239

شوال کے چھ روزے اور ان کی اہمیت

ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے“ ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوایوب رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، اور اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ثوبان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
اس حدیث کو درج کرنے کے امام ترمذی فرماتے ہیں :
حدثنا هناد قال:‏‏‏‏ اخبرنا الحسين بن علي الجعفي عن إسرائيل ابي موسى عن الحسن البصري قال:‏‏‏‏ كان إذا ذكر عنده صيام ستة ايام من شوال فيقول:‏‏‏‏ والله لقد رضي الله بصيام هذا الشهر عن السنة كلها.
کہ جناب حسن بصری کے پاس جب شوال کے چھ دن کے روزوں کا ذکر کیا جاتا تو وہ کہتے: اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ اس ماہ کے روزوں سے پورے سال راضی ہے، ،،
زید لکھتے ہیں
وقد استحب قوم صيام ستة ايام من شوال بهذا الحديث قال ابن المبارك:‏‏‏‏ هو حسن هو مثل صيام ثلاثة ايام من كل شهر قال ابن المبارك:‏‏‏‏ ويروى في بعض الحديث ويلحق هذا الصيام برمضان واختار ابن المبارك ان تكون ستة ايام في اول الشهر وقد روي عن ابن المبارك انه قال:‏‏‏‏ إن صام ستة ايام من شوال متفرقا فهو جائز
کئی ائمہ نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے، ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں،
اور عبد اللہ ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں، ۔۔ اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں، ۱۱- ابن مبارک سے نے یہ بھی کہا: اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام ۲۹ (۱۱۶۴)، سنن ابی داود/ الصیام ۵۸ (۲۴۳۳)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۳۳ (۱۷۱۶)، سنن الدارمی/الصوم ۴۴ (۱۷۹۵)، (تحفة الأشراف : ۳۴۸۲) (حسن صحیح)وضاحت:
شرح
۱؎ : ” ایک نیکی کا ثواب کم از کم دس گنا ہے “ کے اصول کے مطابق رمضان کے روزے دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہوئے اور اس کے بعد شوال کے چھ روزے اگر رکھ لیے جائیں تو یہ دو مہینے کے روزوں کے برابر ہوں گے، اس طرح اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب مل جائے گا، جس کا یہ مستقل معمول ہو جائے اس کا شمار اللہ کے نزدیک ہمیشہ روزہ رکھنے والوں میں ہو گا، شوال کے یہ روزے نفلی ہیں انہیں متواتر بھی رکھا جا سکتا ہے اور ناغہ کر کے بھی، تاہم شوال ہی میں ان کی تکمیل ضروری ہے۔
ما حكم صيام الستّ من شوال ، وهل هي واجبة ؟.
صيام ست من شوال بعد فريضة رمضان سنّة مستحبّة وليست بواجب ، ويشرع للمسلم صيام ستة أيام من شوال ، و في ذلك فضل عظيم ، وأجر كبير ذلك أن من صامها يكتب له أجر صيام سنة كاملة كما صح ذلك عن المصطفى صلى الله عليه وسلم
كما في حديث أبي أيوب رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم
قال : ” من صام رمضان وأتبعه ستا من شوال كان كصيام الدهر . ” رواه مسلم وأبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه.
وقد فسّر ذلك النبي صلى الله عليه وسلم بقوله : ” من صام ستة أيام بعد الفطر كان تمام السنة : (من جاء بالحسنة فله عشر أمثالها ) .
” وفي رواية : ” جعل الله الحسنة بعشر أمثالها فشهر بعشرة أشهر وصيام ستة أيام تمام السنة ”
النسائي وابن ماجة وهو في صحيح الترغيب والترهيب 1/421
ورواه ابن خزيمة ،بلفظ : ” صيام شهر رمضان بعشرة أمثالها وصيام ستة أيام بشهرين فذلك صيام السنة ” .
وقد صرّح الفقهاء من الحنابلة والشافعية : بأن صوم ستة أيام من شوال بعد رمضان يعدل صيام سنة فرضا ، وإلا فإنّ مضاعفة الأجر عموما ثابت حتى في صيام النافلة لأن الحسنة بعشرة أمثالها .
ثم إنّ من الفوائد المهمّة لصيام ستّ من شوال تعويض النّقص الذي حصل في صيام الفريضة في رمضان إذ لا يخلو الصائم من حصول تقصير أو ذنب مؤثّر سلبا في صيامه ويوم القيامة يُؤخذ من النوافل لجبران نقص الفرائض كما قال صلى الله عليه وسلم : ” إن أول ما يحاسب الناس به يوم القيامة من أعمالهم الصلاة قال يقول ربنا جل وعز لملائكته وهو أعلم انظروا في صلاة عبدي أتمها أم نقصها فإن كانت تامة كتبت تامة وإن انتقص منها شيئا قال انظروا هل لعبدي من تطوع فإن كان له تطوع قال أتموا لعبدي فريضته من تطوعه ثم تؤخذ الأعمال على ذاكم ” رواه أبو داود . والله أعلم .
سوال :
شوال کے چھ روزں کا حکم کیا ہے ، اورکیا یہ روزے واجب ہيں ؟
جواب :
الحمد للہ رمضان المبارک کے روزوں کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا واجب نہيں بلکہ مستحب ہیں ، اورمسلمان کے لیے مشروع ہے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھے جس میں فضل عظیم اوربہت بڑا اجر و ثواب ہے ، کیونکہ جو شخص بھی رمضان المبارک کے روزے رکھنے کےبعد شوال میں چھ روزے بھی رکھے تو اس کے لیے پورے سال کے روزوں کا اجروثواب لکھا جاتا ہے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ ثابت ہے کہ اسے پورے سال کا اجر ملتا ہے ۔
ابوایوب انصاری رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ایسا ہے جیسے پورے سال کے روزے ہوں ) صحیح مسلم ، سنن ابوداود ، سنن ترمذی ، سنن ابن ماجہ ۔
اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی شرح اورتفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے کہ :
جس نےعید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے اس کے پورے سال کے روزے ہیں۔
( جو کوئي نیکی کرتا ہے اسے اس کا اجر دس گنا ملے گا )
اورایک روایت میں ہے کہ :
اللہ تعالی نے ایک نیکی کو دس گنا کرتا ہے لھذا رمضان المبارک کا مہینہ دس مہینوں کے برابر ہوا اورچھ دنوں کے روزے سال کو پورا کرتے ہيں ۔سنن نسائی ، سنن ابن ماجہ ، دیکھیں صحیح الترغیب والترھیب ( 1 / 421 ) ۔
اورابن خزیمہ نے مندرجہ ذيل الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :
( رمضان المبارک کےروزے دس گنا اورشوال کے چھ روزے دو ماہ کے برابر ہیں تواس طرح کہ پورے سال کے روزے ہوئے ) ۔
حنابلہ اورشوافع فقھاء کرام نے تصریح کی ہے کہ :رمضان المبارک کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنا پورے ایک سال کے فرضی روزوں کے برابر ہے ، وگرنہ تو عمومی طور پر نفلی روزوں کا اجروثواب بھی زيادہ ہونا ثابت ہے ، کیونکہ ایک نیکی دس کے برابر ہے ۔
پھر شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ شامل ہے کہ یہ روزےرمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے ۔
اور روزقیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :
( روز قیامت بندے کے اعمال میں سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ہمارا رب ‏عزوجل اپنے فرشتوں سے فرمائےگا حالانکہ وہ زيادہ علم رکھنے والا ہے میرے بندے کی نمازوں کو دیکھو کہ اس نے پوری کی ہیں کہ اس میں نقص ہے ، اگر تو مکمل ہونگي تومکمل لکھی جائے گي ، اوراگر اس میں کچھ کمی ہوئي تواللہ تعالی فرمائے گا دیکھوں میرے بندے کے نوافل ہیں اگر تواس کے نوافل ہونگے تو اللہ تعالی فرمائے گا میرے بندے کے فرائض اس کے نوافل سے پورے کرو ، پھر باقی اعمال بھی اسی طرح لیے جائيں گے )
سنن ابوداود حدیث نمبر ( 733 ) ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں