91

برطانیہ سمیت دُنیا بھر میں گرمی کی شدت کیوں ؟

رواں سال ستمبر کی شروعات خلاف معمول شدید گرم موسم سے ہوئی جب درجۂ حرارت ۳۳ سینٹی گریڈ تک بھی گیا حالانکہ پورے موسم گرما میں ایسا گرم موسم نہیں ہو تھا، آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اور برطانیہ سمیت دُنیا بھر کا موسم شدید گرمی کی لپیٹ میں کیوں ہے ؟ حکام کا کہنا ہےکہ انگلینڈ کے بیشتر علاقوں میں درجہ حرارت 32 ڈگری سینٹی گریڈ کو چھو سکتا ہے جب کہ پیر کے روز درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا ہے۔شدید گرمی کے پیش نظر ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی نے خطرے کا لیول بڑھا دیا جسے ایمبر ہیلتھ الرٹ کا نام دیا گیا ہے اس کا مطلب گرمی کی اس لہر سے ہر عمر کا فرد متاثر ہوسکتا ہے۔ حکام نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شدید گرم موسم سے اموات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔اسی حوالے سے سائنسدانوں کا کہنا ہےکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بغیر موسم کا اس قدر گرم ہونا ممکن نہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں دنیا بھر میں لوگ شدید گرمی کی لہروں، تباہ کن سیلابوں اور جنگلوں کی آگ کا سامنا کر رہے ہیں۔خیال رہے کہ صنعتی دور کے آغاز سے ہی فوسل فیول کے جلنے سے پیدا ہونے والی گیسوں کا اخراج ماحول میں گرمی کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں اوسط درجہ حرارت میں 1.1 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا۔یہ اضافی گرمی غیر مساوی طور پر منقسم ہے اور فی الحال ہم اس کی انتہائی شکل دیکھ رہے ہیں۔واضح رہے کہ عالمی سطح پر کاربن کے اخراج میں کمی کے بغیر یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔اوسط درجہ حرارت کی چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے اثرات کو سمجھنے کے لیے آپ اسے یوں دیکھیں کہ کہ وہ کوئی گھنٹی ہے جس کے دونوں سرے شدید ٹھنڈک یا شدید گرمی ہیں اور درجۂ حرارت کا زیادہ تر حصہ درمیان میں ہے۔یعنی گھنٹی کے درمیان یا مرکز میں اگر ایک چھوٹی سی بھی تبدیلی رونما ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اثرات دونوں سروں پر نظر آئیں گے اور اس طرح گرمی اور سردی کی لہریں زیادہ اور شدید ہوتی جائيں گی۔برطانیہ میں میٹ آفس (شعبۂ موسمیات) کا کہنا ہے کہ پچھلے 50 برسوں میں گرمی کی لہروں کی لمبائی دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔اس شعبے کا کہنا ہے کہ گرمی کی لہروں میں ایک اور موسمی رجحان یعنی ہیٹ ڈوم کی وجہ سے شدت یا طوالت آ سکتی ہے۔زیادہ دباؤ والے علاقے میں گرم ہوا نیچے کو دھکیلی جاتی ہے اور بعض جگہ یہ پھنس جاتی ہے جس کی وجہ سے پورے کے پورے براعظم میں درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔جب طوفان تیز رفتار ہوا کے دھاروں سے بنے جیٹ سٹریم کو متاثر کرتا ہے تو یہ سکیپنگ روپ یعنی کودنے والی رسی کو ایک سرے پر ہلانے اور اس کے ساتھ اٹھنے والی لہروں کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے جیسا لگ سکتا ہے۔یہ لہریں ہر چیز کو تیزی سے سست کرنے کا سبب بنتی ہیں اور موسمی نظام اس دائرے والے علاقوں میں کئی دنوں تک پھنسے رہ سکتے ہیں۔جنوبی نصف کرہ یعنی ارجنٹائن، یوراگوئے، پیراگوئے اور برازیل جیسے تمام ممالک میں جنوری میں ایک تاریخی ہیٹ ویو دیکھی گئی اور بہت سے علاقوں نے اپنے گرم ترین دن کی اطلاع دی۔رواں ماہ مغربی آسٹریلیا کے آنسلو میں درجۂ حرارت 50.7 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جو کہ جنوبی نصف کرہ میں قابل اعتماد طور پر اب تک کا سب سے زیادہ ریکارڈ شدہ درجہ حرارت ہے۔گذشتہ سال شمالی امریکہ میں طویل گرمی کی لہروں کا دورانیہ دیکھا گیا تھا۔ مغربی کینیڈا کے لیٹن میں درجہ حرارت 49.6 سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا جو کہ پہلے کے ریکارڈ سے تقریباً پانچ ڈگری زیادہ تھا۔ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن نیٹ ورک کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بغیر اتنی شدید گرمی کی لہر تقریباً ناممکن ہے۔جیسے جیسے گرمی کی لہریں زیادہ شدید اور طویل ہوتی جائیں گی خشک سالی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔گرمی کی لہروں کے درمیان کم بارش کے ہونے سے زمین کی نمی اور پانی کی فراہمی زیادہ تیزی سے خشک ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ زمین زیادہ تیزی سے گرم ہوتی ہے، اوپر ہوا کو گرم کرتی ہے اور زیادہ شدید گرمی کا باعث بنتی ہے۔انسانوں اور کھیتی باڑی کے لیے پانی کی ضرورت پانی کی فراہمی پر مزید دباؤ ڈالتی ہے جس سے اس کی قلت میں اضافہ ہوتا ہے۔جنگل کی آگ براہ راست انسانی عمل دخل سے بھڑک سکتی ہے لیکن اس میں قدرتی عوامل بھی بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید اور طویل المیعاد گرمی کا چکر زمین اور پودوں سے زیادہ سے زیادہ نمی کھینچ لیتا ہے۔آگ لگنے کے لیے یہ سازگار خشک حالات ایندھن فراہم کرتے ہیں جو ناقابل یقین رفتار سے پھیل سکتی ہے۔بارش کی کمی اور غیر موسمی گرمی کی وجہ سے شمالی نصف کرہ کے کچھ علاقوں میں جنگل کی آگ کا موسم قبل از وقت شروع ہو چکا ہے۔ سائبیریا اور الاسکا کے کچھ حصوں میں پہلے ہی آگ پھیل چکی ہے، اور مغربی ناروے اور برطانیہ میں بھی غیر معمولی طور پر قبل از وقت آگ لگنے کی اطلاعات ملی ہیں۔کینیڈا میں گذشتہ موسم گرما میں، گرمی کی لہریں آگ کا باعث بنیں جو اتنی تیزی سے اور دھماکہ خیز طریقے سے تیار ہوئیں کہ ان سے پائیروکومولونمبس بادل بنے اور انھوں نے اپنا موسمی نظام بنا لیا۔ ان بادلوں نے بجلی پیدا کی اور مزید آگ بھڑکائی۔حالیہ دہائیوں میں جنگل کی بڑی آگ کی تعدد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔معمول کے موسمی چکر میں گرم موسم ہوا میں نمی اور آبی بخارات پیدا کرتا ہے، جو بارش کے لیے بوندوں میں بدل جاتا ہے۔بہر حال یہ جتنا گرم ہو گا فضا میں زیادہ بخارات جمع ہوں گے جس کے نتیجے میں زیادہ بوندیں ہوں گی اور نتیجہ زیادہ بارش۔ کبھی کبھی زیادہ بارش مختصر وقت میں اور ایک چھوٹے سے علاقے میں۔رواں سال پہلے ہی ایسا دیکھا گیا اور سیلاب نے سپین اور مشرقی آسٹریلیا کے کچھ حصوں کو متاثر بھی کیا ہے۔ صرف چھ دنوں کے عرصے میں برسبین میں سالانہ بارش کا تقریباً 80 حصہ برس گیا تھا، جب کہ سڈنی میں تین ماہ سے بھی کم عرصے میں اپنی سالانہ اوسط سے زیادہ بارش ریکارڈ کی گئی۔دنیا بھر میں موسم ہمیشہ انتہائی متغیر رہتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی اسے مزید شدید بنا رہی ہے۔اور ایسے میں صرف یہ چیلنج نہیں کہ ماحول پر لوگوں کے مزید اثرات کو محدود کیا جائے بلکہ شدید موسم کے حساب سے ڈھلنا بھی ایک چیلنج ہے جس کا ہمیں فی الحال سامنا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں