا ۔ ہمارے ملک میں 90 فیصد کسان وہ ہے جس کی زمین پانچ ایکڑ سے کم ہے ۔ بلکہ اب تو تقسیم در تقسیم ہو کر بات پانچ پانچ کنالوں تک پہنچ چکی ہے ۔آج سے کچھ عرصہ قبل دیہات کی آبادی 70 فیصد سے زیادہ تھی اب وہ کم ہو کر 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔ اب دیہات میں یہ تاثر ہے کہ زراعت نہیں نوکری کرنی ہے ۔جب فصلیں اگانے والے نہیں ہوں گے تو شہروں میں خوراک کی کمی ہو گی یا وہ مہنگی ہو گی ۔
فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ کیوں ہے ؟
اقوام ِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق فوڈ سیکورٹی کی اصطلاح وسیع البنیاد ہے جس کا عمومی مطلب یہ ہے کہ جب تمام لوگوں کو ہر وقت وافر ، محفوظ اور غزائیت سے بھرپور خوراک ان کی ضروریات کے مطابق میسر بھی ہو اور وہ اسے خریدنے کی استطاعت بھی رکھتے ہوں ۔ اب پاکستان میں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ خوراک تو موجود ہے مگر اس کی قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ گندم، چینی ، چاول اور گھی ان کی قوت ِ خرید سے باہر ہو گیا ہے ۔ جو گندم کسان سے 2200 روپے من خریدی گئی وہ اب مارکیٹ میں دوگنی یعنی 5000 روپے من پر بھی دستیاب نہیں ہے ۔ جب آپ کی کرنسی کی قیمت گرتی ہے تو ا س کا براہ راست اثر قیمتوں پر پڑتا ہے ۔ان حالات میں وہ طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے جس کی قوت ِ خرید پہلے ہی بہت سکڑ چکی ہے ۔پاکستان میں مہنگائی 24.5 فیصد بڑھی ہے جو 1970ء کے بعد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے جبکہ غیر سرکاری ذرائع اسے 40 فیصد بیان کر رہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے عام لوگوں کو اشیائے خوردو نوش خریدنے میں بہت مشکل کا سامنا ہے خوراک خریدنے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں
۔ اشیائے خوردونوش کی قلت کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب بھی ہے ۔عالمی بنک کے مطابق گزشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے پاکستا ن کی مجموعی قومی پیداوار میں 2.2 فیصد کمی ہو گی ۔جس کا مطلب ہے کہ مزید مہنگائی ہو گی اور مزید غربت بڑھے گی۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر ڈاکٹر ندیم الحق نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فوڈ سیکورٹی کوئی چیز نہیں جب آپ کی جیب میں پیسے ہوں گے تو کھانا ملے گا ۔ یعنی سرکار اگر لوگوں کو کاروبار اور روزگار کا ماحول دے گی تو لوگوں کی جیبوں میں پیسہ ہو گا اور اگر پیسہ نہیں ہو گا تو کھانا کہاں سے آئے گا ۔ انہوں نے کہا کہ سرکار گندم کی مارکیٹ پر کنٹرول رکھتی ہے پھر بھی گندم نہیں مل رہی اس کا مطلب ہے کہ سرکار کی یہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے ۔سرکار کو مارکیٹ کھلی چھوڑنی پڑے گی اور خود صرف مانیٹرنگ کرنی ہو گی ۔
بنگال کے قحط اور پاکستان کے خوراک کے حالیہ بحران میں مماثلت ؟
اڑھائی سو سال پہلے جو کام بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کر رہی تھی وہی آج سرکار کر رہی ہے۔ بنگال میں لوگ قحط سے مر رہے تھے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کسانوں پر عائد ٹیکسوں میں دس فیصد اضافہ کر رہی تھی ۔ لوگ بھوک سے مر رہے تھے مگر کمپنی کو صرف اپنا خزانہ بھرنے کی فکر تھی ۔ آج پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے ایک طرف کسان کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور سیلابوں نے تباہ کر رکھا ہے تو دوسری جانب سے سرکار اس کے لیے بجلی اور ڈیزل روز بروز اتنی مہنگا کر چکی ہے کہ اس کے لیے فصل اگانا ممکن ہی نہیں رہا ۔
گزشتہ دنوں کسان اتحاد کے نمائندوں نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ ا س بار گندم کا زیر کاشت رقبہ پچھلے سال سے 40 فیصد کم ہے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو ملکی ضرورت پوری کرنے لیے مزید گندم درآمد کرنی پڑے گی ۔ بجلی کے ساتھ کھاد اور بیج بھی مہنگا کر دیا گیا ہے ۔ پاکستان کی ضرورت 64 لاکھ ٹن ہے جبکہ پیداوار 68 لاکھ ٹن ہے پھر بھی کھاد بلیک میں فروخت ہو رہی ہے ۔ بدانتظامی سے فائدہ اٹھانے والے لوگ اپنے سرمائے کو دن دوگنا اور رات چوگنا کر رہے ہیں ۔ جو کام کل ایسٹ انڈیا کمپنی کر رہی تھی وہی کام آج یہ لوگ کر رہے ہیں ۔ سرکار کہتی ہے کہ ٹیکسز میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے کیا جا رہاہے ۔آئہ ایم ایف کا جب بھی کوئی نیا پلان آتا ہے سرکار اس کا تمام تر بوجھ نچے طبقے پر منتقل کر دیتی ہے امرا کی عیاشیاں اسی طرح برقرار رہتی ہیں ۔یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے سرکاری خزانے سے اشرافیہ کو سالانہ 17.4 ارب ڈالر کی مراعات مل رہی ہیں ۔ کوئی حکومت ان مراعات کو ختم نہیں کر رہی بلکہ ان کا تمام بوجھ غریب لوگوں پر ڈال رہی ہے ۔ اگر آج ہی یہ مراعات ختم ہو جائیں تو پاکستان میں مہنگائی نصف رہ جائے اور فوڈ سیکورٹی ختم نہیں تو کم ہو جائے
۔اگر اب بھی پاکستان کی ایلیٹ اپنی مراعات سے دستبردار نہیں ہوتی تو ورلڈ کنامک فورم کی گلوبل رسک رپورٹ 2023ء میں پاکستان کو خبردار کرتے ہوئے لکھا گیاہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی ،قرضوں ،تنازعات اور دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کا وجود اگلے 24 مہینوں میں بکھر سکتا ہے ۔ عامر جہانگیر جو مشال پاکستان کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیں انہوں نے ورلڈاکنامک فورم کی رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ بنیادی اشیائے ضرورت کی موجودگی اور انہیں خریدنے کی دسترس اگر نہیں ہو گی تو ا س کا براہ راست نتیجہ سیاسی اور سماجی عدم استحکام کی صورت میں نکلے گا۔یہ اب نوشتہ دیوار اس لیے بھی ہے کہ گزشتہ سال سیلاب کی وجہ سے آٹھ لاکھ ہیکٹر زرعی زمین تباہ ہو گئی جس کا نتیجہ خوراک کی مزید کمی اور ان کی قیمتوں میں اضافے کی صورت نکلے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو ایک وسیع البنیا دحکمت عملی اپنانا ہو گی جس میں پاکستان پر عالمی برادری کے اعتماد میں اضافہ ہو ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں