عبدالرزاق ساجد
حضرت ابو طالب کے اشعار عرب کے مورخین اور ادباء دونوں نے اپنی اپنی کتابوں میں محفوظ رکھے ہیں۔ ان اشعار کا کتابوں اور عربوں کے درمیان محفوظ رہنا ان کے معیاری ہونے کی دلیل ہے۔ شاعر کا کلام نہ صرف یہ کہ اس کے عقیدےکا پتہ دیتے ہیں بلکہ اس سے اس کے فکر کی بلندی کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔حضرت ابو طالب کے اشعار سے آپ کے موحّد اور مومن ہونے کا پتہ چلتا ہے۔ پیغمبرِ اکرمﷺ سے آپ کی محبت اور عقیدت مندی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
تمام مورخ محقق اور محدث اس امر پر متفق ہیں کہ شان رسالت ﷺ میں اولین نعتیہ کلام ختمی مرتبت ﷺکے کفیل حضرت ابو طالب نے ارشاد فرمایا۔محبت رسول ﷺ میں جو کلام حضرت ابو طالب نے ارشاد فرمایا وہ عربی ادب کا عظیم سرمایہ ہے ۔حضرت ابو طالب کا کلام عرب معاشرے اور اوائل اسلام کے رسوم و رواج کا بھی عکاس ہے۔ دیوان ابو طالب کا قدیم ترین نسخہ احمد الکردی کا مرتب کردہ سمجھا جاتا ہے۔
صحیح بخاری میں عمروبن علی، ابوقتیبہ، عبدالرحمن بن عبداللہ دینار اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابن عمر کو حضرت ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا ’’اور (محمد مصطفیؐ کا) گورا رنگ کہ ان کے چہرے کے واسطے سے بدلی سے بارش کی دعا کی جاتی ہے، وہ یتیموں کے حامی اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہیں۔‘‘ شہر ستانی اور ابن عساکر اپنی تاریخ میںجہلمہ ابن عرفتہ کا یہ مشاہدہ بیان کرتے ہیں : جہلمہ کا بیان ہے کہ میں ایک بار عین قحط کے موسم میں مکہ گیا۔ قریش سخت مصیبت میں تھے۔ ان میں سے ایک نے صلاح دی کہ لات و عزیٰ سے فریاد کی جائے، تیسرے نے کہا کہ منات سے چارہ جوئی کی جائے ان میں سے ایک معزز اور صاحب الرائے بزرگ بول اٹھا کہ مجھے اس امر کا کامل یقین ہے کہ ابھی تم لوگوں میں ایک بزرگ ایسا موجود ہے جو سلسلہ ابراہیمی کا بقیہ اور نسل اسماعیلی کا خلاصہ ہے۔ اس کی طرف کیوں نہ رجو ع کیا جائے۔ سب نے کہا کہ کیا تمہارا اشارہ ابو طالب کی طرف ہے۔ اس نے جواب دیا ہاں۔ سب مل کر حضرت ابو طالب کے مکان پر آئے اور فریاد کی ، جسے سنتے ہی حضرت ابوطالب باہر نکل آئے۔ آپ کے ساتھ ایک کمسن بچہ تھا جو جناب رسالت مآبﷺ تھے۔ ان کا روئے منور آفتاب کی طرح روشن تھا۔ حضرت ابو طالب اس صاحبزادے کو انگلی پکڑائے خانہ کعبہ میں آئے۔اور رکن کعبہ سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گئے اور اس بچے کی انگشتِ شہادت کو آسمان کی طرف بلند کردیا اور طلبِ باران کی دعا کی ۔فورا ًبادل نمودار ہوئے اور تھوڑی دیر بعد ایسا مینہ برسا کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا ۔ اس موقع پر حضرت ابوطالب نے شانِ مصطفوی ﷺ میں ایک قصیدہ ارشاد فرمایا جو سیرتِ ابن ہشام سمیت تمام عربی تاریخ کی کتب میں مرقوم ہے وہ یہ ہے کہ
’’محمد ﷺ ایسے خوش جمال شخص ہیں جن کی برکت سے ابر پانی برساتا ہے جو یتیمو ں کیلئے جائے پناہ ہیںاور بیوائوں کا پردہ ہیں۔
بنی ہاشم میں جسے ہلاکت کا خطرہ ہو وہ ا ن کے پاس پناہ لیتا ہے ۔وہ انکے پاس رہ کر خدا کی رحمت اور نعمت پاتا ہے۔
وہ ایک ایسی میزان عدالت ہے کہ جو ایک جَوبرابر بھی ادھرادھرنہیں کرتا اور درست کاموں کا ایسا وزن کرنے والا ہے کہ جس کے وزن کرنے میں کسی شک وشبہ کا خوف نہیں ہے۔
وہ ایک بزرگ انسان ہیں جن کا شمار سب سے مرتبے والے سرداروں میں ہوتا ہے۔وہ اس خاندان بنو ہاشم سے ہیں جو بڑائیوں کے میدان میں برتری کا مالک ہے۔
تاریخ کی کتب میں حضرت ابوطالب کے بہت سے اشعار ملتے ہیں۔حضرت ابو طالب کے کلام کے حوالے سے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا،’’اخلاق وادب کے ساتھ ذوق ِشعریت کی تسکین حاصل کرنا ہو تو دیوان ِابو طالب کا مطالعہ کریں۔حضرت ابو طالب کے کلام کاہر ہر لفظ عشقِ رسالت ﷺکا عکاس ہے ۔
’’اے لوگوں کے سامنے میری گواہی دینے والے،میری گواہی دے،کہ میں نبی اللہ احمد ِمجتبیٰ ﷺکے دین پر ہوں،کوئی دین میں گمراہ ہے تورہے لیکن میں یقیناًراہرو ِہدایت ہوں۔
اے محمد!میرے نورِنظر،اگر کسی خطرے یا مصیبت وپریشانی کا اندیشہ ہو تو ہر شخص کو اپنی جان آپ کے قدموں پر نثار کر دینی چاہیے۔
جب قریش نے پیغمبر اکرم ﷺ اور مسلمانوں کے ساتھ اقتصادی،سماجی اور سیاسی ہر قسم کے روابط منقطع کرلیے تو آنحضرت ﷺ کے واحد حامی اور مدافع حضرت ابو طالب نے اپنے تمام کاموں سے برابر تین سال ہاتھ کھینچے رکھا اور بنی ہاشم کو ایک درّے کی طرف لے گئے جو مکہ کے پہاڑوں کے درمیان تھا اور شعب ابی طالب کے نام سے مشہور تھا ۔ وہاں پر سکونت اختیار کرلی، ان کی فداکاری کا یہ عالم تھا کہ ہر رات پیغمبر اکرم کو ان کے بستر سے اٹھاتے اور دوسری جگہ ان کے آرام کے لئے مہیا کرتے اور اپنے فرزندوں علی، جعفر، عقیل علیہم اجمعین کو ان کی جگہ پر سلادیتے تاکہ اگر کوئی نقصان ہو تو میری اولاد کو ہویتیم عبد اللہ ہادی برحق نبی کریم ﷺکو کوئی گزند نہ پہنچے ۔یہیں ایک رات حضرت علی علیہ السلام نے اُن سے کہا،’’باباجان!میں قتل کردیا جاؤں گا‘‘توحضرت ابوطالب نے اُن سے فرمایا؛میرے بیٹے!صبر واستقامت سے کام لینا کیونکہ گھبرانے یا خوفزدہ ہونے کی بجائے ہمیشہ صبر واستقامت ہی دانشمندی کی علامت ہے (اور جہاں تک موت کا تعلق ہے تو)ہر زندہ انسان کے قدم موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
میرے نورِنظر! اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کیلئے یہ ایک انتہائی سخت آزمائش ہے لیکن یہ انتہائی سخت آزمائش بھی اس ذاتِ گرامی کی فداکاری کی خاطرہے جو خود محبوب بھی ہیں اور محبوب (سیدنا عبداللہ ؑ) کے فرزندبھی (یعنی)وہ نبیِ اکرم ﷺ جو روشن پیشانی والے ہیں،جو نسب کے اعتبار سے ستاروں کی مانند درخشاں ہیں،فضل وشرف میں سب سے بلند ہیں،صاحب جود وکرم ہیں اور نجیب وشریف ہیں ۔اگر آپ کو(اس ایثار وفداکاری کی راہ میں) جان بھی دینا پڑے تو (کیا ہوا)موت کے تیر توچلتے ہی رہتے ہیں۔کسی کو لگ جاتا ہے اور کہیں چوک جاتا ہے ۔ حضرت ابو طالب کوفی البدیہہ شعر کہنے میں ایساید طولیٰ حاصل تھا کہ رزم ہو یا بزم ہو پوری کی پوری بات اشعار ہی میں فرما دیا کرتے ۔ حضرت ابو طالب کے ہر ہر شعر میں عشق رسالت ﷺکا سمندر موجزن اور ذات مصطفوی ﷺسے وابستہ معجزات کا ذکر نظر آتا ہے۔سید نا ابی طالب کا قصیدہ لامیہ جو آپ نے سید المرسلین محمدﷺ کی شان میں پڑھا ۔اس کے ہر شعر میں عشق رسالت ﷺکا سمندر موجزن اور ذات مصطفویﷺ سے وابستہ معجزات کا ذکر نظر آتا ہے۔
واضح رہے کہ ہماری اسلامی تاریخ کو مؤرخین مادی اور مشکل زمانے میں متوازن نہیں رکھ سکے ہم دیکھتے ہیں کہ اس تاریخ نے بہت سے افراد کو مشتبہ بنا دیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخ لکھنے والوں میں سے اکثر استقلال اور آزادی کی حالت میں نہیں تھے اور جن افراد کو تاریخ نے مشتبہ بنایا ہے ان میں سے ایک حضرت ابو طالب کی شخصیت بھی ہے کچھ لوگوں نے ان کے ایمان کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں اور جہاں تک درس گاہ اہل بیت علیھم السلام سے ہمیں جو معلومات حاصل ہوئی ہیں ان کے مطابق حضرت ابو طالب نا صرف مومن تھے بلکہ ان کا شمار بزرگ و عظیم ترین مومنین میں ہوتا ہے اور اسی ایمان کی وجہ سے حضرت ابو طالب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہر ممکن مدد کی اور آپ ﷺکے لیے ایک ڈھال بنے رہے۔
یاد رہے حضرت ابوطالب، امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے والد بزرگوار اور رسول اللہ ﷺ کے چچا اور آپﷺ کے والد ماجد کے سگّے بھائی ہیں دونوں کی والدہ بھی ایک ہیں۔حضرت ابو طالب اپنی شخصیت کی عظمت اور ہر لحاظ سے قدآور، طاقتور اور اپنے زمانے میں دین ابراہیم علیہ السلام کے مبلغ تھے۔انہوں نے عصر جاہلیت میں ایسی نیک روایات کی بنیاد رکھی جن کو کلام وحی کی تأئید حاصل ہوئی۔حضرت ابوطالب ’’قسامہ‘‘ کے بانی ہیں جو اسلام کے عدالتی نظام میں مورد قبول واقع ہوا۔
نيكوان رفتند و سنت ہا بماند
و زلئيمان ظلم و لعنت ها بماند
نیک لوگ چلے گئے؛ ان کی سنتیں باقی رہ گئیں جبکہ
لئیموں سے ظلم و لعنت کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا
حضرت ابو طالب جو’’عبد مناف‘‘کے نام سے مشہور تھے، اور عبدمناف کے معنی ہیں ’’بندہ خدا ‘‘ یوں وہ رسول اللہ ﷺکے تیسرے جد امجد کے ہم نام بھی تھے۔
وہ اپنے والد ماجد’’حضرت عبدالمطلب‘‘کی مانند یکتاپرستی کے راستے پر گامزن رہے اور کفر و شرک اور جہل کے زیر اثر نہیں آئے۔
ان کی شاعری ان کے طرز فکر اور ان کے ایمان کو واضح کرتی ہے۔ویسے تو بہت سے ایسے واقعات تاریخ میں ثبت ہیں جن سے حضرت ابوطالب کے خلوص دل اور صفا و طہارت قلب عیاں ہےمگر ہم یہاں صرف ایک واقعہ کے بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ: اہالیان حجاز پر قحط عارض ہوا ،لوگ – عیسائی و مشرک و جاہل و بت پرست اور دین حنیف کے پیروکار – سب کے سب مؤمن قریش حضرت ابوطالب کی خدمت میں حاضر ہوئے؛ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ مکہ میں دین ابراہیم علیہ السلام کےاس مروج و مبلغ جتنی کسی کو بھی خدا کی اتنی قربت حاصل نہیںچنانچہ انہوں نے ان تشویشناک حالات میں ان ہی سے درخواست کی کہ اٹھیں اور’’خدا سے باران رحمت کی درخواست کریں‘‘ان کا جواب مثبت تھا اور ایسے حال میں بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے کہ ان کی آغوش میں’’چاند سا‘‘لڑکا بھی تھا۔ حضرت ابوطالب نے اس لڑکے سے کہا کہ کعبہ کو پشت کرکے کھڑا ہوجائے اور حضرت ابوطالب نے اس لڑکے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور خداوند متعال کی بارگاہ میں باران رحمت کی دعا کی، بادل کا نام و نشان ہی نہ تھا مگر اچانک آسمان سے بارش نازل ہونے لگی اور اس بارش نے حجاز کی پیاسی سرزمین کو سیراب کیا اور مکہ کی سوکھی ہوئی وادی کھل اٹھی۔وہ چاند سا لڑکا حضرت محمد مصطفیﷺ کے سوا کوئی اور نہ تھا جنہیں ابوطالب ہی جانتے اور پہچانتے تھے کہ وہ خاتم الانبیاء و المرسلین ہیں اور اسی بنا پر خدا سے ان کے صدقے باران رحمت کی دعا کی جو فوری طور پر قبول بھی ہوئی۔
حضرت ابوطالب نے’’حجر اسماعيل ‘‘میں ایک سچا خواب دیکھا کہ آسمان سے ان کی طرف ایک دروازہ کھل گیا ہے اور اس دروازے سے نور اور روشنی نیچے آکر ارد گرد کے ماحول کو روشن کررہی ہے۔حضرت ابو طالب اٹھے اور خواب تعبیر کرنے والوں کے پاس روانہ ہوئے اور اپنے خواب کی تفصیل بیان کی۔
مُعَبِّر نے کہا: بشارت ہو آپ کو! آپ کو بہت جلد ایک نہایت شرافتمند فرزند عطا ہوگا۔ ثقة الاسلام محمد بن یعقوب کلینی رحمة اللہ علیہ نے الکافی میں روایت کی ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا نے حضرت ابوطالب کو نبی اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشخبری سنائی؛ حضرت ابوطالب نے بھی ان کو علی علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری سنائی۔
حضرت عبدالمطلب علیہ السلام کے بیٹوں میں حضرت ابوطالب برتر اخلاقیات کے مالک تھے؛ ان کی روش دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ شائستہ تھی؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ شدید محبت کرتے تھے اور آپﷺ پر بہت مہربان تھے اور ان اوصاف کے علاوہ وہ رسول اللہﷺ کے لئے نہایت عمیق عقیدت و احترام کے قائل تھے چنانچہ حضرت عبدالمطلب نے اپنے انتقال سے قبل ان کو حضرت رسول ﷺ کا سرپرست مقرر کیا۔
حضرت ابوطالب ،رسول اللہﷺ سے شدید محبت کرتے تھے؛ علاوہ ازیں وہ آپ ﷺکے روشن مستقبل سے آگاہ تھے اور انہیں معلوم تھا کہ آپﷺ مستقبل میں رسالت الٰہیہ کے حامل ٹھہریں گے؛ چنانچہ انہوں نے آپﷺ کی پرورش و تربیت اور حفاظت کے سلسلے میں ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیا اور اس راستے میں انہوں نے قربانی اور ایثار کی روشن مثالیں قائم کیں اور ہر جگہ اور ہر مقام پر خطروں میں بھی آپ ﷺکو خودپر مقدم رکھا۔سرپرستی کا اعزاز ملا تو رسول اللہﷺ کو گھر لے آئے اور اپنی اہلیہ کو ہدایت کرتے ہوئے فرمایا:’’یہ میرے بھائی کے فرزند ہیں جو میرے نزدیک میری جان و مال سے زیادہ عزیز ہیں؛ خیال رکھنا! مبادا کوئی ان کو کسی چیز سے منع کرے جس کی یہ خواہش کریں‘‘ اور حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا بھی ایسی ہی تھیں اور ان کو پالتی رہیں اور ان کی ہر خواہش پوری کرتی رہیں اور رسول اللہ ﷺکے لئے مادر مہربان تھیں۔
مورخین نے عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ: ابوطالب رسول خدا ﷺ کو بہت دوست رکھتے تھے اور اپنے بیٹوں پر بھی اتنی مہربانی روا نہیں رکھتے تھے جتنی کہ وہ رسول اللہﷺ پر روا رکھتے تھے؛ ابوطالب ، رسول اللہ ﷺکے ساتھ سویا کرتے تھے اور گھر سے باہر نکلتے وقت آپ ﷺ کو ساتھ لے کر جاتے تھے؛ مشرکین نے حضرت ابوطالب کے انتقال کے ساتھ ہی پیغمبر اکرمﷺ کو آزار و اذیت پہنچانے کا وہ سلسلہ شروع کیا جو حیات ابوطالب میں ان کے لئے ممکن نہ تھا؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اس امر کی طرف بار بار اشارہ فرمایا ہے۔
ایک دفعہ حضرت رسول اکرم ﷺ مسجد الحرام میں نماز ادا کررہے تھے کہ قریشی مشرکین نے اونٹ کی اوجڑی آپ ﷺ کے جسم مبارک پر پھینک دی اور آپﷺ کے کرتے کو آلودہ کیا۔ رسول اللہﷺ حضرت ابوطالب کے پاس آئے اورفرمایا: چچاجان! آپ اپنے خاندان میں میرے رتبے کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ ابوطالب نے کہا: پیارے بھتیجے ہوا کیا ہے؟
رسول اکرم ﷺنے ماجرا کہہ سنایا۔حضرت ابوطالب نے فوری طور پر بھائی حمزہ کو بلایا اور شمشیر حمائل کرکے حمزہ سے کہا: ایک اوجڑی اٹھالاؤ اور یوں دونوں بھائی قوم قریش کی طرف روانہ ہوئے جبکہ نبی اکرمﷺ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے قریش کے سرداروں کے پاس پہنچے۔جب انہوں نے ہاشمی بھائیوں اور رسول اللہﷺ کو اس حالت میں دیکھا تو سب اپنا انجام بھانپ گئے۔ حضرت ابوطالب نے بھائی حمزہ کو ہدایت کی کہ اوجڑی کو قریشیوں کی داڑھیوں اور مونچھوں پر مل دیںجناب حمزہ نے ایسا ہی کیا اور آخری سردار تک کے ساتھ ہدایت کے مطابق سلوک کیا۔ اس کے بعد ابوطالب۔ رسول اللہﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جان سے پیارے بھتیجے یہ ہے آپ کا مقام و رتبہ ہمارے درمیان۔یوں قریشی مشرکین کو اپنے کئے کی سزا ملی اور قریش کے سرغنوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ’’جب تک ابوطالب زندہ ہیں رسول اللہﷺ کو حصول ہدف سے روک لینا، ممکن نہیں ہے‘‘
جب غار حرا میں خدا کا کلام آپﷺ پر نازل ہوا تو حضرت علی علیہ السلام آپ (ص) کے ہمراہ تھے چنانچہ آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنے وصی و جانشین اور بھائی کو دعوت دی اور علی علیہ السلام نے لبیک کہتے ہوئے رسول اللہﷺ کی امامت میں نماز ادا کی اور جب گھر آئے تو اپنے والد کو ماجرا کہہ سنایا اور کہا ’’میں رسول اللہﷺ پر ایمان لایا ہوں تو مؤمنِ قریش نے ہدایت کی:’’بیٹا! وہ تم کو خیر و نیکی کے سوا کسی چیز کی طرف بھی نھیں بلاتے اور تم ہر حال میں آپ ﷺ کے ساتھ رہو‘‘۔
جب آیت’’وانذر عشيرتك الاقربين‘‘(122) نازل ہوئی اور رسول اللہﷺ نے اپنے رشتہ داروں کو بلا کر انہیں اپنے دین کی دعوت دی تو ان کی مخالفت کے برعکس حضرت ابوطالب علیہ السلام نے کہا:’’یا رسول اللہﷺ! آپ کی مدد اور نصرت ہمارے لئے بہت ہی زیادہ محبوب اور مقبول و پسندیدہ ہے؛ میں آپ کی خیرخواہی کی طرف متوجہ ہوں اور آپ کی مکمل طور پر تصدیق کرتا ہوں؛ جائیں اور اپنی ماموریت اور الٰہی فریضہ سرانجام دیں؛ خدا کی قسم میں آپ کی حفاظت کرتا رہوں گا اور کبھی آپ ﷺسے جدائی پر راضی نہ ہونگا۔
ایک روز رسول اللہ ﷺ گھر سے نکلے تو واپس نہ آئے۔ حضرت ابوطالب فکرمند ہوئے کہ مشرکین قریش نے کہیں آپﷺ کو قتل ہی نہ کر دیاہو؛ چنانچہ آپ نے ہاشم اور عبدالمطلب کے فرزندوں کو اکٹھا کیا اور ان سب کو حکم دیا کہ : تیزدھار ہتھیار اپنے لباس میں چھپا کر رکھو؛ مل کر مسجدالحرام میں داخل ہوجاؤ اور تم میں سے ہر مسلح ہاشمی شخص قریش کے کسی سردار کے قریب بیٹھ جائے اور جب میں تم سے تقاضا کروں تو اٹھو اور قریش کے سرداروں کو موت کی گھاٹ اتارو۔
ہاشمیوں نے حضرت ابوطالب کے حکم کی تعمیل کی اور سب کے سب مسلح ہوکر مسجدالحرام میں داخل ہوکر قریش کے سرداروں کے قریب بیٹھ گئے مگر اسی وقت زید بن حارثہ نے ان کو خبر دی کہ حضرت محمدﷺ کو کوئی گزند نہیں پہنچی ہے اور بلکہ آپ ﷺ مسلمان کے گھر میں تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں چنانچہ منصوبے پر عملدرآمد رک گیا مگرحضرت ابوطالب ہاشمی شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مشرکین قریش کو رسول اللہﷺ کے خلاف کسی بھی معاندانہ اقدام سے باز رکھنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا: میرا بھتیجا گھر سے نکلا اور گھر واپس نہیں آیا تو مجھے اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں تم نے اس کو کوئی نقصان نہ پہنچایا ہو چنانچہ میں نے تمہیں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ پھر انہوں نے ہاشمی نوجوانوں کو حکم دیا کہ اپنے ہتھیار انہیں دکھا دیں۔ قریش کے سرداروں نے کانپتے ہوئے کہا: اے اباطالب! کیا آپ واقعی ہمیں قتل کرنے کا ارادہ لے کر آئے تھے؟ فرمایا: اگر رسول اللہ ﷺ کو تمہاری جانب سے کوئی نقصان پہنچا ہوتا تو میں تم میں سے ایک فرد کو بھی زندہ نہ چھوڑتا اور آخری سانس تک تمہارے خلاف لڑتا۔
واستان از دست ديوانه سلاح
تا ز تو راضی شود عدل و صلاح
چون سلاح و جهل، جمع آيد به هم
گشت فرعونی جهان سوز از ستم
—-
دیوانے کے ہاتھ سے ہتھیار چھین لو
تا کہ عدل و صلاح تم سے راضی ہوجائے
جب اسلحہ اور جہل ساتھ مل جائیں
ظلم و ستم کے ذریعے جہان کو جلادینے والا فرعون جنم لیتا ہے
مورخ و ادیب ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں:’’اگر ابوطالب اور ان کا بیٹا علی علیہ السلام نہ ہوتے،مکتب اسلام ہرگز باقی نہ رہتا اور اپنا قدسیدھا نہ کرسکتا،ابوطالب مکہ میں پیغمبر کی مدد کےلئے آگے بڑہے اورعلی علیہ السلام یثرب (مدینہ) میں حمایت دین کی راہ میں موت کے بھنور میں اترے“
کثیرعدد میں متواتر اخبار و روایات سے ثابت ہے کہ حضرت ابوطالب دین مبین کی ترویج کے سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کیا کرتے تھے اور اپنے فرزندوں، اقرباء اور اہل مکہ کو آپﷺ کی حمایت اور پیروی کی دعوت دیا کرتے تھے۔عثمان بن مظعون، جو سچے مسلمان تھے ایک روز کعبہ کے ساتھ کھڑے ہوکر بت پرستوں کو ان کی مذموم روش سے منع کررہے تھے اور ان کو وعظ و نصیحت کررہے تھے۔ قریش کے نوجوانوں کے ایک گروہ نے ان پر حملہ کیا اور ان میں سے ایک نے عثمان پر وار کیا جس کے نتیجے میں ان کی ایک آنكھ زخمی ہوئی۔حضرت ابوطالب کو اطلاع ملی تو انہیں سخت صدمہ پہنچا اور قسم کھائی کہ : جب تک اس قریشی نوجوان سے قصاص نہ لوں چین سے نہ بیٹھوں گا اور پھر انہوں نے ایسا ہی کیا۔
حضرت ابوطالب کو ایک الہٰی فریضہ سونپا گیا تھا اور وہ ایسی عظیم شخصیت کے سرپرست تھے جو خود کائنات کے سرپرست ہیں اور انبیاء کے سردار ہیں اور خدا کے بعد ان سے کوئی بڑا نہیں ہے؛ چنانچہ رسول اللہ ﷺکے دین کی ترویج بھی ان کی ذمہ داری تھی اور جو لوگ اس راستے میں آپﷺ کی مدد و نصرت کرتے تھے ان کی قدردانی کو بھی وہ اپنا فرض سمجھتے تھے چنانچہ جب نجاشی نے مسلمانوں کو پناہ دی تو حضرت ابوطالب نے ان کے حق میں اشعار لکھ کر روانہ کئے۔نجاشی کو جب حضرت ابوطالب کے اشعار کا تحفہ ملا تو بہت خوش ہوئے اور انہوں نے جعفر ابن طالب کی قیادت میں حبشہ میں پناہ حاصل کرنے والے مسلمانوں کے احترام میں اضافہ کیا اور ان کی پذیرائی دو چند کردی۔
امام سجادرضی اللہ عنہ نے حضرت ابوطالب کے ایمان کے بارے میں شک کرنے والے افراد کے جواب میں فرمایا: عجب ہے کہ خدا اور اس کے رسول ﷺنے غیر مسلم مرد کے ساتھ مسلم خاتون کا نکاح ممنوع قرار دیا جبکہ حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا – جو سابقین مسلمین میں سے ہیں – حضرت ابوطالب کے انتقال تک ان کے عقد میں رہیں‘‘۔
کسی نے امام باقر رضی ناللہ عنہ کو بعض جھوٹے محدثین کی یہ جعلی حدیث سنائی کہ ’’ابوطالب آگ کی کھائی میں ہیں!‘‘
امام رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اگر ایمان ابوطالب ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور ان سب لوگوں کا ایمان دوسرے پلڑے میں تو ابوطالب کا ایمان ان سب پر بھاری نظر آئے گا‘‘
’’ابان بن محمود’’ نامی شخص نے امام رضا رضی اللہ عنہ کو خط میں لکھا کہ “میں آپ پر قربان جاؤں! میں ابوطالب کے ایمان کے سلسلے میں شک و تردید میں مبتلا ہوا ہوں‘‘امام نے جواب میں تحریر فرمایا:جو شخص حق ظاہر و آشکار ہونے کے بعد پیغمبر ﷺ کی مخالفت کرے اور مؤمنوں کی راہ کے سوا کسی دوسرے راستے کی پیروی کرے ہم اسے اسی راستے پر لے چلیں گے جس پر کہ وہ گامزن ہے اور اسے جہنم میں داخل کردیں گے اور جہنم بہت ہی بری جگہ ہے‘‘(القرآن) اما بعد جان لو کہ اگر تم ایمان ابوطالب کا یقین نہیں کروگے تو تم بھی آگ کی طرف لوٹا دئیے جاؤگے۔
شعب ابی طالب میں ناکہ بندی کے دوران مؤمنِ قریش حضرت ابوطالب کو شدید صعوبتیںجھیلنا پڑیں اور شدید دباؤ اور مشکلات سہہ لینے کی وجہ سےآپ کمزور ہوگئے چنانچہ ناکہ بندی کے خاتمے کے چھ مہینے بعد بعثت نبوی کے دسویں برس حضرت ابوطالب پاگئے جس کی وجہ سے رسول اللہﷺ کو شدید ترین صدمہ ہوا اور بے تاب ہوکر اپنے چچا اور غمخوار کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور ان کے چہرے پر اپنے مقدس ہاتھ پھیر پھیر کر فرمایا: چچا جان! آپ نے بچپن میں میری تربیت کی؛ میری یتیمی کی دور میں آپ نے میری سرپرستی کی اور جب میں بڑا ہوا تو آپ نے میری حمایت اور نصرت کی؛ خداوند متعال میری جانب سے آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے. میت اٹھی تو رسول اللہﷺ جنازے سے آگے آگے قبرستان کی طرف روانہ ہوئے اور راستے میں بھی حضرت ابوطالب کے لئے دعائے خیر فرماتے رہے۔
آخر میں حضرت ابو طالب علیہ السلام کی پر مغز اشعار کے کچھ ابیات پیش کئے جارہے ہیں جن سے کسی حد تک خدا اور اس کے رسولﷺ پر ان کی ایمان راسخ اور اعتقاد عمیق کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
اللہ کی قسم کہ میں نبیﷺ کو تنہا نہیں چھوڑوں گا اور
میرے فرزندوں میں سے بھی کوئی با شرف آپﷺ کو تنہا نہ چھوڑے گا۔
انہوں نے حبشہ کی بادشاہ کو اشعار کا تحفہ بھیجا تو ان اشعار کے ذریعے انہوں نے رسول اللہﷺ پر اپنے ایمان و اعتقاد کے علاوہ انبیاء سلف علی نبینا و علیہم السلام کے بارے میں بھی اپنے ایمان و اعتقاد کی وضاحت کی اور نجاشی کو مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ حمایت کی ترغیب دلائی۔
اے حبشہ کے بادشاہ جان لے کہ بتحقیق محمدﷺ
نبی ہیں جیسے کہ موسیٰ اور عیسٰی ابن مریم نبی ہیں
وہ ہمارے پاس ہدایت لے کر آئے جیسا کہ وہ دونوں لائے تھے
پس تمام انبیاء الہی خدا کے فرمان پر امتوں کی راہنمائی کرکے انہیں پلیدیوں اور گناہوں سے بچالیتے ہیں
حضرت ابوطالب، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی وفاداری اور آپﷺ کی حمایت کا یوں اظہار فرماتے ہیں:
اللہ کی قسم! کہ ان کا ہاتھ – سب مل کر بھی – آپ تک نہ پہنچ سکے گا
جب تک کہ میں زمین کے سینے میں دفن نہ ہواہوں
اور جو دین آپ لائے ہیں اور آپ نے اس کی یادآوری فرمائی ہے
بے شک و ناگزیر انسانوں کیلئے بھیجے گئے ادیان سے بہترین ہےع
121