151

سورۃ البقرہ کی آیت204کی تفسیر


’’اور لوگوں میں سے ایسا شخص بھی ہوگا جس کی گفتگو مجھے دنیوی زندگی میں بڑے تعجب میں ڈال دے گی اور وہ اللہ کو گواہ بناتا رہے گااُس پر جو اُس کے دل میں ہوگا حالانکہ وہ ڈھیٹ جھگڑالو ہو گا”۔
وہ کون تھا جس کی بات کی گئی
سدی کہتے ہیں (294) کہ یہ آیت اخنس بن شریق ثقفی کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہ شخص بدترین منافق تھا اور اس کی یہ کوشش رہتی کہ وہ تحریک اسلام کو نقصان پہنچا تا رہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضرت خبیب اور ان کے ساتھیوں کی برائیاں بیان کی تھیں جو رجمیع میں شہید کر دئے گئے تھے(295)
حضرت قتادہ کا قول ہے کہ آیت عام منافقین کے بارے میں نازل ہوئی۔ ابن کثیر نے اسی کو صحیح کہا ہے(296)۔
ابن کثیر نے حضرت نوف بکالی کا قول نقل کیا (297):
’’میں اس اُمت کے بعض لوگوں کی برائیاں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب میں پاتا ہوں۔ مرقوم ہے کہ بعض لوگ دین کے حیلے سے دنیا کماتے ہیں، ان کی زبانیں شہد سے زیادہ میٹھی ہیں لیکن دل ایلوے سے زیادہ کڑوے ہیں۔ یہ لوگ بکریوں کی کھالیں پہنتے ہیں لیکن دل ان کے بھیڑیوں جیسے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ مجھ پر جرات کرتے ہیں اور دھو کے بازیاں کرتے ہیں ۔ مجھے اپنی ذات کی قسم میں ان پر فتنہ بھیجوں گا کہ بردبار لوگ بھی حیران رہ جائیں گئے۔
ایک تفسیری قاعدہ
اصول تفسیر کا مسلم قاعده ہےکہ قرآنی تعبیرات کے متعین کرنے کے لئے لفظوں کے عموم کا اعتبار کیا جاتا ہے اسباب کے خاص ہونے کا اعتبار نہیں کیا جاتا ہے۔ اس نکتہ نظر سے آیت کا شانِ نزول کچھ بھی ہو ہر وہ شخص اس آیت کے حصار میں آجاتا ہے جس میں یہ نشانات پائے جاتے ہوں :
(1) وہ لوگ جو کردار میں دوغلا پن کا شکار ہوں
(2) وہ گفتار کے غازی ہوں اور کردار کی کمزوریوں کا شکار ہوں
(3) دوسروں کی کریم النفسی سے فائدہ اٹھا کر باتیں غلافوں میں چھپا چھپا کر کرتے ہوں
(4) جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنی حیثیت کو معتبر بنانے کی کوشش کرتے ہوں
(5) پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے کے باوجود اپنی اعلیٰ مقامی کا تاثر عام کرتے رہتے ہوں
(6) سیاست دانوں کی طرح خود کو دوسروں کا خیر خواہ ظاہر کرتے ہوں لیکن اندر سے کالے گھن کی طرح رہتے ہوں
(7) وہ جو ظاہر کرتے ہوں کہ وہ اسلام کے شیدائی ہیں لیکن حقیقت میں یہود و نصاری کےغلام ہوں
(8) ضدی اور ڈھیٹ ہونا ان کی عمومی نشانی ہو
(9) اسلام اور مسلمانوں کی عداوت میں وہ انگاروں کی طرح سلگتے ہوں
(10) شاعروں کی طرح دعوے محبت، عشق اور مستانے دیوانے ہونے کے کریں لیکن معصیت کے تاج محلوں میں رہنا ان کا عشق ہو
تلک عشرة کامله والله اعلم
اعجاب پر اصفہانی کا قول
اعجاب ہر اُس اچھے اور مستحسن عمل کو کہتے ہیں جس کا ظاہر بہت اچھا سمجھ آئے لیکن اس کی حقیقت یقین و اعتماد کو متزلزل کر دے۔ راغب اصفہانی کہتے ہیں : اعجاب اس حیرت کو کہتے ہیں جو انسان کو بوقت جہل کسی سبب سے عارض ہو۔ راغب کا کہنا ہے اعجاب کی حقیقت مجھے اس طرح معلوم ہوئی ہے لیکن اس کے ظہور کا سبب ابھی تک مجھے معلوم نہیں (298)۔
حضور ؐکے دور میں
امین اصلاحی لکھتے ہیں (299):
مدینہ کے منافقین میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا تھا یہ لوگ کھاتے پیتے ،سہل پسند، تن آسان اور چرب زبان تھے ، شکلیں اچھی ، لباس صاف ستھرے ، مجلسی آداب میں مشاق لیکن دل کے بودے اور عمل کے چور تھے۔ حضور صلی ایم کیو ایم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو اسلام کی حمایت میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے لیکن جب وہاں سے ہٹتے تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اسلام کی مخالفت کی راہ میں ہوتی ۔
دینی دعوت ،تحریک اسلام اور عظمت اسلام کی بحالی کے لئے رات دن کام کرنے والے کارکنان کولوگوں کی پہچان حاصل کرنی چاہئے کہ کون آج کہاں کھڑا ہے۔ قرآن کا مقصد تو یہی ہے کہ اسلام کے خادمین یکسو اور جانباز ہو جا ئیں ۔
ابونصر بقلی کا قول
ابونصر بقلی عرائس البیان میں لکھتے ہیں (300):
زیر تعبیر آیت میں مدعی اور واصل کی طرف اشارہ ہے۔ واصل تو وہ شخص ہے جو اللہ کی دست گری اور مدد سے کسی مقام تک پہنچ گیا۔ وہ جو بھی کہتا ہے اپنے علم کے موافق کہتا ہے اور مدعی وہ شخص ہے کہ بے ہودہ دعوے کرتا ہے۔ وہ جب اپنے طامات اور خلاف واقع مزخرفات بیان کرتا ہے تجھے اچھا لگتا ہے۔ تو سمجھتا ہے کہ یہ شخص بڑا پہنچا ہوا شخص ہے حالانکہ وہ کچھ نہیں ہوتا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں