520

قرون وسطیٰ میں پورپ کی سیاسی حیثیت (قسط 5)


سسلی
یہ جزیرہ اٹلی کے جنوب میں واقع ہے۔ اس کا رقبہ 9860مربع میل ہے۔ آٹھویں صدی قم میں اس پر یونانی چھا گئے۔ جن کے چھوٹے چھوٹے سردار صدیوں تک آپس میں لڑتے رہے۔ دوسری صدی قم میں کار تھیج کا غلبہ ہو گیا ۔ پھر یہ جزیرہ غربی رومہ کا حصہ بن گیا ۔ اور اس کے زوال کے بعد شرقی رومہ میں شامل ہو گیا ۔ جب اس جزیرے پر مسلمانوں کے حملے شروع ہوئے۔ تو یہ مشرقی رومہ کا ایک صوبہ تھا۔ پہلا حملہ 653ء (خلافت عثمان ؓ ) میں ہوا ۔ اور آخری 867ء میں ۔ یہ کل تیرہ حملے تھے ۔ پہلے بارہ حملوں میں مسلمان شریر عیسائیوں کی گوشمالی کے بعد واپس جاتے رہے۔ لیکن جب ان کی چیرہ دستیاں ناقابل برداشت ہو گئیں تو دولتِ اغالِبہ کے فرمانروا ز یادۃ اللہ اوّل نے ایک فوج اپنے قاضی القضاۃ اسد بن فرات کی کمان میں روانہ کی ۔ جو 867ء میں سسلی پر اتری ۔ اور اہم مقامات پر قابض ہو گئی یہ جزیرہ 916ء تک اغالبہ کے قبضے میں رہا اور 916ء سے 947ء تک فاطمی خلفا کے تسلط میں۔ اس کے بعد یہاں کلبی خاندان بر سر ااقتدار آ گیا۔ بات یوں ہوئی۔ کہ المنصور فاطمی (952-945ء) نے جرنیل حسن بن علی کلبی کو سسلی کا گورنر بنا کر بھیجا ۔ یہ رفتہ رفتہ خود سر ہو گیا ۔ گو یہ بظاہر فاطمیوں کی اطاعت کا دم بھرتا رہا ۔ لیکن دراصل آزاد تھا۔ اس کا خاندان 947ء سے 1039ء تک بر سرِ اقتدار رہا ۔ ان فرمانروائوں کے نام یہ ہیں :۔

1۔ حسن بن علی 954-947ء
4۔ احمد بن حُسن (دوبارہ ) 969ء
5۔ ابواقاسم بن حسن 982-969ء
6۔ جابربن ابواقاسم 983-986ء
7۔ جعفر بن محمد 985-983ء
8۔ عبداللہ بن محمد 989-985ء
9۔ یوسف بن عبداللہ 998-989ء
10۔ جعفر بن یوسف 1019-998ء
11۔ احمد بن یوسف 1035-1019ء
12۔ حسین بن یوسف 1039-1035ء
13۔ طوائف الملوکی 1052-1039ء
فرانس کے نارمن تجارت کی غرض سے اٹلی کی جنوبی ریاستوں میں آنے لگے۔ اور رفتہ رفتہ انہوں نے وہاں ایک ریاست قائم کر لی۔ جس کا سردار رابرٹ گاسکرڈ تھا۔ اس نے اپنے چھوٹے بھائی راجر کو 1052ء میں سسلی پہ حملہ کرنے کے لیے بھیجا ۔ اور ایک خاصی فوج اس کی کمان میں دی ۔ سسلی کے مسلم سردار جوتیرہ برس سے باہم لڑ رہے تھے ۔ اس حملے کی تاب نہ لاسکے ۔ اور ایک ایک کر کے ختم ہو گئے۔ البتہ ایک سردار ابن البعباع برسوں لڑتا رہا۔ لیکن کہاں تک ۔ 1091ء میں اس نے بھی ہتھیار ڈال دیئے ۔ اور چالیس برس کی جنگوں کے بعد پورا جزیرہ نارمنوں کے قبضے میں چلا گیا۔
نارمن بادشاہ :
1۔ راجر ۔ اوّل 1101-1091ء
سسلی پہ جُزوی قبضہ (1052ء ) میں ہو چکا تھا
2۔ سائمن 1105-1101ء
3۔ راجر ۔ دوم 1154-1105ء
4۔ ولیم ۔ اوّل 1166-1154ء
5۔ ولیم ۔ دوم 1189-1166ء
6۔ ٹینکر ڈ (وّلدُ الحرام ) 1194-1189ء
7۔ ولیم ۔ ثالث 1194ء
یہ آخری نارمن بادشاہ تھا۔ اس کے بعد جرمنی کے ہنری ششم نے سسلی کو فتح کر لیا ۔
8۔ہنری ۔ ششم 1197-1194ء
9۔ فریڈرک ۔ دوم 1250-1197ء
اس نے 1641ء میں تمام مسلمانوں کو سسلی سے نکال دیا تھا۔
10۔ مینفریڈ 1622-1650ء
یہ تھا آخری جرمن بادشاہ۔ اس کے بعد سسلی پہ فرانس کا قبضہ ہو گیا۔ اس وقت لوئیس نہم حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی چارلس آف این جُو کو سسلی کافرمانروا بنا دیا ۔
11۔ چارلس آف این جّو اوّل 1285-1622ء
12۔ چارلس آف این جُو ۔ دوم 1685ء
اس کے بعد سسلی پہ اراگان (سپین ) قابض ہو گیا ۔ ان بادشاہوں نے 1685ء سے 1442ء تک حکومت کی ۔ پھر فرانس کا غلبہ ہو گیا۔ کچھ عرصے کے بعد دوبارہ سپین کے قبضے میں چلاگیا۔
پورے چار سو سال کی افراتفری کے بعد یہ جزیرہ 1860ء میں اٹلی کا حصہ بن گیا ۔
یہ تھی چند اقوام یورپ کی مختصر تاریخ ۔ اب دیکھنا یہ ہے۔ کہ قرون ِ وسطیٰ میں ان اقوام کی اخلاقی و معاشی حالت کیا تھی ؟ ان کا تمدن کیسا تھا؟ اور تہذیب کس قسم کی تھی۔
1۔ برطانیہ میں پارلیمنٹ برسوں بادشاہوں کے خلاف لڑتی رہی ۔ دونوں کی فوجیں الگ الگ تھیں۔ بالآخر پارلیمنٹ کامیاب ہوئی اور جمہوریت قائم ہو گئی ، فرانس کا انقلاب بھی مملوکیت کے خلاف جہاد تھا۔ امریکہ میں جارج واشنگٹن نے برطانوی استعمار کو شکست دے کر جمہوریت قائم کی ۔
2۔ چونکہ یہ نام یورپ کی عام تو اریخ میں یکجا نہیں ملتے ۔ اس لیے مختلف مآخذ سے جمع کر کے یہاں لکھ دیے ہیں تاکہ طلبہ ء تاریخ کو سہولت رہے ۔
3۔ پاپائے روم کی حکومت زوال رومہ کے بعد شروع ہوئی۔ 955ء میں مستحکم ہو گئی ۔ دورِ عروج میں فرانس آسٹریا ۔ جنوبی جرمنی اور غربی یوگوسلاویہ پاپاء سلطنت کے حصہ تھے ۔ یہ سلطنت ربڑ کی طرح پھیلتی اور سمٹتی رہی ۔ اینسویں صدی میں یہ اندازاً پندرہ ہزار مربع میل رہ گئی تھی ۔
4۔ 305ء کو روم میں تخت نشین ہو ا تھا۔ اس نے 330ء میں اپناپایہء تخت استنبول (بائزنِٹ یم ) میں منتقل کر لیا ۔ یہ حرامی تھا ۔ (انسائیکلو پیڈ یا برطانیکا )
5۔ ولادت ِ مسیح سے انداز اً پانچ ہزار سال پہلے فرعون منس نامی مسند حکومت پہ بیٹھا اس کا دارالخلافہ منفس تھا۔ جونیل کے ڈلٹا پر واقع تھا۔ فرعونوں کا یہ سلسلہ 563قم تک باقی رہا اور اس کے بعد کچھ وقت کے لیے ایرانی مصر پہ قابض ہو گئے۔ ان فرعونوں کی حکومت دور ِ عروج میں عراق تک پھیل گئی تھی۔ بحیرئہ روم کے بیشتر جزائر اور یورپ کے کچھ علاقے بھی کچھ وقت کے لیے ان کے قبضے میں رہے۔
6۔ ملاحظہ عوا یچ۔ جی ویلز کی ’’ آئوٹ لائن آف ہسٹری ص 353‘‘ ۔
7۔ علم ہئیت کی مشہور کتاب ال محب سطی کا مصنف بطلیموس ایک الگ شخصیت تھی۔جو چار سو سال بعد مصر میں پیدا ہوا۔ یہ167ء سے 151ء تک اسکندریہ میں مشاہدات قلم بن کرتا رہا اور پھر تیرہ جلدوں میں ال محِب سطی لکھی ۔ (انسائیکلو پیڈیا برطانیکا )
8۔ دریائے ڈنی پر کے دونوں طرف گاتھ آباد تھے ۔ غربی کنارے والے غربی گاتھ اورمشرقی والے شرقی گاتھ کہلاتے ہیں۔
9۔ جنوبی سپین کا دریا ۔ جو صوبہء چین سے نکل کر قرطبہ اور اشبیلیہ سے ہوتا ہوا خلیج قادِیس (بحیرئہ روم ) میں جا گرتا ہے۔
10۔ یہ جددل چارلس پنجم سے شروع ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پہلے چار کہاں گئے ۔قسطیلہ کے شاہوں کا سلسلہ تو 711ء (حملہ طارق )سے چلتا ہے۔ لیکن ہم نے حُوف ِ طوالت سے انہیں نظر انداز کر دیا ہے۔ ان ریاستوں کی تعداد پانچ کے قریب تھی اور ان کے سلاطین کا سلسلہ بہت دراز تھا۔ یہ چار چارلس 1516ء سے پہلے گزر چکے تھے ۔ یہی حال پیڑ ۔ فلپ ۔ الفونسو اور دیگر ناموں کا ہے۔
11۔ جرمنی کے ایک صوبے بویریا میں اس نام کے دوخطے ہیں۔ جوشمالی اور جوبی فرینکو ینا کے نام سے مشہور ہیں۔
12۔سوئیڈن اور ناروے کے باشندے نارمن کہلاتے تھے۔ ان میں سے اکثر لٹیرے تھے اور کشتیوں میں بیٹھ کر دور دور تک جہاز وں کو لوٹتے تھے ۔ ان میں سے ایک لٹیرے سردار کا نام رولو (Rollo) تھا۔ جسے ناروے کے بادشاہ نے ملک سے نکال دیا تھا۔ یہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نارمنڈی (فرانس ) کے ساحل پہ اترا شاہی فوجوں کو بار ہا شکست دی ۔ اور آخر شاہ فرانس نے 911ء میں نارمنڈی کا صوبہ اس کے حوالے کر دیا۔ ولیم فاتح اسی رولو کی نسل سے تھا۔ جب شاہ فرانس اور رولو میں صلح ہوئی۔ تو ایک درباری نے رولو سے کہا کہ وہ بادشاہ کے پائوں کو بوسہ دے۔ رولو نے انکار کر دیا لیکن درباریوں کے پیہم اصرار پر اس نے ایک ساتھ کو پابوسی کا اشارہ کیا اس نے خود جھکنے کی بجائے بادشاہ کی لات کو اپنے منہ کی طرف اٹھایا اور بادشاہ اوندھا جا پڑا ۔
13۔ چارلس اوّل پارلیمنٹ کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ تنگ آ کر پارلیمنٹ نے اس کے خلاف اعلان ِکر دیا ۔ یہ جنگیں سات سال تک جاری رہیں۔ آخر چارلس کو شکست ہوئی اور اسے موت کی سزا ملی۔ پارلیمان کی فوج کی کمان کرامویل کے سپرد تھی ۔ یہ پارلیمان کا ممبر بھی تھا۔ فتح کے بعد پارلیمنٹ نے اسے صدر بنا لیا ۔ اس کی وفات 1658ء میں ہوئی ۔ اور شاہی قبرستان میں دفن ہوا۔ جب 1660ء میں چارلس کا بیٹا چارلس دوم جو سکاٹ لینڈ کا بادشاہ تھا۔ برطانوی تخت کا مالک بھی بن گیا تو اس نے کرامویل کی لاش کو قبر سے نکال کر سولی پہ لٹکا دیا۔
14۔ بحیرئہ روم کے افریقی ساحل پر ، جہاں آج کل تیونس ہے، ایک قدیم شہر جو فنیقیوں کا پایہء تخت تھا 300قم میں سپین کے ساحلی شہر ، بحیرئہ روم کے بعض جزائر مثلاً کارسیکا ، سار ڈینیا وغیرہ اور افریقہ کا شمالی ساحل اس سلطنت میں شامل تھا۔ اس دور میں رومہ کا مدقابل کا تھیج ہی تھا۔ ان دونوں میں سسلی کے لیے تین مشہور جنگیں (پیونک وارز ) ہوئیں پہلی 624سے 641قم تک ۔ دوسری 608سے 601قم تک اور تیسری 149سے 146قم تک پہلی دو جنگوں میں کار تھیج کا شکست ہوئی اور تیسری میں سسلی پہ قبضہ کر لیا۔ اس سلطنت کو 439ء میں یورپ کے وحشی قبائل وینڈلز نے ختم کیا تھا۔ (دی نیو سٹینڈ رڈ انسائیکلو پیڈیا )
15۔ ہارون الرشید (809-782ء ) نے ابراہیم بن اغلب کو 800ء میں افریقہ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ یہ بہت جلد خودمختار بن گیا ۔ اس کا خاندان 109برس تک برسرِ اقتدار رہا۔ سلاطین کے نام یہ ہیں :۔
1۔ ابراہیم ۔ اوّل 811-800ء
2۔ عبداللہ ۔ اوّل 816-811ء
3۔ زیادۃ ُ اللہ ۔ اوّل 837-816ء
4۔ ابو عقال اغلب 840-837ء
5۔ محمد ۔ اوّل 856-840ء
6۔ احمد 863-856ء
7۔ زیادۃ ُ اللہ ۔ دوم 864-863ء
8۔ محمد ۔ دوم 874-864ء
9۔ ابراہیم ۔ دوم 906-874ء
10۔ عبداللہ ۔ دوم 903-902ء
11۔ زیادۃ ُ اللہ ۔ ثالث 909-903ء
اس سلسلے کو خلفائے فاطمی نے ختم کیا تھا۔
12۔ An Jon فرانس کا ایک علاقہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں