پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا چیز وہ خرچ کریں فرما دیں آپ ” کہ جو مال بھی تم خرچ کرنا چاہو تو وہ حق ہے ماں باپ کا اور رشتہ داروں اور یتیموں اور تم جو سکینوں اور مسافروں کا اور بھی نیکی کرتے ہو تو یقینا اللہ اس کا خوب علم رکھنے والا ہوتا ہے۔
اس آیت سے پہلی آیات میں جو مضامین بیان ہوئے وہ یہ تھے:
(1) کفر اور نفاق کو چھوڑ دو
(2) اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ
(3) صلح اور آشتی کے نظام اور امن کی جستجو جاری رکھو
(4) اللہ کے حکم کو قطعی جانو
(5) جان اور مال اللہ کی مرضی پر کھپاؤ
(6) مصائب اور شدائد میں استقامت سے رہو
(7) اسلاف سے خود کو مر بوط رکھو
(8) تفرقہ بازی سے دور رہو
(9) وحدت امت کو اپنا روحانی مشن بنالو
(10) قانونِ الہی کے ذریعے فرقہ واریت کی بیخ کنی کرو
(11) سرکشی اور بغاوت باعث لعنت کام ہے اس سے باز رہو (12) ہدایت کا سرچشمہ انبیاء اور صالحین کو تصور کرو
(13) قرآن کے بغیر منزل میسر نہیں آسکتی اس لئے قرآن سے خود کو مربوط رکھو
(14) اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو
(15) ہٹ دھرمی اور ضد بُری عادات ہیں ان سے بچ کر رہو
اب اگلی آیات میں جہاد اور عائلی قوانین کے اصول و فروع بیان ہوں گے اور ان سب کی بنیاد انفاق فی سبیل اللہ ہے۔ جو شخص پیسہ خرچ نہیں کر سکتا وہ دنیا میں کوئی بھی با برکت ، وقار آفریں اور روحانی کام نہیں کر سکتا۔ روحانی خوش طبعی سے لطف مند ہوں: کہتے ہیں ایک اللہ والے سے ایک شخص ملنے گیا اور شکایت کی کہ میری بیوی اور بچے مجھ سے ناراض رہتے ہیں میں کیا کروں؟ انہوں نے فرمایا: اللہ کی رضا کے لئے پیسہ خرچ کر کے اللہ کو راضی کرلیں اور بال بچوں پر مال خرچ کر کے ان کے دل جیت لیں۔ کنجوس، مال پرست ، ہوس باز اور بخیل لوگوں کی نہ یہ دنیا پر سکون ہو سکتی ہے اور نہ اگلا جہاں راحت بخش ہو سکتا ہے۔ سخی آدمی بے گانوں کو بھی اپنا بنالیتا ہے اور کنجوس اپنوں کو بھی بے گانہ کر دیتا ہے۔
آیت کا شان نزول
ایک مرتبہ حضورؐنے صدقات اور مال خرچ کرنے کی ترغیب دلائی تو وہاں کے ایک رئیس نے آپؐسے پوچھا: ہم اپنے اموال میں سے کیا خرچ کریں اور کہاں خرچ کریں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اُس رئیس سائل کا نام عمرو بن جموح نقل کیا ہے (340)۔
آیت کی تعبیر میں قرطبی کی تعبیرات
پہلا مسئلہ علامہ قرطبی نے بھی شان نزول لکھتے ہوئے عمرو بن جموح کی روایت نقل کی (341)۔ دوسرا مسئلہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ اس آیت میں سوال کرنے والے مومنین ہیں اور معنی یہ ہے کہ کون سی وہ وجوہ ہیں جن میں وہ مال خرچ کر خرچ کرنا ہوا سے وہ کہاں رکھیں؟ سکتے ہیں اور جو مال سدی نے کہا یہ آیت زکوۃ فرض ہونے سے پہلے نازل ہوئی پھر حکم زکوۃ نے اسے منسوخ کر دیا۔
ابن عطیہ نے کہا یہ آیت فرض زکوۃ کے بارے میں ہے سدی کو وہم ہوا ہے۔
ابن جریح نے کہا یہ آیت مستحب صدقہ کے بارے میں ہے۔
انفاق فی سبیل فضیلتوں کا پہلا زینہ
یہ بات قطعی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو شخص دوسروں کا بھلا سوچتا ہے کا رزار حیات میں معاشرتی خوشیاں اور روحانی مسرتیں اُسی کا نصیب ہوتا ہے۔ اپنی ذات کے حصار میں رہنے والا شخص بھی دنیا کا ثمر بعض اوقات پالیتا ہے لیکن وہ خود کی طرح جو کماتا ہے وہ بھی لھاتی محدود اور عارضی ہوتاہے جب کہ وہ شخص جو اللہ کی رضا کی خاطر دوسروں کو خوش دیکھتا ہے اللہ کا دین اُٹھانے کے لئے مال خرچ کرتا ہے ، والدین کو خوش رکھتا ہے ، بال بچوں کی ڈیوٹی پوری کرتا ہے ، مسافر نواز بن کر جیتا ہے،
یقیموں اور مسکینوں کی دنیا کا محسن اور مشفق ہونے کا اعزاز پالیتا ہے۔
زندگی میں ضرور واچ (Watch) کریں کوئی لمحہ تقدیر ساز آپ کے قریب ہونا چاہتا ہے، فضیلتیں پہنے آپ کے قدم چومنا چاہتی ہیں ، نظر آپ کو والدین ، یتیم، مسکین اور مسافر آتے ہیں لیکن ان لوگوں کے ذریعے کوئی مخفی اور روحانی طاقت آپ کو آگے بڑھانا چاہتی ہے لیکن یہ فیصلہ آپ کے پاس ہوتا ہے اور کنجی آپ کی مٹھی میں ہوتی ہے یا آپ اپنا مال بنک بھیج دیں یا آپ اس کے ذریعے مذکورہ صدر لوگوں کی کفالت کر دیں ۔ عطا کرنے والا ، دینے والا اور تقسیم کرنے والا آپ کی جھولی بھر دے گا۔ قرآن کی یہ آیت آسمانوں پر نور کی رفتار سے چلانے والی برقی رو نہیں نوری سواری ہے دیکھے ! فائدہ کون اُٹھاتا ہے؟
