70

سورۃ البقرہ کی آیت217کی تفسیر

” آپ سے پوچھتے ہیں کہ حرمت والے مہینے میں قتال کیسا ہے؟ آپ فرمائیے ! اس میں لڑنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اس سے کفر کرنا اور مسجد حرام سے روکنا اور اُس کےبسنے
والوں کو وہاں سے نکال دینا تو اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑے گناہ ہیں اور فساد انگیزی تو قتل سے بھی بڑا گناہ ہے اور یہ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تمہیں پھیر دیں تمہارے دین سے اگر ان سے بن پڑے اور تم میں سے جو شخص بھی اپنے دین سے پھر جائے اور وہ کفر ہی کی حالت میں مرجائے تو ایسے ہی لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت ہر دو میں اکارت چلے گئے اور وہ دوزخ والے ہیں اور انہیں ہمیشہ اس میں رہنا ہے”۔
اس آیت کے شان نزول میں مفسرکبیر مفتی احمد یار خان بدایونی نے تمام اکا بر مفسرین کی روایات کی بڑی خوبصورت تخیص قلم بند کی ، ملاحظہ ہو (342):
ہجرت کے دوسرے سال جنگ بدر سے دو مہینہ پہلے حضور ؐنے اپنے پھوپھی زاد بھائی عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کو آٹھ مہاجرین کا سردار بنا کر کفار کی خبر لینے بھیجا اور انہیں ایک فرمان نامہ لکھ کر دیا اور فرمایا اسے ابھی نہ پڑھو دو دن کا راستہ طے کر کے کھول کر پڑھنا۔ حضرت عبداللہ نے ایسا ہی کیا جب دو دن کے بعد فرمان نامہ کھولا تو اس میں لکھا پایا کہ تم بطن مخلہ پہنچ کر قریش کے قافلے کی خبر لو اور اپنے ساتھ جانے پر کسی کو مجبور نہ کرو۔ حضرت نے یہ فرمان اپنے آٹھوں ساتھیوں کو سنایا وہ سب آپ کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ جب مقام قزع پہنچے تو حضرت سعد بن ابی وقاص اور عتبہ بن غزوان کا اونٹ گم ہو گیا جس کی تلاش میں یہ دونوں پیچھے رہ گئے، باقی چھ عکاشہ، ابو حذیفہ، سہیل، عامر ، واقد، خالد ابن بکیر آپ کے ساتھ روانہ ہو کر بطن نخلہ پہنچے جو مکہ مکرمہ اور طائف کی درمیانی منزل ہے ۔ یہ جمادی الثانی کی آخری تاریخیں تھیں ۔ کچھ عرصہ کے بعد قریش کا ایک قافلہ تجارتی سامان لے کر یہاں سے گذرا جس میں عمر و ابن حضرمی، حکم ابن کیسان اور نوفل ابن عبداللہ تھے۔ یہ لوگ عبداللہ کے قافلے کو دیکھ کر ڈر گئے۔ عبداللہ بن جحش نے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ آج جمادی الثانی کی آخری تاریخ ہے اگر ابھی ان پر حملہ نہ کیا تو آج شام کو رجب کا چاند ہو جائے گا پھر جنگ حرام ہو جائے گی چنانچہ انہوں نے تجارتی کارواں پر حملہ کر دیا اور ابن حضر می کو قتل کر دیا اور دو کو گرفتار کر کے مال غنیمت کے ساتھ حضور ؐکی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ خدا کی شان حملے کے دن رجب کی پہلی تھی اس لئے کہ چاند انتیس کا ہو چکا تھا۔ جو انہیں پتہ نہ چل سکا۔ اس پر کفار نے شور مچا دیا کہ مسلمانوں نے حرمت والے مہینوں کی حرمت کا خیال نہ رکھا۔ یہ خبر حضور ؐ کو پہنچی تو آپؐ نے فرمایا : عبداللہ میں نے
تمہیں کفار کی خبر لینے بھیجا تھا نہ کہ جنگ کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ حضرت عبداللہ اس پر پریشان ہو گئے۔
مفتی صاحب نے اسلام کی پہلی جنگ یہی لکھی اور آیت کا شان نزول بھی یہ لکھا۔
ابن کثیر نے یہ بھی لکھا کہ جب یہ سر یہ حضورؐ بھیجنے لگے تھے آپ نے پہلے امیر ابو عبیدہ بن الجراح کو بنایا تھا لیکن اس وقت آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ زار و قطار رو ر ہے تھے اور آپ
ؐ کا فراق آپ کو توڑ رہا تھا۔
جب حضور ؐنےابو عبیدہ کی یہ کیفیت دیکھی تو آپ نے انہیں روک لیا اور ان کی جگہ اپنے پھوپھی زاد عبد اللہ بن جحش کو امیر سر یہ مقرر کر دیا (343)۔
قرآن حکیم کا اسلوب ناصحانہ
کفار قریش اور چند مسلمان جو اس پروپیگینڈہ کی زد میں آئے قرآن حکیم نے ان کے اعتراضات، الزامات اور اشکالات کا جواب نظری ، خیالی، مثالی اور فلسفیانہ طریقے سے نہ دیا بلکہ حقیقت پسندانہ طریقے سے دیا۔ حرم اور شہر حرم کے تقدس کو قرآن حکیم نے تسلیم کیا اور کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ شہر حرم کا تقدس زمانی اس کا متحمل نہیں کہ ان مہینوں میں جنگ کی جائے بلکہ جنگ کرنا ان فضیلتوں کے منافی ہے لیکن کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی غلط فہمی سے کئے جانے والے اقدام پر سیخ پا ہو کر پورے اسلامی نظام کو جڑ سے اکھیڑنے کے لئے تیار ہو جائے۔ اس کے لئے میدان میں موجود قوموں کو اپنی اپنی تاریخ پڑھنی چاہئے۔ اب قرآن حکیم کفار مکہ کے رویوں ، کردار، اعمال اور افکار سب کی تاریخ ان کے سامنے رکھ دیتا ہے ، صرف سامنے ہی نہیں رکھتا انہیں فکری اعتبار سے جھنجوڑتا ہے۔ حق کا آئینہ ان کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ اس آئینہ میں مشرکوں کے چہرے صاف نظر آنے لگ جاتے ہیں کہ یہ ظالم لوگ ہیں۔ یہ سرکش غنڈوں کا ایسا گروہ ہے کہ حرم کا تقدس خود پامال کرنے والے ہیں ۔ بت گری اور صنم پرستی کا اڈا انہوں نے بیت اللہ کو بنا رکھا ہے۔ لوگوں کو اس سے روکتے ہیں ، اخلاقیات، عبادات اور رسومات حق کو یہ پھل دیتے ہیں، مومنین کو اُنہوں نے فتنوں میں مبتلا کر رکھا ہے، مسلمانوں کو اُنہوں نے یہاں سے دیس نکالا دے رکھا ہے لیکن ڈھنڈورہ یہ پیٹ رہے ہیں کہ غلامان رسول نے حرمت والے مہینوں کا تقدس پامال کردیا ہے ۔ قرآن پڑھنے والو! یہ ذہن میں رکھو کہ ان مکار مداریوں کی ہر بات ساقط الاعتبار ہے۔ یہ کسی چھوٹی چیز کا بہانہ رکھ کر بڑے کاموں کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہیں۔
پرانے اور نئے کافروں کا ہدف
کافر پرانے زمانے کے ہوں یا عصر جدید کے منکر ، ڈھیٹ اور مکار تازہ کافر ہوں سب کا ہدف یہ ہے کہ وہ اپنی ابلیسی کوششوں اور کاوشوں سے مسلمانوں کو اپنے دین سے ہٹا دیں۔ یہ اخبار کی خبر نہیں اور ٹی وی کی بریکنگ نیوز کا کوئی شاخسانہ نہیں، یہ علیم و خبیر کا مسلمانوں کو انتباہ ہے۔ کافر چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو بکھیر دیں اور ان کے اسلام کو بکھیر کر ریزہ ریزہ کردیں۔ یہ لوگ مسلمانوں سے کل بھی خائف تھے اور آج بھی خائف ہیں۔ نئے نئے ہتھیاروں کے ساتھ وہ مسلمانوں کے خلاف میدان میں اتر رہے ہیں۔ قرآن مسلمانوں کو وژن دیتا ہے کہ مخالفین کے ہتھکنڈوں سے خبر دار ہو جاؤ اور دشمن کو دشمن سمجھو اور اسلام اور قرآنی اقدار پر ثابت قدم رہو۔ فائر برگیڈ کی گاڑیاں جیسے گھنٹیاں بجاتی خطروں کا اعلان کرتی ہیں کہ آگ لگ گئی ، آگ لگ گئی ہے۔ قرآن مجید نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے کہ مسلمانو! دنیا بھر کے کافر تمہارے دشمن ہیں، وہ تمہیں دین سے مرتد کرنا چاہتے ہیں لیکن تم نے اپنی ہمت سے کفر کی آگ بجھا دینی ہے۔
ایک چونکا دینے والی خبر
قرآن مجید نے اعلان کیا کہ وہ لوگ جو اپنا ایمانی نصب العین چھوڑ کر برگشتہ ہو جائیں گے اور مرتد ہو جائیں گے ان کے اعمال دنیا اور آخرت میں اکارت چلے جائیں گے اور ایسے لوگ جہنمی ہیں اور انہوں نے دائمی طور پر جہنم ہی میں رہنا ہے۔
عرب لوگ حبط “ کا لفظ پھولنے کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ حبطت الناقہ “ کا مطلب ہوتا ہے اوٹنی پھول گئی۔ سید قطب نے اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں صحیح لکھا کہ قرآن مجید نے یہ لفظ کافروں کے اعمال کے لئے استعمال کیا ہے۔ جس طرح اونٹنی پھول پھول کر انجام کار میں ہلاک ہو جاتی ہے ایسے ہی کافروں کے اعمال بھی پھولے پھولے لگتے ہیں لیکن انجام ان کا بھی تباہی ہوتا ہے۔ یہی حال ان لوگوں کا ہوگا جو اسلام کو سمجھ لیتے ہیں اور ایمانی تجربات سے ہم کنار ہونے کے بعد کفر کی طرف لپک جاتے ہیں ان کے لئے بھی دائی تباہی ہے اور جہنم کے آتشیں شعلے اُن کا مقدر ہیں (344)۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں