وجاہت علی خان
برطانیہ میں پاکستانیوں کی آباد کاری پاکستان کے قیام کے چند سال بعد ہی شروع ہوئی اور پچھلی چھ دہائیوں سے برطانیہ یورپ میں سب سے بڑی پاکستانی کمیونٹی کا گھر ہے، جہاں 2021 کی مردم شماری کی بنیاد پر برطانوی پاکستانیوں کی آبادی 1.6 ملین سے تجاوز کر گئی ہے۔ برٹش پاکستانی برطانیہ میں دوسری سب سے بڑی نسلی اقلیتی آبادی ہیں اور برٹش ایشینز کا دوسرا سب سے بڑا ذیلی گروپ بناتے ہیں۔
آج برطانیہ میں پارلیمنٹ کے ارکان اور پاکستانی نژاد لارڈز کی اچھی خاصی تعداد ہاؤس آف کامنز میں موجود ہے، ملک بھر کے کئی کونسلرز، میئرز اور ڈپٹی میئرز بھی ہیں، لندن کے میئر صادق خان بھی پاکستانی ہیں۔ اصل. پاکستان اور آزاد کشمیر سے خالی جیبیں لے کر برطانیہ آنے والے لاتعداد لوگ آج کروڑ پتی ہیں، برطانوی معاشرہ انہیں کھلے دل و دماغ سے قبول کر رہا ہے۔ لہٰذا یہ صورتحال برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے باعث اطمینان ہونی چاہیے لیکن اگر ہم گروہوں/ فرقوں میں بٹے رہیں اور مقامی معاشرے، لوگوں اور رسوم و رواج میں ابھر کر سامنے نہ آئیں تو ہمیں ایک الگ گروہ کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ .
زیادہ تر یورپی ممالک اور برطانیہ ایک کثیر الثقافتی معاشرہ ہونے کی شہرت رکھتے ہیں اور دنیا کے مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمان بھی یہاں مقیم ہیں لیکن سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جب بھی یہاں دہشت گردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے۔ چنانچہ تحقیقات کے بعد مسلمانوں کے نام پر اس کی بہت سی ذمہ داری سامنے آتی ہے۔ البتہ اس خیال میں وزن ہے کہ عمل کا ردعمل بھی ہے، کہ اگر دنیا میں مسلمانوں کے خلاف زیادتیاں ہوں گی تو کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں انتقام کی خواہش پروان چڑھتی رہے گی، لیکن ایک سادہ سوال صرف اتنا ہے کہ جب ہم مغربی معاشروں میں مستقل طور پر رہ رہے ہیں تو ہمیں کسی نہ کسی طرح یہاں کے بنائے گئے قوانین کو ماننا چاہیے اور یہاں قائم اخلاقی اور ثقافتی اقدار کو اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔ انتہا پسندانہ سوچ کو چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہمارے مخالفانہ رویے اور بے معنی مطالبات ہمارے لیے زیادہ ثمر آور ہو سکتے ہیں۔
یورپ ہو یا دنیا کے دیگر مغربی ممالک، غلط ہو یا صحیح یہاں ہم پر پہلے ہی انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف مائل ایک کمیونٹی کے طور پر الزام لگایا جاتا ہے، یہ بھی حیرت کی بات ہے کہ جب بھی برطانیہ یا دنیا کے کسی اور حصے میں مسلمان ان لوگوں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ دوسرے عقائد کے. جب بھی کوئی واقعہ یا جنگی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ہم فوراً اپنی نجی گفتگو اور میڈیا کے بیانات کے ذریعے نفرت کی حدوں کو چھونے لگتے ہیں۔ آٹھ ماہ قبل فلسطین/اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے، برطانیہ میں رہنے والے بہت سے مسلمانوں نے ہماری کمیونٹی کے لارڈز، ایم پیز، میئرز اور کونسلرز سے مستعفی ہونے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے!
اب کیا کوئی ذہین آدمی کہہ سکتا ہے کہ یہ قول اور سوچ سخت گیر سوچ نہیں ہے؟ کیا کوئی اس سادہ اور معمولی بات کو نہیں سمجھتا کہ “میدان کے باہر کسی مخالف کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں ہے” اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اگر آپ دوسرے سے زیادہ مضبوط نہیں ہیں اور میدان میں اس کے خلاف جیت جاتے ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو مہذب دنیا میں اپنے مخالف کو منطقی دلائل سے سمجھانے کا ایک مقررہ اصول ہے کہ آپ کا نقطہ نظر درست ہے، لہٰذا استعفیٰ دینے سے نہ جنگ جیتی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی بحث۔
ماضی میں عراق پر امریکی اتحاد کا حملہ ہو یا حالیہ فلسطین/اسرائیل تنازعہ، دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں بھی جنگ بندی کے لیے تاریخی ملین مارچ ہوئے، خصوصاً لندن میں، کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ صرف مسلمان یا صرف پاکستانی/؟ کیا ان کروڑوں لوگوں میں کشمیری بھی شامل تھے؟ بلکہ حیران کن بات یہ ہے کہ 85% مظاہرین کا تعلق غیر اسلامی مذاہب سے تھا، حتیٰ کہ یہودیوں کی بھی بڑی تعداد ان مارچوں میں شامل تھی۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہمیں دنیا میں ایک الگ تھلگ کمیونٹی کے طور پر نہیں رہنا چاہیے بلکہ عالمی برادری کا حصہ ہونے کے ناطے مسلمانوں کو اپنی شناخت نہیں بھولنی چاہیے بلکہ جذباتی ہو کر دوسروں سے الگ ہو کر رہنا چاہیے۔ سمجھ نہیں آتی۔ جہاں تک مسئلہ فلسطین کا تعلق ہے تو کیا یہ حقیقت نہیں کہ دنیا کے 193 ممالک میں سے 142 ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کیا ہے اور کتنے ممالک غیر مسلم ہیں اور کتنے مسلمان ہیں؟ دو ہفتے قبل اسپین، آئرلینڈ اور ناروے جیسے مزید تین یورپی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا تو بڑا سوال یہ ہے کہ کیا فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک نے اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کی حمایت نہیں کی؟
دیگر مغربی ممالک ہوں یا برطانیہ، ہم سمندر پار پاکستانیوں کو ہمیشہ اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمیں مقامی سیاست اور مقامی معاشرے، معیشت میں گھل مل جانے کی ضرورت ہے اور ڈسکریشن رکھنے والے ریاستی فورمز تک زیادہ سے زیادہ تعداد میں رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے اور برطانیہ کی کلیدی سیاسی جماعتوں “لیبر پارٹی” کنزرویٹو پارٹی” اور “لبرل ڈیموکریٹس پارٹی” کے پلیٹ فارم پر اپنی جگہ بنائیں اور سیاست کریں تاکہ دوسروں کے پاس آپ کی آواز اور آپکی بات کو مثبت اور منطقی انداز میں اہمیت دینے کے سوا کوئی چارہ نہ رہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ میدان سے باہر ہو کر اور بے معنی کی بڑھکیں لگا کر کوئی “ جنگ “ جیتی نہیں جا سکتی !!چنانچہ انتہا پسندانہ سوچ یا معاندانہ رویوں سے دور رہیں لیکن میدان میں کھڑے ہو کر اپنے جائز رائٹس کے لئے لڑیں۔
77