برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں حکمران کنزرویٹو کو دومئی کو ہونے والے لوکل کونسلوں کے انتخابات میں 40 برسوں میں بدترین انتخابی نتائج کا سامنا ہوا،ان انتخابات میں برطانیہ بھر میں کنزرویٹو کا صفایا ہو گیا اور کنزریٹو کی محفوظ سیٹ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی،نتائج کے اعلان کے بعد وزیر اعظم رشی سونک کا جانا ٹھہر گیااور ان کے استعفا کا مطالبہ شروع ہوگیاتھا۔کنزریٹو پارٹی کے حلقوں نے انھیں ایک “خوفناک وزیر اعظم” کا خطاب اورانھیں کسی ویژن، طلسماتی شخصیت اور انتخابی مہم چلانے کی صلاحیت سے عاری قرار دیتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا کہ “اب ایک طرف ہٹ جائیں اور کیلیفورنیا جائیں اور وہاں مصنوعی مہارت حاصل کریں۔رشی سونک نے مقامی کونسلوں کے انتخابات جیتنے کے لئے بدنام زمانہ “روانڈ سکیم” کا مصنوعی سہارا لینے کی بھی کوشش کی تھی اور اس کے لئے ایک شخص کو انتخابات سے پہلے روانڈا بھی بھیج دیا کہ اس سکیم پر عملدرآمد شروع ہوگیا ہے لیکن یہ مصنوعی دائو بھی ناکام ہوگیا۔وہ انتخابی شکست چھپانے کے لئے لاکھ دلیلیں دیتے رہے لیکن برطانوی قوم نے انھیں مسترد کردیااور مقامی الیکشن کے 20دنوں بعد وہ وزارت عظمی سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوگئے۔ رشی سونک نے 22مئی کو باضابطہ طور پر بادشاہ چارلس سے ملاقات کر کے انھیں درخواست کردی کہ 4 جولائی کو قبل از وقت عام انتخابات کے لیے پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیں۔وزیر اعظم نے اپنی رہائش 10 ڈائوننگ سٹریٹ میںاعلان کیا کہ بادشاہ چارلس اگلے عام انتخابات کے لئے 30 مئی کو پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیں گے۔خیال رہے کہ برطانیہ کی روایت کے مطابق وزیر اعظم کو بادشاہ سے عام انتخابات کرانے کی اجازت کی درخواست کرنی ہوتی ہے، اور اس کے بعد پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کی تاریخ مقرر ہوتی ہے اور پارلیمنٹ تحلیل ہونے کے 25 دن بعد عام انتخابات کرائے جاتے ہیں۔عام انتخابات کے اگلے دن بادشاہ ہاؤس آف کامنز میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی پارٹی کے رہنما کو وزیر اعظم بننے اور نئی حکومت بنانے کی دعوت دیتا ہے۔ برطانیہ میں چار جولائی کو ہونے والے عام انتخابات کے دوران وزیر اعظم کے لئے دو مضبوط امیدوار ہیں جن میں کنزرویٹو پارٹی کے رشی سونک اور لیبر پارٹی کے سر کیراسٹارمر شامل ہیں۔برطانیہ میں عام انتخابات کی سرگرمیوں کا آغاز ہوچکا ہے۔رشی سونک کو گمان تھا کہ ان کی روانڈا سکیم کو انتخابات میں پذیرائی ملے گی لیکن عوام کے ردعمل کے بعد وہ روانڈا سکیم کا دفاع کرنے میں ناکام اور سیاسی پناہ گزینوں کو روانڈا بھیجنے کی پالیسی سے دستبردار ہو گئے ہیں ۔رشی سونک نے انتخابی مہم کی ابتدا میں یہ اہم اعلان بھی کردیا ہے کہ 4 جولائی کو ہونے والے انتخابات تک برطانیہ میں داخل ہونے والے غیر قانونی تارکین وطن کو روانڈا نہیں بھیجا جائے گا۔ رشی سونک کا پارلیمنٹ میں پہلے عجلت میں روانڈا قانون کی منظوری اور انتخابی مہم کے آغاز میں قانون کو موخر کرنے کا اقدام “کھسیانی بلی کھمبا نوچے” کے مترادف ہے جس سے، ٹوری رائٹ وِنگ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان کے بہت سے اراکین پارلیمنٹ پہلے ہی رشی سونک کے قبل از وقت انتخابات کے فیصلے سے ناخوش تھے,انھیں مزید مایوسی اس بات پر ہوئی ہے کہ الیکشن کے دوران انھوں نے 500 ملین پونڈ سے شروع ہونے والی روانڈا سکیم کے تحت،برطانیہ میں امیگریشن کی تعداد میں کمی کے لئے غیر قانونی تارکین وطن کو روکنےکے لئے جس روانڈا سکیم کا وعدہ کیا تھا وہ ناکام ہوگئی ہے۔کنزرویٹو پارٹی کا برطانیہ سے روانڈا کے لیے پروازیں شروع کرنے کا نعرہ بھی کھوکھلا ثابت ہوا ہے۔ کنزرویٹو رائٹ ونگ کے حلقوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے رشی سونک ابھی تک بظاہر یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر انتخابات میں کامیابی کے بعد انھیں دوبارہ وزیر اعظم منتخب کیا گیا تو روانڈا کا منصوبہ آگے بڑھائیں گے اور تارکین وطن کو روانڈا بھیجنے کے لئے فلائٹیں “جولائی کے لیے بک کر دی گئی ہیں اور جہاز ہوائی اڈوں پر تیار ہیں لیکن یہ کھلا تضاد ہے جس سے کنزریٹو ارکان اور ووٹر رشی سونک کے بارے میں سخت جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ کنزریٹو کا روانڈا منصوبہ عمل درآمد سے پہلے ہی ناکام ہوگیا ہے.دوسری جانب مقامی کونسلوں کے انتخابات میں فاتح لیبر پارٹی بھی روانڈا منصوبے کی شدید مخالف ہے ، منصوبے کی مخالفت کرنے والوں بشمول ٹریڈ یونینز اور پناہ گزینوں کے خیراتی ادارے جشن منارہے ہیں کہ روانڈا کا منصوبہ اب قابل عمل نہیں ہو گا۔ دلچسپ امر ہے کہ وزیر اعظم رشی سونک روانڈا منصوبے پر عملدرآمد کے لئے اتنے زیادہ پرجوش تھے کہ انھوں نے براڈکاسٹر پیئرز مورگن کے ساتھ 1,000 پونڈ کی شرط لگائی تھی کہ پولنگ کے دن سے پہلے روانڈا کے لیے پروازیں شروع ہو جائیں گی،وزیر اعظم رشی سونک کی جانب سے پروازیں موخر کرنے کے بعد صحافی اب مطالبہ کر رہیں ہے کہ وہ پناہ گزینوں کے خیراتی ادارے کو شرط ہارنے پر 1000 پونڈ کی ادائیگی کریں۔ رشی سونک کے لئے روانڈا منصوبہ ایک اذیت ناک صورت اختیار کرچکا ہے اور ہر جگہ سوالات ہوتے ہیں کہ تارکین وطن کی ملک بدری کی پروازیں کب شروع ہوں گی؟ کیا منصوبہ الیکشن کے بعد شروع ہو گا؟ رشی سونک سے جب بی بی سی نے یہی سوال پوچھا تو ان کا جواب اس طرح تھا کہ ’’اگر میں 5 جولائی کو دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوا تو یہ پروازیں چلیں گی … ہم اپنے روانڈا منصوبے کو شروع کر دیں گے”۔ لیبر پارٹی کے سربراہ سٹارمر کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے سونک کے الیکشن میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم جانتے ہیں کہ بورس جانسن کا دو سال قبل وضع کیا گیا منصوبہ کام نہیں کرے گا۔ لیبر پارٹی کے سربراہ کا موقف ہے کہ ہمیں سرحد کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو اصل میں روکنے کے سخت اقدام کرنے چاہئیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کنزرویٹو پارٹی کے لئے انتخابات میں روانڈا منصوبہ کا دفاع کرنا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرورہے کیونکہ اس منصوبہ کے بارے میں کوئی عملی کام نہیں کیا گیا ۔ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ رشی سونک انسانی حقوق کی یورپی عدالت کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتا تھا، جس نے 2022 میں روانڈا کے لیے آخری جلاوطنی کی پرواز کو قاعدہ 39 کا حکم نامہ جاری کر کے روک دیا تھا اور جولائی کے بعد اگر کسی نے پروازوں کو چلانے کی کوشش کی تو یورپی عدالت دوبارہ اسے روک دے گی ۔پناہ گزینوں کے خیراتی ادارے جو اس منصوبے کے خلاف لڑ رہے ہیں انھوں نے بھی روانڈا منصوبے کو ایک “مردہ بطخ” کہہ دیا ہے۔ رشی سونک کے حمایتی حلقوں کا اس بارے میں کہنا ہے پروازوں کے لیے ٹائم ٹیبل اور عمل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور یہ کہ “جون کے آخر” کی تاریخ پہلے بھی ممکنہ تاریخ تھی۔برطانیہ کے عوام بھی روانڈا منصوبے کو ٹیکس گزاروں پر بوجھ قرار دے کر مسترد کرچکےہیں۔
برطانیہ کے سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ کنزرویٹو حکمرانی کے 14 برسوں میں پانچ وزرائے اعظم، سات چانسلرز، آٹھ خارجہ سیکرٹریز اور 16 ہاؤسنگ منسٹر تبدیل ہوئے،کنزرویٹو کا اقتدار ناکامیوں پر ختم ہوا،اس عرصے میں کوئی خوش قسمت وزیر اعظم ثابت ہوا تو وہ ڈیوڈ کیمرون تھے جو 43 سال کی عمر میں وزیر اعظم بنے لیکن بریگزٹ ریفرنڈم کے دوران وہ بھی عوام کو اپنے موقف کے بارے میں قائل کرنے میں ناکام ثابت ہوئے اور دو جون 2016 کو ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں کیمرون بھی 10 ڈائوننگ سٹریٹ سے رخصت ہوگئے۔تھریسا مے ڈاؤننگ سٹریٹ میں تین سال گزار کر چلی گئی اور اس عرصے میں بمشکل ایک ہفتہ بغیر کسی تنازع کے گزرا، بورس جانسن بھی بنیادی طور پر غیر سنجیدہ کردار تھا، جنھیں لاک ڈاؤن توڑنے کے باعث معزول ہونا پڑا، ان کے بعد لِز ٹرس آئیں جو 10 ڈائوننگ میں 49 دن سے زیادہ نہ گزار سکیں، رشی سونک نے کنزریٹو پارٹی کے ڈوبتے جہاز کو مستحکم کرنے کی کوشش کی لیکن پارٹی کو ووٹروں کے لیے زیادہ دلکش ظاہر کرنے کے سوا انھوں نے برطانوی عوام کو کچھ نہ دیا،آخر کار کنزریٹو پارٹی کا 14 سالہ دورِ حکومت ناکام پالیسیوں کی دھند میں ڈوب گیا۔برطانیہ میں سیاسی جلاوطنی اختیار کرنے والے پناہ گزینوں کو روانڈا جلاوطن کرنے کا ناکام منصوبہ آئندہ الیکشن میں سابقہ حکمران جماعت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا جس سے بہت سے لوگوں کو راحت ملے گی۔
112