903

لندن میں لاہور کی انار کلی سائوتھ آل ،برطانیہ کے دارالحکومت میں برصغیر کی ایشیائی آبادی کے سب سے بڑے علاقہ کے بارے میں فیچر

وجاہت علی خان
یوں تو برطانیہ بھر میں کئی ایک شہر ایسے ہیں جہاں گھوم پھر کر گماں ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایشیائی شہر ہے ایسے شہروں میں برمنگھم ، مانچسٹر ، بریڈ فورڈ، ہائی ویکمب جیسے شہر شامل ہیں ۔ لیکن لندن کا مغربی علاقہ سائوتھ آل اپنی ملٹی کلچرل آبادی کے لحاظ سے انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔سائوتھ آل میں ایشیائی آبادی کی شروعات کے بارے میں مختلف نوع کی آراء پائی جاتی ہیں لیکن اہم روایت یہی ہے کہ 1955ء میں سائوتھ آل لندن کے مضافات میں ایک چھوٹی سی آبادی کا ایک گائوں تھا جس میں مقامی انگریزوں کے گنے چنے گھر تھے جو یا تو کھیتی باڑی کرتے تھے یا لندن اور قرب و جوار کی فیکٹریوں میں کام کیا کرتے تھے ان دنوں اس گائوں کی کل آبادی 32ہزار نفوس پر مشتمل تھی ۔

اُن دنوں سائوتھ آل لندن شہر سے خاصا دور تھا اور لندن کا حصہ بھی نہیں تھا ۔ 1965ء میں یہاں آر ولف نامی ایک مقامی انگریز نے ربر کی کمپنی قائم کی لیکن وولف کی ہمہ وقت ورکروں کی ضرورت رہی تھی مگر اس کی یہ ضرورت مقامی طور پر پوری نہیں ہو سکتی تھی اور لندن سے سفر کی طوالت کی وجہ سے سائوتھ آل آ کر کوئی کام کرنا پسند نہیں کرتا تھا کیونکہ آج کل کی طرح وافر تعداد میں سفر کی سہولتیں بھی میسر نہیں تھیں۔
بچپن سے لے کر آج تک سائوتھ آل میں مقیم ایک 72سالہ انگریز مسٹر ولیم کے مطابق 1945ء تک لندن سے سائوتھ آل تک گھوڑوں کی ایک بگھی یا کوچ مسافروں کو لے کر آتی اور واپس شہر لے جاتی تھی ، آر ولف کی ربڑ فیکٹری کبھی چلتی اور کبھی بند ہوتی رہی کیونکہ اسے چلانے کیلئے ہمیشہ افرادی قوت کی کمی رہتی تھی ۔آخر کار 1958ء میں تارکین وطن کی آمد کے ساتھ ہی بھارتی فوج کے ایک ریٹائر ڈ میجر نے اس فیکٹری میں ملازمت اختیار کی تو اس نے اس فیکٹری کو چلانے کیلئے بھارت سے افرادی قوت کو برطانیہ لانا شروع کر دیا اور رفتہ رفتہ یہاں بھارتی تارکین وطن کی آبادی روز بہ روز بڑھتی چلی گئی ، سائوتھ آل میں بھارتی لوگوں کی آبادی زیادہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہیتھرو ائرپورٹ بالکل نزدیک تھا اور سائوتھ آل ایشائیوں کے لئے بالکل نزدیک ترین آبادی تھی اور پھر برطانیہ آنے والے ایشیائیوں کے پاس اپنے کسی نہ کسی دوست یارشتہ دار کا ایڈریس یا ریفرنس ضرور ہو تا تھا اور وہ دوست یا رشتہ دار سائوتھ آل میں ہی رہتا تھا ، چنانچہ جو بھی یہاں آتا بعد ازاں وہ اپنی فیملی کو بھی یہاں بلا لیتا آہستہ آہستہ برصغیر سے آنے والے افراد کی تعداد یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ انگریز ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتا ہر طرف سکھ، مسلمان اور ہندو نظر آتے ہیںتمام کاروبار بھی انہی کے ہاتھ میں ہے پاکستانی سائوتھ آل کو لاہور کی انار کلی بھی کہتے ہیں ۔

1955ء میں سائوتھ آل میں ایک سکھ سوہن سنگھ سبزیاں فروخت کیا کرتے تھے جو سائوتھ آ ل سے کوئی 10میل آگے سلائو تک اپنا کاروبار کیا کرتے تھے اُن دنوں یہاںسوہن سنگھ کے علاوہ کوئی دوسرا یہ کاروبار نہیں کرتا تھا ۔ 1960ء میں پاکستانیوں کی سائوتھ آل میں کل آبادی صرف 12افراد پر مشتمل تھی ، 1965ء تک سائوتھ آل کی انگریز آبادی پاکستانیوں ، بھارتیوں اور بنگلہ دیشیوں کو لیبر کلاس پر ہی انحصار کرتی تھی ۔1963ء تک سائوتھ آل کی کل آبادی ریلوے سٹیشن کے بائیں طرف ہی آباد تھی جسے آج پرانا سائوتھ تو آل کہا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ یہاں کی آبادی نے اپنے کاروبار جمانا شروع کر دیئے چنانچہ سائوتھ آل کے ریلوے سٹیشن کے دائیں طرف بھی کاروبار ی حصہ بن گیا او ر آبادی بھی شروع ہو گئی جسے ان دنوں براڈ وے یانیا سائوتھ آل کہا جاتا ہے ۔

شروع شروع میں پردیسی جان کر انگریز آبادی نے تھوڑی تعداد میں موجود ا ن ایشیائیوں کے ساتھ زیادتیاں بھی کیں اور بعض اوقات لڑائی جھگڑے کے واقعات بھی ہوتے رہے ۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایک بھارتی شخص اجیت رائے نے ایشیائیوں کو ان کے حقوق کی پہچان کروانے اور ان کی فلاح و بہود اور تعلیمی ضروریات پورا کرنے کیلئے کافی کام کیا انہی کی کوششوں سے یہاں انڈین ورکرز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی ، سائوتھ آل میں موجود پرانے بزرگوں کے مطابق اجیت رائے ، چودھری خادم حسین ، جسونت سنگھ، وی ڈی شرما اور ایچ ایس رو پڑانے سائوتھ آل کی تعمیر و ترقی میں انتھک کام کیا، 1960ء میں سائوتھ آل میں ایک انڈین نے ایسٹرن ٹریڈنگ کمپنی شروع کی جو آج کے کسی بھی بڑے سپر سٹور مثلاً ٹیسکو، ایسڈا، سینزبری کے مقابلہ کا سٹور تھا جس کی وجہ سے یہاں لوگوں کو روز گار بھی میسر آیا اور کمپنی نے بھی کامیابی سے کاروبار کیا ۔

1962ء کے درمیانی عرصہ میں یہاں ’’پاکستان ویلفیئر ایسو سی ایشن ‘‘کا قیام عمل میں آیا۔ 1964ء تک سائوتھ آل میں پاکستانیوں اور بھارتیوں کی الگ الگ تنظیمیں قائم ہو چکی تھیں۔سائوتھ روڈ پر واقعہ ہمالیہ پیلس سینما جہاں صرف انڈین فلمیں لگتی ہیں ان دنوں اس سینما کا نام ڈومنین سینما تھاتب بھی یہاں انڈین فلمیں ہی لگا کرتی تھیں، چنانچہ اگر یہ کہا جائے کہ برطانیہ کی تاریخ میں یہ پہلا ایسا سینما تھا جہاں انڈین فلمیں لگنا شروع ہوئیں تو غلط نہ ہو گا ۔ 1971ء کے قریب برطانیہ میں نسلی تعصب پیدا ہونا شروع ہو گیا اور نسلی فسادات کے واقعات عام ہونا شروع ہو گئے جس کی وجہ سے کثیر تعداد میں انگزیر آبادی دوسرے علاقوں میں منتقل ہونا شروع ہو گئی ، انہی دنوں مقامی باشندوں یعنی انگریزوں کی ایک تنظیم نیشنل فرنٹ ’’سکن ہیڈ‘‘ نے ایشیائیوں پر حملے شروع کر دئیے ایشیائیوں نے بھی ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا جس پر پولیس نے سائوتھ آل پر زبردست ایکشن کیا اور کئی ایک ایشیائیوں کو گرفتار بھی کیا اس پولیس ایکشن پر ایشیائیوں کے ساتھ بعض انصاف پسند انگریز وں نے بھی احتجاج کیا ، ان میں ایک سکول ٹیچر بلیئر پیچ بھی شامل تھا وہ بھی پولیس ایکشن کا سخت مخالف تھا جو کہ اس احتجاجی مظاہرے کے دوران مارا گیا ۔
سائوتھ آل میں ایشیائی کھانوں کے ضمن میں پہلی بار ڈومین سینما ہی کی وجہ سے بازار میں سمو سے پکوڑے یا دیگر ایشیائی کھانے تھوڑی تعداد میں فروخت ہونا شروع ہوئے 1965-67ء تک معروف پاکستانی فلمی شخصیت عنایت حسین بھٹی بھی ڈومنین سینما میں گولیاں ٹافیاں وغیرہ فروخت کیا کرتے تھے ۔

بہر کیف 65ء اور 70ء کے عشرے میں ایشیائی سائوتھ آل ہی نہیں برطانیہ بھر کے مختلف شہروں میں پھیل چکے تھے 1972ء میں براعظم افریقہ کے کئی ممالک سے بھی تاریکن کیثر تعداد میں برطانیہ آئے تو انہوں نے بھی پہلے سائوتھ آل کو ہی اپنا مسکن بنا یا لیکن یہ لوگ ذیادہ دیر تک یہاں آباد نہ ہو سکے ۔
آج سائوتھ آل میں برطانیہ کے تمام بڑے بنکوں کے ساتھ ساتھ بھارتی بنکوں اور حبیب بنک کی برانچیں بھی موجود ہیں۔ 1998ء میں سائوتھ آل کے ریلوے سٹیشن کے مین گیٹ پر پنجابی زبان میں بھی ’’سائوتھ آل ریلوے سٹیشن ‘‘ لکھ دیا گیا ہے جو سائوتھ آل پر ایشیائیوں کی مضبوط گرفت کی نشاندہی کرتا ہے سائوتھ آل 18مقامی کونسلوں کے زیر انتظام ہے ۔
سائوتھ آل میں ضروریات زندگی (خصوصاً برصغیر سے تعلق رکھنے والوں کیلئے ) کی ہر چیز با آسانی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے یہ علاقہ لاہور ، کراچی یا دہلی، ممبئی سے مختلف نظر نہیں آتا ، آج صرف سائوتھ آل براڈوے پر ہی کم و بیش 15ایشیائی کھانوں کے ریستوران موجود ہیں اور کئی ایک پاکستانی و انڈین مٹھائی کی دکانیں موجود ہیں، یہاں حلوا پوڑی سے لیکر سری پائے ، نہاری ، نان چھولے، لسی اور پراٹھے تک بہ کثرت فروخت ہوتے ہیں اور جوق در جوق لوگ خرید رہے ہوتے ہیں، سائوتھ آل میں کپڑے پہننے کا انداز بھی وہی ہے جو برصغیر میں نظر آتا ہے،ہندو ، سکھ، مسلمان ، عیسائی ، افریقی ، امریکی ، پوری عرضیکہ دنیا کے ہر خطے کے لوگ آپ یہاں چلتے پھرتے شاپنگ کرتے دیکھ سکتے ہیں لیکن غلبہ پھر بھی برصغیر کے لوگوں کا ہے ۔

سائوتھ آل میں ہر طرح کی مذہبی رسومات بھی بڑے خشوع وخضوع سے پوری کی جاتی ہیںیہاں دو بڑی مساجد کے علاوہ کئی ایک گوردارے اور مندر بھی موجود ہیں،مذہبی رسوم کے علاوہ برصغیر کے علاقائی اور قومی تہواروں پر بھی لوگوں کا شوق دیدنی ہوتا ہے لہٰذا پاکستانیوں کے لئے سائوتھ آل کا علاقہ لاہور کے انار کلی بازار سے کم نہیں ہے اسی طرح دیگر علاقوں و ممالک کے لوگ اسے اپنے اپنے علاقوں سے تشبیہ دیتے ہیں۔ایسے لگتا ہے جیسے تقسیم سے پہلے لاہور ، کراچی ،راولپنڈی یا امرتسر میں سکھ ، مسلمان ، ہندو مل جل کر رہتے تھے اب وہی منظر سائو تھ آل میں ملتا ہے ۔ایک دوسرے کے تہواروں میں نہ صرف لوگ شامل ہوتے ہیں بلکہ مناتے بھی ہیں جو یہاں کی مذہبی ، لسانی ، ثقافتی ہم ٓہنگی کی ایک روشن مثال بھی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں