59

غزہ پر اسرائیلی جارحیت، ہمیں کس سینسر شپ کا سامنا ہے؟

مارشل لا کے ادوار میں سچ بولنے والوں کو کوڑے مارے جاتے تھے، آج کی ڈیجیٹل دنیا کوڑے نہیں مارتی لیکن ہمیں بےزبان کر دیتی ہے

سجاداظہر

اسرائیل کی غزہ کے خلاف جنگ کو تین ہفتے ہو چکے ہیں۔ جمعرات (26 اکتوبر) کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی عوامی ورکرز پارٹی نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ایک احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا۔
میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ کافی تعداد میں مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینر اٹھا رکھے تھے، جن میں اسرائیلی مظالم کے خلاف نعرے درج تھے۔ پارٹی کی عہدے دار اور ممتاز سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے میرے ہاتھ میں بھی ایک پلے کارڈ تھما دیا جس پر لکھا تھا: Israel is Committing a Genocide
میں یہ کارڈ لے کر اگلی صف میں کھڑا ہو گیا، جہاں نوجوان پرجوش نعرہ بازی کر رہے تھے۔ میں نے ایک نوجوان سے اپنی شارٹ ویڈیو بنوائی اور فوراً فیس بک پر اپ لوڈ کر دی۔
تقریباً دو گھنٹے مظاہرہ جاری رہا۔ میں مظاہرے سے نکلا تو دیکھا کہ اس کے کتنے ویوز دو گھنٹوں میں آئے ہیں۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ صرف دو ویوز تھے اور وہ بھی شاید میرے ہی تھے۔ ایسی ویڈیوز پر عام طور پر ہزاروں ویوز آتے ہیں، تو پھر یہ ویڈیو میرے ہزاروں فالورز اور دوستوں تک کیوں نہیں پہنچ سکی؟
عموماً یہ ہوتا ہے کہ سماجی رابطوں کے پلیٹ فارمز پر تصاویر کے مقابلے میں ویڈیوز زیادہ توجہ لیتی ہیں، کیونکہ ویڈیوز ٹری بناتی ہیں، یہ آپ کے دوستوں کے دوستوں اور آگے ان کے دوستوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ تصاویر کے ساتھ یہ سہولت موجود نہیں ہوتی، جب تک اسے کوئی دوست شیئر نہ کرے یا پھر اس پر کمنٹ نہ کرے۔ ایسا چونکہ پہلی بارہوا تھا اس لیے میرے لیے یہ بات بہت حیرانی کی تھی۔
ے اسی شام علمی فورم ’بلیک ہول‘ میں ممتاز صحافی مظہر عارف کی ایک ڈاکیومنٹری کی سکریننگ میں بھی شر کت کرنی تھی اور وہاں اظہار خیال بھی کرنا تھا۔ یہ ڈاکیومنٹری پاکستان میں میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کی تاریخ اور اس حوالے سے صحافیوں کی جدوجہد کا احاطہ کرتی ہے۔ میرے علاوہ پینل میں ڈاکٹر روش ندیم، ناصر زیدی اور ڈاکٹر واجد ذوالقرنین بھی تھے۔
ڈاکیومنٹری کی طرح گفتگو کا مرکز بھی پاکستان میں آزادیِ صحافت تھا۔ ساری گفتگو اسی دائرے میں ہو رہی تھی۔ شریک گفتگو ناصر زیدی چونکہ خود سچ لکھنے کی پاداش میں ضیا الحق کے دورِ آمریت میں کوڑے بھی کھا چکے تھے اس لیے انہوں نے پاکستان میں آزادیِ اظہار رائے کی پوری تاریخ بیان کر دی۔
جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ ’منہاج برنا، نثار عثمانی، ناصر زیدی، مسعود اللہ خان، اقبال جعفری اور خاور نعیم ہاشمی جیسے صحافیوں کا مقابلہ پاکستانی طالع آزماؤں سے تھا۔ انہوں نے سچ لکھا اور بدلے میں کوڑے کھائے اور مصائب جھیلے، مگر اب ہماری نسل کا مقابلہ عالمی طالع آزماؤں سے ہے۔
’وہ ہمیں کوڑے نہیں مارتے، ہمیں نوکریوں سے بھی نہیں نکلوا سکتے اور بظاہر کسی مصیبت میں بھی نہیں ڈالتے لیکن نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے انہیں یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انہیں دنیا کو کون سا سچ دکھانا ہے اور کون سا چھپانا ہے۔

’جس سماجی میڈیا کو دنیا بہت آزاد سمجھتی ہے یہ موجودہ حماس اسرائیل تنازعے میں پوری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔ سان فرانسسکو کی سلیکون ویلی کے الگوردم یہ طے کرتے ہیں کہ جو بیانیہ آپ پاکستان، کشمیر، فلسطین، لبنان، شام، ترکی یا دیگر ممالک میں بنا رہے ہیں، اس کی کتنی تشہیر کرنی ہے اور کتنی روک دینی ہے۔
قطری ٹیلی ویژن الجزیرہ نے چند دن پہلے بیلجیئم میں مقیم ایک فلم میکر اور سماجی کارکن ٹامس میڈن کے حوالے سے خبر دی کہ اس نے ٹک ٹاک پر فلسطین کے حوالے سے ایک ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں لفظ Genocide لکھا تھا۔ اس کا بھی یہی خیال تھا کہ اس کے لاکھوں ویوز آئیں گے مگر ویڈیو کسی کو نظر آتی تو ویوز ملتے۔
اس وقت فیس بک، انسٹا گرام، ایکس، یوٹیوب، اور ٹک ٹاک پر اگر آپ Free Palestine یا پھر Israel is Committing a Genocide لکھتے ہیں تو اس بات کا لازمی امکان ہے کہ آپ اپنی پوسٹوں کو دیکھنے والے خود ہی ہوں۔
اس سے ملتے جلتے دیگر نعرے بھی اس سینسر شپ کی زد میں آ سکتے ہیں جو اس وقت ان سماجی پلیٹ فارمز کی جانب سے کی جا رہی ہے، جن کے بارے میں دنیا یہ سمجھتی رہی ہے کہ وہ آزادیوں کے پیامبر ہیں۔
ایک ہفتہ پہلے جماعت اسلامی نے کراچی میں فلسطین کے حق میں ایک بہت بڑی ریلی نکالی جس میں لاکھوں لوگ شریک تھے مگر اس کی تفصیلات بھی ہم نے وٹس ایپ گروپوں میں تو دیکھیں لیکن سماجی رابطوں کی دیگر ویب سائٹس نے اسے وہ تشہیر بالکل نہیں دی جو اسے ملنی چاہیے تھی۔
غزہ کے لیے پاکستان کے ہر شہر اور قصبے میں روزانہ مظاہرے ہو رہے ہیں مگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر یہ کہیں نظر نہیں آتے حالانکہ ماضی میں صرف تین شہروں میں عورت مارچ ہوتے تھے مگر اسی شام اور اگلے کئی دنوں تک ہر بندے کے اکاؤنٹس میں صرف یہی نظر آتے رہتے تھے۔
صرف اس ماہ ڈیجیٹل حقوق پر کام کرنے والی دنیا کی 48 بڑی تنظیموں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زور دیا ہے کہ وہ اس جاری جنگ میں فلسطینیوں کے ڈیجیٹل حقوق کا احترام کریں۔
فلسطین اسرائیل تنازعے نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ کی آزادی کو بھی بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے۔ اب آ کر معلوم ہو رہا ہے کہ فیس بک، ایکس، انسٹا گرام، یوٹیوب یہ سب بھی کسی نہ کسی ضیا الحق کے کنٹرول میں ہیں اوریہ صرف وہی حق دکھائیں گی جسے وہ دکھانا چاہتی ہیں۔
ناصر زیدی پھر بھی خوش قسمت تھے، کوڑے تو کھا لیے مگر دنیا کو سچ بھی بتا دیا۔ آج کی دنیا ہمیں کوڑے نہیں مارتی لیکن ہمیں بے زبان کر دیتی ہے، ہم سے ہمارا سچ چھین لیتی ہے اور اپنا جھوٹ پکڑا دیتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں