82

علی ؓعلی ؓہیں….!


عبدالرزاق ساجد

شمع شبستان ولایت،آل مصطفی کی جڑ،شاخ مصطفی، المرتضی،محبوب خدا،مطلوب مصطفی سیدالابرار،قاتل الکفار،بالا منزلت،والا مرتبت،برادر احمد،خلیفہ امجد،حرزالاسلام،شیرضرغام،طاہر اطہر،اعطر اکرم،آفتاب مکارم،ماہتاب بنی ہاشم،صاحب رائے ثاقب،صاحب فکر صائب،اسد حیدر،ضیغم غضمفر،بازوئے مصطفی،شیر خدا،صف شکن،شمشیر زن،تیرافگن،ابرسخاوت،بحرکرامت،ہادی کریم،ہادی صراط مستقیم،ماہ روئے گل عذار،گل روئے ماہ رخسار،جناب آسمان قباب،نوشاہ بزم عرفاں،سرکار والا اقتدار،مولی مشکل کشا،جناب عرفان مآب،مولی و مددگار،دافع بلا و مکروہات،قسیم النار،اسداللہ الغالب،قطب الارشاد بالاصالۃ،الوحیدالشہید،موحدموقن و ملھم،طیب و زکی،طاہر و نقی،نور بار،کافر کش ،حاجت روا،مومن پناہ،اسد ذوالجلال،وزیر سلطنت زیریں،وزیر مصطفی،حیدر کرار،اسداللہ الغالب،امام المشارق والمغارب،حلال المشکلات والنوائب،دافع المصائب،اخوالرسول،زوج البتول،الامام،امام الواصلین الی رب العالمین،شیرحق،اشجع الاشجعین،ساقی شیروشربت،اصل نسل صفا،وجہہ وصل خدا،باب فضل ولایت،دافع اہل رفض،شیر شمشیرزن،شاہ خیبر شکن،پرتو دست قدرت،امیرلافتی،زور بازوئے نبی،فدائے مصطفی،عدو کفر،علوے سنت،شمع بزم،تیغ رزم،کوہ عزم،کان حزم،برادر مصطفی،قسیم جناں،قاسم کوثر…….کیا شان ہے اور کیا مرتبہ ….. دنیا و عقبیٰ میں سے ایسا کیا ہےجو اللہ تعالیٰ عزوجل اور رسول اکرم ﷺ کی بارگاہ سے مولیٰ علی کو نہ ملا ؟
مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شان میں یہ بے مایہ کیا خامہ فرسائی کرئے گا ،ان کے کیا کمالات و فضائل بیان کرے گا جن پر ان کے رب عزوجل اور نبی رحمت ﷺکو بھی پیار آئے ،اور یہ بھی تو انہی کا کرم ہے کہ مجھ عاصی کو ان کے ذکر خیر کی توفیق نصیب ہوئی۔ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے کہ بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے چار اشخاص سے محبت کرنے کا مجھے حکم فرمایا ہے، اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔ ‘‘عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! ہمیں ان کے نام بتا دیں، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’علی ان میں سے ہیں۔‘‘ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے تین بار ان کا نام لیا،’’(باقی) ابوذر، مقداد اور سلمان ہیں، اس نے مجھے ان سے محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ ان سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اللہ اللہ کیا شان ہے کہ جس کی محبت میں تمام عالم سر گرداں ہے وہ جن سےمحبت کرتا ہے بلکہ ان سے محبت رکھنے کا حکم بھی فرماتا ہے ،سرور کائنات ﷺان میں سے مولیٰ علی مشکل کشا کا نام تین بار زبان اطہر پر لاتے ہیں۔بے شک یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد دنیا میں قیامت تک کے لیے نبوت کا دروازہ بند کر کے ولایت کا دروازہ کھول دیا گیا۔ یہ ولایت ہی فیضِ نبوت ہے۔ ولایت علم صحیح سے جنم لیتی ہے اور اہل ایمان میں علی سے بڑا عالم کوئی نہیں۔ امت میں علم و حکمت اور معرفت کے دس حصہ تقسیم کیے گئے، ان 10 میں 9 حصے حضرت علی المرتضیٰ کو دیئے گئے، باقی ایک حصہ ساری امت میں تقسیم ہوا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد سب سے بڑا عالم علی ہے۔ولایت کے باب میں حقیقت یہ ہے کہ ولایت اور علم دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی ولی ہو اور عالم نہ ہو۔ اللہ کا ولی کبھی جاہل نہیں ہو سکتا اور جاہل شخص کبھی ولی نہیں ہو سکتا۔ جو قرآن و سنت اور دین کے علم سے محروم ہے،وہ ہر ثواب تو پا سکتا لیکن ولی نہیں ہو سکتا۔روحانی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے قطع تعلقی رکھنے والا علم ولایت سے کبھی بہرہ یاب نہیں ہو سکتا۔ جو علی کی ولایت سے کتراتا اور ان سے محبت نہیں رکھتا تو وہ علم ولایت کے اس شہر میں داخل ہی نہیں ہو سکتا، جس کا دروازہ علی ہیں۔
صحیح بخاری کے مطابق حضرت علی کو ’’مشکل کشا‘‘ کا لقب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے دیا۔ اپنے دور خلافت میں جب کوئی شرعی مسئلہ پیش آتا تو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے کہ علمی مشکل علی کے بغیر حل نہیں ہوتی۔ آپ فرمایا کرتے کہ اگر علی میرے ساتھ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو چکا ہوتا۔ولی کا تصرف فقرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام اور ملکہ صبا کا واقعہ ولایت کے علمی مقام کی دلیل ہے۔ جب ملکہ صبا کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں لانے کا ذکر ہوا تو فوری جنوں کے سردار نے تخت لانے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس نے کہا کہ آپ کی نشست ختم ہونے سے پہلے ملکہ کا تخت لاسکتا ہوں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک جن کی یہ پیشکش مسترد کر دی کیونکہ آپ چاہتے تھے کہ اللہ کا کوئی ولی یہ کام کرے۔ پھر ایک اللہ کا ولی اور عالم شخص اٹھا، جس کو کتاب کا علم تھا۔ اس ولی اللہ نے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے ملکہ عالیہ کا تخت لاسکتا ہوں۔ جب تخت لے آیا تو اس اللہ کے ولی نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں لایا بلکہ کہا کہ یہ سب اللہ کا فضل ہے۔طریقت کے باب میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ولی کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی چیز یا کام کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتا اور دعوی بھی نہیں کرتا۔ جس بندے پر اللہ کا فضل ہو تو وہ دعویٰ نہیں کرتا بلکہ عاجزی سے جھک جاتا ہے۔
حضرت علی ہر مومن کے ولی ہیں۔ ولایت اور علم کے باب میں آپ کو امت محمدی کے لیے چشمہ بنا دیا گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ سے مدینہ واپسی پر راستے میں غدیر خم کے مقام پر حضرت علی کی ولایت کا اعلان فرمایا۔ صحیح حدیث میں ہے کہ 12 بدری صحابہ کی جماعت نے گواہی دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا میں ولی اور مولا ہوں علی بھی اس کا ولی دوست اور مولا ہے۔ پھر فرمایا کہ اے اللہ جو علی سے دوستی رکھے تو بھی اس سے دوستی رکھ اور جو علی سے دشمنی کرے تو بھی اس سے دشمنی رکھ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرے بعد علی ہر مومن کا ولی ہے۔
آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ لوگو!میں تمہارے اندر دو بڑی اہم اور عظیم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب قرآن اور دوسری میری اہل بیعت ہے۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیا سلوک کرتے ہو۔ رہتی دنیا تک قرآن اور اہل بیت اکھٹے رہیں گے۔ حتیٰ کہ قیامت کے دن بھی دونوں قرآن اور میری اہل بیت میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گے۔حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی المرتضیٰ کو اپنی اہل بیعت میں باقاعدہ شامل کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غزوہ تبوک میں تشریف لے جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو فرمایا کہ تم ادھر ہی رہو۔ جب مولیٰ علی نے ساتھ نہ لیجانے کا شکوہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ مجھ سے تمہارا رشتہ وہ ہے، جو سیدنا ہارون علیہ السلام کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہے، سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
جب خیبر فتح نہیں ہو رہا تھا تو فتح کا جھنڈا علی رضی اللہ عنہ کو تھمایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتھ یہ گواہی بھی دی کہ صرف علی اللہ اور رسول سے محبت ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ اور اس کا رسول بھی علی سے محبت کرتے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے خیبر کا جھنڈا علی کو تھما کر فتح خیبر کا بھی اعلان فرما دیا اور اگلے دن سب نے دیکھا کہ خیبر میںفتح علی کے ہاتھوں سے ملی۔
کیاعلوئےمرتبت ہے اس حیدر کرار کا سبحان اللہ …..غزوہ خندق جسے غزوہ احزاب بھی کہا جاتا ہے ،جب عمرو بن عبدود نے مبارزت طلب کی اور سرور کائنات ﷺنے اس شقی کافر،جو ایک ہزار شجاعانِ عرب کے برابر مانا جاتا تھا ، کی زباں بندی کیلئے صحابہ کی طرف نگاہ دوڑائی تو تینوں مرتبہ سرور کونین ﷺ کے دشمن کو نیست و نابود کرنے کیلئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذوالفقار بے نیام ہوئی اور سرور کائنات ﷺسے مبارزت کی اجازت طلب کی گئی،ہادی مرسل ﷺنے فقط اجازت ہی مرحمت نہ فرمائی بلکہ اپنے مبارک ہاتھوں سے حضرت علی کو زرہ اور خود بھی پہنایا ۔جب جناب علی مبارزت کے لیے روانہ ہوئے تو آقا کریم ﷺ نے فرمایا’’ کلِ اسلام کلِ کفر سے مبارزت کو جا رہا ہے ‘‘۔کامرانی نے مولیٰ علی کے قدم چومے اور ایک ہی ضرب میں عمرو بن عبدود خاک پر ڈھیر ہو گیا تو آسمان سے ندا آئی ’’ علی کی ایک ضرب ثقلین کی عبادت سے افضل ہے ‘‘ …..اللہ اکبر ۔(جاری ہے )

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں