ٌ ” کیا تم خیال کرتے ہو کہ جنت میں یونہی داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تمہیں وہ کچھ پیش نہیں آیا جیسا کہ تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو پیش آیا تھا، پہنچی اُن کو تنگدستی اور طرح طرح کی تکلیفیں اور انہیں ہلا کر رکھ دیا گیا یہاں تک کہ عرض کرنے لگے رسول اور ان کے ساتھی جو ایمان لائے تھے جانے کون سا وقت ہوگا کہ نصرت الہی یاوری فرمائے گی سن رکھو کہ اللہ کی مدد یقیناً قریب ہوتی ہے”۔
اس سے پہلی آیت میں معاشرے کی تطہیر اور تہذیب کے قطعی اصول اور شرائع بتا دئے گئے ۔ اب افراد اُمت کو جدوجہد اور سعی و کاوش کا مقام بتایا جارہا ہے اور حق کے راستے میں جو شدائد و مشکلات اور سختیاں اور تکالیف حوصلہ شکنی کے لئے سینہ تان کر کھڑی ہو جاتی ہیں مسلم اور مومن جماعت کو بتایا جارہا ہے کہ جنت کا راستہ حریر و پرنیاں سے گزر کر نہیں جاتا بلکہ اس راہ میں کوہ کنی ، خارا شگافی اور جاں گذاری کی رسم بھی ادا کرنی پڑتی ہے اور پیش آنے والی مشکلات کو ہمت سے برداشت کرنا پڑتا ہے گویا یہ خدائی اعلان ہے کہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں علم حق میں پکڑا تا ہوں اور اسلامی نظام کا بیج بونے کا انہیں ذمہ دار ٹھہراتا ہوں انہیں میں پہلے مصائب کی بھٹی میں ڈالتا ہوں تا کہ ان کی تربیت صحیح مخطوط پر ہو جائے یہ میری تاریخی سنت ہے ۔ قرآن پڑھنے والے اسلاف کی تاریخ پڑھ لیں ، ان کے حوال جان لیں ، ان کے ماضی سے سبق سیکھ لیں ، ان کا نمونہ دیکھے بغیر جولانگہ عشق میں قدم نہ رکھیں۔ ندا کاری کا جذ بہ اپنے بزرگوں سے سیکھ کر باطل کو للکار ہیں۔ اس بات کو پلے باندھ لو بو بکر کی اللہ اکبر کفر کے ایوانوں پر کپکپی طاری کر سکتی ہے۔ عمر کا عشق رسالت بت کدوں کو مسمار کر سکتا ہے ۔ عثمان کی شان طاعت وفا کی تعریف تلقین کر سکتی ہے۔ علی کی شجاعت علم اور حکمت حق کا پرچم پکڑنے والوں کے ہاتھوں میں طاقت اور قوت کا شعلہ برق بن کر ظاہر ہو سکتی ہے۔ مسلمان امت کا الَّذِيْنَ خَلَوا‘ میں بہت کچھ رکھ دیا گیا۔ یہ ٹھیک ہے جنت حضور ملیشیا کیہ نام کے غلاموں کے لئے آپ مالی نے یہ نام کے قدموں اور تلووں کا دھوون ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے بلال کی اذانیں بھی سنی پڑتیں ہیں اور انہیں تپتی ریت کی سلوں پر اور انگاروں پر احد احد کہتے بھی سنا پڑتا ہے ۔ آیت کا درس عظیم مؤثر درس ہے اور جس تجربے سے آیت دو چار کرتی ہے وہ خوفناک بھی ہے اور عبرت ناک بھی ہے ۔ ضرورت تو طرز فکر کے صحیح کرنے کی ہے کہ ہمیں مسلمان ہو کر کیسی زندگی کی بنیاد رکھنی چاہئے؟
یہ بات درست ہے کہ سب سے زیادہ سخت بلائیں اور مشکلات انبیاء علیہم السلام کو پہنچتی ہیں ۔ ان کے بعد جو ان کے قریب ترین ہیں انہیں مصیبتیں اُٹھانی پڑتی ہیں لیکن اس بات کو فراموش نہ کیا جائے کہ اللہ پر ایمان اور اعتماد کی روشنی ، اُس کی تقدیر پر یقین کی روشنی ، اُس سے اُمید اور رجا کی روشنی ، اُس کی مدد اور نوازش کی روشنی، ہر لحہ نبوت کے ساتھ مربوط رہتی ہے۔ نبی اور رسول جس وقت کہیں ” متى نصر الله ” اللہ کی مدد کہاں ہے؟ وہ کسی شک وشبہ کی وجہ سے نہیں کہتے ، ایسا تو ان کی شان اور وضع دعوت ہی کے خلاف ہے۔ ان کے سینے یقین و اعتماد سے بھرے ہوتے ہیں۔
وہ مفسر مظلوم ہیں جنہوں نے ایسے انداز میں آیت کی ترجمانی کی کہ رسول چیخ اُٹھے، نعوذ باللہ کیسے بھاری کلمات زبان اور قلم سے ادا کئے گئے۔ انبیاء کا کوئی کام اللہ کے اذن کے بغیر نہیں ہوتا۔ کاروان محبت پر جب شدائد کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہوں تو نظام معبودت کے سورج کی کرنیں کب پھوٹیں گی ۔ یہ شوق اور خواہش کی تکمیل کے لئے تڑپ ہو سکتی ہے شکوہ ہر گز ہر گز نہیں ہو سکتا۔ چھوٹا بڑے سے “متی” سے سوال عرض کرے تو وہ تمنا کا رنگ ہو سکتا ہے لیکن بد اعتمادی نہیں ہوسکتی ۔ موسیٰ اور خضر کا قرآنی واقعہ کیا سبق سکھاتا ہے۔ علم کا چاند رکھنے والا علم کے سورج رکھنے والے سے استفسار کر لے کہ فلاں کام کا وقت اور مقام کیا ہے تو اسے شوق اور لگن کا نام دیا جاسکتا ہے، وقوع کے لئے بے تابی اور بے قراری سے اس کی تعبیر ہو سکتی ہے لیکن بے یقینی اور بے اعتمادی سے نہیں تعبیر کیا جاسکتا ۔
”مَتیٰ نَصر الله “ میں تو ذمہ داری کے پورا کرنے کی تڑپ، وجود میں موجود روشنیوں کا رخ اپنے غلاموں کی طرف موڑنے کی تڑپ کو آیت خود ہی اپنے معانی کا گلدستہ قاری قرآن کے ہاتھ میں پکڑا دیتی ہے اور ایک ایک حرف قرآن کا اعلان کر دیتا ہے کہ اللہ کی مدد کسی لمحے اللہ کے بندوں سے دور نہیں ہوتی ، اس کے ظہور کا ایک وقت ہوتا ہے جب وہ وقت آپہنچتا ہے اللہ کی مددبھی آپہنچتی ہے۔
آیت کے شان نزول میں مفسرین نے تین اقوال نقل فرمائے ہیں:
جمہور مفسرین کے نزدیک یہ آیت غزوہ خندق کے دوران نازل ہوئی جب کہ مسلمانوں کو مشقت شدت گرمی، سردی، تلخ اور تکلیف دہ زندگی اور طرح طرح کے مصائب آپہنچے اور ان کی یہ کیفیت ہو گئی جیسا کہ ارشاد باری ہے اور کلیجے منہ کو آنے لگ گئے (سورۃ احزاب: 10 ) یہ روایت قتادہ اور سدی کی ہے (337)۔
بعض مفسرین نے کہا کہ یہ آیت غزوہ اُحد کے دوران اتری، اسے قرطبی نے قلم بند کیا (338)۔
ایک جماعت نے یہ بھی کہا کہ یہ آیت مہاجرین کو تسلی اور حوصلہ دینے کے لئے اُتری جب انہوں نے اپنے گھر اور اپنے اموال مشرکین کے ہاتھوں میں چھوڑ دئے۔ اُنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی خوشنودی کو ہر معاملہ میں ترجیح دی۔ یہودیوں نے عداوت ظاہر کی اور منافقین اموال کی محبت میں کچھ کرنے لگے تو اللہ نے یہ آیت نازل کی (339) والله اعلم
