59

سورۃ البقرہ کی آیت213کی تفسیر


ٍ سارے لوگ ایک ہی اُمت تھے پھر مبعوث فرمایا اللہ نے انبیاء کو خوشخبری سنانے والے اور عواقب امور سے آگاہ کرنے والے اور نازل کیا اُن کے ساتھ کتاب کو سچ ہی سچ تا کہ وہ فیصلہ فرمایا کریں لوگوں کے درمیان اُس میں جس میں وہ اختلاف میں پڑ گئے اور کتاب میں کس نے اختلاف کرنا تھا سوائے اُن لوگوں کے جو کتاب دئے گئے اس کے بعد کہ اُن کے پاس روشن تعلیمات آئیں اصل میں تو ان کی آپس میں ہٹ دھرمیاں تھیں پھر ہدایت فرمادی اللہ نے ایمان والوں کو حق کی اپنے خاص اذن سے ان اُمور میں جن میں دوسرے اختلاف کر رہے تھے اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔
قرآن حکیم کی یہ آیت انتہائی اہم مسائل سے پردہ کشائی کرتی ہے اور انسانی تاریخ کے ان تمام ادوار کو متعین کرتی ہے جن میں سے کاروان انسانیت دھیرے دھیرے گذرا اور جس حال میں آج
انسانی معاشرہ قائم ہے اس کی بنیادوں کی حقیقت بھی بتاتی ہے ۔ قرآن مجید کی زیر تعبیر آیت پورے اعتماد ، وثوق اور وسعت نگاری سے یہ اعلان کرتی ہے کہ تمام انسان امت واحدہ تھے۔
پہلے یہ سمجھ لیا جائے اُمت سے مراد کیا ہوتی ہے؟
علامہ راغب اصفہانی المفردات میں لکھتے ہیں (330)
لفظ اُمت عربی لغت کے اعتبار سے ہر ایسی جماعت کو کہتے ہیں جس میں کسی وجہ سے رابطہ، اتحاد اور وحدت ہو، خواہ یہ وحدت نظریات اور اعتقادات کی ہو یا زمانی ہلکی نسبی، لسانی جہت سے ہو۔ قرآن مجید اعلان کرتا ہے کہ انسانی معاشرہ اپنے آغاز میں وحدت کی لڑی میں پر دیا ہوا تھا۔ قرآن مجید کے مطابق جب انسانی تاریخ آدم سے شروع ہوئی تو یہ بات طے پا گئی وحدت کسی اور جہت سے نہیں تھی عقیدہ اور اطاعت کی جہت سے تھی اسی لئے انسانوں کے اس معاشرہ کو امت سے تعبیر کیا گیا۔

معالم التنزیل میں ہے (331):
پہلے تمام لوگ ایک ہی دین پر تھے۔ آدم کے زمانے سے نوح کے دور تک سب لوگ ایک دین اور ایک ہی شریعت کے پیرو تھے پھر ان میں اختلاف ہوا اور رسم ورواج کے تخیلات اور تو ہمات نے تفریق ڈالی۔ اللہ نے حضرت نوح کو مبعوث کیا۔ آپ نے آوارہ معاشرہ ر اور است پر لانے کے لئے ساڑھے نو سو برس تبلیغ فرمائی لیکن یہ لوگ ہدایت نہ پاسکے، چند نفوس قدیر حق سے وابستہ رہے پھر انبیاء کی بعثت عامہ شروع ہوئی مبشرین اور منڈرین آئے تا کہ لوگوں کو عقیدہ کی بنیاد پر صراط مستقیم پر گامزن کیا جائے۔
قرآن مجید انسانی معاشرے کی اسی تاریخ کو ایک دوسری آیت میں پوری وضاحت کے ساتھ بے نقاب کرتا ہے (332):
اور نہیں تھے لوگ مگر ایک ہی اُمت بعد میں وہ بٹ گئے اور اگر تیرے رب کی طرف سے ایک بات ہو نہ گئی ہوتی تو ان باتوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں”۔
سورۃ انبیاء میں ارشاد فرمایا (333):
” بے شک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے اور میں تمہارا رب ہوں تو میری ہی عبادت کرو”۔
اس حقیقت کو سورہ مومنون میں بھی بیان فرمایا لیکن آخر میں “فَاعْبُدُونِ” کی بجائے ” فَاتَّقُونِ ” فرمایا (334)
یہ وحدت کب قائم تھی
علامہ قرطبی نے حضرت ابی ابن کعب اور ابن زید رضی اللہ عنہما کے حوالے سے لکھا کہ یہ واقعہ عالم ارواح کا ہے جب تمام روحوں کو پیدا کرنے کے بعد اللہ نے اُن سے پوچھا تھا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے بغیر تردد کے جواب دیا “بلی” آپ ہمارے رب اور پرودگار ہیں (335)۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق جب آدم علیہ السلام اپنی زوجہ محترمہ حوا کے ساتھ زمین پر تشریف لائے اور آپ کی اولاد ہوئی اور چھیلتی گئی وہ سب آدم علیہ السلام کے عقیدہ اور دین پر قائم تھے معاشرتی انحراف بعد میں پیدا ہوا۔
علامہ بغوی نے لکھا کہ یہ اتحاد آدم علیہ السلام سے ادر یس علیہ السلام کے زمانے تک قائم رہا۔ رہا یہ سوال کہ قرآن نے وحدت کا تو کہا لیکن یہ نہ بتایا کہ اختلافات کب شروع ہوئے، کس نے کئے اور کیوں کئے؟ اس پر صرف اتنا ذہن میں رہے کہ تاریخ تعمیر کی ہوتی ہے تخریب کی نہیں ہوتی ۔ قرآن سہارا عدل و انصاف کا پرچم قائم کرنے کے لئے دیتا ہے۔ قرآن مجید کو دوزخیوں کی مردم شماری کی ضرورت نہیں وہ مبشرین اور مندرین کی تاریخ کو محفوظ کر کے دیتا ہے (336)۔
رحمت کے بادل
یہ ضروری تھا کہ آبادیاں بڑھیں، انسانی زندگی رو بہ ترقی ہو اور انسان اپنے ارتقاء اور تکامل کے لئے سوچیں۔ ایسے نہ ہو سکتا تھا کہ انسان سوچیں بھی اور ان میں اختلاف واقع نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لئے انبیاء اور مرسلین مبعوث فرمائے اور ان کے ساتھ کتابیں رکھیں تا کہ تعمیری اختلافات سے اہمیت اور صلاحیت نکھاری جائے اور تخریبات کو مٹادیا جائے ۔ آیت کا آخری حصہ بتاتا ہے کہ اللہ نے ہر حسن اور کمال کو کتابوں اور رسولوں سے جوڑ دیا ہے اصل چیز سیدھے راستے کی ہدایت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں