86

سب سے پہلے انگلستان


برطانیہ میں نسل پرست فسادات تین ہفتے جاری رہنے کے بعد ختم ہوگئے ہیں، ان فسادات میں مسلمانوں خاص طور پر پاکستانی کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا۔نسل پرست فسادات کی بنیاد دو بڑے واقعات تھے، پہلا واقعہ مانچسٹر ائیر پورٹ پر رونما ہوا۔دوسرا اندوہناک واقعہ ریاست ویلز میں تین معصوم بچیوں کا قتل تھا جو ایک سنٹر میں ڈانسنگ کلاس میں موجود تھیں جہاں ایک چاقو بردار نوعمر نوجوان نے حملہ کردیا جس سے تینوں بچیاں ہلاک ہو گئیں۔ قاتل لڑکا افریقی ملک روانڈا سے تعلق اور اس کے والدین عیسائی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، سوشل میڈیا کی جھوٹی پوسٹ میں قاتل پاکستانی اور مسلمان بتایا گیا،یہ جھوٹی پوسٹ ہر طرف پھیل گئی اور پورے برطانیہ میں فسادات شروع ہوگئے۔احتجاج اور فسادات کے دونوں واقعات کی تفصیل جاننا اور آئندہ محتاط رہنےکی اشد ضرورت ہے۔ پہلے واقعہ میں ۲۴ جولائی کو انٹر نیٹ کے ذریعے وٹس ایپ، یوٹیوب، ویب سائٹ چینلز سمیت سوشل میڈیا کے ذرائع سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں پولیس اہلکاروں نے ٹیزر گن استعمال کرنے کے بعد آسمانی رنگ کی قمیض پہنے ہوئے نوجوان لڑکے کو دبوچ کر زمین پر لٹایا ہوا ہے جس کے چہرے اور سر پر لاتیں ماری جا رہی ہیں جبکہ ساتھ ہی شلوار قمیض میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر خاتون مسلسل رو رہی ہیں۔ یہ مناظر برطانیہ کے مانچسٹر ایئر پورٹ کے تھے۔ اس ویڈیو پر کشمیری اور پاکستانی دونوں نے شدید غصے اور پولیس کی شدید مذمت شروع کردی۔ راچڈیل میں پولیس سٹیشن کے باہر ایک احتجاج ہوا جس میں “مانچسٹر میں نسل پرستی کے خلاف اٹھ کھڑے ہو، انصاف نہیں تو امن نہیں” جیسے نعرے لگاتے سینکڑوں پاکستانی مظاہرین جمع ہوئے اور پولیس تشدد کے خلاف بھرپور خبریں، تصویریں اور ویڈیوز برطانیہ ، پاکستان اور دنیا بھر میں پھیلا دی گئیں۔ مظاہرین میں شامل ایک پاکستانی کا کہنا تھا کہ “اب ہم پولیس کی سفاکی مزید برداشت نہیں کریں گے۔ ہم پولیس پر بھروسہ کرتے ہیں مگر اس کے بدلے میں وہ ہم پر تشدد کرتے ہیں۔ پولیس کی وردی میں یہ دراصل غنڈے ہیں”۔مانچسٹر گریٹر پولیس نے افسوسناک واقعہ کا سخت نوٹس لے کر اس پولیس اہلکار کو معطل کر دیا جس کی ویڈیو ایئر پورٹ پر بنائی گئی تھیں۔ پاکستان، برطانیہ سمیت پوری دنیا میں پھیلے ہوئے پاکستانی پولیس کاموقف سننے پر آمادہ نہ تھے اور پولیس کے خلاف احتجاج بڑھتا گیا۔ پاکستانی مظاہرین اس وقت شدید شرمندہ ہوئے جب مانچسٹر ائیر پورٹ واقعہ کا دوسرا رخ سامنے آگیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ پہلے دو کشمیری نوجوان بھائیوں نے تین افسران پر پرتشدد حملہ کیا اور انھیں گھونسے مارے گئے۔ چونکہ یہ پولیس افسران مسلح تھے لہذا ان سے اسلحہ چھینے جانے کا واضح خطرہ موجود تھا۔ پولیس ترجمان کے مطابق تین پولیس اہلکاروں کو علاج کے لیے ہسپتال لے جایا گیا جن میں ایک خاتون افسر کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی ۔اس دوران یہ خبر بھی سامنے آگئی کہ راچڈیل پولیس سٹیشن کے سامنے جو مظاہرہ کیا گیا اس میں ایک ایسا نقاب پوش نوجوان بھی شامل تھا جو مانچسٹر ائیر پورٹ میں پولیس اہلکاروں پر حملہ میں مطلوب تھا۔ پولیس کی جانب سے ثبوت پیش ہونے کے بعد پورے برطانیہ میں پاکستانی اور کشمیری مظاہرین کی مذمت مذمت ہونے لگی اور ان کے ساتھ ہمدری اور حمایت کے جذبات سرد ہو گئے۔ دوسرے واقعہ میں۲۹ جولائی کو برطانیہ کی ریاست ویلز میں افریقی ملک روانڈا کے ایک 17 سالہ لڑکے نے ساؤتھ پورٹ کے علاقہ میں ٹیلر سوئفٹ تھیم میں سمر ہالیڈے کیمپ میں تین کمسن لڑکیوں کو قتل کر دیا۔ دنیا بھر میں انٹر نیٹ کے ذریعے یہ جھوٹی خبر پھلادی گئ کہ قاتل ایک پاکستانی اور مسلمان ہے۔ جھوٹی خبر کے بعد برطانیہ میں سفید فام انتہا پسند تنظیم انگلش ڈیفنس لیگ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل پڑی اور تارکین وطن پاکستانی مسلمانوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا، سڑکوں پر جو بھی شکل سے مسلمان نظر آتے ان پر حملے ہونے لگے، لوٹ مار، جلائو گھیرائو کے دوران پاکستانیوں کی دکانوں اور مساجد پر حملے کئے گئے، سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کو جلا دیا گیا، ایک ہوٹل جہاں غیر ملکی پناہ گزین موجود تھے وہاں حملہ کردیا گیا۔برطانیہ میں قانون ہے کہ 18 سال سے کم عمر مشتبہ ملزموں کا نام اور تصویر کو ظاہر نہیں کیا جاتا، لیکن ججوں نے غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے، تین بچیوں کے قاتل کی شناخت کو ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا اور انکشاف کیا گیا کہ ملزم 17 سالہ ایکسل روداکوبانا اور وہ عیسائی ہے۔وہ برطانوی شہری ہے ،اس کے والدین روانڈا سے برطانیہ آئے تھے۔تین بچیوں کا قاتل روڈاکوبانا، 2006 میں کارڈف میں پیدا ہوا،اس کے والدین کا مقامی چرچ میں بہت زیادہ حصہ اور تعلق تھا۔اس دوسرے واقعہ کے حقائق سامنے آنے کے بعد فسادات کی آگ سرد ہو گئی۔برطانیہ کی حکومت اور پولیس کی تعریف کرنی چاہئے جنھوں نے فسادیوں کے خلاف سخت اقدامات کئے، انھیں موقع پر گرفتار کیا، گھروں میں چھاپے مارے گئے اور عدالتوں میں پیش کرکے فوری سزائیں سنائی گئیں۔تین ہفتوں بعد ہنگامے کرنے والے مسلمان اور سفید فارم شدت پسند دونوں روپوش ہو گئے ۔ تاہم مانچسٹر اور ویلز کے واقعات کے بعد مسلمانوں اور سفید فارم باشندوں کے درمیان انتشارکااثربرسوں رہے گا۔ برطانیہ کی عدالتوں اور نظام انصاف کو سلام ہے کہ مانچسٹر ائیر پورٹ پر پولیس پر تشدد کرنے والے دونوں بھائیوں کو ضمانت پر چھوڑ دیا گیا تاوقیتکہ اس واقعہ کی مکمل تحقیقات نہیں ہوتی جبکہ ویلز واقعہ کے بعد جلائو گھیرائو کرنے والوں کی ابھی تک گرفتاریاں اور انھیں سزائیں دی جارہی ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ برطانیہ میں رنگ، قوم، مذہب، نسل اور جنس کی بنیاد پر کسی سے کوئی رعایت نہیں ہوتی۔برطانوی اداروں کی تفتیش کے بعد یہ انکشافات بھی ہوئے ہیں کہ ویلز واقعہ میں پاکستان اور اسلام کو ملوث کرنے میں امریکہ، روس، پاکستان میں انٹر نیٹ نیوز سائٹ اور سوشل میڈیا کے کاروندوں کا ہاتھ تھا، جس سے برطانیہ میں اسلام فوبیا کی وبا پھیل گئی۔ ٹویٹر اور ایکس کے مالک ایلن مسک کانام بھی سامنے آیا ہے جنھوں نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ “برطانیہ میں خانہ جنگی ناگزیر ہے” مسک نے وزیر اعظم کئیر سٹارمر کو”منافق” کہا، گرفتار کیے جانے والے ایک شخص کی ویڈیو بھی شیئر کی، جس میں پوچھا: “یہ برطانیہ ہے یا سوویت یونین؟”انہوں نے کہا کہ پولیس کا ردعمل “یک طرفہ لگتا ہے۔تحقیقات کے بعد یورپ میں بیٹھے ہوئے سفید انتہا پسندٹومی رابنسن کانام بھی سامنے آیا ہے جس پر الزام ہے کہ لوٹن میں پیدا ہونے والے اس شخص جس کا اصلی نام اسٹیفن یاکسلےلینن ہے اس نےآئرش پاسپورٹ حاصل کیا، جس پر وہ بیرون ملک سے فسادات بھڑکاتا رہا۔ انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیرون ملک میں آن لائن منتقل کے ذریعے اس کی آواز پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔ٹومی رابنسن ہائی کورٹ میں اپنے خلاف مقدمہ چلنے سے قبل برطانیہ سے فرار ہو گیا ہے۔ انتہائی افسوس ہے کہ برطانیہ میں تین نوجوان لڑکیوں کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر جھوٹی خبر سے برطانیہ میں بدترین فسادات اور ہنگامہ آرائی پھیلانے میں ملوث پاکستانی شہری فرحان آصف کو بھی لاہور میں گرفتار کیا گیا لاہور پولیس نے آئی ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک تصویر کو استعمال کرتے ہوئے فیس ٹریس ٹیکنالوجی کے ذریعے ملزم کا پتہ لگایا اور اسے گرفتار کر کے ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ فرحان نے 29 جولائی کو ساؤتھ پورٹ میں تین لڑکیوں کو چاقو کے وار سے قتل کے دن، اس عنوان کے ساتھ ایک مضمون پوسٹ کیا: ’’17 سالہ علی الشکاتی کو انگلینڈ کے ساؤتھ پورٹ میں چاقو مارنے کے واقعے کے سلسلے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘ اس خبر میں تین بچیوں کے قتل میں ملوث ایک مسلمان پناہ گزین کی گرفتاری کا جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا۔ یہ خبر سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کی گئی جس کے نتیجے میں برطانیہ میں ہنگامے اور فسادات پھوٹ پڑے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ فرحان 31سالہ کمپیوٹر سائنس گریجویٹ ہے۔ وہ ایک ویب ڈویلپر ہے اور چینل تھری نائو ویب سائٹ چلاتا ہے۔ ملزم کا صحافت کا کوئی پس منظر نہیں بلکہ ملزم مغربی ممالک سے سنسنی خیز خبروں کو جمع کرکے خبریں چلاتا تھا اور یہ اس کیلئے کمائی کا ایک ذریعہ تھا کیونکہ امیر ممالک کی کلک ہٹس سے زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ وہ کبھی برطانیہ نہیں گیا۔ صرف ایک بار عمرے کیلئے سعودی عرب گیا۔ سنسنی خیز خبروں کی ویب سائٹ سے سے اسے ماہانہ تین سے چار لاکھ روپے ملتے ہیں۔برطانوی سراغ رساں ایجنسی روسی ڈیسک کے سابق سربراہ نے یہ انکشاف بھی کیا کہ فسادات میں روس میں کام کرنے والے آن لائن ادارے بھی شامل تھے اور غلط خبریں روس سے منسلک ویب سائٹ سے آئی تھیں۔ان تمام حقائق کے بعدبرطانیہ میں مسلمان پاکستان کو ہوشیار باش رہنے کی ضرورت ہے، انھیں انٹرنیٹ کے ذریعے جھوٹی خبروں اور پوسٹوں کو شیئر کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے،انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں وہ پیدا ہوئے لیکن برطانیہ ان کا گھر ہے، یہاں ان کی جان، مال اور عزت محفوظ ہے، انھیں برٹش معاشرے سے الگ تھلگ رہنے کے بجائے اس میں گھل مل کر رہنے کی ضرورت ہے اور “سب سے پہلے انگلستان” کا عہد کرنا چاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں