187

پاپولسٹ لیڈر اقوام کو کیسے برباد کرتا ہے ؟


روایتی سیاست سے ہٹ کر ایک پاپولسٹ سیاسی لیڈر قوموں کی اخلاقی روایات سمیت مجموعی بربادی کا کس طرح سبب بنتا ہے، اس روش پرعمیق نگاہی کی اشد ضرورت ہے۔ “پاپولزم” سیاست کا ایک ایسا نقطہ نظر ہے جو عوام کو اشرافیہ کے مخالف سمجھتا ہے اور اسے اکثر اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک نظریے کے طور پر، یہ بائیں اور دائیں کی مخصوص تقسیم سے بالاتر ہے اور حق رائے دہی اور بے حسی کے عروج کے ساتھ پاکستان، امریکہ اور دیگر کئی ملکوں میں زیادہ عام ہو چکا ہے۔ پاپولس لیڈر (Populist Leader) ایک ایسا سیاسی رہنما ہوتا ہے جو عوامی جذبات، خواہشات اور خدشات کو براہِ راست مخاطب کرتا ہے، اکثر ایک سادہ اور جذباتی انداز میں یہ رہنما عموماً خود کو عوام کا حقیقی نمائندہ اور روایتی سیاسی اشرافیہ یا اسٹیبلشمینٹ کے خلاف کھڑا دکھاتا ہے۔ایسے پاپولسٹ لیڈر کی خصوصیات کچھ یوں ہوتی ہیں، مثلاً،
1۔ ایسا شخص عوامی زبان اور بیانیہ عام فہم اور جذباتی زبان استعمال کرتا ہے تاکہ عوام سے براہِ راست جُڑ سکے۔
2۔ سیاست دانوں، بیورو کریسی یا کاروباری طبقے کو عوام کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
3۔ عوام میں قومی یا گروہی اور نرگسیت کے جذبات اُبھارتا ہے، قوم پرستی، مذہبی ٹچ یا کسی خاص نظریے کو بنیاد بنا کر عوام کو اپنی شخصیت کے ساتھ متحد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
4۔ جاری نظام پر شدید تنقید کرتا ہے اور خود کو عوام کے حقیقی نمائندے کے طور پر پیش کرتا ہے۔
5۔ پیچیدہ مسائل کے لیے سادہ اور فوری حل تجویز کرتا ہے، چاہے وہ عملی طور پر ممکن نہ ہوں بلکہ ناممکنات میں سے ہوں۔
اب اگر پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے شروع کریں تو پاکستان کی تاریخ میں کئی پاپولسٹ لیڈرگزرے ہیں جو اپنی عوامی حمایت،کرشماتی شخصیت اور سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے نمایاں رہے جن میں پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح عوام میں بے حد مقبول، خاص طور پر مسلم لیگ کے حامیوں میں اور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک کے قیام کے باعث تاریخی شخصیت تھے لیکن اُس وقت وہ تقسیم ہند کے ذمہ دار بھی ٹھہرائے گئے تھے، اسی طرح شیخ مجیب الرحمن بنگالیوں کے مقبول ترین لیڈر تھے لیکن تقسیم پاکستان کے ذمہ دار بھی تھے ، ذوالفقار علی بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی
1970 کی دہائی میں عوام میں بے حد مقبول لیڈر روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر مغربی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر جنہوں نے 1973 کا آئین دیا اور نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی، لیکن عوامی حمایت کے باوجود انہیں 1979 میں پھانسی دے دی گئی۔ اصل میں محترمہ بینظیر بھٹو اور محمد نواز شریف بھی اپنے ابتدائی ادوار میں پاپولسٹ لیڈر تھے لیکن عمران خان جو کرکٹر سے سیاستدان بنے اور اپنے پیشروؤں کی طرح ہی اسٹیبلشمینٹ کی چھتر چھایہ تلے اور ووٹ کی طاقت کے بجائے “آر ٹی ایس“ سسٹم بٹھائے جانے کی وجہ سے 2018 میں وزیراعظم بنا دئیے گئے اور چند نئے نعروں “نیا پاکستان” “تبدیلی” اور اینٹی کرپشن بیانیہ بنا یا پھیلا کر خصوصا نوجوانوں میں مقبولیت حاصل کی۔ زکر کئے گئے یہ تمام لیڈر مختلف ادوار میں عوام میں بے حد مقبول رہے ہیں اور ان کے حامی آج بھی موجود ہیں۔ لیکن پاکستان کے مندرجہ بالا سیاسی لیڈروں کی بہ نسبت عمران خان کی سیاست اور پاپولزم کے ناقدین سمجھتے ہیں کہ اس نے پاکستان کی سیاست اور اخلاقی اقدار کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ برباد کر کے رکھ دیا اور تقسیمی سیاست کی ہے جبکہ دوسرے سیاسی لیڈر ان سے مختلف یوں ہیں کہ اُنہوں نے اپنے اپنے منشور کی تقسیمی سیاست کی لیکن عمران خان کی سیاست نے ملک میں مجموعی طور پر معاشرتی، اخلاقی اور روایتی طور پر سخت تقسیم پیدا کی اور مہین یا واجبی ہی سہی لیکن آپسی رواداری کے Crust کو ادھیڑ کر قوم میں ایسی تقسیم پیدا کی جس نے جانی دُشمنی کا روپ دھار لیا جہاں ان کے حامی اور مخالفین ایکدوسرے کیساتھ شدت پسندانہ رویہ اختیار کرنے لگے، اُنہوں نے ملکی سیاست میں ایک نئی طَرَح یہ ڈالی ہر ملکی ادارہ میری منشا کے مطابق فیصلہ کرے یا چلے ورنہ میں ملک میں اصولوں کی بجائے انتشاری سیاست کروں گا۔ ان کے پولیس ، عدلیہ، فوج، اور الیکشن کمیشن جیسے اداروں پر مسلسل الزامات نے ریاستی اداروں کی غیرجانبداری پر سوالات کھڑے کیے، ان کے دور حکومت میں اپوزیشن پر سخت دباؤ ڈالا گیا، اور جب وہ خود اپوزیشن میں آئے تو حکومت کو چلنے نہیں دیا، اس سے سیاسی عدم استحکام مزید بڑھا، ان کے انداز گفتگو اور گالم گلوچ اور سیاسی زبان اور رویوں اور سیاسی مخالفین کے خلاف سخت زبان اور طنزیہ خطابات نے پاکستانی سیاست میں تلخی کے ریکارڈ قائم کئے۔ عمران خان کی سیاست نے سوشل میڈیا کو عزتیں اچھالنے، بے معنی کے الزامات لگانے کا ایک جنگی میدان بنا دیا، جہاں نفرت انگیز مہمات عام ہو گئیں اُنہوں نے کرپشن اور اقربا پروری تو اپنے پیش روؤں کی طرح ہی کی بلکہ ماضی کے تمام ریکارڈ بھی توڑ دئیے لیکن عوام کو ایسے خواب دکھائے جو زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے تھے، جس سے مایوسی میں اضافہ ہوا۔
عمران خان کی طرح دُنیا کی تاریخ میں کئی پاپولسٹ لیڈر ایسے گزرے ہیں جنہوں نے ابتدا میں عوامی حمایت حاصل کی، لیکن بعد میں ان کی پالیسیوں یا طرزِ حکمرانی نے ان کے ملک اور عوام کو شدید نقصان پہنچایا۔ چند نمایاں مثالیں یوں ہیں۔ جرمنی کا ایڈولف ہٹلر جس نے 1930 کی دہائی میں شدید معاشی بدحالی اور قومی ذلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوامی مقبولیت حاصل کی، اس نے نازی نظریات کے تحت آمرانہ حکومت قائم کی، دوسری جنگ عظیم شروع کی، اور ہولوکاسٹ کے ذریعے لاکھوں بےگناہ افراد کا قتل کیا۔نتیجتاً، جرمنی مکمل تباہی کا شکار ہوا اور لاکھوں شہری مارے گئے۔ اٹلی کے بینٹو مسولینی نے فاشزم کو فروغ دے کر عوامی مقبولیت حاصل کی اور اٹلی کو جنگ میں جھونک دیا، اس کی پالیسیوں نے ملک کو بدترین معاشی و عسکری نقصان پہنچایا، اور بالآخر اسے خود اپنے عوام نے پھانسی دے دی۔ رومانیہ کا نکولائی چاؤشسکو نے لوگوں سے عوامی بہبود کے وعدے کیے، مگر بدترین معاشی بحران پیدا کر دیا اس کی جابرانہ پالیسیوں کے باعث عوام میں بےچینی پھیلی، جس کا نتیجہ ایک خونی انقلاب کی صورت میں نکلا، اور اسے 1989 میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہوگو شاویز نے وینزویلا میں سوشلسٹ پالیسیوں کے ذریعے ابتدا میں غریب عوام میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی، لیکن معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔اس کی پالیسیوں کے سبب وینزویلا کو بدترین اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا، جو آج تک جاری ہے۔ زمبابوے کے روبرٹ موگابے نے آزادی کے بعدعوام میں ہیرو کا درجہ حاصل کیا، لیکن بعد میں کرپشن، جابرانہ حکمرانی اور ناکام معاشی پالیسیوں کے باعث ملک بدترین معاشی بحران میں مبتلا ہو گیا، اس کے دور میں زمبابوے کی کرنسی کی قدر صفر تک گر گئی اور ملک قحط و بےروزگاری کا شکار ہو گیا۔ پول پاٹ نے کمبوڈیا میں کمیونسٹ نظریات کے تحت “خالص معاشرہ” بنانے کی کوشش میں تقریباً 20 لاکھ افراد (ملک کی آبادی کا ایک چوتھائی) قتل کر دیے، اس کی حکومت کے دوران کمبوڈیا تاریخ کے بدترین قتلِ عام اور جبر کا شکار رہا۔ یہ تمام لیڈر اپنے دور میں عوامی مقبولیت رکھتے تھے، لیکن ان کی پالیسیاں اور آمرانہ طرزِ حکمرانی نے بالآخر ان کے اپنے ملک اور عوام کے لیے تباہی ثابت کی۔
اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی دونوں کو پاپولسٹ لیڈر کہا جا سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے عوامی جذبات سے کھیل اور خوشنما نعروں سے ابھار کر ایک بینیا بنایا اور اقتدار حاصل کیا لیکن سیاست میں ایک غیر روایتی سیاسی اور غیر سفارتی انداز اپنایا تاہم، ان کی پالیسیوں کے اثرات مختلف منفی طریقوں سے ان کے ممالک پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور میں بھی “امریکہ فرسٹ” کے نعرے کے ساتھ ایک قوم پرست اور پاپولسٹ ایجنڈا اپنایا، ان کی پالیسیوں نے امریکہ کو اندرونی طور پر تقسیم کر دیا، خاص طور سے عالمی سطح پر نسل پرستی، امیگریشن، اور میڈیا کے خلاف بیانیے کی وجہ سے۔ انہوں نے نیٹو اور اقوام متحدہ جیسے اداروں کے خلاف سخت رویہ اپنایا، جس سے امریکہ کی روایتی سفارتی طاقت متاثر ہوئی۔ معاشی طور پر، انہوں نے ٹیکسوں میں کمی کی، جو بظاہر معیشت کے لیے مثبت تھا، لیکن قرض میں اضافے کا سبب بنا ان کے دور میں امریکہ میں سیاسی عدم استحکام بڑھا، خاص طور پر 2020 کے انتخابات کے بعد کی صورتِ حال اور 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر حملے نے امریکی جمہوریت کو ہلا کر رکھ دیا۔ولادیمیر زیلینسکی ایک سابقہ اداکار اور کامیڈین ہیں، جو عوام میں اپنی سادگی اور کرپشن مخالف موقف کی وجہ سے مقبول ہوئے ان کے دور میں یوکرین کو روس کے ساتھ ایک بڑے تنازع کا سامنا کرنا پڑا، جو 2022 میں مکمل جنگ میں تبدیل ہو گیا، اگرچہ جنگ میں زیلینسکی کی قیادت کو مغربی دُنیا میں اپنے مفادات کی وجہ سے سراہا گیا، لیکن بعض ناقدین کا ماننا ہے کہ ان کی مغرب جھکاؤ پالیسیوں اور سفارت کاری میں کمی نے جنگ کو مزید طول دیا۔ آج یوکرین کی معیشت تباہ ہو چکی ہے، لاکھوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں ہی بےگھر ہو چکے ہیں، ملک مغربی امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔
کچھ حلقوں میں یہ بھی خدشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ میڈیا اور اپوزیشن پر دباؤ ڈال کر جمہوری اقدار کو کمزور کر رہے۔ چنانچہ یہ کہنا کہ وہ براہِ راست اپنے ممالک کو تباہ کر رہے ہیں، ایک سخت مؤقف ہو سکتا ہے، لیکن ان کی پالیسیاں بلاشبہ بڑے خطرات پیدا کر رہی ہیں ٹرمپ کے دور میں امریکہ میں سیاسی تقسیم اور اداروں پر اعتماد کمزور ہوا، اور اب وہ دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں تو مزید عدم استحکام کا خدشہ موجود ہے، اُن کی روز مرہ کی گفتگو اور پالیسیاں و استعماری رویہ بھی امریکی عوام کی اخلاقی گراوٹ کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ امریکہ کا روایتی جمہوری یا سلجھے ہوئے معاشرے کا امیج بھی تباہ کر رہا ہے۔ اب ان دونوں لیڈروں کی قیادت کے مُضر اثرات آنے والے سالوں میں مزید واضح ہوں گے، لیکن ابھی تک ان کی پالیسیاں متنازع اور بعض عالمی حلقوں کے نزدیک خطرناک سمجھی جا رہی ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ اللہ اللہ کر کے عمران خان کے پاپولزم امیج کی خولناکی سے بڑی حد تک مَفَر حاصل تو کر لیا ہے لیکن یَقیناً اُن کے بیاناتی بھونچال کے آفٹر شاکس ابھی باقی ہیں !!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں