130

کوہ ِآدم پر قدموں کا نشان حقیقت کیا ہے ؟


سجاد اظہر
قرآن و حدیث میں حضرت آدم و حوا کے زمین پر اتارے جانے کا تو ذکر ہے لیکن کہاں اتارےگئے اس کی وضاحت نہیں کی گئی ۔البتہ تفسیر کی کتابوں میں اس کا تذکرہ موجود ہے کہ حضرت آدم کو سراندیپ جس کا موجودہ نام سری لنکا ہے ،کے ایک پہاڑ پر اور حضرت حوا کو جدہ میں اتارا گیا ۔چونکہ جدہ کے معنی دادی کے ہیں اس لیے جدہ کو حضرت حوا سے منسوب کیا جاتا ہے۔
چار مذاہب کے لیے یکساں متبرک :
سری لنکا میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر انسانی قدموں سے مشابہہ ایک نشان ہے جس کی لمبائی 67انچ اور چوڑائی 18انچ ہے ۔ جسے سنہالی زبان میں “سری پادا” یعنی مقدس قدم کا نشان ” کہا جاتا ہے ۔یہ پہاڑ7559 فٹ بلند ہے جس کی چوٹی بھی کوہ ِ آدم سے ہی موسوم ہو گئی ہے ۔ تاہم یہ چوٹی صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ ہندوؤں ، بدھ مت اور عیسائیوں کے لیے بھی یکساں متبرک مقام کی حیثیت رکھتی ہے ۔ سری لنکا کے تین دریاؤں کا منبع بھی یہی پہاڑ ہے جہاں پر یاقوت اور نیلم کے پتھروں کی فراوانی ہے ۔
سید سلیمان ندوی کے شاگرد مولانا خواجہ بہاء الدین اکرمی کی تصنیف “عرب و دیار ہند” جو بیسویں صدی کے اوائل میں چھپی تھی ،میں لکھا ہے کہ سری لنکا کے پہاڑ کی چوٹی پر موجود یہ نشان مسلمانوں ، ہندوؤں اور بدھوں کے لیے متبرک ہے ۔مسلمان اس کو حضرت آدم کے قدموں کا نشان سمجھتے ہیں ۔ہندوؤں کے نزدیک یہ نشان ان کےخدا شیوا کے قدموں کا ہے جبکہ بدھوں کا یہ ایمان ہے کہ یہ نشان بدھا کے قدموں کا ہے جو سری لنکا تین بار آئے تھے ۔ جبکہ انڈیا کے معروف تاریخ دان سنت پائے رائکر لکھتے ہیں کہ سولہویں صدی میں سری لنکا آنے والے پرتگالی اور مسیحی سیاحوں کا خیال ہے کہ یہ قدم سینٹ تھامس کے ہیں ۔ یہ دنیا کی واحد جگہ ہے جو دنیا کے چار بڑے مذاہب کے ماننے والوں کے نزدیک مقدس ہے ۔

ابن بطوطہ کوہ ِآدم پر :
چودہویں صدی کے مسلمان سیاح ابنِ بطوطہ اس پہاڑ پر اپنی سیاحت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ہم سفر کرتے ہوئے سیلون کے جزیرے پر جا نکلے جہاں سے اس پہاڑ کی چوٹی نظر آتی تھی ۔جب ہم بندر گاہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ پر خطر ڈاکوؤں کا علاقہ ہے جو سمندر میں جہازوں کو لوٹتے ہیں یہاں کا راجہ ڈاکووں کا سردار ہے ۔ہم یہاں اترنا نہیں چاہتے تھے لیکن سمندر کے خراب موسم کی وجہ سے چارہ نہ تھا اس لیے میں کنارے پرا ترا تو کچھ لوگ میرے پا س آئے اور پوچھا کہ تم کون ہو ؟ میں نے کہا کہ میں مصر کے بادشاہ کا ہم زلف ہوں اور بادشاہ کے لیے کچھ تحائف لے کر آیا ہوں ۔ انہوں نے راجہ کو خبر کی ۔راجہ نے مجھے بلا بھیجا ۔راجہ نے میری آمد کی وجہ تو پوچھی تو میں نے کہا کہ میں یہاں مقدس قدم کی زیارت کرنے آیا ہوں ۔ سیلون میں آدم کوباوا اور حوا کو ماما کہتے ہیں ۔راجہ نے غلام میرے ہمراہ کیے جو مجھے ایک جھولے میں اٹھا کر پہاڑ پر لے گئے ۔چار جوگی ،تین برہمن ، دس اہلکار اور پندرہ لوگ میرا سامان اٹھانے والے بھی ساتھ بھیجے ۔ہم منڈالی پہنچے جہاں کے راجہ نے ہماری دعوت کی اس شہر میں سوائے ایک خراسانی کے کوئی مسلمان نہیں تھا جو پہاڑ پر ہی جا رہا تھا اس کے بعد ایک اور شہر بندر سلاوات پہنچے جہاں ہاتھیوں کی بہتات تھی ۔ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ پہاڑ کی چوٹی پر جانے کا اوّلین راستہ شیخ عبد اللہ بن حتیف نے دریافت کیا تھا ۔اس سے پہلے یہاں کے کافر مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے تھے ۔لیکن شیخ عبداللہ بن حتیف کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر وہ انہیں “شیخ ِ کبیر ” کے لقب سے یاد کرتے ہیں اور مسلمانوں کی بھی تعظیم کرتے ہیں اور انہیں اپنے گھروںمیں ٹھہراتے ہیں ۔ا ن سے پہلے وہ کسی مسلمان کے ساتھ نہ کھاتے پیتے تھے نہ ہی لین دین کرتے تھے ۔ ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ اس پہاڑ پر یاقوت کی چٹانیں ہیں ۔دریائے یاقوت اور کنکار شہرکے باہر شیخ عثمان شیرازی کی مسجد اور ان کی درگاہ بھی ہے ۔کنکار سے چل کر ہم ایک غار میں پہنچے اس کواستاد محمود نوری کا غار کہتے ہیں ۔یہ شخص ولی تھا اوراس نے یہ غار پہاڑ کے اوپر ایک چشمے کے کنارے بنایا تھا ۔پھر ایک دریا کو پار کیا تو ایک بڑھیا کا گھر آیا جہاں سے آگے آبادی نہیں ہے اس کے آگے بابا طاہر کا غار ہے ۔پھر آگے سیبک کا غار آتا ہے سیبک ایک راجہ تھا جو ترک ِ دنیا کے بعد یہاں رہتا تھا ۔پھر ہم ہفت غار کی طرف گئے وہاں سے عقبہ ٔ سکندریہ کی طرف اور پھر اصفہانی غار کی طرف ۔پھر چشمہ کی طرف وہاں ایک غیر آبادقلعہ ہے اس کے نیچے ایک دریا بہتا ہے جس کو غوطہ گاہ عرفان کہتے ہیں ۔وہاں ایک غار ہے جسے غار ِنارنج کہتے ہیں وہاں ایک دوسرا غار ہے جسے راجہ کا غار کہتے ہیں ۔اس کے پاس پہاڑ کا دروازہ ہے جس کو جبلِ سراندیپ کہتےہیں ۔یہاں بادل نیچے دکھائی دیتے ہیں اور یہ چوٹی سمند ر سے بھی دکھائی دیتی ہے ۔یہاں ایسے درخت ہیں جن کے پتے نہیں جھڑتے اور رنگ رنگ کے نکلتے ہیں ۔یہاں ہتھیلی کے برابر سرخ گلاب کا پھول ہوتا ہے لوگوں کا گمان ہے کہ ا س میں اللہ محمد کا نام قلم قدرت سے لکھا ہوا ہے ۔یہاں سےقدم تک جانے کے دوراستے ہیں ایک کو باوا کا راستہ کہتے ہیں اور دوسرے کو ماما کا ،یعنی آدم و حوا کے راستے ،ماما کا راستہ آسان ہے اور باوا کا دشوار گزار ،پہاڑ میں سیڑھیاں کھدوائی گئی ہیں جن کے ساتھ لوہے کی زنجیریں لگائی گئی ہیں جنہیں پکڑ کر اوپر کی طرف چڑھنا آسان ہوجاتا ہے ۔یہ دس زنجیریں ہیں ، دسویں زنجیر سے غار ِ خضر تک سات میل کا فاصلہ ہے ۔یہاں سے زائرین قدم کی طرف چڑھتے ہیں ۔یہ قدم باوا آدم کے قدم کا نشان ہے جو ایک سخت سیاہ پتھر میں ہے جو سطح سے اونچا ہے اور میدان میں ہے ۔قدم ِ مبارک پتھر میں گھسا ہوا تھا اور ا س کا نشان بن گیا ۔ یہاں اہل ِ چین آتے تھے وہ انگوٹھے کی جگہ کو پتھر میں سے توڑ کر لے گئے تھے اور جاکر شہر زیتون کے ایک مندر میں رکھ دیا تھا ۔ہندو زائرین یہاں پتھر میں سونا اور چاندی رکھ جاتے ہیں ۔اس لیے فقیر جب غار خضر میں پہنچتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے پہنچ کر جو سونا چاندی موجو دہو اسے لے لیں ۔ ہم جب وہاں پہنچے تو اس میں تھوڑا سا سونا اور جواہرات موجود تھے ۔دستور یہ ہے کہ زائر لوگ تین دن غار خضر میں قیام کر کے یہاں حاضری دیتے ہیں ۔


تاریخ کیا کہتی ہے ؟
تاریخ میں کوہِ آدم کا پہلا تذکرہ ہمیں وہاں کے ایک بادشاہ وجے بھاؤ اوّل کے ہاں ملتا ہے جس کا دور 1055سے 1110 قبل مسیح کا ہے ۔وہاں ایک پتھر پر کندہ ہے کہ بادشاہ نے گلمالے گاؤں کے لوگوں کو تاکید کی کہ وہ یہاں آنے والے زائرین کاخیال رکھیں ۔اسی دور میں یہاں پہاڑ پر چڑھنے کے لیے راستے بنائے گئے ۔بادشاہ نسان کمالا جس کا عہد 1187-96ء کا ہے کے دور میں یہاں قدم کے ارد گرد مضبوط حد بندی کی گئی ۔بادشاہ پارا کرما دوم جس کا عہد 1225-69ء کا ہے اس کے وزیر دیوا پرتھی راجہ نے پہاڑ پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں بنائیں اور ان کے ساتھ لوہے کی زنجیریں لگائیں تاکہ زائرین انہیں پکڑ کر اوپر چڑھ سکیں ۔جبکہ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ لوہے کی زنجیریں یہاں سکندر اعظم نے لگوائی تھیں حالانکہ سکندر اعظم کے سر ی لنکا آنے کے کوئی تاریخی شواہد دستیاب نہیں ہیں ۔ کوہ ِ آدم کا ذکر چھٹی صدی عیسوی میں لکھی گئی تامل کی رزمیہ نظم مانیمکالی میں بھی آیا ہےجسے جواہرات کا جزیرہ کہا گیا ہے ۔چینی سیاح فاہین بھی یہاں پانچویں صدی کے اوائل میں آئے تھے ۔اس کا ذکر مارکو پولو نے بھی کیا ہے جو یہاں تیرہویں صدی میں آئے تھے ۔تاہم انیسویں صدی میں کئی یورپی سیاحوں نے بھی اپنے سفرناموں میں ا س کا ذکر تسلسل کے ساتھ کیا ہے ۔ یونیسکو کے مطابق یہاں سالانہ 20 لاکھ لوگ آتے ہیں ۔سری لنکا کی اساطیری روایات پر مشتمل کتاب مہاومسا کے مطابق بدھا 550 قبل مسیح میں سری لنکا آئے تھے جنہوں نے ایک قدم انورادھا پورہ میں دوسرا سر پادا (کوہِ آدم ) پر رکھا تھا ۔ماہرین آثار قدیمہ نے یہاں کی غاروں میں 30ہزار سال پہلے کے انسانی شواہد کا بھی پتہ لگایا ہے جن کے مطابق یہاں پر گندم اور جو کی کاشت کےثبوت بھی ملے ہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں