194

برطانیہ میں اُردو کی زَبُوں حالی

لندن دُنیا کا واحد ایسا شہر ہے جہاں 287 ایتھنک گروپس رہائش پذیر ہیں اور یہاں انگریزی سمیت 300 زبانیں بولی جاتی ہیں۔ کوئی ایک دہائی پہلے جب برطانیہ یورپی یونین کا رکن تھا تو ایک ملک گیر سروے میں انکشاف ہوا کہ لندن سمیت برطانیہ میں انگریزی کے بعد پولش دوسری بڑی زبان ہے جبکہ اس کے بعد فرانسیسی ، گجراتی، پنجابی زبان کا نمبر ہے اوران کے بعد اُردو زبان ہے ممکن ہے یہ ترتیب بدل گئی ہو کیونکہ بریگزٹ کے بعد بڑی تعداد میں پولش واپس جا چکے ہیں۔ لیکن یہ بات انتہائی اہم ہے کہ برطانیہ میں پاکستانیوں و کشمیریوں کی آبادی پچھلے کوئی دس سال میں بتدریج بڑھی ہے جو اب تک سولہ لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے چنانچہ اسی لحاظ سے اُردو بولنے سمجھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ لمحۂ فکریہ یہ بھی ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے والدین کی زبان سیکھنے یا بولنے میں دلچسپی نہیں رکھتی حالانکہ بھارت کے سکھوں کے برطانیہ پیدا ہونے والے بچے پنجابی بولتے بھی ہیں اور سمجھتے بھی ہیں۔ زبان کے بارے میں سوالات کے نتیجے میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ تین سال سے زیادہ عمر کے 42 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان انگریزی کے علاوہ ہے لیکن آج بھی اردو زبان بولنے والوں کا نمبر کافی نیچے آتا ہے اور ان کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان کے بعد عربی، چینی اور پرتگیزی بولنے والے ہیں، بریگزٹ سے پہلے پولش زبان نے سبقت اس وجہ سے حاصل کی کہ 2004ء میں جب یورپی یونین میں شامل ہونے والے مشرقی یورپ کے ملکوں کے شہریوں کے لیے برطانیہ کے دروازے کھلے ، ایک سیلاب ان ممالک کے شہریوں کا برطانیہ امڈ آیا ۔ ان میں سب سے زیادہ پولینڈ کے شہری تھے جن کی تعداد پچھلے 20 برسوں میں آٹھ لاکھ سے تجاوز کر گئی تھی۔ اب تک اردو بولنے والے اس بات پر بڑے فخر و افتخار کا اظہار کیا کرتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان کے بعد برطانیہ اردو کا دوسرا بڑا مرکز ہے، اور اب تک تھا بھی۔ اردو جنوبی ایشیا سے آکر بسنے والے تارکین وطن کی جانب سے برطانیہ میں وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ برطانیہ میں اردو بولنے والوں کی اکثریت پاکستانی ورثے سے وابستہ ہونے کے طور پر خود کی شناخت کوظاہر کرتے ہیں۔ اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد کے ساتھ برطانیہ میں بہت سے علاقے ہیں۔ ان میں مانچسٹر،لیڈز اور بریڈفورڈ، اسکاٹ لینڈ کے کچھ حصے اور ویسٹ مڈلینڈز اور لندن کے مختلف علاقے میں شامل ہیں۔ لندن کے سکولوں کے ایک سروے میں پایا گیا کہ اردو اور اس کی ‘ہمشیرہ’ زبان ہندی کو ملاکر لندن میں سب سے زیادہ بولی جانے والی دس زبانوں میں پانچواں مقام حاصل ہے۔ ماضی میں لندن کے اردو مرکز کی بدولت ہندوستان و پاکستان سے ادیبوں، شاعروں کی آمدورفت جاری رہتی تھی ویسے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن بہت محدود سطح پر مشاعرے برپا ہوتے ہیں، اچھے افسانے اور کہانیاں لکھی جارہی ہیں اور شاعر بھی اپنی تخلیقی کاوشوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اب لندن میں اُردو کے روزناموں، رسائل کی تعداد بھی بیس سال پہلے والی نہیں ہے اور اب الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اس دور میں اُردو پڑھنے کی بھی لوگوں کو فرصت کم ہے۔ برطانیہ میں اُردو زبان کی تاریخ کو دیکھا جائے تو برطانیہ میں اردو کی شمع پہلی بار دراصل 1887ء میں روشن ہوئی جب آگرہ کے ایک 24 سالہ نوجوان عبدالکریم ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے دوران ان کی خدمت کے لیے لندن آئے تھے۔ ملکہ وکٹوریہ ان کی ذہانت اور کارکردگی سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہیں اپنا منشی مقرر کر لیا اور بڑی تیزی سے ترقی دے کر انہیں اپنے ہندوستان امور کے سیکریٹری کے عہدے پر فائز کر دیا۔ منشی عبدالکریم کی بدولت ملکہ وکٹوریہ کو اردو سے اتنی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ انہوں نے منشی صاحب سے باقاعدہ اردو پڑھنا، لکھنا سیکھنا شروع کر دیا۔ اسی زمانے میں برطانیہ کا اردو کا پہلا اخبار منظرعام پر آیا۔ نام اس کا تھا ’’آئینہ انگریزی سودا گری‘‘۔ یہ اخبار بہت عرصہ تک شائع ہوتا رہا اور اس کے ایڈیٹر کے انتقال کے بعد یہ بند ہو گیا۔ پھر اٹھارہ برس کے بعد دوسری عالمگیر جنگ کے دوران برطانیہ میں اردو کا دوسرا اخبار منظر عام پر آیا، جو برطانوی حکومت کی جنگی کاوشوں کی تشہیر کے لیے نکالا گیا تھا۔ یہ اخبار بھی جنگ کے خاتمے پر بند ہو گیا ۔ پھر جب سن 1950ء کے اوائل میں برصغیر سے تارکین وطن کا ریلا روزگار کی تلاش میں برطانیہ پہنچا تو پاکستان اور ہندوستان کی خبروں کی تشنگی کے پیش نظر 1961ء میں اردو ہفت روزہ ’’مشرق‘‘ جاری کیا گیا اور پھر دس برس کے بعد روزنامہ ’’جنگ‘‘ لندن منظر عام پرآیا جو تا حال کم تعداد میں سہی شائع ہو رہا ہے اس کے علاوہ بھی کچھ ہفت روزہ اخبارات و جرائد کم مائیگی کے ماحول میں بھی شائع ہو رہے ہیں۔ برطانیہ میں اردو کی روایت کی اتنی پرانی تاریخ کے باوجود وہ کیا وجوہ ہیں کہ اردو، پولش زبان سے پیچھے رہ گئی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تارکین وطن کی پہلی نسل نے یہاں پیدا ہونے والے اپنے بچوں کی اردو کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی۔ انہیں یہ خوف تھا کہ اگر بچوں پر دوزبانوں کا بوجھ لادا گیا تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ نہ جانے اس نسل نے یہ بات کیوں نظرانداز کردی کہ چھ، سات سال کی عمر تک بچے میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ زبانیں سیکھ سکتا ہے۔ پھر پہلی نسل اتنی ڈرپوک نکلی کہ اس نے مقامی سکولوں میں اردو کی تعلیم کے انتظام کا مطالبہ بھی نہیں کیا، جب کہ یہ کام مقامی کونسلوں کا ہے کہ وہ محلے کے لوگوں کی درخواست پر سکولوں میں ان کی مرضی کی زبان کی تعلیم کا انتظام کریں۔ آخر کار جب پاکستانیوں کو اس سہولت کے بارے میں آگہی دی گئی تو سکولوں میں او لیول ، اے لیول کی اردو کلاسوں کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن اب بھی اس سہولت سے فیض اٹھانے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور اس کی وجہ اردو کی تعلیم کا دوسرے موضوعات کی طرح منفعت بخش نہ ہونا اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر اردو کی تعلیم کی سہولت بہت کم ہونا ہے۔ پرانی نسل میں تو اب بھی ادب، شاعری اور مشاعرے کی زبردست مقبولیت ہے لیکن نئی نسل میں اردو محض فلم اور گانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ زاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اگر بالی ووڈ کی فلمیں نہ ہوں تو ہماری نئی نسل اتنی اردو بھی نہ سمجھ سکے ،یہ نسل گھروں میں تو ٹوٹی پھوٹی اردو بول لیتی ہے لیکن اردو پڑھنے سے یکسر محروم ہے۔ نتیجہ یہ کہ اردو کے اخبارات، کتابوں اور رسائل کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ البتہ اس کا امکان ہے کہ ٹی وی چینلز کی بدولت اردو برطانیہ میں زندہ رہے، لیکن خطرہ یہ بھی ہے کہ اردو یہاں صرف بولی جانے والی زبان کے طور پر ہی زندہ رہ سکے گی ورنہ مرحوم ہو جائے گی۔قرآن میں کئی جگہوں پر آتا ہے کہ کفا ر نے محمد سے سچا نبی ہونے کی دلیل مانگی مگر ہمارے پیارے پیارے پیارے رسول اللّٰہ کوئی ثبوت نہ دے پائے نہ کوئی فرشتہ آیا نہ کوئی وہی ! خدا کو بھی خیال نہیں آیا کہ اپنے ہردلعزیز نبی کی عزت بچاؤں۔۔۔ ویسے اگر کوئی واقع خدا ہوتا تو ضرور کچھ کرتا۔۔ سورة الحجر:7 اگر تو سچا ہے تو ہمارے پاس فرشتوں کو کیوں نہیں لے آتا سورة الأنفال:31 اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں (یہ کلام) ہم نے سن لیا ہے اگر ہم چاہیں تو اسی طرح کا (کلام) ہم بھی کہہ دیں اور یہ ہے ہی کیا صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں سورة الأنفال:32 اور جب انہوں نے کہا کہ اے خدا اگر یہ (قرآن) تیری طرف سے برحق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور تکلیف دینے والا عذاب بھیج سورة العنكبوت:50 اور کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے نشانیاں کیوں نازل نہیں ہوئیں کہہ دو کہ نشانیاں تو خدا ہی کے پاس ہیں۔ اور میں تو کھلم کھلا ہدایت کرنے والا ہوں سورة الإسراء:91 یا تمہارا کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو اور اس کے بیچ میں نہریں بہا نکالو سورة الإسراء:92 یا جیسا تم کہا کرتے ہو ہم پر آسمان کے ٹکڑے لا گراؤ یا خدا اور فرشتوں کو (ہمارے) سامنے لاؤ سورة الإسراء:93 یا تو تمہارا سونے کا گھر ہو یا تم آسمان پر چڑھ جاؤ۔ اور ہم تمہارے چڑھنے کو بھی نہیں مانیں گے جب تک کہ کوئی کتاب نہ لاؤ جسے ہم پڑھ بھی لیں۔ کہہ دو کہ میرا پروردگار پاک ہے میں تو صرف ایک پیغام پہنچانے والا انسان ہوں ان تمام آیات اسے صاف ظاہر ھے کہ اللّٰہ ( اگر کوئی ھے تو) نے مکمل طور پر محمد کو نظرانداز کیا ۔ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کے جھوٹے معجزے کو گلے میں لٹکا کے گھوم رہے ہیں حالانکہ وہ بھی ثابت نہیں ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں